يحیٰ خان کے حلفيہ بيان کا کچھ حصہ بنگلا ديش ميں شائع ہوا ہے “مجیب غدار نہیں تھا اور نہ ہی علیحدگی چاہتا تھا لیکن ۔ ۔ ۔”
لال مسجد پر فوجی کاروائی رکوانے کے سلسلہ ميں مدد کيلئے شجاعت حسين نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے رابطہ کيا
وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا “میں اپنی بیوی کے ساتھ قُلفی کھانے جارہا ہوں”
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اور اس حوالے سے میں نے جتنی تحقیق کی تھی اس سے یہ تاثر بنتا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات سے کسی قیمت پر ہٹنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ انہی نکات پر عوام سے ووٹ لے کر اور انتخابات جیت کر وہ اس مقام پر پہنچا ہے اسلئے اب یہ چھ نکات عوام کا مقدس ٹرسٹ ہیں جس میں ردو بدل کا اسے اختیار نہیں۔ جب بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہوا تو رعایات دیتے دیتے بھٹو صاحب پانچ نکات ماننے پر تیار ہوگئے تھے لیکن وہ چھٹے نکتے بلکہ نصف نکتے فارن ٹریڈ(دوسرے ممالک سے براہ راست تجارت) پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ پانچ نکات کی روشنی میں اگر مشرقی پاکستان کو غیر ممالک سے براہ راست تجارت کا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کا مطلب آزادی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہی ہوگا
بنگلہ دیش میں یحییٰ خان کا ایک حلفیہ بیان چھپا ہے جو یحییٰ خان نے ضیاء الحق کے دور حکومت میں لکھا اور لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا تھا لیکن پاکستان کے عوام عام طور پر اس سے آگاہ نہیں۔ سپریم کورٹ میں بھٹو ریفرنس کے حوالے سے یہ بیان بے نقاب ہوناچاہئے۔ غالباً یحییٰ خان کا انتقال 1980ء میں ہوا اور یہ حلفی بیان1978ء میں جمع کرایا گیا تھا
اس بیان میں یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری بھٹو اور مجیب پر ڈالی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ مجیب غدار نہیں تھا اور نہ ہی علیحدگی چاہتا تھا لیکن ا س کے ساتھیوں مشیروں اور پارٹی عہدیداروں نے اسے یرغمال بنا رکھا تھا اور مجیب ان کے دباؤ سے آزاد نہیں ہوسکتا تھا۔ ان حضرات کی اکثریت علیحدگی پسند تھی، ان میں سے کچھ کا رابطہ ہندوستان سے تھا اور وہ مجیب کو چھ نکات سے ذرا بھی پیچھے ہٹنے نہیں دیتے تھے
مجھے علم نہیں کہ یحییٰ خان کے اس حلفی بیان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے لیکن اس بیان میں یحییٰ خا ن نے تسلیم کیا ہے کہ آرمی ایکشن اس کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی اور مشرقی پاکستان بغاوت کے دہانے پر کھڑا تھا، چنانچہ خالصتاً فوجی انداز میں یحییٰ خان نے حکومتی رٹ بحال کرنے کےئے مارچ 1971ء میں آرمی ایکشن کا حکم دے دیا۔ دنیا بھر کے مصنفین اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ دراصل مشرقی پاکستان آرمی ایکشن کے ساتھ ہی بنگلہ دیش بن گیا تھا اور یہ کہ آرمی ایکشن مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا شاندار ”نسخہ“ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آرمی ایکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے لکھا تھا کہ یہ سٹاف کالج کے انداز میں پاکستان کو تباہ کرنے کی بہترین سکیم تھی
کئی لیڈران کا دعویٰ تھا کہ اگر انہیں وقت دیا جاتا تو وہ مجیب کو منا سکتے تھے اور اس کے ساتھیوں کو بھی سمجھا سکتے تھے، اگرچہ بھٹو صاحب مذاکرات سے مایوس ہوچکے تھے لیکن کئی مسلم لیگی رہنما اور این اے پی کے لیڈران ابھی تک امید کا دامن تھامے ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے ڈھاکہ پرل کانٹینٹل کی کھڑکیوں سے گولے برستے دیکھے اور فائرنگ کی بے تحاشا آوازیں سنیں تو مایوسی کی ا تھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیاستدان ابھی تک مایوس نہیں ہوئے تھے اور وہ ڈھاکہ میں حکومتی رٹ ختم ہونے کے باوجود یہ امید رکھتے تھے کہ ہم کسی نہ کسی طرح مجیب اور اس کے ساتھیوں کو کسی متفقہ حل اور وسیع تر سمجھوتے پر راضی کرلیں گے لیکن یحییٰ خان نے حکومتی رٹ بحال کرنے کے لئے گولی چلا دی اور وہ گولی متحدہ پاکستان کے جسم میں جالگی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بن گئی
یہی فرق ہوتا ہے جرنیلی اور سیاہپانہ ذہن اور سیاسی ذہن میں۔ جرنیل کیوں جمہوریت کو تباہ کرتے ،ادارے پاؤں تلے روندتے اور مخالفین کے سر پھوڑتے ہیں۔ انہیں پھانسی چڑھاتے یا جلا وطن کردیتے ہیں کیونکہ ان کی اپروچ، ذہنی ساخت اور تربیت ناک کی سید چلنا ،بلاچوں چراں حکم ماننا اور حکم دینا ہوتی ہے۔ ان میں لچک، سیاسی بصیرت، کچھ لو کچھ دو اور صبر آزما مذاکرات کی صلاحیت اور استعداد نہیں ہوتی جبکہ سیاستدان سر تا پا لچک، دوربیں اور مذاکرات بلکہ تھکا دینے والے طویل مذاکرات کا عادی ہوتا ہے۔ وہ ہر مشکل سے مشکل صورتحال اور پیچیدگی سے راستہ نکال لیتا ہے اور دلائل سے بات منوا لیتا ہے جبکہ جرنیل دلائل سے نہیں گولی سے بات منواتا ہے۔ جرنیل کی ساری ٹریننگ میدان جنگ کی ٹریننگ ہوتی ہے جبکہ سیاستدان کی ساری ٹریننگ میدان زیست کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرنیل سیاسی حکمرانی کے اہل نہیں ہوتے اور وہ جب آئین و قانون کو پامال کرکے اقتدار میں آتے ہیں تو تباہی کی بارودی سرنگیں بچھا کر تشریف لے جاتے ہیں
ابھی کل کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف لال مسجد کے امتحان میں پھنس گئے تھے اگرچہ اب پرویز مشرف اپنی غلطی مانتا ہے لیکن کرسی صدارت پر بیٹھ کر وہ عقل کُل بن بیٹھا تھا اور اس نے صلا ح مشورے کے دروازے بند کردئیے تھے۔ جب اس نے محسوس کیا کہ جامعہ حفصہ لال مسجد میں حکومتی رٹ چیلنج کی جارہی ہے تو اس نے معصوم بچوں، بچیوں اور شہر یوں کا خون بہانے سے دریغ نہ کیا حالانکہ چوہدری برادران کا دعویٰ ہے کہ اگر انہیں موقع دیا جاتا تو وہ اس چیلنج کا حل نکال سکتے تھے۔چوہدری برادران کے لئے لال مسجد میں نرم گوشہ اور احترام تھا وہ بات سمجھا سکتے تھے لیکن جنرل صاحب کو اقتدار کا نشہ چڑھ چکا تھا ، ان میں سیاسی لچک کا فقدان تھا اور وہ اس بصیرت سے کلی طور پر محروم تھے جو اس طرح کے خطرناک چیلنجوں سے نکلنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ان کی تربیت فقط یہ تھی کہ جب کوئی حکومتی رٹ چیلنج کرے اور حکم نہ مانے تو اسے گولی مار دو۔ اللہ اللہ خیر صلاّ
چوہدری شجاعت حسین کئی بار ببانگ دہل کہہ چکے کہ انہیں لال مسجد کے سانحے سے دور رکھا گیا اور جب وہ آرمی ایکشن سے پہلے وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملنے گئے اور اسے بیچ بچاؤ کے لئے سمجھانا چاہا تو جواب ملا کہ “میں اپنی بیوی کے ساتھ قلفی کھانے جارہا ہوں”۔ شوکت عزیز بھی مکمل طور پر بابو تھے، بیورو کرٹیک ذہن رکھتے تھے اور انہیں جامعہ حفصہ کے خون سے کوئی زیادہ ہمدردی نہیں تھی کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے تھے نہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ شوکت عزیز اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جب لال مسجد کاخون پکارے گا تو وہ ملک سے باہر جاچکا ہوگا اور لوٹی ہوئی دولت کے انباروں پر بیٹھ کر عیش کررہا ہوگا۔ظاہر ہے کہ یہ سوچ کسی سیاستدان کی نہیں ہوسکتی تھی جو تمام تر کمزوریوں کے باوجود عوام سے رشتوں میں بندھا ہوتا ہے اور اپنی جڑیں ملک کی دھرتی میں تلاش کرتا ہے۔ سیاستدان نالائق ہوں، لیٹرے ہوں، بدنیت ہوں یا ملکی خزانے کے چور ہوں انہیں ہمیشہ عوامی جوابدہی کا ”دھڑکا“لگا رہتا ہے جبکہ جرنیل اپنے آپ کو ان ”خرافات“ سے بلند و بالا سمجھتا ہے۔ آج مشرف اسی برتے پر بڑھکیں مارتا پھرتا ہے
مختصر یہ کہ مشرقی پاکستان ہو یا جامعہ حفصہ اور لال مسجد فوجی اور سیاسی سوچ کے درمیان اختلاف اور فاصلوں کا سمندر حائل ہوتا ہے۔ آج یہی غلطی ہم بلوچستان میں کررہے ہیں ۔ سیاستدان بظاہر بے بس نظر آتے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی مسائل فوجی انداز سے نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی سے حل ہوتے ہیں۔ کتنے کوڑھ مغز، کوتاہ نظر اور نالائق ہیں ہم لوگ کہ اپنی ہی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ، ایک ہی غلطی کو دہراتے چلے جاتے ہیں ،کانٹے بو کر پھولوں کی تمنا کرتے ہیں اور گولی اور اغواء کے بیج بو کر محبت اور حب الوطنی کی فصل کاٹنا چاہتے ہیں۔ خدارا سمجھئے کہ قانون فطرت میں ایسا ممکن نہیں
تحرير ۔ ڈاکٹر صفدر محمود
میرے خیال میں صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ قبائلی علاقے کو بھی ہم نے خود اپنے لئے ممنوعہ زون بنا دئے ۔ حالانکہ وہاں سیاست دانوں اور قبائلی مشران نے بار بار فوج اور عوم کے درمیان صلح کرائی ہے ، لیکن ہر بار معاہدہ توڑنے میں حکومت پہل کرتی ہے۔
اور جناب 2001 سے لیکر آج تک وزیرستان میں کوئی دس بارہ معاہدے تو کئے ہونگے فوج اور قبائل نے ، لیکن کیا ہوتا ہے جناب کہ چند ماہ بعد فوج اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کرکے معاہدہ توڑ دیتی ہے۔ بالکل منافقین کا سا رویہ ہے ان لوگوں کا۔
پچھلے سال جب فوج نے دوبارہ معاہدہ توڑنے کی کوشش کی تو تنگ آکر طالبان کمانڈر مولوی گل بہادر نے صاف کہا کہ اگر اس بار حکومت نے معاہدہ توڑ دیا تو ہم کھلے عام افغانستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیں گے۔ اور باقاعدہ وزیرستان مشران کا ایک وفد کابل چلا گیا اور معاملات طے کرلئے ، یہاں تک کہ افغان حکومت نے انکو جگہیں بھی الاٹ کی تھی کہ اگر تم لوگوں نے الحاق کا اعلان کردیا تو فلاں صوبے میں اتنی اتنی زمین حکومتی امداد کے طور پر دی جائے گی۔
نیز گل بہادر نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر حکومت ہم سے اتنی ہی تنگ ہے تو کیوں نا ایک غوری میزائل یا ایک چھوٹا ائٹم بم ہی ہمیں مار دے تاکہ بات ہی ختم ہوجائے۔
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اسی فوج کے سبب ملک پہلے بھی تباہ ہوگیا تھا اور اب بھی یہ ملک کو توڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اگر کوئی انکو سمجاھئے تو یہ احمق سمجھتے بھی نہیں، ظاہر ہے ایڑیاں زمین پر ما رمار کر انکی عقل کی رگیں بند ہو چکی ہوتی ہیں۔
افتخار صاھب ایک شکائت کرنا چاہونگا کہ تقریبا کوئی دس مرتبہ اپکے کالم پڑھنے کیلئے آپکی سائٹ کھولنے کی کوشش کی لیکن یہ آج ہی کھل گیئ، تو لھذا اگر ہوسکے تو اس کا یہ مسئلہ دور کرادیں۔ شکریہ۔
Pingback: اپنی کوتاہ نظری کا ماتم | Tea Break
درويش خراسانی صاحب
يہ سارا معاملہ بہت گپمبير ہے ۔ گڑبڑ کرنے والے کبھی جنرل اور کبھی حکمران ہوتے ہيں جو اپنی ذاتی اغراض پر مُلک اور قوم کو قربان کر ديتے ہيں
درويش خراسانی صاحب
کيا آپ پی ٹی سی ايل کا انٹرنيٹ استعمال کرتے ہيں ؟ کيونکہ يہ گڑ بڑ پی ٹی سی ايل کے ساتھ ہوتی ہے ۔ کوشش کر کے درست کراتا ہوں ۔ سال چھ ماہ بعد پھر گڑ بڑ شروع ہو جاتی ہے ۔ ميں تو پی ٹی سی ايل کا انٹرنيٹ استعمال نہيں کرتا
افتخار انکل
آپ کا بلاگ خوش قسمتی سے ہی دکھائی دیتا ہے۔
آنکھیں کھول دینے والے واقعات ہیں۔
جو بھی حکمران آتا ہے وہ امریکہ کی آشیر باد سے آتا ہے۔ اور جاتا بھی امریکہ کی رضامندی سے ہے۔
شازل صاحب
پی ٹی سی ايل والوں کو نمعلوم ميرے بلاگ سے کيا تکليف ہے
میری سمجھ میں تو یہ بات آتی ہے کہ پاکستان میں کچھ سگےہیں اور کچھ سوتیلے ہیں ….
جس آدھے نکتے کی بات آپ نے کی ہے یہ بات نہ ماننے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کے کہنے والا بنگالی ہے …..
اس نکتے پہ ایک بحث مجھے بعد میں بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا جب نواز شریف نے وزیر ا علی ہوتے ہوئے غیر ممالک سے معاہدے کیے… اور پھر سب جائز ہو گیا کیونکہ وہ دھرتی کا سگا بیٹا تھا اور ہے .. جس کی نیت پہ ملک کی “اکثریت ” کو شک نہیں ہے …..
یہی بات بعد میں بھی یاد آئ جب City ناظم کراچی نے کچھ معاہدے کیے اور دھرتی کے سگے بیٹوں نے اس پہ اعتراض کیے، مجھ سے خود ایک محفل میں جہاں سب دھرتی کے سگے بیٹے تھے سواۓ میرے ، یہ کہا گیا کہ معاہدے ملک کے دستور کی خلاف ورزی ہیں ….
کیا کہتے ہیں آپ اس بارے میں
نعمان صاحب
مصطفٰے کمال نے کام کيا اور نعمت اللہ نے بھی ۔ اس پر کسی کو اعتراض نہيں ہونا چاہيئے ۔ کوئی بھی شخص اگر کوئی معاہدہ يا کام کرتا ہے جو اس مُلک کے آئين کی کسی صورت خلاف ورزی نہيں تو وہ عمل بُرا نہيں ہے اور اگر کوئی مُلک کے آئين کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ چاہے سگا کہلائے دراصل مُلک کا دُشمن ہے ۔ حال ہی ميں ہونے والے بہت سے واقعات کے حوالے ديئے جا سکتے ہيں مگر بات لمبی ہو جائے گی ۔ ميں صرف دو بڑے واقعات کا ذکر کروں گا ۔ پہلا ۔ 1994ء ميں بينظير بھٹو نے کس اختيار کے تحت شمسی ايئر بيس کسی غيرمُلک کو دی ؟ دوسرا ۔ موجودہ حکومت ايف آئی اے کے ايڈيشنل ڈائريکٹر ظفر قريشی کو کس جُرم کی سزا دے رہی ہے ؟
اگر آپ سگے سوتيلے پر رہيں تو اس لحاظ سے ميں بھی سوتيلوں ميں ہوں ۔ تفصيل بہت لمبی ہے ۔ سچ اور حق پر رہنے کی وجہ سے بہت مشقتيں اُٹھائی ہيں