ڈان نيوز کے طلعت حسين کہتے ہيں کہ اُسامہ پہلے مر چکا تھا يا مارا جا چکا تھا ۔ ايبٹ آباد کا ڈرامہ صرف اوباما اور اس کی پارٹی کی ريٹِنگ بڑھانے کيلئے تھا جس ميں امريکا کی خفيہ ايجنسياں کامياب رہی ہيں
مندرجہ ذيل ٹی چينل کا دعوٰی ہے کہ اُسامہ بن لادن کو مارنے کا دعوٰی نويں بار کيا گيا ہے ۔ ديکھيئے وڈيو
ویڈیو کا سائز ابھی ٹھیک نہیں ہے تھوڑا چھوٹا رکھا کریں۔
میں نے کہا کہ اسامہ پہلے مارا جا چکا تھا تو آپ نے اسے افسانہ قرار دیا۔ طلعت حسین نے کہا تو آپ نے اس پہ ایک پوسٹ لکھ کر اسکی ویڈیو بھی لگا دی۔ یہ تو زیادتی ہے۔ میں تو یہ بحی کہتی ہوں کہ القاعدہ، طالبان اور پاکستان اس چیز سے آگاہ تھے امریکہ کو بھنک تھی مگر ثبوت نہیں تھا۔ اب ماضی قریب میں انہیں ثبوت مل گیا تو کریڈٹ انہوں نے لے لیا۔ پاکستان کی انٹیکیجینس کیا کہہ سکتی ہے سوائے خاموش رہنے کے۔ امریکی البتہ جاتے ہوئے اوسامہ رشتے دار پاکستانیوں کے حوالے کر گئے ہیں۔ یہ بتانے کو کہ ہم بھی جان گئے ہیں۔ یہ آخری مرحلہ پاکستانیوں کے لئے البتہ ایک جھٹکا ہے۔
محمد صابر صاحب
ليجئے ۔ آدھا کر ديا ہے
عنيقہ ناز صاحبہ
ميں نے صرف اس خبر کی بات نہيں کی تھی پوری خبروں کو ہی افسانہ قرار ديا تھا ۔ ويسے يہ آپ کو کس نے بتايا ہے کہ افسانہ کا مطلب جھوٹ ہوتا ہے ؟
ہماری قوم کيلئے دہشتگری کے خلاف جنگ بھی ايک بہت بھيانک افسانہ ہے مگر نامعلوم قوم کب سمجھے گی ؟ جب بھوک پياس سے ہلنے اور بولنے کی بھی سکت نہيں رہے گی ؟
يہ حقيقت “امریکی البتہ جاتے ہوئے اوسامہ رشتے دار پاکستانیوں کے حوالے کر گئے ہیں” جو آپ نے بيان کی ہے ہمارے لئے مستقبل ميں بہت مسائل کھڑے کرنے والی ہے ۔ آج مجھے طالبان کے پاکستان ميں سفير مُلا عبدالسلام ضعيف کا وہ بيان ياد آيا ہے جس ميں اس نے کہا تھا “افغانستان پر حملہ دراصل پاکستان پر قبضہ کی تياری ہے”۔
Pingback: کيا اوسامہ بن لادن ايبٹ آباد ميں مارا گيا ؟ | Tea Break
دنیا جانتی ہے کہ اس افسانے میں حقیقت کتنی ہے، لیکن سچ پوچھیں تو کیا ہمیں یا ہمارے حکمرانوں کو اتنی ہمت ہے کہ اسے افسانہ قرار دیں یا اس واقعے کی حقیقت پر ذرا سا ہی شک کا اظہار کردیں۔
عطاء رفيع صاحب
حکمران حرام کاری ميں گردنوں تک ڈوبے ہوئے ہيں ۔ جراءت کہاں سے آئے
اسامہ کی موت سے القائدہ کی طرف سے شروع کیا ہوا ، دہشت گردی و قتل و غارت گری کا ایک باب اختتام پزیر ہوا۔ القائدہ اور طالبان کے وجود مین آنے پہلے پاکستان مین تشدد اور دہشتگردی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ القائدہ نے طالبان کے ساتھ مل کر قتل و غارت گری کا ایک بازار گرم کر دیا، کاروبار کا خاتمہ ہو گیا،مسجدوں،تعلیمی اداروں اور بازاروں مین لوگوں کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے اور پاکستان حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گیا۔ پاکستانی معیشت تباہ ہو گئی اور اس کو ۴۵ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
حقیقت ہے کہ اس دہشت گردی کا زیادہ نشانہ خود مسلمان بنے۔ صرف پاکستان میں 35ہزار سے زیادہ انسان دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔سعودی عرب‘ یمن‘ سوڈان‘ عراق اور متعدد دیگر مسلمان ملکوں میں ان گنت افراد جان سے گئے۔ اسامہ خود تو ختم ہو گئے مگر پاکستان لئے دہشت گردی اور نفرتوں کے اثرات چھوڑ گئے‘ جو نہ جانے کب تک ہمیں مشکلات میں مبتلا رکھیں گے۔
تشدد اور دہشت گردی کا راستہ کبھی آزادی اور امن کی طرف نہیں لے جاتا۔ تشدد کرنے والے بھی اسی طرح کے انجام اور سلوک سے دوچار ہوتے ہیں‘ جو وہ اپنے مخالفوں کے ساتھ روا ر کھتے ہیں۔
اسامہ بن لاڈن سالہا سال سے پاکستان مین تھا اور طالبان نے اسے تحفظ فراہم کیا ہوا تھا۔ لگتا ہے انہیں نے پیسے کی خاطر اسامہ کی مخبری کر دی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والا اپنے انجام کو پہنچا۔ اب القائدہ کے دوسرے چھوٹے موٹے لیڈران ،طالبان سے خوفزدہ رہین گے۔ طالبان نے پیسے کی خاطر اسامہ کو بیچ ڈالا اور اب ڈرامے بازی کر رہے ہین۔
میرے خیال مین اسامہ کے ٹھکانہ کے اخفا کے معاملہ مین الاظواہری اور پاکستانی طالبان ،دونوں ملوث ہین۔ ظواہری ،اسامہ سے مصر کے معاملہ پر بیان نہ دینے کی وجہ سے ناخوش تھا۔ یاد رہے مصری ہونے کی وجہ سے ظواہری کی مصر سے جذباتی وابستگی ہے۔ مزید بران اگر الظواہری کی گذشتہ ۵ تقریروں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ظواہری اپنے آپ کو ایک بڑے رول کے لئے پوزیش position)کر رہے ہین۔یہ ظواہری گروپ تھا جس نے اسامہ کو قائل کیا کہ وہ قبائلی علاقہ چھوڑ کر ایبٹ آباد منتقل ہو جائین۔ سیف العدل،کی ایران سے واپسی پر ،اسامہ کو ختم کرنے کا ایک منصوبہ بنایا گیا۔
اقبال جہانگير صاحب
تشريف آوری کا شکريہ ۔ ميں اس سلسلہ ميں کچھ نہيں کہوں گا کيونکہ ميں اوسامہ کے بارے ميں کچھ نہيں جانتا ۔ حامد مير دنيا کا واحد صحافی ہے جس نے اوسامہ بن لادن کو 3 بار انٹرويو کيا ۔ کيا کل يعنی جمعرات 5 مئی کو پاکستان کے وقت کے مطابق 8 بج کر 5 منٹ سے 9 بجے رات تک جيو نيوز پر آپ نے سُنا تھا ؟ اُس نے اوسامہ بن لادن کے بارے ميں مختصر الفاظ ميں سب کچھ بتايا تھا