ميں نے اپنے طور پر محمد علی مکی صاحب سے ايک سوال کھُلے عام نہيں بذريعہ ای ميل پوچھا اور اُنہوں نے شايد عوام الناس کی بہتری کی خاطر اسے مُشتہر کر ديا کيونکہ ہمارے مُلک ميں سب کام عوام کی بہتری کيلئے ہوتے ہيں ڈاکے ڈالنا لاشيں گرانا سميت ۔ مجھے محمد علی مکی صاحب سے کوئی گلہ نہيں کيونکہ ميں عام آدمی ہوں اور عام آدمی صرف برداشت کرنے کيلئے ہوتا ہے
البتہ محمد علی مکی صاحب کا شکريہ ميرے متعلق تحرير لکھنے کا ۔ کسی نے کہا تھا “بدنام ہوں گے تو کيا نام نہ ہو گا ؟”
مزيد ميں محمد علی مکی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے مجھے محترم اور چچا جيسے القاب سے نوازا ۔ گو بات کچھ ايسی ہے “محترم ۔ ميں آپ کا سر پھوڑنے کی گستاخی کر لوں”
اور محمد علی مکی صاحب کا ايک بار پھر شکريہ مجھے لينکس بنا کر بھيجنے کا ۔ اب تک تو ميں اپنی علالت کی وجہ سے اس سے استفادہ حاصل نہ کر سکا تھا مگر محمد علی مکی صاحب کی سيکولرزم کی تھيوری کے تحت مجھے اس بارے ميں سوچنا پڑے گا ۔ اگر محمد علی مکی صاحب کی بنائی ہوئی لينکس استعمال کرتا ہوں تو ميں بھی محمد علی مکی صاحب جيسا ہو جاؤں گا جو محمد علی مکی صاحب کيلئے سُبکی کا باعث ہو گا ۔ کہاں وہ علم و ذہانت کا سمندر اور کہاں ميں 2 جماعت پاس عام سا آدمی
محمد علی مکی صاحب نے ميرے متعلق لکھا ہے کہ “ان کے بلاگ کے مطابق ان کا مقصد اپنی زندگی کے تجربات نئی نسل تک پہنچانا ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کم اور نظریات زیادہ پہنچانا چاہتے ہیں”
محمد علی مکی صاحب صرف ميرے بلاگ کو جانتے ہيں اور وہ بھی جزوی ۔ نہ کبھی مجھے ملے ہيں نہ کبھی ٹيليفون پر مجھ سے بات کی ہے تو پھر انہيں ميرے نظريات سے کيسے واقفيت ہوئی ؟ ہاں ۔ سنا ہے کہ اعلٰی ذہن کے لوگ بند لفافہ ديکھ کر اندر پڑے خط کا مضمون سمجھ جاتے ہيں ۔ ويسے ميرے بلاگ پر مختلف نظريات کی تحارير موجود ہيں جن سے ميرا مُتفق ہونا ضروری نہيں
محمد علی مکی صاحب کی ذہانت بھی قابلِ تعريف ہے کہ ميرے سوال کا جواب تو ديا نہيں مگر کمال ہوشياری سے توپوں کا رُخ ميری طرف موڑ ديا اور مجھ پر خود ساختہ ليبل بھی چسپاں کر ديئے ۔ يہی عصرِ جديد کا طرّہ امتياز ہے
محمد علی مکی صاحب خود تو خدا کی ہستی کو متنازعہ بنانے کيلئے اپنا سارا عِلم اور ذہانت بروئے کار لاتے ہيں اور ميرے سوال کے جواب ميں اُسی خدا کی کتاب سے ايک آيت اور اسی کے رسول کا ايک فرمان نقل کئے ہيں جو مجھے اپنی جان سے زيادہ محترم ہيں مگر ميرے سوال کا جواب کسی صورت نہيں بنتے ۔ محمد علی مکی صاحب کا زور پھر بھی اسی پر رہا ہے کہ مجھے يا مجھ جيسے کو بہر صورت اور بہر طور سيکولر ثابت کريں جبکہ اُن کے سيکولرزم کی بنياد ہی ناقص ہے
بے علم ہوتے ہوئے بھی ميں اتفاق سے علم کی اہميت سے واقف ہوں ۔ ميں جہاں پی ايچ ڈی سے سيکھنے کی کوشش کرتا ہوں وہاں اَن پڑھ لوگوں سے بھی سيکھتا ہوں ۔ ميں بزرگوں سے سيکھتا ہوں اور بچوں سے بھی ۔ ميں نے چوپايوں اور پرندوں سے بھی سيکھا ہے اور حشرات الارض سے بھی ۔ ميں نے محمد علی مکی صاحب کے عِلم کے خزانوں سے بھی استفادہ کی کوشش کی مگر مايوسی کے سوا کچھ نہ ملا
کتابيں ميں نے بھی بہت پڑھی ہيں ۔ زمين کے متعلق آدمی لاکھ کتابيں پڑھ لے مگر جب تک پاؤں زمين پر نہ رکھے اُسے احساس نہيں ہو گا کہ زمين سخت ہے ۔ نرم ہے ۔ پتھريلی ہے ۔ ريتلی ہے يا دلدل يا يہ سخت زمين ۔ نرم زمين ۔ پتھريلی زمين ۔ ريتلی زمين يا دلدل ہوتی کيا ہے ؟ اسلئے تجربے کو اہميت دی جاتی ہے اور اسی لئے ايک عالمی شہرت يافتہ مفکر نے کہا تھا
عمل سے زندگی بنتی ہے جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اللہ تعالٰی محمد علی مکی صاحب کو جزائے خير دے اور مجھے سيدھی راہ پر قائم کرے
اجمل چاچا ، میں سوچ رہا ہوں اگر سکیولر لوگوں کی بنائی ہوی چیزیں استعمال کرنے سے انسان سیکیولر ہو جاتا ہے تو انجنیر کی بنای ہوی چیز استعمال کرنے سے میں انجنیر بن سکتا ہوں؟؟؟ اگر آپ ہاں کر دیں تو بڑی مہربانی ہو گی میں ابا جی کو بتا کر خوش ہو جاوں گا کیونکہ پہلے میں ڈرتا تھا اور اب میرا ڈر ختم ہو گیا :
انکل ٹام صاحب
يہ استدلال ميں نے اپنی زندگی ميں پہلی بار محمد علی مکی صاحب کا ہی ديکھا ہے ۔ اللہ کی کرم نوازی سے ميں پورا پاکستان اور آزاد کشمير گھوما ہوا ہوں اور شہروں اور ديہات کے باسيوں سے تبادلہ خيال کرتا رہا ہوں ۔ غير ممالک ميں سعودی عرب ۔ متحدہ عرب عمارات ۔ مصر ۔ لبيا ۔ ايران ۔ ترکی ۔ چيکوسلوواکيا ۔ يوگوسلاويہ ۔ آسٹريا ۔ جرمنی ۔ فرانس ۔ بيلجيئم ۔ برطانيہ ۔ ہالينڈ ۔ چين ۔ روس ۔ بنگلہ ديش ۔ مليشيا ۔ انڈونيشيا ۔ جاپان وغيرہ کے باشندوں سے تبادلہ خيال ہوتا رہا ۔ مگر ان ميں سے کسی نے اس قسم کا يا اس سے ملتا جُلتا کوئی خيال ظاہر نہيں کيا ۔
نہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ايسا کوئی نظريہ پيش کيا
اوہ یعنی ایک اور بلاگی جنگ؟
سعد صاحب
جنگ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟
نظریہ آپ کا (:
شعيب صاحب
شايد اسی کو کہتے ہيں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔ ميں نے اس تحرير کے آخر ميں لکھا تھا کہ بنگلور بھارت کے ايک شعيب صاحب ہيں جو دبئی ميں ہوتے ہيں ۔ اُن کے ساتھ ميری لمبی بحث ہوتی رہی اور ميں ان سے اختلاف کرتا رہا مگر انہوں نے کبھی اسے ذاتي نہ ليا اور نہ ميری ذات کو وہ کبھی بيچ ميں لائے ۔ پھر ميں نے سوچا خواہ مخوا کسی کا نام بيچ ميں لانا اچھی بات نہيں اور سب حذف کر ديا تھا ۔ کچھ آپ کی ذاتی يا خانگی باتيں ہيں وہ اِن شاء اللہ بذريعہ ای ميل
میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ باادب با نصیب اور بے ادب بدنصیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجکل انکی ذہنی حالت پر انکے اپنوں کو بھی شک ہے ۔۔۔۔۔۔ میں بات کر رہا ہوں حضرت مکی صاحب دامتہ وبرکاتہ کی
جناب:
آپ کا بلاگ میرے پاس کچھ سہی نہیں آتا ہے ، یعنی لفظ ٹوٹے ہوتے ہیں، شاید فونٹ درکار ہوگا، اگر آپ بتلادیں تو مہربانی ہوگی۔
شکریہ
Pingback: شکريہ محترم شکريہ | Tea Break
میں نے مکی صاحب کے بلاگ پر تبصرے کی کوشش کی لیکن کچھ تکنیکی وجوہات کے باعث ناکام رہا۔۔۔
خیر، مجھے مکی کے پراپگینڈے سے کوئی خاص لگاو نہیں۔۔۔ جس طرح وہ خدا کی ذات کو اتنی آسانی سے متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ بندہ انتہائی درجے کا کنفیوز آدمی ہے۔۔۔ جسے اپنی زات، اپنی زات کے مقصد اور اپنی ذات کے بنانے والے کے بارے میں جاننا تو ہے۔۔۔ لیکن یکطرفہ ہو کر۔۔۔ اور وہ بھی ان کے من چاہے مغربی مصنفین اور فلاسفروں کی نظر سے۔۔۔۔ اور ان کے مداح بھی ان کو بہلاتے پھسلاتے مزید دہریہ پن کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔۔۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔۔۔
باقی رہی بات کہ آپ کے نظریات اور تجربات کی۔۔۔ تو میرا جواب مکی صاحب کو یوں ہوگا۔۔۔ کہ اکثر و بیشتر کچھ تجربات ہی نظریات کی شکل لے لیتے ہیں۔۔۔ اور اس معاملے میں نظریے زیادہ پختہ ہوتے ہیں۔۔۔ تو یہ الزام لگانا کہ “تجربے کم اور نظریے زیادہ”۔۔۔ غلط بات ہے۔۔۔ اور اکثر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ مکی کے الفاظ کسی اور زہن کے تخلیق ہیں۔۔۔ اللہ خیر کرے۔۔۔
ایک اچھے انسان کیلیے ضروری ہے کہ وہ بحث کے دوران عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر بحث میںذاتیات کو گھسیٹ کر سمجھتے ہیں کہ بڑا تیر مار لیا۔
میں نے بھی بہت کوشش کری مگر میرا کمنٹ تو یہاں بھی نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ لکھا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باادب با نصیب بے ادب بدنصیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مکی صاحب وقت گزرنے سے پہلے کسی اچھے معالج سے رابطہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گذر جائے
اگر کوئ شخص کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو دوسرے اچھے مسلمانوں پہ یہ بات لاگو ہوتی ہے کہ اپنے طور پہ رائے دینے سے گریز کریں۔ ہر ایسی رائے کا ہر شخص کو خدا کے آگے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
کلمہ ء طیبہ کا آغاز ہی لا الہ سے ہوتا ہے یعنی کوئ معبود نہیں ہے۔ تو آپ سب دہرئیے نہیں کہلاتے۔ اس لئے کہ اسکے بعد آپ سے کہا جاتا ہے کہ وحدت پہ ایمان لائیں۔ اسکا مطلب خدا نہیں چاہتا کہ آپ ایک وراثتی خدا پہ یقین رکھیں۔ وہ آپکے دل و دماغ کو پہلے ہر آلائیش سے پاک کرتا ہے یہ کہہ کر کے کوئ خدا نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر لوگ وراثتی مسلمان ہونے کے کے بجائے عقل و شعور حاصل ہونے پہ اپنے ایمان کو ایک سوالیہ نشان دے کر اپنے عقائد کو جانچیں تو زیادہ بہتر دیندار بن سکتے ہیں۔
ایک مسلمان پہ ضروری ہے کہ وہ دوسروں پہ اپنے ایمان کو اتنا نہ ٹھونسے کہ وہ خود تو اعلی درجے کا مسلمان رہے لیکن باقی مرتد ہو جائیں۔ انسان کو اپنے طور پہ خدا کو جاننے دیں، ماننے دیں۔ وہ رب العالمین ہے۔ تمام جہانوں کا پالنے والے۔ انسان اور خدا کے درمیان تعلق میں کسی تیسرے کی جگہ بنتی نہیں ہے۔
خالد حميد صاحب
تشريف اوری کا شکريہ ۔ ميں بذريعہ ای ميل آپ کو آپ کی مشکل کا حل بتانے کی کوشس کرتا ہوں
ضياء الحسن خان صاحب
آپ کا تبصرہ يہاں موجود ہے ۔ جہاں تک مجھے ياد پڑتا ہے آپ ميرے بلاگ پر پہلے بھی لکھ چکے ہيں ۔ بات يہ ہے کہ جو حضرات پہلی بار يا کبھی کبھی تبصرہ کرتے ہيں اُن کا تبصرہ سپيم ميں چلا جاتا ہے مگر ميں وہاں سے ديکھ کر نکال ليا کرتا ہوں ۔ آپ کا يہ تبصر تو درست جگہ موجود تھا دوسرا ميں نے سپيم سے نکال ليا ہے
عنيقہ ناز صاحبہ
مشورہ کا شکريہ ۔ ميں نے کسی کو نہيں کہا کہ ايسے مسلمان بنو يا ويسے مسلمان بنو ۔ آپ نے شايد محمد علی مکی صاحب کی تحرير نہيں پڑھی جس ميں وہ سب کو سيکولر ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے ۔ باقی بات ميری مندرجہ بالا تحرير ميں موجود ہے
آپ نے وراثتی مسلمان اور خود سے مسلمان بننے کی بات کی ہے تو ميں اتنا بتا دوں کہ ہرچند ميں واراثتی مسلمان ہوں مگر ميں نے اسلام کو دل و دماغ سے سالہا سال کے مطالعہ سے قبول کيا ہے جس کا ہمارے ملک ميں رواج نہيں ہے ۔ ميں نہ سيّد ہوں نہ شيعہ ہوں نہ مرزائی ہوں نہ پرويزی ہوں نہ وہابی ہوں نہ بريلوی ہوں اور نہ ديو بندی ہوں ۔ ميرے بيوی بچے اور ميرے بہن بھائی بھی ميری طرح ہيں اور ميرے والدين بھی ايسے ہی تھے ۔ ہم سب سائنس کے سٹوڈنٹ ہيں اور اسلام کو پڑھ کر اور اس پر عمل کر کے سيکھا ہے ۔ ميں ايک پريکٹيکل انجيئر اور سائنسدان ہوں ۔ جوں جوں ميں انجنيئرنگ اور سائنس ميں آگے بڑھتا گيا توں توں ميرا يقين اللہ پر پُختہ ہوتا گيا اور ساتھ ہی ميں پہلے سے بہتر مسلمان يا انسان بنتا گيا
dejavu
مکی صاحب کی اس حرکت پر مجھے بھی حیرانی ہوئی تھی کہ جب ایک بات ایمیل کی گئی ہے تو جواب بھی ایمیل ہی بنتا ہے۔ خیر ان کی ذہانت بس اتنی سی ہی ہے۔ حیرت ہے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکے اور سوال کرتے ہیں کہ آپ اب کیوں یہ سب “چھاپ” رہے ہیں۔ انکا جواب ہے اب ان کو ڈر نہیں لگتا۔ ابھی حال ہی میں عنیقہ نے ان کی پوسٹ کا حوالہ دے کر ان کو پاکستانی معاشرے کا روشن دمدار ستارہ قرار دیا تھا۔ میں نے تب جانے دیا تھا کہ اللہ اللہ کر کے عنیقہ کو ڈاکڑ امر محبوب کے بعد کوئی دوسرا پاکستانی مرد پسند آیا تھا۔
مکی صاحب مترجم ہیں ترجمہ کر کے وہ بھول جاتے ہیں کہ آخر میں لنک بھی دینا ہوتا ہے۔ خیر اتنی لمبی پوسٹ کر کے اس میں سے “ہے کا نہ یا اور” جیسے الفاظ نکال کر باقی کو ٹیگ بنانے میں اتنا وقت صرف ہو جاتا ہو گا کہ وہ بھول جاتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں ان کو اب ڈر نہیں لگتا۔ واقعی ان کو ادھر ادھر سے آرٹیکل لے کر ترجمہ کر کے اپنا نام دیتے ڈر نہیںلگتا۔
وہ جی ہم کچھ دوستوں نے فیس بک پر ایک گروپ بنایا ہوا ہے، جس کا نام ہے
کاپی پیسٹ ٹائم پاس
تو جن حضرت کا جناب بدتمیز نے ذکر کیا ہے، ان کو دعوت عام ہے کہ وہاں تشریف لائیں جو مرضی کاپی پیسٹ کریں، کوئ ان کو طعنہ نہیںدے گا۔
افتخار صاحب کی خدمت میں ایک مصرع عرض ہے کہ
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
عنیقہ صاحبہ نے لکھا
“انسان اور خدا کے درمیان تعلق میں کسی تیسرے کی جگہ بنتی نہیں ہے۔”
اگر ایسا ہی تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبيس ہزار پیغمبر اور رسول کیوں بھیجے۔ اگر حدیث شریف میں بیان شدہ اس تعداد کو ماننے میں تامل بھی ہو تو خود قرآن پاک میں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کئی رسولوں کا نام لے کر یا بغیر نام لیے حوالہ موجود ہے۔
اسکے علاوہ یہ کہ نہ صرف اللہ پاک نے عام انسانوں کے ساتھ اپنے درست تعلق کی وضاحت اور اسے قائم کرنے کے طریقِ کار کی تشریح کے لیے نہ صرف بے شمار “کوئی تیسرے” اشخاص مبعوث فرمائے بلکہ ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ایک چوتھی مخلوق یعنی فرشتوں کی بھی ڈیوٹی لگائے۔ ان کا ذکر بھی قرآن پاک میں ہی موجود ہے، اور ان پر، اور انکی لائی ہوئی کتب ایمان لانا اسی کتاب مبین کی رو سے لازم بھی قرار دیا گیا ہے۔
ایک پکے سیکولر ذہن کے مطابق یہ سب معاذاللہ لایعنی چیزیں ہیں۔ اور انھیں نہ ماننے کا لازمی نتیجہ سرے سے وجود خدا سے مطلق انکار کی صورت میں نکلتا ہے، جو کہ پہلے مغرب، اور پھر اس کے زیر اثر بعض دوسری سرزمینوں میں ہوا۔
یاد رہے کہ میں نے کسی کو کافر تو کیا سیکولر بھی نہیں قرار دیا۔
میرے خیال میں مکی صاھب کے جو خیالات ہیں
اس قسم کے خیالات عمرکے کسی ناں کسی حصے میں ہر اس دماغ میں اٹھتے ہیں
جو
تقلید کی بجائے تحقیق کو ترجیع دیتا ہے
پنجابی کے شاعر کی یہ بات
رب اک گُنجھلدار بُجھارت
رب اک گورکھ دھندا
کھولن لگیاں پیچ ایس دے
کافر ہو جائےبندہ
کافر ہونوں ڈر کے جیویں
کھوجوں مُل نہ کُھنجیں
لائی لگ مومن دے کولوں
کھوجی کافر چنگا
اور یا پھر یہ دیکھیں کی موہن سنگھ مستانہ کیا لکھتے ہیں
تیری کھوج وچ عقل دے کھنبھ جھڑ گئے
تیری بھال وچ تھوتھا خیال ہویا
لکھاں اُنگلاں گُنجھلاں کھول تھکیاں
تیری زُلف دا سِدھا نہ وال ہویا
گھگی بَجھ گئی سنکھاں دی رو رو کے
پِٹ پِٹ کے چُور گھڑیال ہویا
چِیک چِیک کے قلم دی جیبھ پاٹی
اجے حل نہ تیرا سوال ہویا
اور پھر لکتے ہیں
کہ اگر یہ وئال حل ہو جائے تو
کیا ہو؟؟؟
جے توں مونہہ توںزُلفاں ہٹا دیویں
بِٹ بِٹ تکدا کُل سنسار رہ جائے
رہ جائے بھائی دے ہتھ وچ سنکھ پھڑیا
بانگ مُلّاںدے سنگھ وِچکار رہ جائے
پنڈت ہوراں دا رہ جائے سندھور گھُلیا
جام صوفی دا ہویا تیار رہ جائے
قلم ڈیہہ پئے ہتھوں فلاسفر دی
مُنکر تکدا تیری نُہار رہ جائے
میں یہ کہوں گا کہ جس لیول کی بات مکی صاحب نے شروع کی ہے
اردو کے بلاگروں میں
کسی میں اس بات کو سمجھا تو دور کی بات ہے
ہضم کرنے کی بھی اہلیت نہیں ہے
محترم افتخار اجمل صاحب!
بنک کے لغوی معنی کچھ یوں بنتے ہیں وہ مڈل مین فرد ( آجکل ادراہ) جو مالی وسائل ئعنی رقم تلاش کرے۔ اکھٹا کرے۔ اور اسے سود پہ ادھار دے۔
موجودہ بنکنگ کا نظام یہودیوں کا نظام ہے۔ اور موجودہ صورت میں یہ نظام اسقدر پرانا نہیں جسقدر مکی صاحب نے بابل و نینوا کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ اگر جسے بنیاد بنا کر وہ بینکنگ قرار دے ہیں تو مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ پھر بنکنگ کا نظام انکے بیان کردہ تقریبا چار ہزار سالوں سے بھی قدیم ہے۔ بنکنگ کے وجود کا پتہ قدیم یونان میں بھی ملتا ہے اور دنیا کی دیگر تہزیبوں میں بھی اسکا پتہ چلتا ہے۔تاریخ دان بنکنگ کا ایک سرا حضرت ابراھیم علیۃ والسلام کے دور سے سے بھی آگے جا ملاتے ہیں۔ مگر تب بنکنگ یوں یا اس صورت میں نہیں تھی۔ جیسےآجکل ہے۔
ہمبرگ میں تجارتی میلوں کی وجہ سے رقم کی نقل و حرکت اور اسکی محفوظ ادائیگی کے لئیے “حامل رقعہ ھذا کو ادا کی جائے گی” نامی بنکنگ کا نظام تھا جس پہ یہودی اس بندوبست کے مالک تھے اور نہائت معمولی سا اپنا کمیشن لیتے تھے۔
مغرب یا چرچ نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں پہ اتحنے والے اخراجات کے لئیے بنک کی طرز پہ رقم اکھٹی کرتا رہا ۔
گیارہ سو چھپن میں جینوا میں مغرب میں رقم کے لین دین پہ باقاعدہ لکھے پڑھے معائدے کئیے گئے ۔چودہ سو چھ میں پہلا بنک ” بنکو دی سن گیگوریو یوروپ میں جینوا اطالیہ میں وجود میں آیا۔ انگریزوں نے شاہ ہنری کے دور میں غالبا سترہ سو کچھ میں یہودیوں سے خطیر رقم لیکر انھیں سودی کاروبار کی اجازت دی۔
یہ تو مختصر ی تاریخ ہے بنکنگ اور جدید بنکنگ کا نظام نوع انسانی کو یہودیوں کی عطا ہے۔ بنک نامی لفظ اطالوی زبان میں اس میز نما کو کہتے ہیں جو جینوا، وینس، پیسا اور فلورینس میں یہودی لوگ سود پہ رقم ادھار کرنے کے لئیے استعمال کرتے تھے۔ یہ شا بلوط کی آبنوسی لکڑی کا مضبوط میز نما ہو تا تھا۔ جس کے ارد گرد دراز ہوتے تھے اور اس پہ سبز رنک کا نمدہ بچھا ہوتا جسکے سامنے کرسی رکھ کر یہودی سودی کاروبار کرتے ۔ اور اسے اطالوی زبان میں “بنکو” کہتے ہیں۔ جس سے موجودہ لفظ “بنک” وجود میں آیا ہے۔
یہ سو فیصد یہودیوں کا وضح کردہ نظام ہے۔ امریکہ سنٹرل ریزور مکلمل یہودی کنٹرول میں ہے۔ اس نظام کے داعی یہودی ہیں۔ اور یہ اسقدر واضح بات ہے کہ اس پہ کسی کو شک نہیں۔
باقی مکی صاحب کی کچھ ترجمہ کی تحریرں خوب ہوتی ہیں البتہ خدا کے وجود پہ لایعنی بحث انکے کینفیوز ذہن کی غماز ہے۔ ایک وقت آئے گا وہ بڑی شدت سے خدا پہ یقین کریں گے۔ البتہ انھیں دریا میں دھکا دینے والے انکے وجود میں اسوقت تک پھونک بھرتے رہیں گے اور انکا نفس پھول کر کپا ہوتا رہے گا۔ جب تک ان نام نہاد روشن خیالوں کو مکی صاحب سے اپنے مطلب کی الا بلا ملتی رہی۔ جس دن اس شخص نے خدا کی پہچان کر لی ۔ اور وہ ایک دن ضرور ایسا کر لیں گے۔ اس دن سے یہ مدح سرائی کرنے والے انہی کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہونگے۔ کیونکہ ایسے لوگاں کے اہداف اور انہیں پانے کے لئیے ایسا لوگاں کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں ۔ اور ایسا لوگاں اپنے اہداف کی مکی سے شرف قبولیت نہ ملنے پہ انہی کے خلاف ہونگے۔
خاور کھوکھر بھای میں آپ کی بات سے تھوڑا سا اختلاف کروں گا ، آپ نے کہا کہ یہ حالات ایسے شخص کو پیش آتے ہیں جو تقلیدکی بجاے تحقیق کو ترجیح دے ، جناب اگر ایسی بات ہوتی تو ابو حنیفہٌ اور امام مالک کو بھی پیش آتے ، انکو نہیں آے تو پتا چلا کہ یہ ایسے شخص کو پیش آتے ہیں جو مجتہد نہ ہو پھر بھی اپنے آپ کو مجتہد سمجھتے ہوے تحقیق شروع کر دے ۔
بد تمیز صاحب، آپ ہمیشہ کی طرح پھر ڈنڈی مار گئے۔ میں یہ بات کئ دفعہ علی الاعلان کہہ چکی ہوں کہ مجھے ڈاکٹر شیر شاہ بہت پسند ہیں ان پہ پوسٹس بھی لکھیں اور مزید لکھنے کا ارادہ ہے۔ لیکن آپ نے امر محبوب کا نام لیا۔ پسند تو مجھے عثمان بھی ہے اور عبداللہ بھی۔ ان سب کو آپ بھول گئے۔ ہاں ریاض شاید اورراشد کامران بھی مرد ہی لگتے ہیں ناموں سے۔ اسکے علاوہ درجنوں مرد ہیں میں انٹرویو نہیں دے رہی ورنہ تفصیل سے بتاتی کہ انہیں پسند کرنے کی کیا وجوہات ہیں اور وہ کون کون ہیں۔ صرف آپکی سمجھ کا زاویہ سمجھانا چاہ رہی ہوں جہاں سے صرف امر محبوب کا نام نکلا۔ آپ اتنے محدود ہو کر کیوں سوچتے ہیں کہ سامنے لکھی ہوئی باتیں بھی خاطر میں نہیں لاتے۔
مرتضی علی صاحب، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے باوجود خدا کو ہر انسان اپنے طور پہ سمجھتا ہے اسی لئے ولی کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر ولی پیدا ہوجاتا ہے۔ تنہائ میں جو خدا انسان کے قریب ہوتا ہے وہ اسکی ملکیت ہوتا ہے۔ آج اگر سترہ کروڑ انسانوں سے آپ پوچھنے نکلیں تو کم ازکم سترہ ہزار مختلف خدا کی تعریفیں ملیں گی۔ اسلے باوجود کہ وہ دین محمد پہ یقین رکھتے ہونگے۔
میں تو غلام علی صاحب یہ پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ کلمہ جس پہ ہمارے ایمان کی بنیاد شروع ہوتی ہے وہ لا الہ سے کیوں شروع ہوتا ہے۔ صرف ہواللہ سے بھی شروع ہو سکتا تھا، الااللہ سے بھی شروع ہو سکتا تھا۔ آخر خدا نے دین اسلام کے لئے مخصوص اس جملے کو اس طرح کیوں شروع کیا۔
باقی خاور صاحب کی بات درست ہے۔ ہر ذہن میں سوال ہوتے ہیں۔ سوال کرنے والا ذہن ہی آگے سوچتا ہے۔
عنيقہ ناز صاحبہ
ميں نے جان بوجھ کر آپ کے پہلے تبصرہ ميں بہت کچھ نظرانداز کر ديا تھا ۔ مگر آپ اس پر مُصر ہيں اسلئے جواب لکھنا پڑا ۔ آپ کا کلمہ طيبہ کے متعلق استدال زندگی ميں پہلی بار صرف آپ کی زبانی سُنا ہے ۔ يہ آپ کو کس نے بتايا ہے کہ کلمہ طيبہ ” لا الہ ” ہے اور اس کے بعد وحدت پر ايمان لائيں ؟ کلمہ طيبہ ہے ” لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ ” ۔ اس ميں اللہ کی وحدانيت اور اللہ کے رسول کا اقرار دونوں موجود ہيں ۔ پہلے حصے کا مطلب ہے “نہيں کوئی معبود سوائے اللہ کے” اور دوسرے کا مطلب ہے ” محمد اللہ کے پيغمبر ہيں” يعنی وہ اپنی طرف سے کچھ نہيں کہتے بلکہ اللہ کا پيغام پہنچاتے ہيں
آپ نمعلوم کس لہر ميں بہہ جاتی ہيں اور جو آپ لکھ رہی ہوتی ہيں اس کا آپ کو کچھ پتہ نہيں ہوتا ۔ ميرا ايک بار پھر آپ کو مشورہ ہے کہ کم از کم دين کی بات کرنے سے قبل کم از کم ايک بار قرآن شريف کو سمجھ کر پڑھ ليجئے ۔ آپ کا مندرجہ ذيل فقرہ آپ کے بے علم ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہيں
“کلمہ جس پہ ہمارے ایمان کی بنیاد شروع ہوتی ہے وہ لا الہ سے کیوں شروع ہوتا ہے۔ صرف ہواللہ سے بھی شروع ہو سکتا تھا، الااللہ سے بھی شروع ہو سکتا تھا”۔
آپ کو اپنے پہلے يہ کيوں نہيں ؟ کا جواب قرآن شريف سے مل جاتا اگر آپ نے پڑھا ہوتا ۔ صرف يہ 2 آيات ہيں جہاں لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لکھا آيا ہے
سورت 37 ۔ الصَّافات ۔ آيت 35 ۔ إِنَّھُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَھُمْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ يَسْتَكْبِرُون ترجمہ ۔ یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے
سورت 47 ۔ محَمّد ۔ آيت 19 ۔ فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ ۔ ترجمہ ۔ سو یقین کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
عنیقہ، خدا کا واسطہ ہے کہ کلمہ کو تو بخش دیں۔۔۔ اب کیا اس پر بھی تمہیدیںباندھی جائیں گی۔۔۔ کچھ تو عقل کریں۔۔۔
دین اسلام پہ دنیا کے سارے مذاہب، فلسفے، عقیدے منسوخ ہوچکے۔ جو ان میں پناہ لیتے ہیں۔ نئے نئے ڈرامے اور نظریات کی تبلیغ و تشریح کرتے ہیں۔ نام نہاد روشن خیالی اور نام نہاد سیکولرازم کی طرز کی استعملات کو ہوا دیتے اور شوشے چھوڑتے ہیں ۔ “لا الٰہ” ایسے اور دیگر کئی طرح کے دل میں بت پالنے والوں کے لئیے اسلام نے بنیادی شرط کا آغاز “لا الٰہ” سے کیا ہے۔
اللہ تعالٰی کی شان کو یہ گواراہ نہیں کہ اسے خدا مانتے ہوئے کسی اور کو کسی بھی طریقے سے دل میں جگہ دی جائے اسلئیے اسلام نے توحید کی سختی سے تاکید کرنے کے لئیے پہلے دلوں سے “لا الٰہ” سے قطعیت کے ساتھ ہر قسم کے الاؤں ، نظریوں ، اسلام بھی مگر اسیکولازم مگر اشتراکیت بھی ۔ زکواۃ مگر سود بھی ۔ یعنی اسلام دین تو معشیت اشتراکی یا سودی۔ انہیں عربی کے “لا” کے ذریعے نفی کی ہے یعنی اللہ کو اپنا معبود ماننے کے لئیے ۔ اور معبود کی بتائی ہر بات خواہ وہ عقل انسانی کے کسی خانے میں درست نہ بیٹھتی ہو۔ ہر بات پہ صدق دل سے ایمان لانے اور عمل کرنے کے لئیے صرف اور صرف معبود کے سامنے عبد کی اطاعت کو معیار بناتے ہوئے سب سے پہلے دل کو ہر قسم کے الاؤں کی “لا الٰہ” سے سختی نہ صرف نفی کی ہے بلکہ اور کسی قسم کے الاؤں کا نہ ہونے کا تصور دیا ہے، عربی میں “لا” ایسی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ جس کا وجود نہ ہو۔ جو(صورتحال یا واقعہ ) پیش نہ آیاہو، جس کا تصور تک نہ ہو اسکے لئیے قطعیت کے لئیے “لا” استعمال کیا جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر اللہ وحدہ لا شریک کے علاوہ ہر غیر کا تصور تک نہ ہو۔
صرف معبود اور اسکے رسول صلٰی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر قسم کا نظریہ اور معنویت ۔ معبودیت لا ہے ۔ غیر ہے۔
اقتباس:: اگر کوئ شخص کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو دوسرے اچھے مسلمانوں پہ یہ بات لاگو ہوتی ہے کہ اپنے طور پہ رائے دینے سے گریز کریں۔ ہر ایسی رائے کا ہر شخص کو خدا کے آگے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
تبصرہ:: لو جی کیا بات ہے۔ اللہ تعالی نے ایویں کہہ دیا کہ منافقین یعنی عبداللہ بن ابی جیسے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور ان کے حقائق لوگوں تک پہنچائیں۔۔۔۔
ویسے لوگوں کو دین اور محترم شخصیات کے بارے میں بدزبانی کرنے سے پہلے بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہر ایسی بات کا حساب دینا ہوگا۔
اجمل صاحب ویسے میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ لوگوں کو یکایک خدا کیسے یاد آنے لگا؟ ایسا کیا ہوگیا کہ خدا یاد آیا؟؟
افتخار اجمل صاحب اور عمران اقبال صاحب۔ آ پ دونوں نے شاید تصوف کی گلیوں میں ذرا سا بھی نہیں جھانکا۔ اس لئے آپ نفی اور اثبات کے اوراد سے واقف نہیں۔ اپنی لا علمی کی سزا دوسروں کو نہ دیں۔ جاہل دیندار اور بے عمل عالم دونوں دین کے لئے خطرناک ہیں۔ افتخار صاحب میں نے یہ کب لکھا کہ کلمہ لا الہ پہ ختم ہوتا ہے۔ میرا تبصرہ یہاں موجود ہے دوبارہ پڑھیں۔ میں نے لکھا ہے کہ کلمہ لا الہ سے شروع ہوتا ہے۔ آپ بالخصوص میری باتوں کا جواب دینے سے پہلے انہیں بغور پڑھ لیا کریں۔
علامہ مفتی جاوید گوندل صاحب قبلہ، میں تو اس چیز پہ یقین نہیں رکھتی کہ مکی صاحب مرتد ہو گئے ہیں۔ یہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ آپ ایکدم تصدیق یافتہ خدائ مسلمان ہیںدر حقیقت اگر آپکی طرف سے سرٹیفیکیٹ مل جائے تو کسی بھی مسلمان کو آرام سے ہو جانا چاہئیے کہ اب جنت دور نہیں۔
اس جذبہ ئ ایمانی میں آپکو یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ جھوٹ بولنا، افتراع باندھنا، تہمت دھرنا یہ سب منافقین کی نشانیاں ہیں۔ اپنی زبان کو پست طریقے سے استعمال کرنا، تعصب کرنا یہ سب بھی نفاق میں آتا ہے دکھاوے کی دین داری عذاب کا ذریعہ ہے۔
چونکہ میں آج بھی یقین رکھتی ہوں کہ مکی صاحب حالت ایمان میں ہی ہیں اسلئے آپکی یہ دروغ گوئ آپکے مسلمانی اخلاق کے لئے بہتر نہیں۔ امید ہے آپ تنہائ میں رب کریم سے توبہ کریں گے وہ معاف کرنے والا ہے۔ لیکن یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ حقوق العباد کی معافی خدا نہیں دے گا۔ اس کے لئے آپکو مجھ سے اور اوروں سے معافی مانگنی پڑے گی۔
عنيقہ ناز صاحبہ
ميں نہيں جانتا تھا کہ آپ تصوف کي چھلنی سے چھِن چکی ہيں ۔ ذرا اتنا بتا ديجئے کہ افضل کيا ہے قرآن يا تصوف ؟ قرآن شريف کی وہ آيات لکھ ديجئے جن ميں تصوف کی تلقين ہے تو بات يہيں ختم ہو جائے گی
بی بی ۔ ميں نے کبھی غور کئے بغير کچھ نہيں لکھا ۔ بہتر ہو گا کہ آپ خود اپنے لکھے کو ٹھنڈے دماغ سے پڑھ ليں ۔ اور ديکھيں کہ آپ کيا کيا اُؤٹ پٹانگ لکھتی رہتی ہيں ۔ آپ کا فلسفہ کچھ زيادہ ہی نہيں بکھرتا جا رہا ؟ آپ باتيں بہت اُونچی کر رہی ہيں ۔ صرف اتنا بتا ديجئے کہ قرآن شريف کو آپ نے آج تک کتنی بار سمجھ کے پڑھا ہے اور آخری بار کب سمجھ کر پڑھا تھا ؟ معلوم ہو جائے گا کہ آپ تصوف کی کس سطح پر ہيں ۔ آپ کو پہلے ہی بتا ديتا ہوں کہ ميں صوفی نہيں ہوں دنيادار مسلمان ہوں اور جو دين کا علم حاصل کيا ہے اس پر پورا عمل کرنے کی کوشش ميں رہتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں جسے تصوف کہا جاتا ہے اس کا قرآن شريف سے کوئی ثبوت نہيں ملتا ۔ ايسے تصوف سے ميں بگير تصوف بہتر ہوں
میں یہ کہوں گا کہ جس لیول کی بات مکی صاحب نے شروع کی ہے
اردو کے بلاگروں میں
کسی میں اس بات کو سمجھا تو دور کی بات ہے
ہضم کرنے کی بھی اہلیت نہیں ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے اور اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کون خدا کو مانتا ہے اور کون نہیں۔۔۔۔اختلاف اس غلو پر ہے جو کہ سائنس اور ڈارون کے متوالے اپنے نظریات کے سلسلے میں رکھتے ہیں۔ اس غلو میں بہت سارے حقائق جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ بھی کہ مسلمان شروع سے ہی “سائنس دشمن” نہین رہے۔ بہت گراںقدر کردار ہے۔ مسلمانوں کا۔۔۔
اختلاف اس بات پر ہے کہ حضور سائنس کی جو پٹی آپ نے اپنے ماتھے پر باندھی ہوئی ہے وہ بہت چھوٹی ہے۔ اسکو دستار فضیلت اور جبہ مت بنائیے۔۔۔۔اور اگر بانا ایسا ہی ضروری ہے تو اسے پہن کر علما کی طرح فتوے نا دیں۔۔۔
آپ تو بڑے آعلیٰ و ارفعٰ لوگ ہیں۔۔۔۔کیوں ہم چھوٹے لوگوں کی نقالی کرتے ہیں؟؟؟
علامہ مفتی جاوید گوندل صاحب قبلہ، میں تو اس چیز پہ یقین نہیں رکھتی کہ مکی صاحب مرتد ہو گئے ہیں۔ یہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ آپ ایکدم تصدیق یافتہ خدائ مسلمان ہیںدر حقیقت اگر آپکی طرف سے سرٹیفیکیٹ مل جائے تو کسی بھی مسلمان کو آرام سے ہو جانا چاہئیے کہ اب جنت دور نہیں۔
بی بی! آپ سے گزارش ہے کہ میں ذاتی قسم کی تنقید کا جواب نہیں دیا کرتا۔ الا یہ کہ بات مکالمے کی شکل میں ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسلئیے خوش رہیں۔ میری دعائیں آپکے ساتھ ہیں۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔
منررجہ بالا تبصرہ یا رائے میں، میں نے اسلام میں توحید اور صرف ایک اور ایک خدا اسکے نبی صلٰی اللہ علیم وسلم کے احکامات کو من و عن تسلیم کرنے کے بارے بات کی ہے کہ ایسا کئیے بغیر اللہ کو بزرگ و برتر اور معبود ماننا منافقت کے زمرے میں آتا ہے خواہ اسے انسان کی محدود عقل کے ذریعے لا محدود پہ اسکے لایعنی دلائل کہہ لیں۔ یا ذاتی پرکھ پہ خدا کا تصور پورا نہ اترنے پہ وجود باری تعالٰی سے انکار سمجھ لیں۔ مگر جب اللہ کے وجود کو تسلیم کرنا ہے تو اسکے بغیر چارہ نہیں کہ ہر قسم کے باطل نظریات اور الاؤں کا قطعیت کے ساتھ انکار ہی نہیں بلکہ “لا” یعنی کسی بھی صورت میں وجود نہ ہونے کا اقرار کرنے کے بعد ایک اللہ اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار اور ایمان لانا ہے۔
اس سے ان لوگوں کو خود بخود یہ راز کھل جانا چاہئیے جو “اگر” “مگر” اور “چوں کہ چانچہ” کا سہارا لیتے ہوئے باطل نظریات ۔ زکواۃ کے ساتھ سودی معشیت جو اللہ کے احکامات سے انکاری ہی نہیں بلکہ کھلی جنگ ہے۔ کیونکہ اگر کوئی نامز روزے کی پابندی نہیں کرتا تو وہ فاجر فاسق ہوسکتا ہے مگر یہ سودی معشیت خدا سے اسلئیے جنگ ہیں کہ اس سے خلق خدا کو تنگی ہوتی ہے اور جن باتوں سے خلق خدا کو تنگی ہو۔ فساد خلق خدا کا اندیشہ ہو ان احکامات سے انکاری ہونا اور اسکے برعکس عمل کرنا خدا سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔
“لا الٰہ” میں ہرقسم کے باطل معبودوں الاؤں ، زمینی طاقتوں، شیطانی نظاموں، شیطان، اور ہر وہ باطل نظریات جسے کتنے ہی خوشنما نام دے دئیے جائیں مگر وہ رہتا محض لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔ خواہ ایسے نظریات کو کسقدر ہی چکا چوند بنا کر پیش کیا جائے اگر وہ “لا الٰہ” اور خدا کے تصور سے متضاد ہیں تو وہ باطن ہے۔ اور شیطانی وسوسے ہیں۔ خدا انسانی عقل سے کہیں آگے ہے۔ اور تسلیم رضا میں اگر محض عقل کی کسوٹی کو بنیاد بنا لیا جائے تو انسان خدا کی طرف سے “لا الا” کے حکم سے انکاری ہونے کا مجرم بن سکتاہے۔ اسلئیے جہاں انسانی اور ذاتی عقل خدا کے تصور کا احاطہ نہ کر سکے اس سے آگے خود خداوند تعالٰی کے حکم کے مطابق وجود باری تعٰالی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دینا لازم ہے۔
یہ ایک واضح اور ٹھوس بات ہے میں نے اسمیں کسی کو مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ اپنے فہم کے مطابق ” لا الٰہ” کی مختصر سی وضاحت کی ہے۔ اور میں اپنی بات پہ قائم ہوں ۔ مجھے نہیں علم آپ اس عام سی بحث میں مکی صاحب کو کیسے گھسیٹ لائی ہیں۔ جبکہ میں اپنے پہلے والی رائے میں یہ واضح تو پہ لکھ چکا ہوں۔ کہ :۔
“مکی صاحب کی۔ ۔ ۔خدا کے وجود پہ لایعنی بحث انکے کینفیوز ذہن کی غماز ہے۔ ایک وقت آئے گا وہ بڑی شدت سے خدا پہ یقین کریں گے۔” کیونکہ ایک بات حقیقت ہے جو انسان خاد کی کھوج کرتا ہے وہ لاکھ حیلوں اور حوالوں کے بعد بالآخر خدا کو پالیتا ہے۔ صرف وہ لوگ نہیں پاتے جن کے دلوں پہ خود خدا کی طرف سے مہر لگی ہو ۔ مگر میرا دل یہ کہتا ہے کہ مکی صاحب اپنی تلاش میں سچے ہیں اور ایک دن کو خدا کو پا لیں گے۔
مجھے نہیں علم کہ آپ کو کس پہلو سے میری رائے اچھی نہیں لگی۔ اگر نہیں لگی تو اس پہ دلیل دیں۔ مخاطب کو ڈی گریڈ کرنے سے آپ اپنی ذات کو بائچ تنقید بناتی ہیں
نیچے اپنی پہلی رائے کا تبصرہ دوبارہ سے چسپاں کر رہا ہوں کہ کسی بدگمانی کا امکان نہ رہے۔
” مکی صاحب کی کچھ ترجمہ کی تحریرں خوب ہوتی ہیں البتہ خدا کے وجود پہ لایعنی بحث انکے کینفیوز ذہن کی غماز ہے۔ ایک وقت آئے گا وہ بڑی شدت سے خدا پہ یقین کریں گے۔ البتہ انھیں دریا میں دھکا دینے والے انکے وجود میں اسوقت تک پھونک بھرتے رہیں گے اور انکا نفس پھول کر کپا ہوتا رہے گا۔ جب تک ان نام نہاد روشن خیالوں کو مکی صاحب سے اپنے مطلب کی الا بلا ملتی رہی۔ جس دن اس شخص نے خدا کی پہچان کر لی ۔ اور وہ ایک دن ضرور ایسا کر لیں گے۔ اس دن سے یہ مدح سرائی کرنے والے انہی کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہونگے۔ کیونکہ ایسے لوگاں کے اہداف اور انہیں پانے کے لئیے ایسا لوگاں کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں ۔ اور ایسا لوگاں اپنے اہداف کی مکی سے شرف قبولیت نہ ملنے پہ انہی کے خلاف ہونگے”
ان قارئین اکرام کے لئیے جنہیں اس بارے علم نہیں۔ انہیں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ میں مفتی علامہ یا عالم وغیرہ نہیں ہوں۔ مجھ سےکئی بھول چوک ہوسکتی ہیں۔ بس یہ بی بی کی مفت کی کرم فرمائی کہ وہ مختلف خطابات سے نوازتی رہتی ہیں۔
تصوف اور خاصکر جعلی تصوف جس کا درس پاکستان میں ہر خاص و عام دیتا نظر آتا ہے۔ اسکا کوئی تصور دین اسلام میں نہیں ہے۔ اور اسکی کوئی گنجائش دین اسلام میں نہیں بنتی۔ یہ تصوف اور اسلام دو متضاد نظریے ہیں۔
جب اسلام کی بات ہو تو ہر دوسرا عقیدہ خواہ وہ کچھ لوگوں نے اسلام سے کسقدر قریب کر رکھا ہو۔ وہ باطل ہوجاتا ہے
عربی زبان کو سمجھنے والے کبھی بھی لفظ لا الہ کی تشریح ایسے نہیں کرتے جیسے مجھے یہاں پڑھنے کو ملی ہے۔ عربی زبان کا اک اپنا مخصوص طریقہ ہے بات کی وضاحت کرنے کا اور زور دینے کا- کلمھ طیبہ میں بھی اسی اصول کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پہ تاکید کے لیے مختلف حروف استعمال کیے گے ہیں جن میں سے اک یہ لام نفی بھی ہے اور یہاں بھی اس لا سے مراد یھی ہے- اور ویسے بھی ہر بات میں دلیل کو لانا لازمی نہيں ہوتا۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل ، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
عقل ہماری ناقص ہے اور ہم جس وجود کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ مکمل ہے وہ بے شک کامل ہے۔بہت سے فلاسفر بہت سے دانشور دو ہی جگہوں پہ آ کے بھٹکے ہیں جس کی تاریخ گواہ ہے۔ اک فلسفہ روح اور دوسری عقل کی پرواز جسے ان دانشوروں نے لا محدود سمجھا- اور اسی لیے اللٰہ نے یہ فرما دیا کہ روح میرا امر ہے- اور انسان کی عقل بھی محدود ہے کیونکہ انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے- اس لیے جب عقل ساتھ نہ دے تو یہ کہ دینا چاہیے کہ میں نے اللٰہ کو بغیر کسی دلیل کے جانا۔ اک بزرگ کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ ان کے پاس اللٰہ کے وجود کو ثابت کرنے ک لیے کئ دلیلیں تھیں تو جب وقت مرگ آیا تو شیطان نے ایمان سے ہٹانے ک لیے دلیلیں دینا شروع کیں تو علم کم پڑتا گیا دلیلیں ختم ھوتی گئیں تو آخر میں یہی دلیل کام آیئ کہ میں نے اللٰہ کو بغیر کسی دلیل کے جانا۔
میرے ناقص علم کے مطابق یھی ہے کہ جب اک بار خداءے وحدہ لا شریک لہ کو صدق دل سے مان لیا ´´چاہے وراثت میں ایمان ملا کہ اللٰہ نے عقل سلیم سے عطا فرمایا´´اس کے بعد اس کے وجود پر بحث نہیں بلکہ اس کے احکامات پہ عمل کرنے پہ زیادہ توجہ درکار ہوتی ہے۔
اور جہاں تک رہی بات تصوف کی تو کسی صاحب دل کا کہنا ہے کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اور رسم شبیری سے ہر کوئی واقف ہے۔ لقد کان لکم فی رسوللہ اسوۃ حسنۃ –
میری نہایت موءدبانہ گزارش ہے کہ فتوے دینے، ذاتیات پے اترنے اور خدا کے وجود پے فلسفی دلایل دینے سے اجتناب کریں-اللٰہ کے وجود کو ماننے ک لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہے اور وہ ہماری شھ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے-
کسی بھی بلاگ پہ یہ میرا پہلا تبصرہ ھے- براءے مہربانی میری غلطیوں سے درگزر کرتے ھوئے میری اصلاح کریں- شکریہ-
اقتباس:: چونکہ میں آج بھی یقین رکھتی ہوں کہ مکی صاحب حالت ایمان میں ہی ہیں اسلئے آپکی یہ دروغ گوئ آپکے مسلمانی اخلاق کے لئے بہتر نہیں۔
تبصرہ:: کیا زمانہ آگیا ہے، حق گوئی کو لوگ دروغ گوئی کہنے لگے ہیں۔ جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ پہلی بات تو یہ کہ میں نے مکی صاحب کا نام نہیں لیا۔ میرا اعتراض اس جملے پر تھا۔ بحر حال چونکہ آپ جو یقین رکھتی ہیں اللہ نے ہمیں بھی اس پر یقین رکھنے کا پابند نہیں کیا لہذا اچانک سے صوفی بن جانے پر مبارکباد قبول کیجیے خدا آپ کو جھوٹ، دروغ گوئی، افتراع پردازی، تہمت اندازی اور تعصب میں مزید ترقی عطا فرمائے جو آپ کے قبیل کے صوفیوں کا وتیرہ ہے اور جس کا مظاہرہ آپ وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہیں۔ ہم نے کبھی دینداری کا دعویٰ نہیں کیا ہاں دین بیزاروں سے بیزاری کا اعلان یقیناً ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔۔۔۔
جاوید گوندل صاحب:: لگتا ہے آپا جی جلدی میں نام غلط کرگئیں۔
پھر اللہ قرآن میں کیوں کہتا ہے کہ
اے محمد کہہ ان سے کہ آؤ ہم اس بات پر اکھٹا ہوجائیں جو ہم میں تم میں مشترک ہے یعنی اللہ ایک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یوں تو میرا جواب اجمل صاحب دے چکے ہیں عنیقہ کو۔۔۔
میرے خیال میں تصوف کا اسلام سے دور دور تک کوئی رشتہ یا ناتا نہیں۔۔۔ میں تصوف اور اعمال تصوف کو ایک بدعت سے کم نہیں سمجھتا۔۔۔۔ نا ہی کبھی اتنا شوق چرایا کہ اس کام میں جہاں اسلام سے رشتہ صرف ایک دھاگے کے برابر ہو، اس کے بارے میں کچھ جانوں۔۔۔
جہاں تک بات ہے عنیقہ کی اس تہمت کی کہ ہم جاہل دیندار اور بے عمل عالم ہیں تو بی بی۔۔۔ اللہ دلوں کے احوال اور خفیہ اعمال بھی جانتا ہے۔۔۔ میں جاہل ہی صحیح۔۔۔ لیکن تھوڑا سا دیندار ہونے پر مجھے خوشی ہے۔۔۔ اللہ میرے اعمال قبول کرے۔۔۔ آمین۔۔۔ اور جہاں تک بات ہے بے عمل عالم کی۔۔۔ تو بی بی نا تو میں خود کو بے عمل سمجھتا ہوں اور نا ہی عالم۔۔۔ اس لیے کم از کم “دیندار” کہنے پر ہی آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔۔۔ کہ آپ نے عزت بخشی۔۔۔
اور آخری اور بہت اہم بات یہ۔۔۔ کہ بی بی۔۔۔ آپ اپنا رونا خود تک ہی کیوں نہیں رکھتی۔۔۔ دوسرے بلاگز پر جا کر کیوں رونا شروع کر دیتی ہیں۔۔۔ کیونکہ بلاشبہ آپ کی کوئی بات بھی سیکھنے لائق نہیں ہوتی۔۔۔ آپ کی مثال ایک پتھر سے زیادہ نہیں۔۔۔ جس پر بارش، آندھی اور طوفان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔ نا آپ کسی سے کچھ سیکھنا چاہتی ہیں کہ خود کو عقلِ کل سمجھتی ہیں۔۔۔ اور نا آپ کو کسی کو سمجھانا آتا ہے۔۔۔ وہی بھینس کی ایک ٹانگ۔۔۔
جہاں تک مکی صاحب کی بات ہے تو انہیں تنہا چھوڑ دیں براہ مہربانی۔۔۔ وہ کنفیوز ضرور ہیں۔۔۔ انہیں راہ حق سے ہٹانے میں اپنا رول ادا نا کریں۔۔۔ کہ برابر کی گناہگار ہو جائیں۔۔۔
عبداللہ
مجھے تو اللہ کا يہ فرمان کبھی نہيں بھولا ۔ اپنے بھائی محمد علی مکی اور بہن عنيقہ ناز کو جا کر واضح کريں يہ بات
عنيقہ ناز صاحبہ
جب ميں آپ کو مطالعہ کرنے کا مشورہ ديتا ہوں تو آپ مجھ پر اُچھل پڑتی ہيں ۔ اب ذرا ديکھيئے کہ آپ کے مطالعہ نہ کرنے کا کا کيا نيجہ نکلتا رہتا ہے
جب ميں نے آپ کی تحرير “علم و عمل” کے حوالے سے لکھا “جو لوگ اپنے آپ کو کلمہ گو يعنی اللہ پر ايمان لانے والا سمجھتے ہيں اگر وہ اللہ کے فرمان پر عمل نہيں کرتے تو انہيں آپ کس کيٹيگری ميں رکھيں گی ؟”۔
تو آپ نے 8 مئی 2011ء کو لکھا تھا “میں کسی کو کیوں کسی کٹیگری میں رکھونگی؟”
اس کے بعد آپ نے ميری تحرير “شکريہ محترم شکريہ” جو محمد علی مکی کی بداخلاقی اور الزام تراشی کے جواب ميں تھی کے حوالے سے 11 مئی کو يعنی صرف 3 دن بعد لکھا
“افتخار اجمل صاحب اور عمران اقبال صاحب ۔ آ پ دونوں نے شاید تصوف کی گلیوں میں ذرا سا بھی نہیں جھانکا۔ اس لئے آپ نفی اور اثبات کے اوراد سے واقف نہیں۔ اپنی لا علمی کی سزا دوسروں کو نہ دیں۔ جاہل دیندار اور بے عمل عالم دونوں دین کے لئے خطرناک ہیں۔
علامہ مفتی جاوید گوندل صاحب قبلہ، میں تو اس چیز پہ یقین نہیں رکھتی کہ مکی صاحب مرتد ہو گئے ہیں۔ یہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ آپ ایکدم تصدیق یافتہ خدائی مسلمان ہیں در حقیقت اگر آپکی طرف سے سرٹیفیکیٹ مل جائے تو کسی بھی مسلمان کو آرام سے ہو جانا چاہئیے کہ اب جنت دور نہیں۔
اس جذبہ ئ ایمانی میں آپکو یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ جھوٹ بولنا، افتراع باندھنا، تہمت دھرنا یہ سب منافقین کی نشانیاں ہیں۔ اپنی زبان کو پست طریقے سے استعمال کرنا، تعصب کرنا یہ سب بھی نفاق میں آتا ہے دکھاوے کی دین داری عذاب کا ذریعہ ہے۔
چونکہ میں آج بھی یقین رکھتی ہوں کہ مکی صاحب حالت ایمان میں ہی ہیں اسلئے آپکی یہ دروغ گوئی آپکے مسلمانی اخلاق کے لئے بہتر نہیں۔ امید ہے آپ تنہائ میں رب کریم سے توبہ کریں گے وہ معاف کرنے والا ہے۔ لیکن یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ حقوق العباد کی معافی خدا نہیں دے گا۔ اس کے لئے آپکو مجھ سے اور اوروں سے معافی مانگنی پڑے گی”
آپ نے ايک ہی تحرير ميں اپنے ہمخيال محمد علی مکی کو تو اصلی مسلمان کی کيٹيگری ميں رکھا اور مجھے ۔ عمران اقبال صاحب اور جاويد گوندل صاحب کو بے علم ۔ جاہل ۔ جھوٹا ۔ منافق ۔ نفاق پرست ۔ تہمت باز اور جانے کون کون سی کيٹيگری ميں رکھ ديا”
سو آپ نے خود ہی اپنا کردار پوری طرح واضح کر ديا ۔ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہيں
علم کے متلاشی صاحب
خوبصورت اور درست رائے سے نوازنے پر آپ کا مشکور ہوں ۔ اللہ کی مجھ پر کرم نوازی رہی کيونکہ انسان جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی دی ہوئی توفيق سے ہے ۔ ميں نے علم کے حصول کيلئے سالہا سال تحقيق کی مگر پہلے سے ہی ميرے پيارے اللہ نے ميرے دل و دماغ ميں ڈال ديا تھا کہ اللہ ہے ۔ ايک ہے ۔ ہر چيز کا خالق اور مالک ہے
میں نے اپنے دوسرے تبصرے میں اک تصحیح کی تھی لیکن اب وہ تبصرہ موجود نہیں ھے تو دوبارہ عرض کیے دیتا ھوں کہ میرے پہلے تبصرے میں لام تاکید کو لام نفی پڑھا جاے۔ یہ عربی زبان کا تاکید پیدا کرنے اور زور دینے کا اصول ھے۔ اللٰہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے غلطی ماننے اور اس کی تصحیح کرنے کی توفیق عطا فرمای۔
اللٰہ ہمیں کامل ایمان کے ساتھ زندہ رکھے اور موت بھی ایمان کی حالت میں ھی آے۔ آمین
علم کے متلاشی صاحب
آپ کے تبصرہ کے متن ميں جتنی لکھنے کی غلطياں تھيں ميں نے سب درست کر دی تھيں ۔ اس کے بعد آپ کے دوسرے تبصرہ کی ضرورت نہيں رہی تھی
اور ایمان کیا ہے؟؟؟؟
اس کا فیصلہ کون کرے گا؟؟؟؟؟
مثال کے طورپر میرا ایمان یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا دین تو بس ایک ہے اور وہ ہے اسلام،
یعنی آسان الفاط میں دین تو بس ایک ہے اور وہ ہے امن اور سلامتی،
تو امن اور سلامتی کی بات اگر ایک کٹا کافریا ملحد بھی کرے تو وہ اسلام کی بات ہے اور فساد کی بات اگر ایک بظاہر مومن تہجد گزاربھی کرے تو وہ غیراسلامی ہے!
عبداللہ
مجھے تو اللہ کا يہ فرمان کبھی نہيں بھولا ۔ اپنے بھائی محمد علی مکی اور بہن عنيقہ ناز کو جا کر واضح کريں يہ بات
مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے بھی صرف یاد رکھا ہوا ہے عمل اس کے مخالف ہے!
تصوف کیا ہے؟؟؟؟؟
اپنے نفس کو قابو کرنا،اللہ کی رضا کے مطابق،
اور اللہ کی رضا کیا ہے وہ میں اوپر لکھ چکا ہوں،امن اور سلامتی سب کےلیئے
یعنی اس کے بندوں کی بلاتخصیص رنگ و نسل و مزہب خدمت کرنا!
جس نے یہ کیا اس نے فلاح پائی
یہ بلاگستان کبھی کبھی اکھاڑہ کیوں بن جاتا ہے؟ مجھے تو مفتی صاحب کی ایک بات بہت اچھی لگتی ہے۔ فرماتے تھے، اللہ ایک جنکشن ہے جہاں بہت سی برانچ لائنیں آکر ملتی ہیں۔ ہم اللہ کو ایک برانچ لائن سمجھے بیٹھے ہیں۔ سائنس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کبھی بھی کاملیت کا دعوٰی نہیں کرتی لیکن سائنس کو ماننے والے اسے کامل منوانا چاہتے ہیں۔ ابھی تو نیوٹن کے قوانین حرکت اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافت میں مطابقت پیدا نہیں کرسکے ہم۔ کائنات میں کتنی جہتیں “Dimensions” ہیں یہ معلوم نہیں۔ میرے تئیں خدا اور سائنس کے متعلق کوئی بھی فیصلہ صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب سائنس اعلان کردے کہ وہ کامل ہوگئی ہے اور اب کوئی ایسا عقدہ موجود نہیں جو لاحل ہو۔ اس وقت سے پہلے خدا کا سائنس سے تقابل یا سائنسی لحاظ سے خدا کا وجود/عدم وجود ثابت کرنا بچپنا ہے سائنسی رویہ نہیں۔
عبداللہ
اچھی بات بہر طور اچھی ہوتی ہے ۔ کيا رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے يہودی قيديوں سے نہيں کہا تھا کہ جو قيدی دس مسلمانوں کو پڑھا دے اُسے رہا کر ديا جائے گا ؟
ميں آپ پر اعتراض نہيں کر رہا ۔ لکھتے لکھتے مجھے محمد علی مکی کی سيکولرزم تھيوری يا د آ گئی ہے ۔ جس کے مطابق جن مسلمانوں نے يہوديوں سے پڑھا تھا وہ خدانخواستہ يہودی ہو گئے
عبداللہ
ابھی آپ امن اور سلامتی کی بات کرہے تھے اور ابھی اسے بھول گئے ہيں ۔ کسی پر تہمت لگانا غيبت سے بڑا گناہ ہے
عبداللہ
تصوف کی کئی کتابيں پڑھ رکھی ہيں مگر جو تصوف ہمارے ہاں لوں کے ذہنوں ميں ہے اس کے ساتھ قرآن و سنت کا کوئی تعلق نہيں ۔ اگر ہے تو وہ آيات بتا ديجئے