بقول امريکی اہلکاروں کے اُسامہ بن لادن کو ڈھوندنے اور ہلاک کرنے پر امريکا کے 1.3 ٹريلين يا 13 کھرب ڈالر خرچ ہوئے ۔ لمحہ بھر کيلئے سوچئے کہ انسانی حقوق اور بھائی چارے کا عملبردار مگر دراصل منافقت کا انبار امريکا اگر اس سے آدھی رقم انسانيت کيلئے خرچ کرتا اور اپنی دہشتگردی چھوڑ ديتا تو ساری دنيا امريکا کی گرويدہ بن چکی ہوتی ۔ آج اس کے بر عکس جتنی امريکہ دُشمنی دنيا بھر کے عوام کے دلوں ميں ہے اتنی اور کوئی چيز نہيں
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ثابت کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ یہ آسان کام میڈیا کیلئے بہت مشکل ہے کیونکہ میڈیا پر سی آئی اے کاکنٹرول مضبوط ہے۔ اسکی مثال لوئیس پوساڈا ہے جو کیوبا، ونیزویلا اور پانامہ سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے لیکن سی آئی اے نے اسے اپنا مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے اور امریکی میڈیا سی آئی اے کی اس ”دہشت گرد نوازی“ پر چپ سادھے بیٹھا ہے
پوساڈا کیوبا کا ایک باغی ہے جس نے امریکی فوج سے تربیت حاصل کی اور سی آئی اے دستاویزات کے مطابق وہ اس کا تنخواہ دار ہے۔ اس نے 6 اکتوبر 1976ء کوکیوبا کے ایک مسافر بردار طیارے میں 2 ٹائم بم نصب کروا کر طیارے کو تباہ کیا جس میں 73 افراد مارے گئے۔ ونیزویلا کی ایک عدالت میں 2 ملزمان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پوساڈا کے کہنے پر طیارے میں بم نصب کئے۔ اس اعتراف کے بعد پوساڈا کو ونیزویلا میں گرفتار کر لیا گیا لیکن 1977ء میں وہ جیل سے فرار ہو گیا۔ ونیزویلا کی حکومت نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے دوبارہ گرفتار کر لیا لیکن سی آئی اے نے 1985ء میں بھاری رقم خرچ کر کے پوساڈا کو ایک دفعہ پھر جیل سے بھگا دیا
1997ء میں پوساڈا نے سی آئی اے کی مدد سے کیوبا کے مختلف ہوٹلوں میں بم دھماکے کئے تاکہ کیوبا جانے والے سیاح خوفزدہ ہو جائیں۔ ان دھماکوں میں کئی مغربی سیاح مارے گئے
2000ء میں پوساڈا ایک دفعہ پھر پانامہ میں سینکڑوں کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار ہو گیا۔ وہ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو پر قاتلانہ حملے کیلئے پانامہ آیا تھا جو 40 سال میں پہلی دفعہ پانامہ کے دورے پر آ رہے تھے۔ اس گرفتاری کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش بہت پریشان ہوئے کیونکہ یہ سی آئی اے کی بہت بڑی ناکامی تھی لیکن بُش حکومت نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ پانامہ کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ اس دہشت گرد کو رہا کر دیا جائے۔ آخرکار پانامہ نے2004ء میں پوساڈا کو چھوڑ دیا اور سی آئی اے اسے امریکا لے آئی
ونیزویلا اور کیوبا نے اس دہشت گرد کی امریکا میں آؤبھگت پر شور ڈالا تو 2005ء میں سی آئی اے نے ایک ڈرامہ کیا ۔ امیگریشن قوانین کے تحت امریکا میں غیر قانونی قیام کے الزام میں پوساڈا پر ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ کئی سال تک مختلف عدالتوں میں اس مقدمے کی سماعت ہوتی رہی اور آخرکار 9 اپریل 2011ء کو ٹیکساس کی ایک عدالت نے پوساڈا کو بری کر دیا
ذرا سوچئے کہ پوساڈا کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا اور اس نے بم دھماکے سے فضا میں طیارہ تباہ کر کے 73 افراد کی جانیں نہ لی ہوتیں بلکہ کسی امریکی کو صرف ایک تھپڑ مارا ہوتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟ شاید وہی ہوتا جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہوا جس پر قتل کا کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا لیکن اسے 86 سال قید کی سزا سنائی گئی
پوساڈا پر ونیزویلا میں مقدمہ چلا اور سزا سنائی جا چکی لیکن وہ امریکا کی آنکھ کا تارا ہے۔ ونیزویلا کے صدر ہیوگوشاویز اس دہشت گرد کو امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے لیکن میڈیا پوساڈا کے ساتھ سی آئی اے کی محبت کو سامنے لانے سے کتراتا ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم اپنے ناقد صحافیوں کو مختلف طریقوں سے سبق سکھاتی رہتی ہے
لیبیا کی مثال لے لیجئے۔ معمر قذافی کی حکومت ختم کرنے کیلئے سی آئی اے نے ایسے گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے جو القاعدہ کے حامی ہیں۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پیرس میں قذافی مخالف اتحاد کے رہنما محمود جبریل سے ملاقات کی۔ محمود جبریل ایک ایسے اتحاد کے رہنما ہیں جس میں لبیا اسلامک فائٹنگ گروپ بھی شامل ہے جس نے 2007ء میں کھُلے عام القاعدہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ القاعدہ کے رہنماؤں ابولیث اللبی اور ابو فراج اللبی کا تعلق اسی گروپ سے تھا
اس وقت قذافی کے خلاف امریکی اسلحے سے لڑنے والے باغیوں کے 2 کمانڈر سفیان بن قومو اور عبدالحکیم الحاسدی کا القاعدہ کے ساتھ تعلق خود امریکا کو بھی معلوم ہے۔ سفیان بن قومو 2001ء میں قندوز سے گرفتار ہوا اور اس نے امریکا کی گوانتاناموبے جیل میں 6 سال گزارے۔ وہ 2007ء میں رہا ہوا اور قذافی حکومت نے اسے گرفتار کر لیا۔ عبدالحکیم الحاسدی کو 2002ء میں پاکستانی حکومت نے گرفتار کر کے لیبیا کے حوالے کیا۔ یہ دونوں 2008ء میں قذافی سے معافی حاصل کر کے رہا ہوئے لیکن حالیہ بغاوت کے بعد امریکا کے حمایت یافتہ گروپوں کے ساتھ جا ملے۔ امریکا کو ان کے ماضی سے کوئی غرض نہیں اسے صرف اور صرف معمر قذافی کو ہٹانے سے غرض ہے
سچ یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کا مخالف نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست میں اکثر اہداف کے حصول کیلئے لوئیس پوساڈا اور عبدالحکیم حاسدی جیسے دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ اگر آپ امریکا کے ساتھی بن جائیں تو سب ٹھیک ہے ورنہ آپ دہشت گرد ہیں۔ آج کل امریکا افغان طالبان کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے انہیں اپنا دوست بنائے اور پھر اس دوستی کو خطّے میں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکے
اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ جب سے امریکا نے افغانستان میں قدم جمائے ہیں کہاں کہاں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کم ہوئی اور پاکستان میں بڑھ گئی
پاکستان میں جب بھی طالبان سے مذاکرات کی کوشش ہوئی امریکا نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ 27 مارچ 2004ء کو پاکستانی فوج نے شکئی میں مقامی عسکریت پسند نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کیا اور 18جون 2004 ء کو امریکا نے اپنے پہلے ڈرون حملے میں نیک محمد کو ختم کر دیا۔ اس ڈرون حملے نے بیت اللہ محسود کو پیدا کر دیا
2005ء میں مجھے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں نیک محمد کے ایک ساتھی نے بتایا کہ معاہدہ شکئی سے پہلے نیک محمد کو خوست کے راستے سے امریکیوں نے پیغام بھیجا کہ تم پاکستانی فوج کی بجائے ہمارے ساتھ بات کرو تو فائدے میں رہو گے۔ نیک محمد نے انکار کر دیا اور موت اس کا مقدر بنی۔ 30 اکتوبر 2006ء کو باجوڑ میں ایک معاہدہ ہونے والا تھا جس کے بعد اس علاقے میں عسکریت مکمل طور پر ختم ہو جاتی لیکن اسی دن امریکیوں نے ایک مدرسے پر ڈرون حملے میں 90بچّے شہید کر دیئے اور اس حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا
وہ لوگ جو ڈرون حملوں کو پاکستان کیلئے خطرہ نہیں سمجھتے ان کی عقل پر محض ماتم کیا جا سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے صرف اور صرف ڈرون حملوں کے ردّعمل میں جنم لیا۔ یہ پہلو بہت تشویشناک ہے کہ 2006ء میں صرف 2حملوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا۔ 2007ء میں 4 ڈرون حملے ہوئے، 2008ء میں 33 ۔ 2009ء میں 53 اور 2010ء میں 118ڈرون حملے ہوئے۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف خودکش حملوں میں اضافہ ہوا۔ آپ قبائلی علاقوں میں چلے جائیں اور اگر وہاں عسکریت پسند مل جائیں تو پوچھ لیں کہ تم نے ہتھیار کیوں اٹھائے؟ 90 فیصد عسکریت پسند کہیں گے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ہتھیار اٹھائے
ڈرون حملوں کے اس کھیل کا اصل مقصد دہشت گردوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو ختم کرنا ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو لوئیس پوساڈا جیسے دہشت گردوں کی مہمان نوازی نہ کرتا جسے ونیزویلا، امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتا ہے
بشکريہ ۔ جنگ
Pingback: سب سے بڑا دہشتگرد کون ؟ | Tea Break
افتخار صاحب ڈرون کے حق میں کوئی بھی نہیں ہے تو پھر امریکہ کے ڈرون کا بدلہ معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں سے لینا کہاں کا انصاف ہے ؟
فکرِ پاکستان صاحب
ميرے اور آپ کيلئے درست نہيں ہے ليکن اُن سے پوچھيئے جب کے بيوی بچے يا والدين گھر بيٹھے اچانک چيتھڑوں ميں تبديل ہو جاتے ہيں
ان ڈرون حملوں کے قصوروار ميں اور آپ بھی ہيں کيونکہ ان کی اجازت ہمارے حکمرانوں نے دے رکھی ہے جن کے خلاف ابھی تک ہم نے کچھ بھی نہيں کيا