سليم صافی کے مضمون کا درجِ ذيل حصہ ماضی ميں گذرے حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے وہی سمجھ سکتے ہيں جو اُس دور ميں بالغ النظر تھے
بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کو 3 ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
پہلا دور ۔ 1968ء سے 1970ء تک ۔ جو نہایت بھرپور تھا اور جس میں وہ ایک انقلابی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ اس دور میں وہ متنازع بھی تھے لیکن مغربی پاکستان کی اکثریت کی صفوں میں نہایت مقبول بھی رہے
دوسرا دور ۔ ان کا اقتدار یعنی 1970ء سے 1977ء تک ۔ ان کا یہ دور نہایت متنازع ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے دشمنوں کی تعداد بڑھائی
اس دور میں
ڈاکٹر نذیر کی ہلاکت
لیاقت باغ میں نیپ کے جلسے پر فائرنگ
ایف ایس ایف کی تشکیل
بلوچستان آپریشن اور
اسی نوع کے دیگر ہزاروں ناپسندیدہ واقعات ہوئے
اس دور کے بھٹو کے کارنامے بھی بہت ہیں لیکن اس کے شدید متنازع ہونے میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں
تیسرا دور ۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد کا دور ہے ۔ یہ دور نہایت تابناک اور شاندار ہے ۔ پھانسی نے بھٹو کو ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ اس دور میں وہ متنازع سے غیرمتنازع لیڈر بنتے گئے ۔ خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود جیسے ان کے شدید مخالفین نے بھی ان کو معاف کردیا اور ان کے بیٹے ۔ان کی بیٹی اور پھر داماد کے ہمسفر بن گئے ۔ بھٹو ایک جماعت کی بجائے قوم کے لیڈر بن گئے اور ہم [سليم صافی] جیسے طالب علم بھی ہر سال ان کی برسی اور سالگرہ کے موقع پر ان کی یاد میں کالم لکھ کر ان کی پھانسی کو ملک و قوم کے لئے شدید نقصان قرار دینے لگے
لیکن افسوس کہ اب ان کے سیاسی جانشین [حادثاتی سہی] ان کو ایک بار پھر متنازع کرنے لگے ہیں ۔ اب جب ان کا مقدمہ دوبارہ زندہ ہوگا تو ان کے 1968ء سے لے کر 1977ء کے سیاسی دور کے واقعات بھی زندہ ہوں گے
اگر بھٹو کی قبر بولے گی
تو پھر ڈاکٹر نذیر اور ایف ایس ایف کے ہاتھوں مرنے والے دیگر لوگوں کی قبریں بھی خاموش نہیں رہیں گی
اور جب وہ بولیں گی تو بھٹو ایک بار پھر متنازع بنیں گے
Pingback: نئے ڈرامہ کے ذریعے عدلیہ، میڈیا اور قوم کا وقت برباد کرنے کا کیاجواز؟ | Tea Break
انکل یہ لوگ قوم کو کن کاموں میں پھنسا رہے ہیں۔۔۔ بندہ مر گیا ہے۔۔۔ اب تو اسے اور قوم کو سکون سے رہنے دیں۔۔۔ پتا نہیں کن اہم معاملوں کو چھپانے کے لیے یہ ڈرامہ رچا جا رہا ہے۔۔۔ اللہ ان کو عقل دے۔۔۔ بے نظیر کے قاتل تو اب تک پکڑ نہیں سکے اور بھٹو کو پھر سے رگڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔
عمران اقبال صاحب
زرداری کا اصل مقصد کچھ اور ہے ۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کيا کرتا ہے
بھٹو فیملی خواہ کسقدر ووٹ لیکر جیتے۔ اسکی پشت پناہی پہ امریکہ، برطانیہ یا سارا مغرب ہی کیوں نہ ہو۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں نہائت”سائیٹفک” طریقے سے ہیرا پھیری سے ننگ ملت غدارِ وطن قسم کے لوگ پاکستان کے سربراہ بنتے رہے ہیں۔ بھٹو خاندان کی سربراہی میں پیپلز پارٹی سونا بھی بن جائے۔ لوگ اسے کتنا مقدس کیوں نہ قرار دیں مگر ایک بات میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو اور پاکستان اکھٹے نہیں چل سکتے۔
اور آپ نے مشرقی پاکستان کے سقوط کا تزکرہ نہیں کیا۔اسکے ذمہ داروں میں بھٹو بھی شامل تھا۔
جاويد گوندل صاحب
ميں نے صرف سليم صافی کے مضمون سے اقتباس نقل کيا ہے ۔ اپنی طرف سے کچھ نہيں لکھا