دوسرا کرزئی جو تيار کيا جا رہا ہے کے ذکر سے پہلے موجودہ کرزئی يعنی افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے پسَ منظر کے متعلق معلوم ہونا ضروری ہے ۔ حامد کرزئی کے آباؤ اجداد افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کے نمک خوار تھے ۔ حامد کرزئی نے بھارت سے ماسٹرز کيا اور امريکا کے ايماء پر 1980ء ميں روس کے خلاف جنگ کيلئے چندہ جمع کرنے کے نام پر پاکستان ميں مقيم ہوا ليکن دراصل وہ يہاں امريکی سی آئی اے کا رابطہ تھا ۔ انہی دنوں حامد کرزئی کا باقی خاندان امريکا منتقل ہو گيا تھا پھر جب ڈاکٹر عبداللہ امريکا سے لا کر افغانستان صدر بنانے کی کوشش ناکامم ہوئی تو حامد کرزئی کے حق ميں قرہ نکلا ۔ يہ تو سب جانتے ہيں کہ افغانستان کا صدر ہوتے ہوئے حامد کرزئی کے اختيار ميں کچھ بھی نہيں ۔ اُس کی حيثيت ايک کٹھ پُتلی سے زيادہ نہيں
لبيا ميں 1969ء کے انقلاب کے بعد امريکی اور يورپی کمپنيوں کو ملک سے نکال ديا گيا تھا ۔ 30 سال بعد فرانس کے صدر نے دوستی کا ہاتھ بڑھايا تو شايد مغربی دنيا کو خوش کرنے کيلئے معمر قذافی نے يورپی کمپنيوں کو لبيا ميں کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ عام رائے يہی ہے کہ شروع ميں فرانس کی خفيہ ايجنسيوں نے کام دکھايا اور پھر برطانيہ کی خفيہ ايجنسی ايم آئی 6 نے بات آگے بڑھائی ۔ ہر مُلک ميں کچھ لوگ حکمرانوں سے ناراض ہوتے ہی ہيں مزيد لبيا کی قبيلاتی طرزِ زندگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں کو راہ پر لگا ليا گيا ۔ يہ کام بنغازی ميں شروع کيا گيا جہاں معمر قذافی کا قبيلہ نہيں ہے ۔ برطانوی ايم آئی 6 کے لوگوں نے تو يہاں تک کيا کہ لبيا کے صدر معمر قذافی کو سپورٹ کرنے والے اعلٰی فوجی افسروں کو ٹيليفون پر بغاوت کا ساتھ دينے يا موت کيلئے تيار رہنے کا پيغام ديا اُسی طرح جيسے امريکی سيکريٹری آف سٹيٹ ريٹائرڈ جنرل کولن لوتھر پاول نے جنرل پرويز مشرف کو ٹيليفون پر کہا تھا “تم ہمارے ساتھ ہو يا ہمارے ساتھ نہيں ہو ؟ اگر ہمارے ساتھ نہيں ہو تو پتھر کے زمانہ ميں جانے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔ پرويز مشرف کی تو يہ سُنتے ہی پتلون گيلی ہو گئی تھی مگر ليبی فوجی افسر نہ ڈرے
بالآخر انسانيت کے نام پر امريکا ۔ برطانيہ اور فرانس نے اقوامِ متحدہ کی ايک مُبہم قرارداد کا سہارا لے کر لبيا پر حملہ کر ديا جس کی تياری اُنہوں نے بہت پہلے سے کر رکھی تھی ۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ سلامتی کونسل امريکا کے ہاتھ کا اوزار سے زيادہ حقيقت نہيں رکھتی ۔ مگر يہ سب کچھ اچانک نہيں ہوا ۔ پہلے مغربی ذرائع ابلاغ نے بالکل اُسی طرح معمر قذافی کے خلاف فضا قائم کی جس طرح 2003ء ميں عراق پر حملہ کرنے سے قبل ڈبليو ايم ڈی کا جھوٹ بول کر امريکا نے صدام حسين کے خلاف فضا قائم کی تھی
لبيا پر حملے کا مقصد بھی وہی ہے جو عراق پر حملہ کرنے کا تھا ۔ ان مُلکوں کی قدرتی دولت يعنی تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ۔ عراق ميں اپنے فوجی اُتار کر چونکہ بھاری نقصان اُٹھا چکے ہيں اسلئے لبيا ميں اپنی فوج اُتارنا نہيں چاہتے چنانچہ افغانستان کے حامد کرزئی کی طرح ايک اور کرزئی کی ضرورت تھی جو تلاش کيا جا چکا ہے ۔ وہ لبيا ميں فرنگی کی پشت پناہی سے چلنے والی نام نہاد تحريک انسانيت کا سربراہ “محمود جبريل” ہے جو عرصہ سے امريکا ميں رہائش پذير تھا اور اُس کے رابطے براہِ راست فرانسيسی انٹيلی جنس ۔ برطانوی ايم آئی 6 اور امريکی سی آئی اے سے ہيں ۔ ہاں اگر وہ ان کے سانچے ميں پورا نہ اُترا تو کسی اور کو لے آئيں گے
وجہ انسانی جانوں اور جمہوريت کو بچانا بتائی جا رہی ہے ۔ گويا ان بے مہار طاقتوں کے برسائے گئے بموں اور مزائلوں سے نہ تو کوئی انسان مر رہا ہے اور نہ ہی انسانوں کے اثاثوں کو نقصان پہنچ رہا ۔ جس معمر قذافی کو اب عفريت [monster] کہا جا رہا ہے اسی کے متعلق چند سال قبل امريکا کے صدر جارج ڈبليو بُش نے کہا تھا “قذافی دہشتگردی کے خلاف ہمارا قابلِ اعتماد ساتھی ہے”۔ انسانيت اور جمہوريت کا فريب رچا کر کسی خود مُختار مُلک پر حملہ کرنا منافقت اور جنگ جُوئی کے سوا کيا ہو سکتا ہے ؟ ان فرنگيوں کو انسانيت کی اتنی پروا ہے کہ ہر طرف انسانوں کی لاشيں بکھير رہے ہيں ۔ جمہوريت کی امريکا اتنی قدر کرتا ہے کہ ہميشہ آمريت کی پُشت پناہی کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے
دنيا والے کہتے ہيں کہ امريکا لبيا کے لوگوں کو قذافی سے بچائے گا مگر لبيا کے لوگ پوچھتے ہيں کہ “انہيں امريکا سے کون بچائے گا ؟” جب تجارت کو قوميايا گيا تھا تو چند ليبی تاجر بھی اس کی زد ميں آئے تھے ۔ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت کا بدلہ لينے کيلئے اُن کی اولاد بھی باغيوں کے ساتھ شامل ہو گئی ہو ۔ امريکا ۔ فرانس اور برطانيہ کے بموں اور مزائلوں سے جو لوگ ہلاک ہو رہے ہيں کيا وہ ليبی نہيں ؟ اور جو اثاثے تباہ ہو رہے ہيں کيا اس کا نقصان پوری ليبی قوم کو نہيں ہو گا ؟
معمر قذافی جو کچھ بھی ہے وہ ايسا اس سال يا پچھلے دو چار سالوں ميں نہيں بنا بلکہ شروع دن يعنی يکم ستمبر 1969ء سے ہی ايسا ہے ۔ جب اُس نے ادريس سنوسی کی حکومت کا تختہ ايک سُپر پاور کی پُشت پناہی سے اُلٹا تھا تو عوام جنہوں نے معمر قذافی کا ساتھ ديا تھا ان کو لبيا کے وسائل پر امريکا اور يورپ کا قبضہ نہ بھاتا تھا ۔ اس زمانہ ميں تيل کے کنووں پر امريکا کا قبضہ تھا اور تجارت پر اٹلی کا ۔ يکم ستمبر 1969ء کے انقلاب کے بعد ان غيرملکيوں کو نکال ديا گيا اور ان کی جگہ مصری ۔ فلسطينی اور بالخصوص پاکستانی تعليم يافتہ لوگوں کو بلايا گيا ۔ 1970ء ميں جنرل آغا محمد يحیٰ خان کے دور ميں معمر قذافی کی درخواست پر پاکستان سے گريجوئيٹ انجيئرز ۔ ڈاکٹرز ۔ ڈپلومہ انجنيئرز ۔ ليباريٹری ٹيکنيشيئنز اور نرسز کی پہلی کھيپ لبيا بھيجی گئی تھی ۔ اس کے بعد مختلف اداروں سے ماہرين بھيجے جاتے رہے
معمر قذافی کے زمانہ کی کچھ باتيں
آٹھويں جماعت تک تعليم بالکل مُفت ۔ اس کے بعد کی تعليم معمولی خرچ کے ساتھ اور ترقی يافتہ ممالک ميں اعلٰی تعليم کيلئے داخلہ حاصل کرنے والے طالب علموں کے سارے اخراجات بھی حکومت کے ذمہ
علاج معالجہ بالکل مفت ہسپتال ميں داخل مريضوں کو کھانا پينا بھی مفت ۔ ہر قسم کا علاج اور دوائی ہسپتال ميں ميسّر ہوتی ہے
بچے کی پيدائش پر 2 سال تک بچے کی خوراک کيلئے خُشک دودھ حکومت مُفت مہياء کرتی ہے
حکومت آٹا ۔ چاول ۔ چينی اور کچھ دوسری روزمرہ کے استعمال کی اشياء پر بھاری سبسڈی ديتی ہے
ہر خواہشمند بالغ ليبی کو ملازمت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
ايک انوکھے منصوبہ “بيت لساکنہُ” پر بھی عمل کيا گيا جس کے تحت ہر ليبی خاندان کو رہنے کيلئے مکان مہياء کيا گيا ۔ اس منصوبہ کے اعلان سے قبل سينکڑوں مکانات حکومت نے تعمير کروا لئے تھے ۔ مکان لينے والوں نے تعمير کی لاگت [بغير سود] 360 ماہانہ اقساط ميں تنخواہ ميں سے کٹوانا تھا يا اقساط نقددينا تھيں
لبيا کی فی کس سالانہ آمدن 12000 ڈالر ہے
ہمیں اس بات سے غرض نہیں تھی کہ مشرف امریکہ کا کاسقدر چمچا تھا۔ مسئلہ یہ تھا اور یہ مسئلہ لمبتے عرصے تک رہے گا، کہ مشرف کے چمچہ بن جانے سے ریاست پاکستان اپنے شہریوں کے سروں کی فصل کاٹ رہی ہے۔ اور اللہ جانے کب تک کاٹے گی۔ غریبی کا عفریت قومی سلامتی کو نگل لینے کو ہے اور ہمارے موجودہ حکمران آنکھیں بند کئیے امریکہ کی لگائی آگ میں پوری قوم کو جھلس رہے ہیں۔ اور صبح شام اس شیطانی جنگ جس میں مرنے والے اور مارنے والے پاکستانی ہیں۔ ہمارے بودے حکمران اس جنگ کو مقدس امرت دھارا قرار دے کر اسے قوم کے حلق سے نیچے اتارنے کو تیار رہتے ہیں۔
کچھ لوگ جن اٹھان مغربی طرز تعلیم اور سوچ پہ ہوئی ہے۔ جو اپنے آپ کو روشن خیال کہلاتے تھکتے نہیں مگر درحقیقت وہ پاکستان کےخلاف مغربی مفادات کے لئیے ففتھ کالم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے خلاف اپنے معاندانہ اور مسلسل پروپگنڈے سے یہ قوم کو بزدلی اور بے غیرتی کا درس دیتے ہوئے سبق نشین کرتے ہیں کہ اگر پاکستان اس شرمناک جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کاکرادار ادا نہ کرے تو تو اسے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جاتا۔ایسے میں ہمارا سوال ہے کہ امریکہ کی بھڑکائی جنگ میں اپنے تیس ہزار معصوم پاکستانی جانوں کو قربان کر کے اور پاکستان میں غریبی اور مفلسی کے عفریت سامنے قوم کو بے یارو مددگار چھوڑ دینے سے۔ پانی، بجلی، گیس، روزی، روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، گیس بجلی تیل کی کمی پہ صنعتوں کی بندش سے کیا پاکستان پتھر کے دور میں نہیں جی رہا۔ کیا اب ہم پتھر کے دور سے آگے بڑھ چکے ہیں ؟
اسمیں کوئی شک نہیں کہ پاکستان امریکہ کے مقابلے میں فوجی اور دیگر ٹیکنالوجی میں کمتر ہے مگر قوموں کی آزادی اور تقدس کا پیمانہ صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں ہوا کرتا۔ اگر پاکستان پہ قابض تب مشرف انکار کر دیتا تو امریکہ پاکستان کا کیا بگاڑ لیتا؟۔ زیادہ سے زیادہ پاکستان سے جنگ کرتا جو اسے افغانستان اور عراق میں جاری جنگ کی وجہ سے نہائت مہنگی ثابت ہوتی۔ جسطرح زمانہامن کی ایک عمر ہوتی ہے اسی طرح جنگوں کی عمر اور طوالت زمانہ امن سے بھی نہائت مختصر ہوتی ہے۔ انتہائی نقصان دہ صورت میں فرض کر لیں پاکستان بھی جنگ سے گزرتا۔ پاکستان کا نقصان ضرور ہوتا مگر باعزت اقوام کی طرح اس جنگ سے جو پاکستان جنم لیتا اسمیں امریکہ اور غیر ملکی قوتوں کا کوئی عمل دخل نہ ہوتا۔ کب سے عراق سے امریکہ کو اپنی دکانداری سمیٹنی پڑی۔ عنقریب افغانستان سے بھی اسے پسپا ہونا پڑے گا۔ تو کیا پاکستان ہی اس قدر تر نوالہ ثابت ہوتا کہ وہ اتنے سال یہاں ٹک سکتا؟
جبکہ آج پوری قوم درد زہ سے گزر رہی ہے ۔ جنگوں میں جان جاتی ہے۔ نقصان ہوتا ہے مگر قومی غیرت جاگتی ہے ۔ قومیں جاپان وغیرہ کی طرح نئے جنم لیتی ہیں۔ جنگ ہار جائیں پھر بھی دنیا میں انھیں عزت سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہے عزت بھی گئی اور جان بھی۔ اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا اور پتہ نہیں پاکستان کے عوام کتنی دہائیاں مذید اس بے عزت زندگی کو بھگتیں گے۔ کب تک ہمارے ملک میں بسیرہ کرتے امریکیوں کے لئیے قریبی مساجد سے ازانوں سے بند کروایا جاتا رہے گا۔کب تک پاکستان ایک تنخواہ دار اردلی کا کردار ادا کرتا رہے گا۔ قوم غریبی اور مفلسی کی چکی میں پسے گی۔ دو وقت کی روٹی کی خاطر لوگ خودکشیاں کرتے رہیں گے؟ اور یہ سب کچھ محض حکمرانوں اور مشرفوں کی اپنی جان بچانے کی خاطر اور ایک ایسی جنگ میں پاکستان کو ملوث کرنے کی وجہ سے جس میں جان تو گئی عزت سادات بھی جاتی رہی۔ کیا یہ حالات میدان جنگ بنے ممالک کے عوام سے زیادہ المناک نہیں؟ اگر پاکستان پہ جنگ مسلط کردی جاتی تو اس بدتریں صورتحال میں بھی یہ روز روز کے مرنے سے ایک بار مر کر جو حیات لافانی قوم کو نصیب ہوتی وہ اس بزدلی اور بے غیرتی سے ہزار درجے بہتر ہوتی۔ عوام کے مسائل بڑھتے۔ تو کیا اب عوام کے مسائل بڑھے ہوئے نہیں؟ ہاں البتہ سبھی مشرفوں، بھٹوؤں، شریفوں، اسفندوں، پگاڑوں، الطافوں کی بساط پاکستان سے ہمیشہ کے لئیے سمت جاتی ۔ اور یقین مانیں یہی وہ لوگ ہیں۔ جن کی خوئے غلامی کی وجہ سے انھیں تو انعامات سے نوازا جاتا ہے مگر پوری قوم اپنے بچے پیچنے پہ مجبور کر دی گئی ہے۔
امریکہ اور ہمنواؤں کی نفسیات نہائت سیدھی ہے جسے ہمارے غداران ملک و ملت اقتدار کے حرس و طمع کی وجہ سے نہیں سمجھ پاتے۔ امریکہ جس کا دوست بن جائے اسے دشنوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ ہر حکمران کو اسکی قوم کو کمزور کرنے کے لئیے استعمال کرتے ہیں۔ مشرفوں، ضیاؤں، بھٹوؤں۔ کرزئیوں، مبارکوں اور قذافیوں کے لئیے صدقے واری جاتے ہیں۔ ان کے لئیے سرخ قالین بچھاتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو اپنے رومال سے انکے جوتے چمکاتے ہیں۔ صبح شام انکی مدح سرائی کے لئیے ایلچی بیجھے جاتے ہیں۔ انکے لئیے کیمپ ڈیوڈؤں میں ناشتے کا خاص بندوبست کیا جاتا ہے۔ انکی سلامتی اور صحت کے لئیے صبح شام دعائیں منگوائی جاتی ہیں۔ انھیں ظل الہٰی کہلوا کر پکارا جاتا ہے۔ تاوقتیکہ کہ ان مسلمان قوموں میں مسلمان ملکوں کے ان سربراہوں سے بڑھ کر بے غیرت اور لالچی حکمران نہیں مل جاتے جو ان مشرفوں کرزئیوں قذافیوں سے کم تنخواہ پہ اپنی قوم کو کمزور کرنے کے لئیے زیادہ کمربستہ نظر آتے ہیں۔ تب وہی گردنیں جن کے بوسے امریکن ایلچی صبح شام لیتے تھے وہ گردنیں پاھنسی کے پھندوں پہ جھول دی جاتی ہیں۔ جوتوں کی چمک دھمک اور نکھار کو واضح کرنے کے لئیے بچھائے گئے سرخ قالین ایک جھٹکے سے الٹ دئیے جاتے ہیں۔ مشرف ، کرزئی ، مبارک اور قذافی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ پرانی دوستی جو قوم کی غداری پہ مبنی ہوتی ہے انکے حوالے دئیے جاتے ہیں۔ اپنے بعد اس ملک میں ان جیسا وفادار نہ ملنے کے اندیشہ ہائے دور است بیان کیا جاتا ہے۔ قذافی کے جانے پہ لیبیا پہ القاعدہ کے قبضے کے بیان چھوڑے جاتے ہیں اپنی وفاداریوں کی یقین دہانی کروارئی جاتی ہے۔ مگر امریکہ اور ہم نوا مسکراتے، جام لنڈھاتے نئے غداروں کے ناموں پہ وش کرتے ہیں۔ ضیاوں کے طیارے پھٹ جاتے ہیں۔ پھانسی کے پھندوں پہ گردنیں جھولتی جاتی ہیں۔ قذافی اپنے بنکروں میں مجبور کر دئیے جاتے ہیں۔نئے کرزئی ، محمود جبرئیل کے لئیے سرخ قالین کھولنے کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ اس وقت تک جن ان سے کم تنخواہ پہ ان سے بڑھ کر نئے غدار ران ملت وقوم نہیں مل جاتے۔
بعین اسی طرح ہمیں قذافی یا قذافی کے بغیر لیبیا سے غرض نہیں ہونی چاہئیے۔ قذافی سے ہمدردی یا گیر ہمدردی کا سوال نہیں۔ غرض اس بات سے ہے کہ لیبیا قذافی کے بعد مکمل طور پہ استبدادی قوتوں کے زیر نگیں ہوجائے گا۔ جس کے تسلط سے باہر آنے کے لئیے لیبیا کو زمانے لگیں گے۔ نیز یہ کھیل یکے بعد دیگرے تمام عرب ممالک کے ساتھ کھیلا جائے گا۔لیبیا میں پاکستان کی طرح کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی منڈی سجائ جائے گی اور وہ پاکستان کی طرح دہائیوں کرپشن کی لعنت کی فصل کاٹتے رہیں گے۔ جبکہ عوام کے نصیب میں پاکستانی عوام کی طرز پہ آزادی اور غریبی حصے میں آئے گی۔ جہاں ریمنڈ ڈیوس تو مقدس و معتبر جانے جائیں گے، اور ہزاروں فہیم اور عبادالرحٰمن کے خون کی قیمت دوھونس داندلی سے چکائے جائے گی اور لیبیا کے مشرف اور کرزائی امریکا کے تلوے چاٹ کر صبح شام قوم کو بے غیرتی کا درس دیں گے۔
نیو کارنز صلیبیوں کے نمائندے بش سنئیرز کے نیو ورلڈ آڈر کی حالیہ قسط لیبیا ہے۔ بش کا یہ بیان اتنا پرانا بھی نہیں جس میں اس نے کروسیڈ وار یعنی صلیبی جنگ کے آغاز کا علان کیا تھا۔اور شاید لیبین جرنیلوں کو اس بات کا علم ہے کہ مشرف کی طرح بے غیرتی کی زندگی جی کر مرنے سے جنگ لر کر مر جانا بہتر ہے۔
مجھے تو نہیں معلوم قذافی صاحب کیسے ہیں۔
لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جاپانی نو مسلم کو کھانا پینا رہائش بیوی بچے کے اخراجات کیلئے کھلی رقم۔
اور دینی تعلیم میں عالم فاضل بننے تک مفت تعلیم۔۔۔تعلیم سے فارغ ہونے کے یہ جاپانی مسلم چاھیں تو لیبیا میں رہ سکتے ہیں جانا چاھیں تو کوئی پابندی نہ تھی۔۔۔۔جاپان میں جاپانی کئی عالم دین لیبیا یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں۔
مجھ جیسے پیدائشی مسلمانوں کی نسبت یہ لوگ دین کی بہتر خدمت کر رہے ہیں۔
Pingback: لبيا کا کرزئی تياری ميں | Tea Break
ياسر صاحب
معمر قذافی ميں بہت سی اچھی باتيں تھيں مگر ايک خرابی جو مجھے ناپسند تھی يہ کہ وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتا تھا ۔ ميں ايک بار ہسپتال گيا ہوا تھا اور ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد دوائی لينے کيلئے قطار ميں کھڑا تھا ۔ کچھ فاصلے پر عوتيں اسی طرح دوائی لينے کيلئے قطار ميں کھڑی تھيں ۔ ميرا ساتھ ملٹری انٹيلی جنس کا ايک اہلکار تھا ۔ اُس نے ميری توجہ چادر ميں لپٹی شير خوار بچہ اُٹھائے قطار ميں کھڑی ايک عورت کی طرف مبزول کرائی ۔ ميں نے پوچھا “يہ کون ہے ہے؟”۔ اس نے بتايا کہ معمر قذافی کی بيوی ہے