خدا کی موجودگی کے متعلق باذوق صاحب نے ايک پُر مغز تحرير لکھی تھی ۔ بغير باذوق صاحب کی تحرير کا اثر لئے اور مسجد و منبر کو بھی ايک طرف رکھتے ہوئے منطق ۔ عقل اور سائنس کی بات کرتے ہيں
خدا کے وجود کا کيا ثبوت ہے ؟ يہ يا اس قسم کے سوال اتنا ہی پرانے ہيں جتنی اس دنيا ميں آدمی کی آمد مگر اُردو بلاگو سفيئر پر اس طرح کے سوال کو دو بار موضوع بنايا گيا
سائنس کيا ہے ؟
سائنس کی بنياد يہ اصول ہے کہ ہر عمل کا کوئی عامل ہوتا ہے ۔ علمِ طبيعات ہو يا علمِ کيمياء يا سائنس کا کوئی اور شعبہ سب اسی اصول پر استوار ہيں ۔ طبيعات ميں آئزک نيوٹن کے مشہورِ زمانہ کُلياتِ حرکت اسی اصول کو واضح کرتے ہيں ۔ پہلا کُليہ ہے ” کوئی چيز جو ساکن يا متحرک ہے اُس وقت تک ساکن يا متحرک رہتی ہے جب تک کوئی باہر کی طاقت اس صورتِ حال کو نہ بدل دے ۔ يعنی کوئی عمل خود بخود نہيں ہوجاتا اس کے وقوع پذير ہونے کيلئے عامل کا ہونا لازمی ہے
عامل کی تلاش کو سائنس تحقيق کا نام ديتی ہے ۔ سائنس کے کچھ طالب علم محسوس يا غيرمحسوس طور پر اس مفروضہ سے ابتداء کرتے ہيں کہ وہ بذاتِ خود عقلِ کُل ہيں جس کا فطری نتيجہ خدا جو کہ عقلِ کُل ہے کا انکار ہوتا ہے ۔ معروف سائنسدان آئزک نيوٹن نے ہی کہا تھا
“انسان کے ايک ہاتھ کی ايک اُنگلی کی ايک پور کا مطالعہ ہی يہ باور کرنے کيلئے کافی ہے کہ خدا ہے”
پوری کائنات کی تخليق ايک عمل ہے ۔ اس کا عامل کون ہے ؟ عقل ۔ منطق اور سائنس يہ بتانے سے قاصر ہيں ۔ جب کوئی تسُونامی آتا ہے تو اس کا عامل زلزلے کو بتايا جاتا ہے ۔ زلزلے کا عامل بتانے کيلئے فالٹ لائنز دريافت کر لی جاتی ہيں ۔ فالٹ لائنز کے عمل کا عامل نہيں بتايا جاتا ۔ جو ثابت کرتا ہے کہ سائنس نامکمل اور عقل محدود ہے
کئی بار ايسے ہوا ہے کہ ايک آدمی کو سائنس مردہ قرا د دے ديتی ہے مگر بعد ميں وہ زندہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے برعکس ايک آدمی کا معائنہ کر کے اُسے سو فيصد تندرست قرار ديا جاتا ہے اور اُسی لمحے وہ مر جاتا ہے ۔ ايسے واقعات کے بارے ميں انسانی عقل اور منطق ناکام ہيں کيونکہ انسانی عقل ناقص ہے
کوئی 56 سال پرانی بات ہے جب ميں گارڈن کالج راولپنڈی ميں گيارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا ۔ اُس زمانہ ميں بھی خدا کا منکر بننے کيلئے سائنس کا سہارا لينے کا فيشن چلا تھا ۔ ايک دن آدھی چھُٹی کے وقت ميرے 2 ہمجماعت آپس ميں بات کر رہے تھے تو
ايک نے کہا “اس دنيا کا خالق خدا ہے”
پاس ہی ايک بارہويں جماعت کا لڑکا کھڑا تھا بول اُٹھا “يہ دنيا خدانے بنائی تو خدا کو کس نے بنايا تھا ؟”
پہلے والا بولا “آپ بتائيں يہ دنيا کيسے بنی ؟”
بارہويں جماعت والا بولا “فضا ميں خُليئے تھے ۔ وہ جڑنا شروع ہوئے اور يہ کائنات وجود ميں آئی”
پہلے والا بولا “خُليئوں سے پہلے کيا تھا اور خُليئے کہاں سے آئے ؟”
بارہويں جماعت والا بولا “معلوم نہيں”
پہلے والا بولا “ناقص علم پر يقين کرنے والا ناقص العقل ہوتا ہے ۔ انسان کی عقل کامل نہيں ہے ۔ وہ خدا کو تسليم کرنے ميں اسلئے ہچکچاتا ہے کہ اسے ناقص العقل نہ سمجھا جائے”
منطق کيا ہے ؟
سادہ الفاظ ميں منطق کہتی ہے کہ 2 + 2 = 4
مگر آج سے 55 سال قبل بارہويں جماعت ميں ہميں ڈفرينشل کيلکولس [Differential Calculus] کا ايک کُليہ پڑھايا گيا تھا جس کے ذريعہ سے ثابت کيا جا سکتا تھا کہ ضروری نہيں 2 + 2 = 4 ہی ہو ۔ اسے سائنس کا ارتقاع کہا جاتا ہے مگر ساتھ ہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی منطق ہو يا عقل دونوں نامکمل ہيں اور اس کی نشو و نما ہوتی رہتی ہے ۔ عقلِ کُل صرف وہ عامل [وَحْدَہُ لَا شَرِيْکَ لَہُ] ہے جس نے يہ ساری کائنات تخليق کی اور اسے چلا رہا ہے اور وہ خدا ہے
عقل کيا ہے ؟
يہ انسان کی سوچ ہے جو کہ محدود ہے مگر انسان اسے محدود ماننا اپنی توہين سمجھتا ہے ۔ اس کی کچھ مثاليں عملی زندگی سے ديکھتے ہيں
خليل اللہ سيّدنا ابراھيم عليہ السّلام کو منکرِ خدا آگ ميں پھينکتے ہيں مگر آگ اُنہيں کچھ نقصان نہيں پہنچاتی ۔ ايسے موقع پر عقل گُنگ ہو جاتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اسی واقعہ کے متعلق لکھا تھا
بے خطر کُود گیا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشہ لبِ بام ابھی
دوسری قسط اِن شاء اللہ جمعرات 14 اپريل کو
Pingback: خدا ۔ منطق ۔ عقل اور سائنس | Tea Break
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
اکثر خدا کے وجود پر بحث کرنے والوں کی یہ دلچسپ غلطی دیکھنے کو ملتی ہے کہ خدا کے تخلیق کردہ قوانین کا اطلاق خدا پر کرنے لگ جاتے ہیں۔ جیسے وقت (جب وہ “خدا کی ابتداء” کی بات کرتے ہیں) یا عمل و عامل والا قاعدہ۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ 2+2 والی مثال دینے میں خصوصی نظریۂ اضافیت بہتر رہتا (رفتاروں کے ویکٹر جمع کرتے وقت)۔
محمد سعد صاحب
ويکٹرز کی مثال دی جا سکتی تھی مگر بہت سے قارئين اسے سمجھ نہ پاتے کيونکہ سب نے اعلٰی رياضی يا طبيعات نہيں پڑھی ہو گی