“اس وقت میں ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہو گیا تھا جب اس شخص نے اپنی منزل پر اُترنے سے پہلے مجھے کہا “میں خودکُش حملہ آور ہوں”۔ آصف نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا ۔ “اکتوبر 2005ء کی ایک ڈھلتی شام تھی اور میں تنہا اسلام آباد ہائی وے سے ہوتا ہوا مری روڈ کی طرف آ رہا تھا ۔ مری روڈ فیض آباد کے قریب کھڑے ایک چالیس پنتالیس سالہ شخص نے مجھے روکا اور کہنے لگا کہ مجھے پیر ودھائی موڑ جانا ہے ۔ کرایہ طے کرنے کے بعد ہماری منزل پیر ودھائی موڑ تھی ۔ میں سٹیڈیم روڈ سے ہوتا ہوا پیر ودھائی موڑ کی طرف جا رہا تھا ۔ میرا ہم سفر ایک خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کا شخص لگ رہا تھا ۔ میں ہمیشہ ڈرائیونگ کے دوران ہم سفر سے بات چیت کرتا ہوں ۔ اس طرح سفر کا پتہ نہیں چلتا ۔ دوسرا یہ کہ مسافر کی باتوں سے کچھ نا کچھ سیکھ لیتا ہوں ۔ یہ شخص ہاتھ میں تسبیح کا ورد کر رہا تھا ۔ اسی مناسبت سے میں نے اس سے کہا کہ کوئی دین کی بات بتائیں ۔ وہ شخص ‘صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی برتری کو ماننا ‘ کہہ کر چُپ کر گیا ۔
“پھر کچھ دیر بعد کہنے لگا ‘ہماری مائیں ۔ بہنیں اور بیٹیاں سر پر اسلحہ رکھ کر رات کی تاریکی میں انتہائی دُشوار گذار راستوں پر چل کر جنگ کے محاذ پر پہنچائیں ۔ ہم خود سوکھی اور باسی روٹیاں کھاتے ۔ اگلے محاذ پر جہاد سے واپسی پر کبھی کبھی ہم اُبلا ہوا خُشک گوشت جو کہ پتھروں میں امانتاً رکھتے تھے کھا لیا کرتے تھے ۔ ہم افغانوں نے روس کو شکست سے دوچار کیا ۔ امریکا کے دیئے ہوئے اسلحہ سے ہم نے اس جنگ میں حصہ لیا لیکن اس جنگ کے بعد دنیا نے ہمیں نظرانداز کیا اور ہمیں دہشتگرد قرار دیا گیا ۔ ایک ایسی لڑائی جس میں لاکھوں افغانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں ہجرت کرنا پڑی اور ان لاکھوں انسانوں پر جن میں مرد ۔ عورتیں ۔ بچے اور بوڑھے شامل تھے مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ گرا ۔ لاکھوں لوگ جنگ میں مارے گئے ۔ پورا مُلک تباہ و برباد ہو گیا ۔ کیا آج ان ممالک کے ضمیر مُردہ ہو چکے ہیں جن کی افواج ہمارے مُلک افغانستان میں آگ اور خُون کا کھیل کھیل رہی ہیں ؟ یہ ہم پر جتنی مرضی بمباری کر لیں ہم اتنی ہی شدت سے انتہاء پسند ہوں گے ۔ یہ ہمارے مُلک میں ہیں لیکن ہماری سوچ پر قبضہ نہیں کر سکتے ۔ آج دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہونے کے باوجود بھی یہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے ۔ ہم انہیں خُودکُش حملوں کے ذریعے ناکامیوں کی طرف دھکیل دیں گے اور دُنیا کو اس بارے میں ضرور سوچنا پڑے گا کہ کسی انسان یا مُلک کو ٹِشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی ۔ یہاں پاکستان میں میری والدہ ہے جو بیمار تھی اور میں اُس کی تیمارداری کیلئے آیا تھا ۔ اب میں واپس افغانستان جا رہا ہوں ۔ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ ہم افغان فاتح ہوں گے ۔ میں اپنا نام رجسٹر کروا چکا ہوں ۔ میں خُودکُش حملہ آور ہوں’ ”
ٹیکسی ڈرائیور آصف حسین شاہ کی آپ بیتی پر مُشتمل کتاب “فار ہائر” سے اقتباس
بہت عمدہ
آج امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے واقعی تاریخ یہ ثابت کر رہی ہے۔
افغان باقی کہسار باقی ، الحکم للہ الملک للہ
تو کیا ایک خود کش حملہ آور خود کو اس طرح کھول سکتا ہے
میں اس افغان کی خود کش حملہ آوری کے لئے کوئ جواز درست نہیں قرار دیتا یہ سب نائن الیون کا دہرانا ھے
اسلام کی ساری تاریخ میں کوئ مثال مجھے نہیں نظر آئ
نزدیک ترین دو حقیقتیں لکھ رھا ھوں
ضرار بن الازور ایک نیزہ لیکر بغیر کرتہ کے دشمن کی فوجوں میں گھس جاتے تھے–لیکن خود کشی نہیں بہادری تھی
طارق بن زیاد نے سمندر پار کرنے کے بعد جہازوں کو آگ لگوا دی تاکہ کسی فوجی کو ھسپانیہ سے واپسی کا خیال نہ آئے
البتہ جنگ کے محاذ پر اگر کوئ موقع ایسا ہو سکتا ہے جہاں خود کش حملہ صحیح کہا جائےگا
خرم ابن شبير صاحب
يہ شخص ايک مقصد کو اپنائے تھا جو اس کے وطن اور قوم کيلئے تھا ۔ جو لوگ پاکستان ميں عام آدميوں کی مجالس ۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے کرتے ہيں وہ مسلمان نہيں دُشمن کے آلہ کار ہيں ۔ ان کی طنابيں بھارت يا امريکا کے ہاتھ ميں ہيں ۔ ريمنڈ ڈيوس کی گرفتاری پر ساری امريکی انتظاميہ کيوں پھڑک رہی ہے ؟ اسلئے کہ اُنہيں ڈر ہے کہ اگر پاکستانی پوليس نے عمومی طريقہ اختيار کيا تو ريمنڈ ڈيوس کہيں سب راز افشا نہ کر دے اور پھر پتہ چلے کہ پاکستان ميں دھماکے اور کراچی ميں ٹارگٹ کِلِنگ کروانے والا امريکی حکومت ہے
اس سلسلہ ميں اِن ساء اللہ 9 مارچ کو ميرے انگريزی بلاگ پر اور 10 مارچ کو ميرے اس بلاگ پر ايک تحرير آئے گی
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
اپنی جان قربان کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ انسان دنيا ميں ساری ہيراپھيری اپنی جان کيلئے ہی کرتا ہے اور نيک عمل کرنے والا بھی اپنی جان کيلئے ہی کرتا ہے ۔ خودکُش حملہ آسان کام نہيں ہے ۔ اگر فلسطين ۔ عراق يا افغانستان ميں ہو تو الگ بات ہے مگر پاکستان ميں مساجد اور امام باڑوں پر ہونے والے حملے کسی مسلمان کا فعل نہيں ہو سکتے ۔ عام آدمی تک وہ بات پہنچتی ہے جو ذرائع ابلاغ پہنچاتے ہيں ۔ اور ذرائع ابلاغ شيطان کے قبضے ميں ہيں
خودکش بمباری ناکام لوگوں کا ہتھیار ہے۔ خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، چنگیز خان، ارون رومل، سکندر اعظم، طارق بن زیاد اور سپہ سالاروں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے سے عددی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے برتر غنیم کو بار بار زیر کرنے کے لئے خودکش بمباروں کی ضرورت نہیں تھی۔ فتح صرف اور صرف میدان جنگ میں چھینی جاتی ہے، یہ چھُپ چھُپا کر پٹاخے پھوڑنے سے آپ اپنی رہی سہی عزت اور طاقت بھی خاک میں ملا دیتےہیں۔ امریکہ ناقابل شکست نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بھی قوم یا ملک کبھی ہوسکتی ہے۔ سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ کیا آپ کو فتح چھین لینا آتا ہے۔ پچاس سال، ہزار سال لڑتے رہنا بہادری نہیں بے وقوفی ہوتی ہے لیکن یہ بات سمجھ اگر آجائے تو پھر فتح کے لئے خودکش بمباروں کی ضرورت نہیں رہتی
اسلئے کہ اُنہيں ڈر ہے کہ اگر پاکستانی پوليس نے عمومی طريقہ اختيار کيا تو ريمنڈ ڈيوس کہيں سب راز افشا نہ کر دے اور پھر پتہ چلے کہ پاکستان ميں دھماکے اور کراچی ميں ٹارگٹ کِلِنگ کروانے والا امريکی حکومت ہے
یہ بات صحیح ہے تو بھی میرا یہ یقین ہے کہ وہ ان کاموں کے لیئے جنہیں آلہ کار بنا رہے ہیں وہ پاکستانی ہیں!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/03/110307_anp_pkp_cm_terrorism_nj.shtml
خرم صاحب
آپ نے جس زمانے کے سپہ سالار کنوائے ہيں اُس زمانے کی مثال بھی دينا چاہيئے تھی ۔ اُن وقتوں مين اکيلے آدمی کا تلوار ہاتھ ميں لئے دُشمن کی صفوں ميں گھس جانا اور دُشمنوں کو ہلاک کرتے بالآخر خود ہلاک ہو جانا ۔ اور پھر صلاح الدين ايوبی کا بغير ہتھيار کے رچرڈ کی فوج کے خيموں کے درميان نہ صرف پہنچ جانا بلکہ جب رچرڈ اپنے خيمہ ميں اپنے سالاروں کے ساتھ صلاح الدين ايوبی کے قتل کا منصوبہ بنا رہا تھا تو رچرڈ کے خيمے کا پردہ اُٹھا کر اپنی شکل دکھاتے ہوئے کہنا “رچرڈ ۔ ميں ہوں صلاح الدين ۔ مرنے کيلئے خود تمہارے پاس آ گيا ہوں”۔ اگر اُس وقت کے کسی روشن خيال سے پوچھا جاتا تو ان واقعات کو خود کُشی قرار ديتا ۔
حضور پچاس سال سے امريکا جنگ مسلط کئے ہوئے ہے کبھی کہيں اور کبھی کہيں ۔ يہ جنگيں کسی اور نے مسلط نہيں کيں
عبداللہ صاحب
ہماری قوم کی عادت بن چکی ہے کہ برائی کے شجر کی جڑ کو کاٹنے کی بجائے اس کے پتے توڑتے رہتے ہيں ۔ جن بے ضمير پاکستانيوں کو استعمال کيا جاتا ہے وہ بھی مجرم ہيں مگر جب تک برائی کی جڑ کو پکڑا نہيں جائے گا برائی ختم نہيں ہو گی
جو ربط آپ نے ديا ہے اس سے کوئی دليل نہيں بنتی
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس انٹرنیشنل دہشت گردی کی جو جڑیں پاکستان میں ہیں وہ بھی زیادہ تر پاکستانی جڑیں ہیں یعنی بڑے بڑے اداروں میں موجود وہ لوگ جو انہیں ہر طرح سے فیسیلیٹیٹ کرتے ہیں،اپنے بڑے اور اہم عہدوں کی وجہ سے، اوریہ کوئی آج کی کہانی تو ہے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ صاحب
شايد آپ ٹھيک ہی کہتے ہيں