راولپنڈی سے شائع ہونے والے ايک جريدہ کے مدير صاحب کا مؤرخہ 3 مارچ 2011ء کا خط حاضر ہے
محترم ایڈیٹرصاحبان و ذمہ دار صاحبان
پاکستانی پریس اخبارات و جرائد اور چینلز
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
مجھے معلوم ہے میری اس گذارش کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہو گالیکن میرا فرض بنتاہے آپ کو بتا نا
جناب نجم الدین اربکان ترکی کے دور جدید کے بانی تھے
ان ہی کی مساعی سے ترکی میں کمال اتاترک کا اسلام دشمن دور ختم ہوا
وہ وفات پاگئے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی
ہمارے ذرائع ابلاغ نے جناب اربکان کی وفات کو نظر انداز کر دیا
حالانکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ۔ ۔ ۔
کوئی خدا کے خوف سے عاری مرد یا عورت مر جائے
کوئی بھانڈیا مراثی مر جائے ۔ کوئی گانے والا بیمار ہو جائے
کسی ناچنے والی کا کوئی سکینڈل عام ہو جائے ۔ ۔ ۔
تو پاکستان کے اخبارات/رسائل/جرائد اور ٹی وی چینلز اس کو ایسی کوریج ديتے ہیں جیسے یہ اطلاع دنیا کو نہ ملی تو دنیا اندھیر ہو جائے گی صرف یہی نہیں بلکہ اللہ کے ان دشمنوں کی موت کے بعد بھی یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اسے مرے ہوئے آج اتنے سال ہو گئے
لیکن امت مسلمہ کی اتنی بڑی خبر جس سے کہ امت کا تعلق ہونا چاہیئے تھا اسے جان بوجھ کر نظر انداز کرنا ور اسے لوگوں کی نظروں سے عمداً اوجھل رکھنا پاکستان کے میڈیا کا مشغلہ ہے
یہ شغل64 برسوں سے نہایت ڈھٹائی سے ”کر لو جو کرنا ہے “ کے اصول پر جاری ہے
عبدالہادی احمد
ایڈیٹر جہاد کشمیر ۔ راولپنڈی
نہایت مناسب اور بروقت گلہ ہے. نجم الدین اربکان کو اس طرح نظر انداز کردینا،عالم اسلام کے ایک بطل جلیل کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے.الله تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگا دے اور انکے درجات بلند سے بلند تر فرمایے. آمین
یہ شغل64 برسوں سے نہایت ڈھٹائی سے ”کر لو جو کرنا ہے “ کے اصول پر جاری ہے۔۔۔۔ کعئی شک نہیں پاکستان کے مقتدر مگر اغیار سے جلا پانے والے، بزعم خویش ملک قوم کے چارہ گر، نام نہاد دانشور، تاریک باطن روشن خیال، کسی قسم کی حب دین یا حب پاکستان سے نوٹ چھاپنے والا میڈیا۔بے غیرتی کی حدوں کو چھوتی اشرافیہ۔ پچھلے تریسنٹھ سالوں سے پاکستان کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ اس دوران پاکستان کے مسائل کے تعفن پہ ساری دنیا انگلیاں اٹھا رہی ہے مگر مجال ہے پاکستان کے بادشاہوں کے کان پہ کبھی جوں رینگی ہو۔ لوٹنے پہ آئیں تو کروڑوں اور اربوں سے کم لوٹتے نہیں کم ظرف اتنے کہ اربوں کے ساتھ ہاتھ لگے دس پیسے تک قوم پہ خرچ کرنے کے لئیے نہیں لوتنے سے نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔۔ ”کر لو جو کرنا ہے “
نجم الدین اربکان مرحوم جیسے اور بار دیگر مسلم دنیا میں اسلامی تشخص کے لئیے کوشش کرنے والوں کو تو یہ سبھی مندرجہ بالا کو تو اپنا دشمن سمجھتے ہیں کہ اگر یہ رسم چل پڑی تو ان کے انکی اولادوں کے اور دیگر سارے بے غیرت قسم کے لٹیروں کی بادشاہتیں ختم ہوجائیں گی۔پھر ایسے لوگوں کے بارے میں قوم کو بلیک آؤٹ کر دیا جاتا ہے ۔ نہ کوئی جانے گا نہ کوئی ان سے ایسا کرنے کا مطالبہ کر ے گا۔
پہلے تو شکریہ کہ آپ نے ہمارے بلاگ کا وزٹ کیا جس سے ہمیں بڑی خوشی ہوئی ۔
ڈکشنری والے سنکی لوگوں کو کسی نے اتھاریٹی نہیں ماننا ہوتا جی ۔ ہم نے نہ تو اپنی بات منوانی ہے اور نہ اپنی بات کا یقین دلانا ہے ۔ ہماری کوشش ہے کہ ہماری باتیں سمبولک ہی رہا کریں ۔ کیونکہ نہ تو ہمارے بلاگ کا مقصد کسی کو شرمندہ کرنا ہے اور نہ ہی آنے والے وقت میں حساب کتاب کیلئے ڈرانا ہے ۔ آپ نے یقینا علم حاصل کیا ہوگا اور علم تو گود سے گور تک حاصل کرنا ہوا کرتا ۔ کچھ کریئیٹر کی دین اوربندے کی اپنی ذاتی خواہش کا اثر بھی ہوا کرتا ہے ۔
آپ کا یہ آرٹیکل اچھا ہے اور آپ اچھی ہی باتیں کیا کرتے ہیں ۔
بلاگ کے وزٹ کرنے کا ایک دفعہ پھر شکریہ ۔ امید ہے آنا جانا لگا رہے گا ۔
مجھے افسوس ہے کہ اس خبر کا پتہ آپ کے بلاگ سے چلا- اللہ نجم صاحب کو جنت فردوس میں جگہ عطا فرماءیں آمین
چند سال پہلے اس بطل عظیم کو ‘اسنا’ یعنی اسلامک سوساءٹی اف نارتھ امریکہ- کے سالان0ہ اجلاس میں دیکھا تھا اور مسلمانوں نے ان کی اسلامی خدمات جو انھوں نے اس عالی حوصلگی اور اس ہمت سے ٹرکی میں کیں کو سراہا تھا انکے لکچر سے ہمارے بھی حوصلے بڑھےتھے- امید ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لیڈروں کے کام اس ملک میں اپنا رنگ دکھائین گے