میں نے جب بھی تحریک آزادی جموں کشمیر کی بات کی مجھ سے کچھ سوال پوچھے گئے اور مجھ پر کچھ اعتراضات کئے گئے ۔ ایک عام اعتراض کچھ اس طرح تھا کہ جموں کشمیر کے لوگ اگر اپنے آپ کو جموں کشمیر کا باشندہ سمجھتے ہیں تو پاکستان سے چلے جائیں ۔ جب دھوکہ دہی سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو پاکستان دھکیل دیا گیا تو پاکستان میں ان لوگوں کو پہلے شہروں سے باہر کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر شہروں کے اندر کچھ خالی متروکہ بڑی عمارات میں رکھا گیا ۔ کئی لوگوں کو اُن کے رشتہ دار اپنے گھروں میں لے گئے جو کیمپوں میں رہے اُن کو شروع میں مفت آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ دالیں مہیا کئے گئے ۔ جو بتدریج گھٹتے گھٹتے چند سال بعد صرف آٹا رہ گیا
جو لوگ مفت کا راشن پسند نہیں کرتے تھے وہ مختلف شہروں اور قصبوں میں منتقل ہو کر روزگار کی تلاش میں لگ گئے ۔ جو باقی رہ گئے اُن کو کچھ سال بعد حکومت پاکستان نے 25 کنال فی خاندان کے حساب سے غیر آباد بارانی زمینیں بغیر مالکانہ حقوق کے دیں کہ زمین کو قابلِ کاشت بنا کر اپنی گذر اوقات کریں اور مفت راشن بند کر دیا گیا ۔ اس طرح الاٹ کی گئی زیادہ تر زمینوں پر وڈیروں یا پیروں یا جرائم پیشہ لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔ ان لوگوں نے یا تو جموں کشمیر کے لوگوں کو آباد ہی نہ ہونے دیا یا ان بے خانماں لوگوں کی ذاتی محنت میں سے زبردستی حصہ وصول کرتے رہے ۔ کچھ زمینیں پتھریلی تھیں اور اس علاقہ میں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے کاشت کے قابل نہیں تھیں ۔ کچھ ایسے خاندان تھے جن کی سربراہ بیوہ خواتین تھیں اور بچے چھوٹے تھے اس لئے اُن کو دی گئی زمینیں آباد نہ ہو سکیں ۔ قبضہ کرنے والے پیروں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن کے آستانوں پر ہر سال عرس میں ہزاروں عقیدتمند شریک ہوتے ہیں
جموں کشمیر کے لوگوں کو کیمپوں ہی میں بتایا گیا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ نے اپنے گھروں کو واپس جانا ہے ۔ فی الحال عارضی طور پر ہم آپ کا بندوبست کر دیتے ہیں ۔ اس مہمان نوازی کے جموں کشمیر کے لوگوں پر مندرجہ ذیل ضمنی نتائج مرتّب ہوئے
پاکستان کے صرف چند محکموں میں اور وہ بھی بہت تھوڑا کوٹہ بھرتی کا مقرر تھا اس سے زائد کسی سرکاری دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی
پاکستان کی تینوں افواج میں بھرتی کی ممانعت تھی باوجود یکہ پاکستان بننے سے پہلے جو جموں کشمیر کے لوگ افواج میں بھرتی ہوئے تھے وہ موجود تھے ۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کی اہم مثال ہے
آزاد جموں کشمیر کی فوج اور سول محکموں میں بھرتی کی اجازت تھی مگر ان کا درجہ اور تنخواہ پاکستان کی ملازمت سے کم تھی
پروفیشل کالجوں میں داخلہ کے لئے کوٹہ مقرر تھا جو اتنا کم تھا کہ جموں کشمیر کے بہت سے ہائی میرٹ والے طلباء و طالبات پروفیشل کالجوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے تھے
جموں کشمیر کے لوگ غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین ۔ مکان ۔ دکان ۔ کارخانہ ۔ وغیرہ نہیں خرید سکتے تھے ۔ میرے والد صاحب نے نہ مفت راشن لیا نہ کوئی اور مراعات ۔ وہ اپنے ساتھ فلسطین سے جو روپیہ لائے تھے اُس سے 1948ء میں ایک کارخانہ قائم کرنا چاہا تو پتا چلا کہ وہ غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتے ۔ ایک مقامی آدمی نے اپنی زمین اِس شرط پر استعمال کرنے کی پیشکش کی کہ وہ گھر بیٹھے 25 فیصد منافع کا حصہ دار ہو گا گو زمین کی مالیت پروجیکٹ کاسٹ کا دسواں حصہ بھی نہ تھی ۔ والد صاحب کو ماننا پڑا ۔ جب کارخانہ تیار ہو کر مال تیار ہونا شروع ہوا تو منڈی میں مال کی طلب دیکھ کر وہ شخص کہنے لگا “مجھے منافع کا 50 فیصد کے علاوہ مینجمنٹ کے اختیارات بھی دو بصورت دیگر اپنا کارخانہ میری زمین سے اٹھا کر لے جاؤ” ۔ والد صاحب کے نہ ماننے پر اس نے دعوی دائر کر دیا ۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے ۔ کمپنی جج نے رشوت کھا کر فیصلہ کیا کہ میرے والد کارخانہ چھوڑ کر چلے جائیں اور اس کے بدلے 30000 روپیہ لے لیں جبکہ والد صاحب نے اُس کارخانہ کی عمارت اور پلانٹ پر ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کیا تھا ۔ وہ شخص تھوڑا تھوڑا کر کے30 سالوں میں 20000 روپیہ دے کر فوت ہوگیا ۔ 10000روپیہ اس کے بیٹے نے میرے والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد 1992ء میں مجھے ادا کیا ۔ جو کارخانہ یا کوٹھی یا زمین 1949ء میں 30000 روپے میں خریدی جاسکتی تھی وہ 1992ء میں 30 لاکھ روپے میں بھی نہیں ملتی تھی
ہم پہلے راولپنڈی میں کرایہ کے مکان میں رہے ۔ اس مکان میں بجلی اور پانی کا بندوبست نہیں تھا ۔ چند ماہ بعد ایک متروکہ مکان ایک شخص سے قیمت دے کر لیا مگر مالکانہ حقوق نہ ملے ۔ بعد میں جب مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ ہوا تو 1962ء میں دوسری بار اس کی قیمت حکومت پاکستان کو ادا کی
پاکستان بننے کے 15 سال بعد 1962ء میں ایک مارشل لاء ریگولیشن جاری ہوا جس میں قرار دیا گیا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو تمام معاملات میں پاکستانیوں کی برابر سمجھا جائے گا ۔ اس کے بعد جموں کشمیر کے لوگوں کو غیر منقولہ جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور ان کے بچوں کو جس صوبہ میں وہ رہتے تھے اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے ملنے لگے ۔ لیکن اب بھی جموں کشمیر کے رہنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں ۔ یہ فیصلہ جموں کشمیر کے فیصلہ سے منسلک ہے ۔ بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے بھارت میں ادغام کا اعلان کر کے وہاں کے باشندوں کو بھارتی قرار دے دیا ہوا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہتے اُن کو بھارتی حکومت پاکستان کے درانداز کہہ کر روزانہ قتل کرتی ہے
انکل افتخار،واقعی میں ہم لوگوں نےاپنےہی لوگوں پربہت ظلم کئےہیں اورپھربھی یہ آس لگاتےہیں کہ وہ ہمارےساتھ بھلائی کریں۔ لیکن کیاکریں کہ ہم لوگ بس نام کےمسلمان بن کےرہ گئےہیں جبکہ مسلمانیت توکب کی سوچکی ہے۔
” جموں وکشمیر نا تو پاکستان کاحصہ ہے نا ہندوستان کا، تقسیمِ پاک و ہند اور اس سے قبل بھی یہ ایک الگ ریاست تھی، کشمیریوں کی اکثریت نا تو بھارت کے ساتھ ادغام چاہتی ہے نا پاکستان کے ساتھ، پاکستان کے زیرِ قبضہ نام نہاد آزاد کشمیر کی گلی کوچوں میں پاکستان مخالف نعرے ہر در ودیوار پر لکھے دیکھے جاسکتے ہیں. ”
اوپر کے بیان پر آپ کیا فرماتے ہیں؟! جواب یا الگ پوسٹ، جیسا مناسب سمجھیں جواب عنایت فرمائیں.
مکی صاحب
پہلے آپ ميرے سوالوں کا جواب ديجئے کہ ميں معلوم کر سکوں آپ جموں کشمير اور وہاں کے باشندوں کے متعلق کتنا علم رکھتے ہيں
آپ کتنا عرصہ رياست جموں کشمير ميں رہے ہيں ؟
آپ آزاد جموں کشمير کب گئے تھے اور آپ نے کس شہر يا قصبہ يا گاؤں کی ديوار پر پاکستان مخالف نعرے لکھے ہوئے ديکھے ؟
آپ جموں کشمير کے کتنے لوگوں کو جانتے ہيں ؟
یہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے جو بظاہر اسقدر آسان نہیں کہ صرف ایک سوال “کیا جموں کشمیر کے لوگ پاکستانی ہیں ؟” میں بیان کردیا جائے۔
ریاست پاکستان کا یہ اصولی اور تاریخی موقف رہا ہے اور ابھی بھی ہے کہ جموں کشمیر بمع لداخ یعنی پوری ریاست کا فیصلہ ہونا ابھی باقی کہ یہ جموں کشمیر نامی ریاست بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی ہے۔ جموں کشمیر کی ستر فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمعل ہے۔ تقسیم ہند کے وقت لارڈ ماوئنٹ بیٹن کی سربراہی میں برصغیر کے لئے جس چارٹر کو بنیاد بنا کرتقسیم کے رہنما اصول تیار کئے اسکے تحت متحدہ ہندوستان کی تمام ریاستوں کو پاکستان و بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ کشمیر کی اکثریت پہ مبنی مسلمان آبادی تحریک پاکستان سے بھی قبل کشمیر کی ڈوگرہ راج سے آزادی کی تحریک چلا رہی تھی اور اپنی جانوں کی قربانی پیش کر رہی تھی اسلئے پاکستان کے وجود میں آنے سے کشمیر کی اکثریت پہ مشتمل آبادی نے سُکھ کا سانس لیا اور انہیں اپنی آزادی کی منزل دو چار ہاتھ پہ واضح نظر آنے لگی اور کشمیری عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش اور الحاق کا نعرہ بلند کیا۔ کشمیری عوام سے خوفزدہ اور چند سالوں میں انگریز راج کے تحت متحدہ ہندوستان کی ہندوستان میں بسنے والی دو بڑی قوموں میں تقسیم سے جہاں ہندوستان کی ننھی منھی ریاستوں اور راجواڑوں کے نوابوں اور راجوں کا اقتدار اور ریاست یوں چن چھن جان پہ انکے پاؤں سے زمین نکال دی۔ وہیں کشمیر کے ہندو ڈوگرہ حکمران راجہ ہری سنگھ کی مصیبت دوہری تھی کہ ایک طرف ریاست ہاتھ سے جاتی نظر آتی تھی اور دوسری طرف اسے کشمیری مسلمانوں اور ممکنہ طور پہ ریاست پاکستان سے خوف تھا کہ اس اور اسکے خاندان کی طرف سے مسلمان عوام پہ روا رکھے گئے مظالم کی وجہ سے راجہ ہری سنگھ سے حساب لیا جائے گا۔ اسلئے کشمیری راجہ ہری سنگھ کی شدید گھبراہٹ اور خوف سے اور انگریزوں کی ملی بھگت سے بھارت کے ہرہمن رہنما اور حکمران نہرو نے جس کی جنم بھومی کشمیر تھی اور اسے کشمیر پہ بھارت کے قبضے کا سنہری موقع جانتے ہوئے راجہ ہری سنگھ کو مذید خوفزدہ کرتے ہوئے اسے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کی ترغیب دی جس بعد 27 اکتوبر1947 کو بھارتی افواج نے ریاست جموں و سری نگر پرحملہ کر دیا۔ اسوقت تک بھارت اور پاکستان دونوں ریاستوں کے کئی ایک معاملات اور محکمہ جات تب تک ابھی انگریزوں کے پاس تھے۔۔۔۔ قائد اعظم نے انگریزوں سے ورثے میں ملے پاکستانی افواج کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے تسلط سے بازیاب کروائیں تو گریسی نے قائد کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔ بھارتی قبضے کے رد عمل میں کشمیری نوجوانوں اور دیگر مسلمانوں نے جن میں قبائلی پٹھان بھی شامل تھے نے بھارت کے خلاف آواز حق بلند کی اور آزاد کشمیر کو ڈوگرہ اور بھارتی افواج کے دانت کھٹے کرتے ہوئے آزاد کروالیا۔ بھارت نےباقی ماندہ یعنی مقبوضہ کشمیر ہاتھ سے جاتا دیکھ کر17 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست دائر کی۔ بھارت نے سلامتی کونسل کو ضمانت دی کہ بھارت کشمیریوں کو حق خود ارادی دے گا۔ بھارتی یقین دہانی کے بعد سکیورٹی کونسل نے 25 جنوری 1948 کو کشمیر کمیشن کا تقرر کیا۔ 4 فروری 1948 کو سیکیورٹی کونسل نے فیصلہ دیا کہ کشمیری مسئلے کا حل استصواب رائے سے ہوگا۔ 21 1948 کو سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے لئے کمیشن قائم کیا جو رائے شماری کے منصفانہ انعقاد کے لئے پاکستان و بھارت کی معاونت کے لئے بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رائے شماری کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے۔ 13 اگست 1948 کو اقوام متحدہ نے پاک بھارت کو چار دنوں کے اندر جنگ بندی کا حکم دیا تاہم جنگ بندی کی قرارداد پر یکم جنوری 1949 کو عمل کیا گیا۔ 5 جنوری 1949 کو سلامتی کونسل نے کہا کہ استصواب رائے ہی کشمیری جھگڑے کا انصاف پسندانہ حل ہے کیونکہ فرد واحد یعنی مہاراجہ ہری سنگھ کو لاکھوں کشمیریوں کی آرا کو پس پشت ڈالنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ سلامتی کونسل نے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کروانے کے لئے فوجی مبصرین مقرر کرديئے اور استصواب رائے کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ 25 جنوری 1949 کو پاک بھارت کے درمیان جنگ بندی لائن کا تعین کردیا تاکہ بھارتی و پاکستانی فوجی جنگ بندی لائن سے پیچھے ہٹ جائیں۔ جون 1953 کو محمد علی بوگرا اور پنڈت نہرو کے درمیان ہونے والی کراچی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں استصواب رائے پر اتفاق کیا گیا۔ اپریل 1954 میں وزرائے اعظموں کی ملاقات میں یہ طے پایا کہ دونوں ملک اپنے تنازعات گفت و شنید سے طے کریں گے مگر آنے والے وقتوں میں بھارت نے نہ صرف اقوام متحدہ کی منظورہ کردہ قراردادوں کو ردی کے کاغذوں کا درجہ دیا بلکہ بھارت رائے شماری کے معاہدے سے پھر گیا اور بھارتی قیادت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرکے اسے صوبہ بنادیا اور بھارتی فورسز نے حریت پسندوں کے خلاف پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ نوے ہزار سے زائد کشمیری جوانوں نے آزادی کی تحریک کو اپنے خون سے سیراب کیا اور اپنی جانوں کی قربانی دی۔ عالمی بے حسی اور بھارتی عدم دلچسپی کی وجہ سے کشمیر کی تحریک آزادی کو روکنے کے لئیے بھارت نے چودہ ہزار کے لگ بھگ نوجوانوں کو غائب یا لاپتہ کر رکھا ہے۔ دس ہزار کے قريب کشمیری جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔
پاکستان نہائت نامساعد حالات میں بھی کشمیری مسلمانوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر پاکستان اپنے اس اصولی موقف یعنی کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جو ابھی حل طلب ہے کہ کشمیری عوام نے اقوام متحدہ کی قرادادوں تحت استصواب رائے سے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بھارت یا پاکستان کس ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں، اس موقف سے اگر پاکستان پیچھے ہٹتا ہے اور آزاد کشمیر کو پاکستان کا ایک الگ صوبہ قرار دے دیتا ہے تو اسمیں پاکستان کے ساتھ کشمیری عوام کا بھی نقصان ہے کیونکہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر پہ غاصبانہ قبضے کو بھارتی صوبہ ہونے کی عالمی سند مل جائے گی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہمیشہ کے لئیے بھارتی غلامی میں چلے جائیں گے اور یوں مسئلہ کشمیر حل ہونے کی بجائے مذید پیچیدہ ہوجائے گا کیونکہ یکطرفہ طور پہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی صوبہ قرار دینا ، بھارت کو موافق آتا ہے مگر موجودہ صورتحال آزاد کشمیر کو پاکستان میں مدغم کرتے ہوئے پاکستان کا صوبہ قرار دینا پاکستان اور کشمیری عوام دونوں کےمفاد میں نہیں کیونکہ کیا عجب کل کو قدرت مسلسل بدلتے ہوئے عالمی حالات میں کوئی ایسا ردوبدل طے کر دے جس کی وجہ سے یا پاکستانی قوم اپنے آج کے مسائل کو کبھی حل کرتے ہوئے پورے قد سے کھڑ ا ہو کر بھارت سے مقبوضہ کشمیر چھین کر کشمیری مسلمان بھائیوں کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوجائے۔ مگر اسکے لئے پاکستان کے پاس اپنا اصولی موقف کا ہونا ضروی ہے۔
یہ آپکے بلاگ پر فریز کیئے ہوئے مینڈک مسجد القصی اور مسجد قبہ الصخراء کی تساویر کی جگہ لگائے گئے گئے ہیں ،کیا آپکو اس کا علم ہے؟
عبداللہ صاحب
توجہ دلانے کا شکريہ ۔ يہ 4 سال سے زيادہ قبل لگائے تھے جب ميں اميج شيک استعمال کرتا تھا ۔ اميج شيک سايد بند ہو گيا ہے کيونکہ اُن کی ويب سائٹ پر بھی متلّج مينڈک نظر آ رہا ہے ۔ اب مجھے اپنے دونوں بلاگز کی ساری تصاوير ديکھنا ہوں گی تاکہ ان کو درست کر سکوں ۔ ايک بار پھر شکريہ
یہاں بآرسیلونا، اسپین میں مسجد الاقصٰی مسجد قُبة الصّخراء اور دونوں مساجد یعنی مسجد قُبة الصّخراء اور مسجد الاقصٰی کا مکمل منظر درست نظر آرہے ہیں۔
جاويد گوندل صاحب
اطلاع کا شکريہ
افتخار چچا میرے جوابات دینے سے کوئی فرق تو نہیں پڑنے والا پھر بھی یہ رہے:
میں کوئی چھ ماہ تک آزاد کشمیر میں رہا ہوں.
میں 1998ء میں کشمیر گیا تھا، پاکستان مخالف نعرے میں نے میر پور شہر اور اس کے مضافات کے علاقوں میں دیکھے تھے.
اتفاق سے میرے دوستوں کی اکثریت کا تعلق کشمیر سے ہے، جن میں دو عدد اس وقت کشمیر کی اسمبلی میں تشریف رکھتے ہیں اور کئی اگلے الیکشن کے امیدوار ہیں، ان میں سے کوئی بھی پاکستان کو اچھا نہیں سمجھتا، اوپر کا بیان انہی کی زبانی سمجھ لیجیے.
کشمیر میرے نزدیک ایک ایسا مسئلہ بنا کر رکھا گیا کہ جس سے دونوں ملکوں کی فوج فائدہ اٹھاسکے،اوراپنے عوام کو بے وقوف بناکروسائل کا بڑا حصہ ہڑپ کر سکے،کشمیری اس حقیقت سے با خبر ہیں اسی لیئے دونوں ہی کو نا پسند کرتے ہیں اور حق تو یہ ہے کہ جس طرح بنگالیوں کو الگ ملک مل گیا کشمیریوں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنا الگ ملک بنائیں!
عبداللہ صاحب
حقائق اس سے بہت زيادہ تلخ ہيں جو آپ کو سمجھائے گئے ہيں ۔ مشرقی پاکستان کے سقوط اور جموں کشمير کے لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک ميں صرف فوجی جرنيلوں کے ساتھ مقتدر سياستدان برابر کے شريک ہيں ۔ ميں ماضی ميں مختلف مواقع پر ان کا ذکر کر چکا ہوں
مکی صاحب
ميں يہی جاننا چاہتا تھا کہ آپ کی رائے کس حوالہ سے ہے ۔ ہماری قوم [پاکستانی] ميں ايسے کئی لوگ موجود ہيں کہ جس تھالی ميں کھاتے ہيں اُس ميں چھيد کرتے ہيں ۔ ميں جئب اپنے ہموطنوں کے منہ سے سنتا ہوں “پاکستان بھی کوئی رہنے کی جگہ ہے ؟ زندگی اچھی گزارنا ہے تو امريکا جاؤ کنيڈا جاؤ”۔ تو ميں اُنہيں کہتا ہوں “آپ يہاں کيا کر رہے ہيں جلدی ہمارے ملک سے نکل جايئے تاکہ يہ اچھا بن سکے”۔
اس کے ساتھ ہی ايک حقيقت [جو شايد آپ کے علم ميں نہ ہو] ہے کہ آزاد جموں کشمير ميں کئی لوگ دوسرے علاقوں سے آ کر آباد ہوئے ہيں کيونکہ وہاں پر نظامت ميں اعلٰی عہديدار غير کشميری تعينات کئے جاتے رہے جس کا سبب ميں اپنی اس تحرير ميں لکھ چکا ہوں
آپ کی ساری باتیں بجا کہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں تاہم میرے سوالوں کے جواب ابھی تک ندارد ہیں..
دوم یہ کہ آپ کا بلاگ دنیا کا سست ترین بلاگ ہے اور یہاں پر تشریف لانا وبالِ جان بن گیا ہے، کل میں دس گھنٹوں کی کوشش کے با وجود آپ کے بلاگ تک رسائی حاصل نہ کر سکا.. یہ بہت سست ہے اور دیر سے کھلتا ہے جبکہ اکثر تو کھلتا ہی نہیں ہے…
دائیں طرف کی پٹی سے اگر آپ گھڑی، جنتری ہٹا دیں اور محفوظات کو ڈراپ ڈاؤن بکس میں بدل دیں اور بائیں طرف مضامین کی فہرست کچھ کم کردیں تو شاید فرق پڑجائے، اس کے علاوہ اگر کسی بلاک میں جاوا سکرپٹ ہو تو اسے ختم کردیں ورنہ تھیم بدلیں، آگے جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے..
مکی صاحب
آپ کے سوالات کے جوابات کچھ يوں ہيں
بلاشُبہ جموں کشمير ماضی بعيد ميں ايک ريا ست تھی ۔ رياست کا مطلب آپ کيا ليتے ہيں ؟ کيا امريکا ميں رياستيں امريکی حکومت کی عملداری سے باہر ہيں ؟
آپ کا يہ کہنا درست ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت بھارت کے ساتھ ادغام نہيں چاہتی مگر يہ کہنا درست نہيں کہ ان کی اکثريت پاکستان کے ساتھ الحاق نہيں چاہتی
آزاد جموں کشمير کی گليوں ميں آپ نے نعروں کا ذکر کيا ہے ۔ يہ پرويز مشرف کے دور کی يادگار ہيں اور اِکا دُکا بينظير کے پہلے دورِ حکومت ميں بھی لکھے گئے تھے ۔ اس کی وجہ ان دونوں حکمرانوں کا جموں کشمير کے مسلمانوں کے خلاف بھارت کا ساتھ دينا تھی
اگر آپ تحريک آزادی جموں کشمير کے موضوع کے تحت ميری تمام تحارير پڑھ ليتے تو يہ سوالات پيدا نہ ہوتے
مکی صاحب
ميرے بلاگ ميں کوئی خرابي نہيں ۔ اصل معاملہ پی ٹی سی ايل کے انٹرنيٹ کا ہے ۔ بہرحال بچوں کو خوش کرنا پڑتا ہے ۔ اسلئے ميں نے کافی اختصار کر ديا ہے ۔ مزيد اگلی فرصت ميں سوچوں گا
جناب افتخار اجمل صاحب ،
میری شدید خواھش تھی کہ میں مکی صاحب سے اختلاف کر سکتا…مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے جذبات کے بارے میں ہمارے قیاسات بالکل ویسے ہی تھے جیسے کہ کسی اور پاکستانی کے ہوسکتے ہیں. لیکن جب سعودیہ آئے اور بڑے پیمانے پر مقبوضہ کشمیر کے ڈاکٹرز سے ہمارا تبادلہ خیال ہوا تو ہمارے قیاسات کو شدید دھچکا لگا. بات بالکل صاف ہے ،کشمیری آزادی چاہتے ہیں ہندوستان سے بھی اور پاکستان سے بھی …اگر میں غلط ہوں تو برائے مہربانی تصیح فرمائے گا .
میں ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، ملائیشیا میں پہلی بار میرا واسطہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے پڑا، بھارت پاکستان دونوں کو انہوں نے خوب گالیوں سے نوازا.. آپ کی (یا ہماری) تحریریں ہمارا (پاکستانی) نقطہ نظر بیان کرتی ہیں کشمیریوں کا نہیں، زمینی حقائق اس سے قطعی مختلف ہیں جن پر کوئی بات نہیں کرتا، اب ہم کتنی بھی تقریریں کرتے پھریں سب بے مقصد اور بے معنی ہیں، کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنا چاہیے نا بھارت کو اور نا پاکستان کو، کم سے کم مجھے اپنے اوپر ایک غاصب ملک کے شہری کا لیبل لگوانا پسند نہیں..
بچوں کی بات رکھنے کا شکریہ لیکن پی ٹی سی ایل کے انٹرنیٹ کی بات سمجھ میں نہیں آئی، میں جب پاکستان میں تھا تب بھی آپ کا بلاگ سست روی سے کھلتا تھا، سعودیہ گیا تب بھی یہی حال تھا اور اب ملائیشیا میں ہوں تب بھی فرق نشتہ.. ویسے ان اقدامات سے کچھ فرق پڑا ہے..
ڈاکٹر جواد احمد خان و مکی صاحبان
جو آپ مجھ سے کہلوانا چاہ رہے ہيں وہ کہنے کو ميں تيار نہيں ہوں کيونکہ ميرا دل اور دماغ دونوں اسے رد کرتے ہيں ۔ ويسے ہلکے سے اشارے ميری اس سلسلہ کی تحارير ميں موجود ہيں ۔ آپ ساری تحارير نہيں صرف مندرجہ ذيل روابط پپ موجود تحارير ہی پڑھ ليں تو شايد بات سمجھ سکيں
https://theajmals.com/blog/2011/01/15
https://theajmals.com/blog/2010/07/31
https://theajmals.com/blog/2011/01/03
مکی صاحب
ميں نے پہلے بھی عرض کيا تھا کہ اگر آپ نے ميری اس سلسلہ کی گذشتہ تحارير پڑھی ہوتيں تو يہ سوالات نہ پوچھتے ۔ ميں يہ بھی گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ ايسی کوئی بات ميری اُوپر کی تحرير ميں موجود نہيں جس نے آپ کو يہ غيرمتعلقہ سوالات پوچھنے پر مجبور کيا ۔ اگر آپ نے ميری اس تحرير ہی کو غور سے پڑھا ہوتا تو آپ کے متذکرہ سوالات کا کوئی جواز نہ رہتا ۔
سرکار آپ کچھ کہتے ہیں اور کشمیری کچھ، آپ جو تاریخ پڑھاتے ہیں کشمیریوں سے پوچھو تو وہ کچھ اور بتاتے ہیں.. مجھے آپ کی بات پر یقین کرنا چاہیے یا کشمیریوں کی جن کا مسئلہ ہے؟!
مزید یہ کہ میں آپ سے کچھ بھی کہلوانا نہیں جاہتا، مجھے آپ کی نیت پر قطعی کوئی شک نہیں ہے
مکی صاحب
اس طرح جھاڑو نہ پھيريئے ۔ ميرے سب لکھے کو مشکوک بنانے کی بجائے جہاں آپ کے مطابق تضاد ہے وہ ميرا لکھا اور آپ کے مطابق ميرے دوسرے کشميری بھايئوں کا کہا مقابل لکھ ديجئے تاکہ بات سمجھ ميں آئے ۔ ايک حقيقت شايد آپ سے مخفی ہے کہ ميں خود جموں کشمير کا باشندہ ہوں اور ميرا رابطہ باقی ساتھيوں سے رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ آپ يہ بھی سمجھ نہيں پائے کہ مقبوضہ کشمير کا رہنے والا کس طرح آپ سے کہے گا کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتا ہے ؟ کيا اس نے اپنے پورے خاندان کی دھجياں بھارتی فوج کے ہاتھوں اُڑوانی ہيں ؟
سرکار ملائیشیا میں بھارتی فوج کہاں سے آگئی؟ بہرحال میں آپ کی پہلی خواہش ضرور پوری کروں گا..
مکی صاحب
ميرا خيال نہيں تھا کہ آپ ہر بات کو اتنا سطحی ليتے ہيں ۔ مليشيا ميں رہنے والے کا خاندان کيا کشمير ميں نہيں ہو گا ؟