“ننگِ قوم” سُن تو بچپن سے رکھا ہے مگر جيسے کرتب موجودہ اور اس سے پہلے والے حُکمرانوں نے دِکھائے ہيں شايد ہی کسی نے قوم کے ساتھ ايسی غداری کی ہو گی
گاہے بگاہے مختلف حقائق سامنے آتے رہتے ہيں ۔ آج گفتگو صرف اس حوالے سے کہ لاہور ميں دو جوانوں کے قاتل ريمنڈ ڈيوِس جيسے لوگ کہاں سے پيدا ہوئے يا کہاں سے آئے ؟
آج اربابِ اختيار ميں سے کوئی بھی نہيں بتا سکتا کہ امريکی ايف بی آئی اور سی آئی اے کے کتنے غيرمُلکی اور مقامی ايجنٹ پاکستان ميں گھوم پھر رہے ہيں اور کيا کر رہے ہيں ؟
صرف پرويز مشرف ہی نے نہيں موجودہ وفاقی حکومت نے بھی امريکی سی آئی اے اور ايف بی آئی کو نہ صرف مقامی ايجنٹ رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ بلا روک ٹوک وہ جہاں چاہيں جا سکتے ہيں اور جو چاہيں کر سکتے ہيں
ايک اور ناقابلِ يقين سہولت جو پچھلی حکومت نے امريکيوں کو دی اور موجودہ حکومت نے برقرار رکھی يہ ہے کہ امريکا سے پاکستان آنے اور واپس جانے پر اُن کی کوئی چيکنگ نہيں ہوتی تھی ۔ وہ پاکستان آنے اور جانے کيلئے اسلام آباد ايئرپورٹ پر وہ راستہ استعمال کرتے رہے جس راستہ سے جہاز پر کھانے پينے کا سامان بھيجا جاتا ہے اس طرح کچھ پتہ نہيں چلتا کہ کون آيا اور کون گيا اور نہ پتہ چلتا تھا کہ امريکی کيا پاکستان ميں لے کر آئے اور کيا پاکستان سے لے کر چلے گئے ۔ وزارتِ دفاع کی مداخلت پر اکتوبر 2009ء ميں اس سہولت ميں کچھ تخفيف کی گئی مگر اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا يعنی پاکستان ميں اميرکی سيکريٹ ايجنسيز اور اسلحہ کا نيٹ ورک پھيل چکا تھا
ايک امريکی اخبار “واشنگٹن ٹائمز” نے بھی کچھ سال قبل لکھا تھا کہ امريکی ايف بی آئی نے پاکستان ميں “سپائيڈر گروپ” کے نام سے ايک گروہ ترتيب ديا ہے جس ميں پاکستان کی مسلحہ افواج کے ريٹائرڈ افسران اور دوسرے لوگوں کو بھرتی کيا ہے ۔ اس کا مقصد پاکستان سے امريکا کيلئے معلومات حاصل کرنا ہے ۔ گروپ ميں عيسائی اور مسلمان دونوں شامل ہيں جنہيں ايف بی آئی نے تربيت دی ہے اور مسلحہ بھی کيا ہے
يہ بھی خبر ہے کہ ايک صوبائی سيکرٹ ايجنسی کا سربراہ اور درجن بھر اور لوگ امريکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کرتے رہے جس پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے اس سربراہ کو ملازمت سے سبکدوش کر ديا تھا ۔ يہ بھی خبر آئی تھی کہ نجی سيکيورٹی کمپنيوں کے ملازمين کی بڑی تعداد امريکی سی آئی اے کيلئے کام کرتی ہے
ايک مقامی صحافی اعزاز سيّد نے انکشاف کيا کہ چند سال قبل اُس نے امريکی ايف بی آئی کيلئے بھرتی کا ايک بين الاقوامی اشتہار ديکھا ۔ اُس نے اسلام آباد ميں امريکی سفارتخانے کے ليگل سيکشن سے اس خيال سے رابطہ کيا تاکہ وہ ايک انويسٹیگيٹو سٹوری لکھ سکے ۔ اُس نے اپنے آپ کو طالبان کے خلاف خفيہ معلومات حاصل کرنے کيلئے ملازمت چاہی ۔ انٹرويو کرنے والے امريکی نے اُسے کہا کہ “تمہيں [طالبان نہيں] پاکستان کی سول بيوروکريسی کے متعلق معلومات مہياء کرنا ہوں گی جس کا اچھا معاوضہ ديا جائے گا”۔
پچھلی حکومت نے بغير پائلٹ کے جہازوں [ڈرون] کو پاکستان کی فضا ميں پرواز کرنے کی اجازت دی جو موجودہ حکومت نے برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ يہ جہاز راڈار پر نظر نہيں آتے چنانچہ يہ قبائلی علاقہ کے علاوہ دوسرے علاقوں کی بھی سروِلنس کرتے رہتے ہيں جو کہ ملک کے مفاد ميں نہيں
[قارئين کو ياد ہو گا کہ جولائی 2007ء ميں کاروائی کے دوران لال مسجد اسلام آباد کے اُوپر امريکی بغير پائلٹ کا ہوائی جہاز اُڑتا رہا تھا ۔ يہ بغير حکومتِ وقت کی اجازت کے کيسے ممکن تھا ؟]
موجودہ حکومت بجائے غلط طور پر دی گئی مراعات واپس ليتی اُلٹا اپنے مُلک کو خطرہ ميں ڈالتے ہوئے امريکيوں کيلئے ويزہ کے اجراء سے قبل ہونے والی انويسٹيگيشن کو ہی ختم کر ديا اور امريکا ميں پاکستانی سفارت خانے کو حُکم ديا کہ امريکيوں کو بلا توقف ويزے ديئے جائيں ۔ ايک خبر کے مطابق وسط 2010ء ميں موجودہ حکومت نے امريکا ميں پاکستان کے سفارتخانے کو لکھا کہ بغير کسی قسم کی تحقيقات اور تاخير کے امريکيوں کو ويزے جاری کئے جائيں جس کے نتيجہ ميں 500 امريکيوں کو چھٹی کے دن سفارتخانہ کھول کر 2 دنوں ميں ويزے جاری کئے گئے
سابقہ امريکی سفير اينی پيٹرسن نے وزيرِ داخلہ رحمٰن ملک کو خط لکھا کہ “انتر رِسک کے مقامی شراکت دار ڈئين کارپوريشن کو ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس ديئے جائيں”۔ اس کے بعد اس نے وزارتِ داخلہ کے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا جس ميں لائسنسوں کی 3 اقساط کی واضح ڈيڈ لائينز بھی دی گئيں جس کی وزير موصوف نے تابعداری کی ۔ 7 مئی 2009ء کو امريکی سفارتخانہ کے چارج ڈی افيئرز جيرالڈ ايم فِيئرشٹائن نے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا کہ “134 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس انٹر رسک کيلئے ديئے جائيں ۔ 50 لائسنس فوری طور پر پھر 50 جون 2009ء ميں اور 34 جولائی 2009ء ميں
ايک ہفتہ کے اندر وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کے پرسنل سيکرٹری نے ايک ٹاپ پرائی آريٹی [Top Priority] حکم نامہ جاری کيا کہ انٹر رسک کيلئے 50 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنسوں کی منظوری وزير موصوف نے دے دی ہے ۔ يہ لائسنس 20 مئی تک جاری کئے جائيں
دريں اثناء ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو پوليٹيکل ايجنٹ بنوں کا ايک سرکاری خط ملا کہ 50 ويپنز ملک خانزادہ خان وزير نے تحفہ ديا ہے ۔ ظاہر ہے کہ يہ ويپنز امريکی سفارتخانے نے انٹر رسک کو ديئے تھے ۔ حکومت پاکستان کے کسی اہلکار کو معلوم نہيں کہ يہ ويپنز کہاں سے آ رہے ہيں
انکل۔۔۔ میں نومبر میںپاکستان گیا تو دبئی ایرپورٹ پر لاہور جانے والوں میںمجھے بہت سے انگریز باشندے نظر آئے۔۔۔ جو جہاز میں بھی ہمارے ساتھ ہی تھے۔۔۔ لیکن جب لاہور ائیرپورٹ پر ہم امیگریشن اور سامان وصولی کر رہے تھے تو ایک بھی گورا وہاں نظر نہیں آیا۔۔۔ یعنی آپ کی بات درست ہے کہ انہیں چور دروازے سے ہی نکال دیا گیا تھا۔۔۔ اور ان کی امیگریشن بھی نہیں ہوئی۔۔۔
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » يہ گندگی کون صاف کرے گا ؟ -- Topsy.com
السلامُ علیکم بھائی جان میںاس تحریر پر تبصرہ بعد میں کروں گا ۔ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا بلاگ میرے پاس اوپن کیوں نہیںہوتا۔
میں آپ کی اطلاع کےلئے بتاتا چلوں کہ میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور میں آفس میں پی ٹی سی ایل کا براڈبینڈ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہوں اور گھر پہ وطین کا کنکشن ہے لیکن دونوں جگہوں پہ میں آپ کا بلاگ وزٹ نہیں کرپاتا۔ Page Not Found کا ایرر آتا ہے ۔
اور ابھی میں اس وقت پراکسی سرور سے آن لائن ہوا ہوں لیکن اس سے بلاگ بہت عجیب و غریب نظر آرہا ہے ۔
کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے ؟
عدنان شاہد صاحب
تشريف آوری کا شکريہ
دير سے جواب دينے کيلئے معذرت خواہ ہوں ۔ ہم کچھ عرصہ کيلئے لاہور ميں تھے اب واپس اسلام آباد آ گئے ہيں 12 فروری کو لاہور ميں کمپيوٹر ڈبے ميں بند کر ديا گيا تھا اور 18 فروری کو اسلام آباد ميں کھولا گيا ۔ آج چند منٹ کی فرصت ملی ہے اور پی ٹی سی ايل کے وائرليس اِيوو سے چلايا ہے ۔ ميرا بلاگ براہِ راست نہيں کھُلا تو اُردو سيارہ کھولا پھر حاشيہ ميں لکھے اپنے نام پر کلک کيا تو کھل گيا ۔ يہ بھی ايک طريقہ ہے کھولنے کا ۔ وطين کا مجھے نہيں معلوم کہ کيا مسئلہ ہے البتہ پی ٹی سی ايل والوں نے فلٹر لگائے ہوئے ہيں جو بعض اوقات ميرے بلاگ کے سرور کو بلاک کر ديتے ہيں اور بعض اوقات انٹر نيٹ کی رفتار اتنی سُست کر ديتے ہيں کہ ميرا بلاگ جو مواد کے لحاظ سے وزنی ہے نہيں کھُلتا