ہمارے مُلک میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو کہتے رہتے ہیں “میں سب جانتا ہوں”۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہماری قوم کے انحطاط کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جس کے نتیجہ میں لوگ کچھ سیکھتے نہیں یا پھر صحیح طور سیکھ نہیں پاتے ۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا ۔ میں نے بی ایس سی انجنیئرنگ کی سند حاصل کرنے تک یہ فقرہ نہیں سُنا تھا ۔ 1962ء میں ملازمت شروع کی اور پہلی بار یہ فقرہ میں نے 1964ء میں ایک مستری سے سُنا جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ اُس دور میں اس قسم کے لوگ بہت کم تعداد میں تھے اسلئے کوئی پریشانی نہ ہوئی ۔ 1967ء کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور 1972ء کے بعد تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ۔ فی زمانہ یہ حال ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کا یہی دعوٰی ہے کہ اُنہیں سب کچھ معلوم ہے ۔ حال یہ ہے کہ جس نے عِلم حاصل نہیں کيا یا حاصل کیا تو اسے عملی طور پر استعمال نہیں کیا مگر دعوٰی ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے
اُن دنوں رائفل جی ۔ 3 کا پروجیکٹ شروع تھا ۔ انچارج تھے ورکس منیجر صاحب مگر وہ الیکٹریکل انخنیئر تھے [یہ انگریزوں کا کمال تھا اِن شاء اللہ پھر کبھی بیان کروں گا] اسلئے ساری مغز کھپائی مجھے ہی کرنا پڑتی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے ماتحت فورمین حضرات سمجھدار اور محنتی تھے ۔ متعلقہ فورمین کے مشورے پر میں نے ایک مستری کو جی ۔ 3 پراجیکٹ کا کوئی کام نہیں دیا تھا ۔ اُس نے میرے ورکس منیجر سے شکائت کی تو جواب ملا کہ “بھوپال صاحب سے بات کرو” تو اُس نے میرے جنرل منیجر [جسے اُس دور میں سپرنٹنڈنٹ کہا جاتا تھا] سے کہا کہ اُس کا علم اور تجربہ ضائع ہو رہا ہے ۔ جنرل منیجر صاحب کے کہنے پر میں نے اُس مستری کو بُلایا اور کام سمجھانے لگا تو وہ بولا “صاب ۔ کیا بات کر رہے ہیں مجھے سب پتہ ہے ۔ میرا 25 سال کا تجربہ ہے ۔ بس یہ ڈرائینگ مجھے دے دیں”۔ میں نے اُسے ڈرائینگ دے کر کہا “یہ کام ایک ہفتہ کا ہے لیکن آپ نے ایک ہفتہ بعد مجھے دِکھانا ہے اور پھر دو ہفتہ کے اندر مکمل کرنا ہے”۔
میری چھٹی حِس نے کہا کہ اس کام کا متبادل بندوبست کر لو ۔ کہیں مستری یہ جُوگاڑ [fixture] نہ بنا سکے اور اس کے بعد والا سارا کام رُکنے کی وجہ سے پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہو ۔ میں نے ایک نیم ہُنرمند مزدور [semi skilled worker] جو فارغ تھا کو بھی وہی کام دیا اور کہا “جتنا جتنا میں بتاتا جاؤں اتنا اتنا کرتے جاؤ “۔ ایک ہفتہ بعد اُس نیم ہُنرمند نے کامیابی سے جُوگاڑ بنا لی ۔ میں نے اُسے ایک ترقی کا وعدہ دیا اور اگلے کام پر لگا دیا ۔ پھر میں اُس مستری کے پاس گیا اور کام کا پوچھا تو جواب ملا “صاب ۔ میں نے ڈرائینگ سٹڈی [study] کر لی ہے اور یہ بیس پلیٹ [base plate] بنا لی ہے”۔ میں نے پلیٹ اُٹھا کر دیکھی اور مستری کو چڑانے کیلئے کہا “اس میں تو ٹیپر [taper] ہے”۔ مستری بولا “کتنا”۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا “دو تین تھَو [between 0.002 and 0.003 inch] کا”۔ مستری بولا “کیا کہہ رہے ہیں تھَو آنکھ سے کہاں نظر آتے ہیں ؟” میں نے کہا “نکالو پریسیشن کمپیریٹر [precision comparator] ۔ ناپ لیتے ہیں”۔ کہتے ہیں کہ نیت نیک ہو تو اللہ مدد کرتا ہے ۔ ناپا تو پورے 2 تھَو کا فرق نکلا چوڑائیوں میں ۔ مزيد دو ہفتے تک وہ کام مکمل نہ کر سکا اور ميں نے اُسے واپس بھيج ديا
سو یہ ہے داستان اُس آدمی کی جسے سب کچھ معلوم تھا ۔ اس کے ذہنی انحطاط کا سبب اُس کا غرور اور یہ استدلال تھا کہ وہ سب کچھ جانتا تھا لیکن اللہ نے ایسا کیا کہ اُس دن کے بعد وہ میرے سامنے آنکھ اُونچی نہ کر سکا
اللہ ہمیں اس “میں” سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » میں سب جانتا ہوں -- Topsy.com
افتخاربھائی، آپ نےبالکل درست بات کی ہےجبکہ جوپھل داردرخت ہوتاہےوہ ہمیشہ جھکاہواہوتاہےلیکن یہاں تھوڑاساعلم لیااورکہاکہ مجھےسب آتاہےجبکہ جوطالب علم ہوتاہےوہ ساری عمرطالب علم رہتاہےکبھی نہیں کہتاکہ مجھےسب معلوم ہے۔مجھےسب آتاہے
جی ہاں ۔۔ میں سب جانتا ہوں۔ مجھے یہ پتہ ہے کہ آپ لاہور گئے ہی ریمنڈ ڈیوس کو پکڑوانے کے لئیے تھے۔
۔ بہر حال ، کبھی اتفاق ہو تو البیرونی کو پڑھئیے گا۔ وہ ہندؤستانیوں یعنی ہمیں نہائت باتونی اور اپنے سامنے باقی ساری دنیا کے لوگوں کو ہیچ سمجھنے والے۔ جاہل شیخی خورے اور پتہ نہیں کیا کیا بیان کرتا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کچھ صدیاں پرانا یعنی یہ بیماری ہمیں آج کل میں لاحق نہیں ہوےئی بلکہ بہت پرانی ہے۔اؤل قومیں اور بعد ازاں انکا مزاج کا بننا، وقت اور استحکام کا مسلسل عمل ہے۔ جو بدقسمتی سے اس خطے میں جس کے ایک حصے میں آجکل پاکستانی یا پاکستان کے نام سے ہم بستے ہیں۔ اسے خطے یعنی بر صغیر پاک و ہند کو اولیں چراہ گاہوں کے طور پہ شمال سے حملہ آور قوموں نے صدیوں یلغار کرتے ہوئے استعمال کیا اور بعد ازاں اسے اپنی شاہی، بادشاہی اور شہنشاہی کے لئیے مناسب جانا۔ ادہر ادہر سے قومیں آتی رہیں۔ جونہی انہیں کچھ استحکام نصیب ہوا وہ سہل ہوتے گئے جو کہ استحکام اور خوشحالی کا لازمی جز ہے۔ تو ایسے میں مذید اکھڑ قبائل اس سونے کی چڑیا پہ قبضے کے لئیے حملہ آور ہوتے رہے جن میں سے اکثر کی زبان، تہذیب وغیری ایک دوسرے سے جدا تھی ہر ایک نے اپنی اپنی تہذیب کو رواج دیا۔ اسی کے مطابق رسومات و عمارات وغیرہ بنیں۔ جہاں ہندؤستان کے وجود پہ بسنے والی قوموں کو نئے نئے ہنر اور تہذیبوں سے سیکھنے کا موقع ملا وہیں ہندوستان کے روایتی موسم اور قوموں کے مزاج نے کچھ عرصے بعد نئے آنے والوں کی افادیت ختم کر ڈالی اور لوگ شعوری طور پہ اپنی قوموں ، قبیلوں کے رسم و رواج میں لوٹ گئے اور حفظ ماتقدم کے طور پہ ہر ایک قبیلے یا قوم نے اپنے آپ کو ایک دوسرے سے اعلٰی قرار دیا اور تنوع سے مناسب مسابقت کے ساتھ جہاں دنیا کے دوسرے خطوں میں ترقی ہوئی اور نئے خیالات کو جگہ ملی اور ان معاشروں نے ترقی کی ۔ مگر ہندؤستان میں علم و ہنر سے محروم قبیلے قومیں خاندان محض اپنے جعلی تفاخر میں نہ صرف بند ہو کر رہ گئے بلکہ اس تفاخر اور جہالت کو تقریبا مذھب کا درجہ مل گیا۔ اور ہر کوئی اپنے اعٰلی ثابت کرنے کے چکر میں فرسودہ روایات پہ اپنوں ہی کی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے۔ حتٰٰی کہ اس نام نہاد تفاخر کی وجہ سے غداری اور پیٹھ پیچھے وار کو بھی ہندوستان میں ایک نئی جہت دی۔ جب شرفاء کا یہ علام تھا تو عام آدمی بھی اس عمل سے صدیوں بلکہ ہزراوں سالوں سے متاثر چلا آرہا اور یہ ہندوستان میں بسنے والے باشندوں کی اکژیت کی شخصیت کا لازمی جزو بن کر رہ گیا ہے۔
ہماری قوم، پاکستانی قوم کا یہ المیہ شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔ ہم اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں۔ پاکستان میں انقلاب سے ذیادہ قومی اخلاقی تحریک کی ضرورت ہے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ قوم وہ قوم نہیں۔بلکہ ایک نئی قوم ہے۔
انکل “میں سب جانتا ہوں” نے ہمیں مزید کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔ وہ لگن ہی ختم ہو گئی ہے مزید سے مزید تر کی۔۔۔۔