”ریمنڈ ڈیوس“ بدنام زمانہ امریکی سیکیورٹی کمپنی ”بلیک واٹر“ کا کارندہ اور سی آئی اے کا سابق ملازم ہے۔ یہ بظاہر لاہور میں قائم امریکی قونصلیٹ میں بطور تکنیکی مشیر فرائض انجام دے رہا تھا، مگر دراصل لاہور میں بلیک واٹر کا آپریشنل کمانڈر ہے جو گزشتہ کئی دنوں سے لاہور اور اس کے گردونواح میں جرائم پیشہ افراد کی خدمات حاصل کررہا تھا، جنہیں پاکستان کے اندر مختلف تخریب کاری کے منصوبوں میں استعمال کرنا تھا۔ وہ کرنسی نوٹوں سے بھرا سوٹ کیس لئے جرائم پیشہ افراد سے معاملات طے کرتا تھا۔ ڈیوس کی گاڑی میں جدید ترین اسلحہ ہوتا۔ وہ ہر وقت جدید وائرلیس سیٹس کے ذریعے شہر میں پھیلے بلیک واٹرز کے دوسرے ایجنٹوں سے رابطہ میں رہتا۔ ڈیوس اردو کے علاوہ روانی سے پشتو بھی بول سکتا ہے جس کے باعث وہ مقامی جرائم پیشہ عناصر کے جذباتی نوجوانوں سے رابطے قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ڈیوس پشاور میں بھی منفی اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں بلیک واٹر کے اہلکار مختلف سرگرمیوں ملوث پائے گئے ہیں
اسلام آباد میں بلیک واٹر کے 56 مراکز ہیں
پورے پاکستان میں 11 امریکی تنظیمیں سرگرم ہیں
ستمبر 2009ء میں امریکا میں پاکستان کے سفیر نے کہا تھا: ”بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی“
اس سے چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم نے بھی کہے تھے کہ “بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے“
حیرت کی بات ہے کہ حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے
پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارت داخلہ نے 2007ء ميں خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے دفاتر اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لئے 200 سے زائد گھر کرائے پر لئے گئے ہیں جس کی تصدیق سابق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں
کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طور پر ملک کے مختلف حصوں میں بھیجا جاتا ہے۔ 19 اگست 2009ء کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لئے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہیں۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلئے ہیں
(جاری ہے)
بشکريہ ۔ جنگ اخبار
کانسپیریسی پکوڑے۔
لاہور مزنگ میں ہونے والی واردات بھی امریکیوں کے خلاف سائنس فنکشن تھی؟۔ واہ راے روشن خیالی کی امریکی چاپلوسی۔
واقعی بلیک واٹرکاکئی دفعہ بتایاجاچکاہےلیکن حکومت نےآنکھی بندکی ہوئیں ہیں یاکہ ان کی آنکھیں لالچ کی پٹی سےبندہیں کہ وہ اپنےہی ملک میں اس بدنام زمانہ تنظیم کی سرگرمیوں کی کھلےعام اجازت دےرہیں ہیں۔ وہ کیاکہتےہیں کہ جس پرمصیبت پڑتی ہےوہی صحیح ادراک کرسکتاہےکہ اس کی تکلیف کیاہےان حکمرانوں کوکیایہ تویہاں سےچھوڑکرغیرملک میں جاکرسٹیل ہوجائےگےمراتوغریب ہوجارہاہےجسکی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔