عصرِ حاضر ميں تعليم کا بہت چرچہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تعليم کا معيار بہت بلند ہو چکا ہے ۔ پرانے زمانہ کے لوگ تو کچھ نہيں جانتے تھے ۔ مگر کبھی کبھی سمندر ميں اچانک مچھلی کے اُبھرنے کی طرح عصرِ حاضر کے پردے کو پھاڑ کر پرانی کوئی ياد نماياں ہو جاتی ہے تو ميں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ تعليم وہ تھی جس ميں سے ہم پانچ چھ دہائياں قبل گذرے يا وہ ہے جہاں ايک ايم اے انگلش کو انگريزی ميں ايک صفحہ غلطی سے پاک لکھنا نہيں آتا ؟
ميں نے پنجاب يونيورسٹی لاہور سے 1953ء ميں دسويں کا امتحان اول آ کر نہيں صرف ايسے پاس کيا تھا کہ مجھے دو سال وظيفہ حکومت کی طرف سے ملتا رہا تھا ۔ ہمارے انگريزی کے پرچہ ميں ايک اُردو کے بند کو بامحاوہ [ideomatic] انگريزی ميں ترجمہ کرنا تھا اور اسی طرح بورڈ کے بارہويں کے امتحان ميں بھی تھا
دسويں کا اُردو ميں بند [paragraph] جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]
دودھ والا دودھ لئے چلا آ رہا ہے ۔ دودھ کم پانی زيادہ ۔ پوچھو تو کہتا ہے “صاحب ۔ قسم کرا ليجئے جو دودھ ميں پانی ڈالا ہو “۔ ٹھيک ہی تو کہتا ہے ۔ وہ دودھ ميں پانی نہيں پانی ميں دودھ ڈالتا ہے ۔ مگر کيا کريں يہ چائے کی جو لت پڑ گئ ہے ۔ اسے بھی تو نبھانا ہوتا ہے ۔ چائے بھی کيا چيز ہے ۔ جاڑے ميں گرمی اور گرمی ميں ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور ہميں دودھ ملا پانی دودھ کے بھاؤ خريدنے پر مجبور کرتی ہے
بارہويں جماعت کا اُردو کا بند جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]
“اسم شريف ؟”
“ناچيز تنکا”
“دولتخانہ ؟”
“جناب ۔ نہ دولت نہ خانہ ۔ اصل گھر جنگل ويرانہ تھا مگر حال ہی ميں احمدآباد ميں بستی بسائی ہے اور سچ پوچھئ تو يہ ننھا سا کاغذی ہوٹل جو آپ کی انگليوں ميں دبا ہے ميرا موجودہ ٹھکانہ ہے”
“مگر آپ کا نام تو ؟”
” جی ہاں لوگ مجھے ديا سلائی کہتے ہيں اور ميں بھی ان کی خوشی ميں خوش ہوں”
دودھ والا قسم کھا کہ یہ بھی کہتا ہے،نہ دودھ ميں پانی ڈالانہ پانی ميں دودھ ڈالا ہے، دراصل وہ دودھ ميں برف ڈالتا ہے۔
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » تعليم -- Topsy.com
اسماء صاحبہ
اُس ز،مانے مين برف نہيں ڈالتے تھے
ماشاء اللہ۔۔۔ آپ کو یہ سب یاد ہے۔۔۔۔ اور آپ صحیح کہہ رہے ہیں اب تو ماسٹرز کو بھی انگریزی کی الف ب ٹھیک سے نہیںآتی۔
میٹرک اور ایف ایس سی میں آپ کے زمانے والے طریقے سے پرچے حل کیے تھے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ طریقے اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔۔۔ آئندہ یہ غلطی نہیں دہراؤں گا۔
واقعی چاء تعلیم اسقدر مہنگی اور معیار اتنا ہی غیرمعیاری۔۔۔۔میں نے بھی آج کچھ اسی طرح کی پوسٹ لکھی ہے کہ زندگی کہاں سے کہاں جا رہی ہے۔۔کون سی نادیدہ قوتیں ہیں جو ہم سے ہمارے اقدار تک کو چھین لینا چاہتی ہے
انکل اگر مجھے اوپر لکھے ہوئے جملوں کا انگریزی ترجمہ کرنا پڑے تو میرے لیے یہ کہنا آسان ہو گا کہ میں جاہل اور ان پڑھ ہی رہ گیا ہوں۔۔۔