وہ دِیں جس نے اُلفت کی بنیاد ڈالی۔ ۔ ۔ کِیا طبعِ دوراں کو نفرت سے خالی
بنایا اجانب کو جس نے موالی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک قوم کے دل سے نفرت نکالی
عرب اور حبش تُرک و تاجِک و ویلم۔ ۔ ۔ ہوئے سارے شِیر و شکر مِل کے باہم
تعصب نے اس صاف چشمہ کو آکر۔ ۔ ۔ ۔ کیا بُغض کے خار و خَس سے مکدّر
بنے خصم جو تھے عزیر اور برادر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نفاق اہلِ قِبلہ میں پھیلا سراسر
نہیں دستیاب ایسے اب دس مسلماں۔ ۔ کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک شاداں
ہمارا یہ حق تھا کہ سب یار ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مصیبت میں یاروں کے غمخوار ہوتے
سب ایک اِک کے باہم مددگار ہوتے۔ ۔ ۔ عزیزوں کے غم میں دل افگار ہوتے
جب الفت میں یوں ہوتے ثابت قدم ہم۔ ۔ تو کہہ سکتے اپنے کو خیرُ الاُمَم ہم
اگر بھولتے ہم نہ قولِ پیمبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہیں سب مسلمان باہم برادر
برادر ہے جب تک برادر کا یاور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معین اس کا ہے خود خداوندِ داور
تو آتی نہ بیڑے پہ اپنے تباہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقیری میں بھی کرتے ہم بادشاہی
مجالس میں غیبت کا زور اس قدر ہے ۔ ۔ ۔ کہ آلودہ اس خون میں ہر بشر ہے
نہ بھائی کو بھائی سے یاں درگزر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہ مُلا کو صوفی کو اس سے حذر ہے
اگر نشئہ مے ہو غیبت میں پنہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہشیار پائے نہ کوئی مسلماں
جنہیں چار پیسے کا مقدور ہے یاں۔ ۔ ۔ سمجھتے نہیں ہیں وہ انساں کو انساں
موافق نہیں جن سے ایامِ دوراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں دیکھ سکتے کسی کو وہ شاداں
نشے میں تکبر کے ہے چُور کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسد کے مرض میں ہے رنجور کوئی
اگر مرجعِ خلق ہے ایک بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ظاہرا جس میں کوئی برائی
بھلا جس کو کہتی ہے ساری خدائی۔ ۔ ہر اک دل میں عظمت ہے جس کی سمائی
تو پڑتی ہیں اس پر نگاہیں غضب کی۔ ۔ ۔ کھٹکتا ہے کانٹا سا آنکھوں میں سب کی
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی
ہم نے تو جی یہ سنا ہے جس دن کسی قوم کے مجبور افراد اپنے کریئیٹر کا نام لے کر بھیک مانگنا شروع کرتے ہیں اس قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے ۔ پھر ایسی قوم کو جس کسی نے بھی ریجووینیٹ کیا اچھے کیلئے نہیں بلکہ پہلے سے بھی بدتری ہی کیلئے کیا ۔
ج ج س صاحب
آپ تو بڑی سمجھداری کی باتيں کرتے ہيں
اب ميں مُشکل الفاظ کا ترجمہ کرتا ہوں تاکہ بات ميری سمجھ ميں آ جائے
کرِيئيٹر = خالق
رِيجووِينيٹ = شباب کا اعادہ کرنا