ڈراموں کی کہانياں اور افسانے لکھنے والوں ۔ ناول نگاوں اور صحافيوں نے ہمارے ملک ميں ايسی فضا تيار کی ہے کہ ہر طرف مرد کے ظُلم کا ڈھنڈورہ پيٹا جاتا ہے اور عورت کی ہر تکليف مرد کے سر منڈھ دی جاتی ہے ۔ علمِ شماريات کا اصول ہے کہ اُوپر اور نيچے کے 34 فيصد کو چھوڑ کر درميانے 66 فيصد کو بنياد بنايا جائے تو درست صورتِ حال سامنے آتی ہے ۔ ہمارے ہاں عام رجحان يہ ہے کہ درميانے يا سفيد پوش 66 فيصد افراد کو يکسر نظرانداز کر کے اُوپر والے يعنی مالدار ايک فيصد يا پھر غربت کی لکير سے نيچے والے 33 فيصد ميں سے چند کی مثال لے کر ساری توانائی اسی پر خرچ کر دی جاتی ہے ۔ مرد کو ظالم قرار دينے کی بنياد يہی ہے
بلاشُبہ عورت پر ظُلم کے اکثر واقعات ان اوپر کے ايک فيصد اور نيچے کے 33 فيصد لوگوں ہی ميں ہوتے ہيں ۔ اوپر کے ايک فيصد ميں ہونے والے واقعات بہت کم منظرِ عام پر آتے ہيں ۔ نيچے کے 33 فيصد ميں ہونے والے واقعات کو عام طور پر وقعت نہيں دی جاتی ۔ بچے اُٹھائے گھر گھر جا کر بھيک مانگنے والی عورتوں سے بات کر کے ديکھ ليجئے ۔ کسی کا خاوند نشئی ہو گا کسی کا جوئے باز يا کسی اور لَت ميں اور بيوی کی مانگی ہوئی بھيک بھی بعض اوقات اس سے چھين لے گا اور اس کی پٹائی بھی کرتا ہو گا
بھاری اکثريت يعنی 66 فيصد کا حال يہ ہے کہ بيٹے ماؤں کے حُکم سے اور خاوند بيوی کی مرضی سے باہر شاذ و نادر ہی ہوتے ہيں ۔ ان ميں ايک خاصی تعداد ايسے خاوندوں کی ہے جو بيوی کی ہم خيالی نہ کرنے پر اُس کی سرزنش کا شکار ہوتے ہيں ۔ ان گھرانوں ميں اکثر کمانے والے خاوند کے پاس جتنے جوڑے کپڑے ہوتے ہيں بيوی کے پاس اس سے 4 گُنا ہوتے ہيں ۔ خاوند کے پاس 5 سے 15 سال پرانے کپڑے ہوتے ہيں اور بيوی کے پاس 3 سال سے زيادہ پرانا کوئی لباس نہيں ہوتا ۔ اس پر بھی بيوی کو اچھے کپڑے نہ ہونے کی شکائت ہوتی ہے
بيوی ملازمت کرتی ہو تو اس کے پاس خاوند سے 20 گُنا زيادہ لباس ہوتے ہيں اور خاوند کو آئے دن بيوی کے طعنے بھی سننا پڑتے ہيں ۔ استثنٰی تو ہر جگہ ہوتا ہی ہے ۔ بلا شُبہ ايسی بيوياں بھی ہيں جو کما کر اپنے خاوندوں کی گھر چلانے ميں بہت مدد کرتی ہيں ۔ امورِ خانہ داری بھی سنبھالتی ہيں اور خاوند کی تابعداری بھی کرتی ہيں
بيٹے کی شادی ہو يا بيٹی کی ان 66 فيصد لوگوں ميں اول رائے ماں کی اور پھر بہنوں کی ہوتی ہے ۔ ماں کی طرف سے دھمکی آخری حربہ ہوتی ہے اور وہ کامياب رہتی ہے جن ميں سے کچھ يہ ہيں ۔ “ميں تمہيں دودھ نہيں بخشوں گی”۔ “ميں نے تجھے پال پوس کر اسلئے جوان کيا تھا کہ تُو مجھے ہی تج دے”۔ “اُس کے ساتھ شادی کرنا ہے تو مجھے مار ڈالو يا گھر سے نکال دو”۔ “اس گھر ميں وہ رہے گی يا ميں”
ماں اپنی پسند کی بہو لانے کے بعد بھی حکومت مکمل اپنے ہاتھ ميں رکھنا چاہتی ہے اور نتيجہ بہو پر ظُلم کی صورت ميں نکلتا ہے ۔ اور اگر بہو تيز ہو تو ساس پر ظُلم ہوتا ہے مگر دونوں صورتوں ميں خاوند يا بيٹا موردِ الزام ٹھہرايا جاتا ہے يا سولی پر لٹکا رہتا ہے ۔ بعض گھرانوں ميں بيٹيوں کی حکومت ہوتی ہے جو بيٹيوں کی شادی ہو جانے کے بعد بھی قائم رہتی ہے ۔ اس کے نتيجہ ميں مياں بيوی يا کم از کم بيوی عذاب ميں مبتلا رہتی ہے
ظالم پھر بھی مرد کو کہا جاتا ہے جس کی صرف ايک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور گھر ميں گڑ بڑ کا ذمہ دار گھر کا سربراہ ہوتا ہے
اصل ظالم کون ؟
اصل ظالم جو ہيں اُن کی بات کوئی نہيں کرتا ۔ نہ کسی اخبار ميں ان کے بارے ميں کچھ شائع ہوتا ہے اور نہ کسی ٹی وی چينل پر اس سلسلہ ميں کچھ دکھايا جاتا ہے ۔ يہ چھياسٹھ فيصد ميں سے وہ پڑھے لکھے خاوند ہيں جو ديکھنے ميں تو بہت وضع قطع رکھتے ہيں مگر معاشرہ کے ناسور ہيں ۔ اپنی بيويوں کو آزادی کے نام پر بننے سنورنے کا موقع يا ترغيب دے کر اُنہيں اُونچی سوسائٹی کی فرد ہونے کا احساس دلاتے ہيں اور پھر اُنہيں اپنی مادی ترقی کا ذريعہ بناتے ہيں ۔ ايسی عورتيں ہائی سوسائٹی کے چکر ميں اپنے اندر کی عورت کو مارفين کھلا ديتی ہيں اور عورت کی بجائے رونقِ محفل بن جاتی ہيں ۔ ميں مزيد کچھ لکھنا مناسب نہيں سمجھتا ۔ قارئين سمجھ جائيں گے کہ يہ سب کيا ہے
جن کے نقشِ قدم پر يہ عورتيں چلنے کا شوق رکھتے ہوئے اُن کے ہاں کی عورتيں غلط راہ کو محسوس کر نے کے بعد اسے تج کر دنيا کے سچے دين اسلام کو اختيار کر رہی ہيں
بھیجا فرآئ
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ظالم -- Topsy.com
بہت خیال آفرین تحریر ہے جناب۔
یہ طبقہ ازادی کا چکمہ دے کر عورت کو اپنی ترقی کا زینہ بناتا ہے، اور بےوقوف عورتین اس جھانسے مین اجاتی ھین-
اسماء صاحبہ
ميرے بلاگ پر تشريف لانے کا شکريہ ۔
حوصلہ افضائی کيلئے بھی ممنون ہوں
محترم۔ افتخار اجمل صاحب!
اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ کچھ عقل کے اندھے پھر بھی مان کر نہیں دیتے۔ گوری انگریز خواتین کے مسلمان ہونے کو، جن کا تناسب تقریبا باسٹھ فیصد بنتا ہے۔ اسے “بہشتی زیور پروڈکشن” کہہ کر ٹھٹھا مارنے کی کوشش کریں گےمگر نہیں جانتے خدا خود انکا ٹھٹھا اڑائے جانے کا سامان کر رہا ہوتا ہے۔ دعواہ ہے کہ ہم روشن خیال ہیں اور اپنے نام نہاد روشن خیال ہونے کو ہر اس قدر سے ٹکرا کر بیان کرتے ہیں جس کا دور سے بھی واسطہ اسلام سے ہو۔ جب انہیں اللہ کے کلام قرآن کریم سے بھی حوالہ دیا جائے تو جان بوجھ کر آئیں، بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔
اپنی ذات کی حد تک یہ جو مرضی آئے کریں اور ایسی صورت میں انہیں شاید کوئی مخاطب کرنا یا پوچھنا پسند نہیں کرے گا۔ مگر یہ سینہ زوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی انہی کی طرز پہ سوچ اپنائیں۔ اور جب ان پہ واضح کیا جائے کہ ہر فرد اپنے سوچ اور رائے عامہ رکھنے میں آزاد ہے تو یہ جھلا اٹھتے ہیں۔ بھنا اٹھتے ہیں اور مغلظات پہ اتر آتے ہیں ۔ اور ڈھٹائی اور منافقت کی حد ہے اور احسا س کمتری میں مبتلاء کہ پھر بھی اپنے آپ کو پاکستان کی “کریم” سمجھنے پہ مصر ہیں۔ بے چارے
جب عنیقہ آنٹی تبصرہ کریں تو مجھے ای میل کر کے اطلاع دے دیجیے گا میں دیکھنا چاہوں گا کہ اس تحریر پر وہ کیا کہتی ہیں