شادی کا لفظ نکلا ہے شاد ۔ شاداں يا شادمانی سے يعنی خوشی ۔ عقد النکاح کا نام شادی رکھنا تب درست معلوم ديتا ہے جب خانہ آبادی ہو ورنہ بربادی کو شادی کہنا کہاں کی عقلمندی ہے
ويسے اس نہائت اہم سلسلہ ميں ہماری قوم کی اکثريت عقلبندی کا مظاہرہ کرتی ہے عقلمندی کا نہيں ۔ شادی تو بعد کی بات ہے اسے خانہ بربادی بنانے کا بندوبست اُسی وقت شروع کر ديا جاتا ہے جب کسی لڑکے کی شادی کی منصوبہ بندی شروع ہوتی ہے
کسی نے کہہ ديا “بيٹے سے پوچھ ليا ؟” تو جواب ملا “اے ہے ۔ ہمارا بيٹا ہے ۔ بڑے لاڈ چاؤ سے پالا ہے ۔ کيسے نہ پسند ہوگی اُسے”۔ اگر لڑکے کا باپ مداخلت کی کوشش کرے تو جواب ملتا ہے “تمہيں کيا معلوم کہ گھر کيسے چلتا ہے ۔ تم تو سارا دن باہر رہتے ہو ۔ بہو کے ساتھ سارا دن ميں نے گذارنا ہے”
يہ بات جاہلوں يا کم پڑھے لکھوں کی نہيں ہو رہی ۔ بڑی بڑی پڑھی لکھیاں جب ماں بنتی ہيں تو عقلبند ہو جاتی ہيں ۔ عورت بہو کی تلاش ميں نکلتی ہے تو پہلی شرط چاند سا مکھڑا ہوتی ہے جب مل جائے تو اُس کے باپ کی جائيداد يا عہدے کا حساب لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔ شادی ہو جانے پر پتہ چلتا ہے کہ بيٹا مشرق کی طرف جا رہا ہے اور بہو مغرب کی طرف پھر وہی چاند سا مکھڑا گہنا جاتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ شادی نہيں خانہ بربادی ہوئی ہے
ہمارے ہاں ايک رواج بيٹے برآمد [export] کرنے کا بھی چل رہا ہے ۔ برطانيہ يا امريکا ميں لڑکی پسند کی اور بہو گھر لانے کی بجائے بيٹے کو بہو کے گھر بھيج ديا ۔ دل ميں لڈو پھوٹتے ہيں کہ بيٹا برطانوی يا امريکی شہری بن جائے گا تو گويا بادشاہت مل جائے گی ۔ بھلا ہو امريکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ورنہ بڑے فخر کے ساتھ کہا جاتا تھا ہمارے بيٹے کے پاس گرين کارڈ ہے يا ہمارے بيٹے کے پاس لال پاسپورٹ ہے ۔ ايسے لڑکے عام طور پر ساری عمر بيوی کی غلامی ميں گذارتے ہيں کيونکہ امريکا اور برطانيہ کے قانون کے مطابق اُن کی بيوياں جب چاہيں اُنہيں مُلک سے نکلوا سکتی ہيں ۔ تو کيا يہ شادی ہوئی يا خانہ بربادی
ايسے لڑکے عام طور پر ساری عمر بيوی کی غلامی ميں گذارتے ہيں کيونکہ امريکا اور برطانيہ کے قانون کے مطابق اُن کی بيوياں جب چاہيں اُنہيں مُلک سے نکلوا سکتی ہيں
غلط صرف گرین کارڈ ملنے کے کچھ عرصہ تک غالبا تین سال تک بیوی تنگ کر سکتی ہے۔ اس کے بعد نہیں۔
انکل جی یہ معاشرتی بیماری اس سے کہیںزیادہ ہمہ جہت ہے جتنا آپ نے بیان کیا ہے۔ میرے تئیںتو ہمارے معاشرے کے کم از کم نوے فیصد بگاڑ کا ذمہ دار یہ جاہلانہ رویہ ہے کہ ماںباپ اولاد کی شادی کے معاملہ میںمختار بنے بیٹھے ہیں۔ ہر معاشرتی بگاڑ گھر سے شروع ہوتا ہے اور ہمارے یہاںگھر کی شروعات غیر حقیقی اور غیر اسلامی ترجیحات کی بنا پر ہوتی ہے نتیجتاَ سب سے پیچھے پاکستان۔
باتميز صاحب
قانوں کے لحاظ سے آپ درست کہہ رہے ہيں ۔ عملی دنيا کچھ اور ہے ۔ ہوتا يہ ہے کہ بيوی دعوٰی دائر کرتی ہے کہ خاوند اُس پر تشدد کرتا ہے اور اپنے کئے پر پشيمانی کا اظہار کر کے کہتی ہے کہ “ميری سپورٹ کی بنا پر اسے شہريت ملی تھی ميں سپورٹ وِدڈرا کرتی ہوں”۔ اب دو صورتيں ہوتی ہيں يا تو خاوند تشدد کا مقدمہ بھگتے يا ملک چھوڑ دے ۔ ايسے کئی کيسز ميری نظر ميں ہين ۔ ايک امريکا والی نے تو يہ کہا کہ “اگر تم نہيں مانو گے تو ميں گرم استری لگا کر اپنا بازو جلا لوں گی اور تم ساری عمر جيل بھگتو گے اور پورے اثاثہ سے بھی ہاتھ دھو بيٹھو گے”۔
افتخار انکل میں اسکی جگہ ہوتا تو پہلے ہی پولیس اسٹیشن جا کر یہ بتا دیتا کہ استری سے ہاتھ جلانے کو تیار بیٹھی ہے اور دو چار باتیں اگر ایسے موقع پر اپنی طرف سے بھی بنا لی جإیں تو کیا ہی بات ہے ۔۔۔۔ ضرور وہ خاتون بھی پی ایج ڈی کر چکی ہوں گی ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔۔ ویسے اس طرح کے کیسس بھی ہوتے ہیںکہ گرین کارڈ کے بعد لڑکی کو طلاق دے دی جاتی ہے ۔ پھر لڑکا اپنے لیے پاکستان سے لڑکی لاتا ہے وہ گرین کارڈ کے بعد لڑکے کو طلاق دے دیتی ہے ۔ لول ۔۔۔۔