ميری تحرير شکست خوردہ قوم پر ايک قاری عمران اقبال صاحب نے مندرجہ ذيل تبصرہ کيا ہے جس ميں ايک اہم قومی معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ آج کی جوان نسل سے ميری درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنی تعميری تجاويز سے نوازيں
عمران اقبال صاحب لکھتے ہيں ۔ ۔ ۔
کل جب آپ سے بات ہوئی تو آپ نے کہا تھا کہ “پاکستان پہلے ایسا نہیں تھا” اور پھر آپ نے مثال دی کہ “پہلے اگر کسی پارک میں لوگ گھاس پر چل رہے ہوتے تھے تو دوسرے لوگ کہتے تھے کہ بھائی اگر آپ نے بیٹھنا ہے تو گھاس پر بیٹھ جاؤ ورنہ راہ داری پر چلو” ۔۔۔ یہ تھیں قدریں۔۔۔
میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ “آج کی نسل اور ہم سے پہلی نسل میں کیا بنیادی فرق ہو گیا جو اب پہلے جیسی مروت نہیں رہی ؟” ۔۔۔ اور آپ نے جواب دیا تھا کہ “دین اور قانون سے بيگانگی”۔۔۔
میرے خیال میں۔۔۔ ہم اس حد تک پست اقدار اپنا چکے ہیں کہ اب اسے بدلنے میں ایک پوری نسل کی کوششیں چاہئیں ۔۔۔ ہماری نسل کے خون میں بے ایمانی، بے قدری اور بے مروتی بھری جا چکی ہے۔۔۔ اور میں اس کا قصور پچھلی نسل کو دونگا۔۔۔ انہی کی اسلام دوری اور مادی دنیا میں آگے بڑھنے کے شوق نے ہم سے وہ ساری اقدار چھین لیں جو کبھی ہمارا اثاثہ تھے۔۔۔ اور بقول آپ کے کہ پہلی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے تو جب گھر بھر میں دین کا نام نہ ہو اور ہر وقت مادی مسائل کا ذکر ہو تو ہم بھی وہی سوچیں گے اور کریں گے جو ہمارے بڑوں نے کیا۔۔۔
جب میں “اپنی نسل” کی بات کرتا ہوں تو میں خود سمیت کسی کو الزام نہیں دے رہا لیکن کھلے دماغ اور دل سے سوچیئے کہ کیا ہماری نسل واقعی بے راہ روی کا شکار نہیں ؟ ۔۔۔ ہم میں وہ کونسی خامیاںنہیں رہ گئيں جو ہم نے قرآن میں ان قوموں کے بارے میں پڑھیں ہیں جن پر اللہ نے عذاب نازل فرمایا۔۔۔
لیکن ہم بخشے جا رہے ہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے سبب۔۔۔ ورنہ جو خامیاں ہم میں ہیں ان کے باعث اب تک ہم بندر یا سُوّر بن چکے ہوتے یا ہمیں بھی آسمان تک لے جا کر الٹا پھینک دیا جاتا۔۔۔
آپ نے فرمایا تھا کہ” آج کی نسل بہت بہتر ہے” تو میں آپ سے اس بات پر اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ دنیاوی علم اور کچھ کر دکھانے کی جہت نے ہمیں بہت فاسٹ فارورڈ کر دیا ہے۔۔۔ شاید میں کنویں کے مینڈک کی طرح ہوں جسے کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن مجھے پڑھے لکھے، سوچنے سمجھنے والے اور لوجیک کے ساتھ گفتگو کرنے والے عالم دین سے ملنے کا اب بھی بہت انتظار ہے۔۔۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک یا ڈاکٹر اسرار احمد کو بہت سن چکا ہوں لیکن انہیں بھی صرف ایک خاص طبقہ ہی فالو کر رہا ہے۔۔۔ ہمیں چاہیے ایسے لوگ جو محلوں کی مساجد میں یہ خدمت انجام دیں ۔۔۔
میرا ماننا یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا دین راسخ ہو جائے اور عقیدہ میں کوئی کمی نہ رہ جائے تو دنیا میں رہنے کے ہمارے اطوار ہی بدل جائیں گے۔۔۔ پھر لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے اور ان میں توکل بھی آ جائے گا۔۔۔ اور میرے خیال میں توکل علی اللہ دنیا بھی بنا دیتا ہے اور آخرت بھی۔۔۔
عمران اقبال صاحب نے عجمان سے مجھے ٹيليفون کيا اور سير حاصل گفتگو کی ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ميرے ملک ميں ايسے جوان ہيں جو درست معلومات حاصل کرنے اور اپنے علمِ نافع ميں اضافہ کرنے کی کوشش ميں لگے رہتے ہيں ۔ ميں عمران اقبال صاحب کی صرف دو باتوں پر اپنا خيال پيش کروں گا
درست ہے کہ آج کی جوان نسل کی بے راہ روی ان سے پہلی نسل يعنی ميری نسل کی عدم توجہی يا غلط تربيت يا خود غرضی کا نتيجہ ہے مگر کُلی طور پر پچھلی نسل اس کی ذمہ دار نہيں
درست ہے کہ ہماری مسجدوں کی بھاری اکثريت پر غلط قسم کے لوگ قابض ہيں ۔ مگر اس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہيں ۔ ہم ميں سے کتنے ہيں جنہوں نے مساجد ميں دينی لحاظ سے بہتری کيلئے خلوصِ نيت سے کوشش کی ہے ۔البتہ نکتہ چينی کرنے کيلئے اکثريت ميں ايک سے ايک بڑھ کر ہے
اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری مسجد جسے لوگ لال مسجد کہتے ہيں کے خطيب کو حکومت گريڈ 12 کی تنخواہ ديتی ہے باقی مساجد ميں گريڈ 10 اور 8 کی ۔ دسويں جماعت کے بعد 8 سال علمِ دين حاصل کرنے والے کتنے ايسے خدمتگار ہو سکتے ہيں جو گريڈ 12 يا 10 يا 8 ميں ملازمت اختيار کريں گے ؟ جب حکومت ان کی سند کو ماسٹرز کے برابر مانتی ہے تو پھر ان لوگوں کو دوسری جامعات سے ماسٹرز کرنے والوں کی طرح گريڈ 15 کيوں نہيں ديا جاتا ؟ خاص کر اسلئے کہ ان لوگوں نے ايک اہم دينی فريضہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل ميں خيال پيدا ہو کہ پھر يہ سب کہاں چلے جاتے ہيں ؟ ان ميں کئی ساتھ ساتھ بی ا انگلش اور ايم اے انگلش کے امتحان پاس کر ليتے ہيں اور مسجد کی بجائے دوسری ملازمتيں اختيار کرتے ہيں ۔ صرف چند ايسی مساجد کے خطيب بنتے ہيں جہاں جائز آمدن کا کوئی اور ذريعہ بھی ہو ۔ ايسی مساجد کے طور طريقے ہی الگ ہوتے ہيں ۔ کوئی کہيں چندہ مانگنے نہيں جاتا ۔ جمعرات کی روٹی کا کوئی رواج نہيں ہوتا اور نہ کسی کے گھر ميں ختم کے نام پر کھانا کھاتے ہيں ۔ يہاں يہ واضح کرنا بے جا نہ ہو گا کہ ايسے امام مسجد بھی ہيں جنہوں نے دينی تعليم کے ساتھ ساتھ معاشيات يا رياضی يا سائنس کی کم از کم گريجوئيشن کی ہوئی ہے
اللہ کا شکر ہے۔صرف میں اکیلا ایسا محسوس نہیں کرتا تھا۔
ہمارے معاشرے کے ہر گھر میں مادی مسائل اتنے بڑ چکے ہیں۔کہ پیسہ کیلئے حلال حرام کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔
کفار کے ممالک کا اپنے معاشرے سے موازنہ کرتے ہیں۔تو ادھر تو ہمیں حلال حرام کی تمیز بغیر کسی شریعت کے نظر آتی ہے اور اپنےملک میں صرف اسلام اسلام کا ڈھول بجتا نظر آتا ہے۔
یقینی طور پر پاکستان کے مسائل کی ذمہ دار وہ نسل ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان “پایا” لیکن بہرحال ہر نسل جب شعور کی منزل کو پہنچتی ہے تو اپنی راہ اسے خود چُننا ہوتی ہے۔ موجودہ نسل کے سامنے بھی یہی دوراہا ہے کہ اسے اپنے والدین کی نسل کی احمقانہ و غیر حقیقت پسندانہ اقدار کو گلے سے لگانا ہے یا ان سے پہلے کی نسل کی اقدار اور موجودہ دور کے اطوار کو اپنا کر آگے بڑھنا ہے؟
خرم بھائی۔۔۔ آپ نے بہت عمدہ بات کی۔۔۔ کہ ہر نسل شعور کی منزل کو پہنچ کر اپنی راہ خود چن لیتی ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ میرا زاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔ ہم باشعور ہو کر بھی پہلے اپنی بھلائی کے بارے میں سوچتے ہیں نا کہ اجتماعی بہتری۔۔۔
کچھ عادتیں ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہیں۔۔۔ جن کا زکر میں اپنے تبصرے میں کیا تھا۔۔۔ ہم بے مروتی، بے حسی اور بے حیائی اپنے خون سے نہیں نکال سکتے۔۔۔ یہ وہ شیطانی چرخے ہیں جو ہماری رگوں میں بس چکے ہیں۔۔۔ ہم جتنی بھی کوشیشیں کر لیں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کر لیں لیکن موقع ملتے ہی ہم اپنا ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔۔۔
آج کا ایک مقولہ بہت عام ہو چکا ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔ میں اس فلسفہ کو نہیں مانتا۔۔۔ میرا ماننا یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب اور خاص طور پر ہمارا مذہبِ عظیم اسلام، ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی کوششوں کا متقاضی ہے۔۔۔ ہماری نمازیں زاتی ضرور ہیں لیکن جب نماز “قائم” کرنے کا حکم ہوا تو اس میں اجتماعی کوششوں کو بھی لازم قرار دیا گیا۔۔۔ جہاد فی سبیل اللہ بھی ہماری اجتماعی یکجہتی کا متقاضی ہے۔۔۔
ہم سے پہلی کچھ نسلیں “فرقہ واریت” اور “مادہ پرستی” کے جال میں ایسا پھنسیں کہ ہماری بطور مسلمان تو دور کی بات ہے، بطور “انسان” بھی تربیت کرنا بھول گئيں۔۔۔۔۔ آج اسی لاپرواہی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہم سنی، وہابی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، پاکستانی، پنجابی، بلوچی، پٹھان اور سندھی تو بن گئے لیکن “مسلمان” نہ بن سکے۔۔۔ ہم دوسرے مسلمان کی تکلیف کو نظر انداز کر سکتے ہیں لیکن اپنی انا کی تسکین کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔۔۔
افسوس ہم سب کچھ بن گئے لیکن مسلمان، مؤمن اور اچھے انسان نہ بن سکے۔۔۔
والسلام۔۔۔
جنہیں رہنمائی کرنی تھی وہ ہی قوم کو بھٹکا رہے ہیں، جتنے بھی پوش علاقوں کی مسجدیں ہیں وہاں بہترین پڑھے لکھے مولوی حضرات تعینات کیئے جاتے ہیں، اور جتنے بھی غریب اور ان پڑھھ لوگوں کے علاقے ہیں وہاں مولوی بھی ایسا ہی تعینات کیا جاتا ھے، یہ تعیناتی ہر فرقے کے ہیڈ کوارٹر سے کی جاتی ھے، الٹا ہی معاملہ ھے جو پڑھے لکھے لوگ ہیں انہیں رہنمائی کی نسبتاَ کم ضرورت ھوتی ھے وہاں کم علم مولوی بھی ھو تو بھی معاملہ چل سکتا ھے، پڑھے لکھے مولوی کی زیادہ ضرورت تو ان پڑھھ لوگوں کہ علاقوں میں ھے مگر یہ سارے ہیڈ کوارٹرز ایسے غریب لوگوں کے علاقوں میں مولوی بھی چن کر ان پڑھھ اور کم علم بھی رکھتے ہیں تاکے ان ان پڑھھ اور غریب لوگوں کے شعور نہ مل سکے یہ جاہل کے جاہل ہی رہیں اور اپنی جہالت کی وجہ سے ان فرقوں اور مسلکوں کا ایندھن بنتے رہیں۔ یہ ہی کام سیاستدانوں نے کیا ھوا ھے کہ وہ بھی غریب اور ان پڑھھ لوگوں کو تعلیم اور شعور سے نا آشنا رکھنا چاہتے ہیں تاکے وہ انکا ایندھن بنے رہیں۔ رہ بات پاکستان کے اسسی پرسنٹ غریب لوگوں کے تو ان کے لئیے تو جینا مرنا ہی دو وقت کی روٹی ھے وہ اس چکر سے نکلیں تو کچھھ سوچیں، مفلسی کفر تک لے جاتی ھے، بھوکے انسان کا کوئی مذہب نہیں ھوتا۔ افتخار صاحب کو میرا مشورا ھے کہ ان مذہبی رہنماوں کے بارے میں غیرجانبدار ھو کر سوچیں تو شاید کسی صحیح نتیجے پر پہنچ پائیں۔
فکرِ پاکستان صاحب
ميں نے درستگی کيلئے قابلِ عمل تجاويز کی درخواست کی ہے اُن خواتين و حضرات سے جو اس قابل ہيں کہ ايک کمپيوٹر ۔ انٹرنيٹ کی سہولت اور اتی تعلي و شعور رکھتے ہيں ک پڑھ سکتے ہي لکھ سکتے ہي اور تجاويز دے سکتے ہيں ۔ جن غريبوں کی آپ بات کر رہے ہيں ميں شايد زندگی بھر ان سے قريب رہا ہوں ۔ ميں نے و وقت بھی ديکھا ہ جب دو وقت کی روٹی مل جائے تو اللہ کا شک ادا کتے تھے اور ايک وقت کی مل تب بھی
دوسروں کا حال سب جانتے ہيں ۔ آپ تجويز ديجئے کہ اس معاشرے ميں بہتری آپ کيسے لا سکتے ہيں ؟۔
زندگی کی بعض حقیقتیں اسطرح ہماری زندگی کاجزولاینفک بن چکی ہیں کہ ہم ان سےفرارنہیں ہوسکتےہیں ہرکوئی انکی برائي کاتومعترف ہےلیکن انکی کمی یاان کوجڑسےاکھاڑپھینکنےکےلئےہمارےپاس یاتووقت نہیں یااس کاکوئی بھی لائحہ عمل نہیں ہےکیونکہ برائی کوتوہم ضروردیکھتےہیں لیکن اس کوختم کی بات بھی کرتےہیں لیکن عملی طورپرہم اس کوایسےہی چلنےدیتےہیں۔ اس کی مثال میں ایسےدوں گاکہ جب ہمیں کوئی بھی کام کرنےکےلئےکسی بھی سرکاری دفترمیں جاناپڑےتووہاں پرلوگوں کارش اوربات بات پراعتراض ہونےپرہم دوسراراستہ استعمال کرتےہیں یاتوسفارش یاپھررشوت ہم کیوں وہاں پرجائزطریقےسےاپناکام کروانےکی کوشش نہیں کرتےکیونکہ اس میں ایک تووقت کاضائع سمجھتےہیں دوسراسمجھتےہیں کہ اسطرح کام نہیں ہوگایہی سوچ ہی ہےجوکہ آپ کوبرائی کےخلاف کمزورکرتی ہےاوربرائي کوآپ پرحاوی کرنےمیں اس کابہت عمل دخل ہے۔بندے کوچاہیےکہ ایک سوچ جوبنائےتواس کوپوراکرنےکےلئےہرطرح کی کوشش کرےاورنتیجہ پراپناخیال نہ رکھےاپنی پوری کوشش اس برائی کوختم کرنےکی کرےاورنتیجےکواللہ تعالی کی ذات پرچھوڑدےلیکن اپنی کوشش کوختم نہ کرےوہ کرتارہےیہی طریقہ ہی ہےجوکہ آہستہ آہستہ برائی کوختم کرےگااوراچھائی کوعام کرےگا۔اوریہی سوچ ہوگی جوکہ پھرمعاشرےکےہربندےکی سوچ بن جائےگی۔
اوررہی بات یہ کہ اس کی ذمہ داری کس پرعائدہوتی ہےاس کی ذمہ دارپرانی نسل بھی ہےاورجوان نسل بھی ہے۔کیونکہ پرانی نسل نےبھی ہرچیزکوپس پشت ڈال دیااوربس مادی سوچ کوآگےبڑھایاگیامذہب کوبس نام سےاستعمال کیاگیااورمادی ترقی کوہی سب کچھ کہاگیاتویہ نوبت آئي اوراسی ایجنڈہ کونئي نسل نےلیاجسکی وجہ سےیہ سب برائیاں نظرآرہی ہیں مذہب میں ان تمام پریشانیوں کاحل موجودہےلیکن ہم نےجب حسدکواپنااوڑھناپچھونابنالیاتویہ کچھ توہوناہی تھاایکدوسرےکونیچادکھاناترقی سمجھ لیاتویہ کچھ توہوناہی تھا۔اب بھی وقت ہےاوردلی دعاہےکہ اللہ تعالی ہم کوپوراکاپورادین اسلام کی تعلیمات پرعمل کرنےکی توفیق عطاء فرمائیں آمین ثم آمین
السلام علیکم،
اک فکر انگیز بلاگ ہے۔
سوال یہ کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟
ہر اچھائی اپنی ذات سے ہی شروع ہوتی ہے۔ پہلے ہم خود کو دیکھیں کہ جس پر واویلہ ہے اس میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔
جڑ وہی ہے۔ ایک ریس سی لگی ہوئی ہے۔ مادیت پرستی کیوں اور کیسے در آئی یہ اندازہ ہی نہیں ہوا۔
چند سال پہلے تک ہم رشتے داروں کو رشتوں سے جانتے تھے اب ڈیفینس والی خالہ یا لیاری والے ماموں کی حیثیت سے جانتے ہیں۔
برائی جو ہونی تھی ہو چکی اب یہ درست بھی ہم کو خود ہی کرنا ہوگی وہ بھی گھر سے۔
بچوں کو ہی سکھانا ہوگا جو کمی یا خامیاں ہم میں رہ گئی ہیں۔
اپنے اقدار کی پاسداری مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔
جاويد اقبال صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ہے ۔ اصل ميں ہم شارٹ کٹ چاہتے ہيں دنياوی کام ميں بھی اور دين ميں بھی ۔ اسی لئے ہم دين سے بھی دُور ہو گئے ہيں اور دنيا ميں بھی پيچھے رہ گئے ہيں ۔ ميں نے يورپ ميں ايک دفتر کے سامنے کام کرانے کی لمبی قطار ديکھی ۔ سب بڑے اطمينان سے باری کے انتظار ميں کھڑے تھے ۔ کچھ کتاب پڑھ رہے تھے کچھ اخبار اور کچھ ويسے ہی کھڑے تھے ۔ ميں نے اللہ کے فضل سے کبھی شارٹ کٹ کی کوشش نہيں کی ۔ کبھی تلخی بھی ديکھی مگر عام طور پر رشوت سفارش والوں سے جلدی ميرا کام ہو گيا اور باعزت طريقہ سے
مُنٰی سيّد صاحبہ ۔ و عليکم السلام و رحمة اللہ
بالکل درست لکھا ہے آپ نے ۔”ڈيفنس والی خالہ اور لياری والے ماموں” والی مثال پڑھ کر ميں بے اختيار ہنس پڑا ۔ آپ کے نام کم از کم سات نيکياں لکھی گئی ہوں گی کہ آپ نے مجھے ہنسايا ۔ آپ کراچی ميں رہائش پذير ہيں يا مکل سے باہر کسی جگہ ؟