جمعرات 27 جنوری 2011ء کو امريکيوں کے ہاتھوں 3 پاکستانيوں کے بر سرِ عام قتل کے سلسلہ ميں ڈاکٹر منير عباسی صاحب نے سوال کيا ہے کہ “کیا تین پاکستانیوں کے قتل عمد میں ملوث امریکیوں کو سزا ہو گی؟”
اس سوال کا جواب دينے کيلئے واردات کی مکمل تفصيل اور ماضی ميں ايسے واقعات پر کی گئی حکومتی کاروائی مدِ نظر ہونا ضروری ہے ۔ ميں اپنی سی کوشش کرتا ہوں کہ دونوں کو بالکل مختصر يکجا کروں
واردات کے اجزاء
1 ۔ ريمنڈ ڈيوس نے پوليس کو بتايا تھا کہ وہ امريکی قونصليٹ ميں ٹيکنيکل ايڈوائزر ہے مگر بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ بزنس آفشل کے ويزہ پر پاکستان آيا ہوا ہے ۔ وہ ڈِپلوميٹ نہيں ہے
2 ۔ جہاں ريمنڈ ڈيوس گھوم رہا تھا اُس علاقہ ميں کسی امريکی کو جانے کی اجازت نہيں ہے
3 ۔ ريمنڈ ڈيوس جو کار چلا رہا تھا اُس پر نمبر پليٹ جعلی تھی
4 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس اسلحہ تھا جس کا اُس نے بيدردی سے استعمال کر کے دو پاکستانی جوانوں کی جان لے لی
5 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر وائرليس سيٹ رکھنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس وائرليس سيٹ تھا جسے استعمال کر کے اُس نے اپنے قونصليٹ سے مدد منگائی
6 ۔ ريمنڈ ڈيوس کا مؤقف ہے کہ اُس نے اپنے دفاع ميں گولی چلائی ۔ ہسپتال ميں موٹر سائيکل چلانے والے فيضان حيدر کے جسم سے 9 گولياں اور پيچھے بيٹھے فہيم کے جسم سے 5 گولياں نکالی گئيں ۔ کيا اپنے دفاع ميں 14 گولياں چلائی جاتی ہيں جبکہ ريمنڈ ڈيوس کو کوئی گولی نہ لگی اور نہ کوئی گولی باہر سے اُس کی کار کو لگی
7 ۔ فيضان حيدر اور فہيم کو ہلاک کرنے کے بعد ريمنڈ ڈيوس کار سے باہر نکلا اور ہلاک ہونے والوں کی تصويريں بناتا رہا ۔ جس پر ڈاکو حملہ کريں کيا وہ ايسا کرتا ہے ؟
8 ۔ ريمنڈ ڈيوس کو پوليس نے گرفتار کر ليا
9 ۔ ريمنڈ ڈيوس کے وائرليس پر پيغام دينے کے نتيجہ ميں امريکی قونصليٹ کی ايک گاڑی پر ڈرائيور کے ساتھ دو آدمی آئے جو سب امريکی تھے
10۔ اس گاڑی کی نمبر پليٹ بھی جعلی تھی
11 ۔ سڑک پر ٹريفک زيادہ ہونے کی وجہ سے قونصليٹ کی گاڑی کو سُست چلنا پڑ رہا تھا ۔ ڈرائيور جانے اور آنے والی سڑکوں کی درميانی پٹڑی کے اوپر سے گاڑی کو جمپ کرا کے آنے والی سڑک پر ٹريفک کے مخالف گاڑی چلانے لگا جس کے نتيجہ ميں ايک موٹر سائيکل سوار عبادالرحمٰن کو ٹکر ماری جو ہلاک ہو گيا
12 ۔ جب اُس نے بھاگنے کی کوشش کی تو لوگوں نے اُسے روکا جس پر ايک آدمی نے اپنی گن کا رُخ اُن کی طرف کر کے اُنہيں دھمکی دی ۔ لوگ پيچھے ہٹ گئے اور وہ بھاگنے ميں کامياب ہو گيا
ہمارا ماضی کيا بتاتا ہے ؟
لاہور کا واقعہ پچھلے تمام واقعات سے بہت زيادہ سنگين ہے البتہ ماضی کی کچھ مثاليں يہ ہيں جن ميں ہماری حکومت نے کوئی کاروائی نہيں کی تھی
1 ۔ پچھلے سال اسلام آباد ميں دو ڈچ باشندوں کو اپنی گاڑی ميں اسلحہ بشمول ہينڈ گرنيڈز ليجاتے ہوئے پوليس نے پکڑا ۔ امريکی سفارتخانے کے ايک اہکار سنّی کرسٹوفر نے انہيں چھڑانے کی کوشش کی ۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اسے جُرم قرار ديا ۔ سيکريٹيريٹ پوليس نے کيس کا انداج بھی کيا مگر حکومت نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونے دی
2 ۔ جون 2009ء ميں ايک ڈبل کيبن پک اپ پشاور سے اسلام آباد آتے ہوئے جب گولڑہ چوک چيک پوسٹ پر پہنچی تو اُسے رُکنے کا اشارہ ديا گيا مگر وہ نہ رُکی ۔ پوليس نے وائرليس پر اگلی چيک پوسٹ کو اطلاع کر دی چنانچہ جی ۔ 9 کے پاس انہيں روک ليا گيا ۔ اس ميں تين امريکی جيفری ۔ جفڈک اور جيمز بل کوئين ۔ چارلی بنزک نامی ڈرائيور کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ يہ لوگ شلوار قميضيں پہنے تھے ۔ لمبی ڈاڑھياں رکھی تھيں اور پٹھانوں کا حُليہ بنايا ہوا تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 مشين گنز اور 4 پستول 9 ايم ايم کے تھے ۔ ايس پی کی مداخلت سے ان لوگوں کو جانے ديا گيا
3 ۔ اگست 2009ء ميں اسلام آباد پوليس کا انسپکٹر حکيم خان اپنی بيوی کے ساتھ پرائيويٹ کار ميں امريکی سفارتخانے کی قريبی چيک پوسٹ سے گذر رہا تھا ۔ اُسے امريکی سفارتخانے کے سکيورٹی آفيشل جان ارسو نے روکا اور گالياں ديں ۔ جب انسپکٹر حکيم خان نے اُسے کہا کہ وہ شارع عام پر گاڑياں چيک نہيں کر سکتا تو جان ارسو نے پستول نکال ليا اور کہا کہ وہ پاکستان ميں کسی بھی جگہ کوئی بھی چيز چيک کر سکتا ہے ۔ حکيم خان نے اپنے افسرانِ بالا کو اس واقعہ کی باقاعدہ تحريری اطلاع دی ۔ جان ارسو کے خلاف کوئی تاديبی يا قانونی کاروائی نہ کی گئی مگر اسے امريکا واپس بھجوا ديا گيا
4 ۔ اس کے بعد اگست 2009ء ہی ميں ايک پاکستانی جوان جو ڈپلوميٹک اينکليو ميں رہتا تھا دو دوستوں کے ساتھ اپنی کار ميں امريکی سفارتخانے کی چيک پوسٹ سے گزر رہا تھا کہ ايک يو ايس ميرين جو اپنی بيوی کے ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے وہاں سے گذر رہا تھا نے اس کی کار کو روکا اور ٹھُڈا مار کر کار کا سائيڈ کا شيشہ توڑ ديا اور صرف پاکستانی جوان کو ہی نہيں پاکستان کو بھی گالياں ديں ۔ پاکستانی جوانوں کے احتجاج کرنے پر يو ايس ميرين نے سکيورٹی گارڈز کو بلا کر انہيں 40 منٹ زيرِ حراست رکھا اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ دوبارہ کبھی اُس سڑک پر گاڑی نہيں چلائيں گے
5 ۔ اگست 2009ء کے ہی آخری دنوں ميں سيکٹر ايف ۔ 6 ميں شيل پٹرول پمپ کے مالک محسن بخاری کو ميريئٹ ہوٹل کے قريب آغا خان روڈ کے ٹريفک سگنل پر 2 امريکيوں نے روک کر اپنی شناخت کرانے کو کہا ۔ پھر اُسے اُس کے پٹرول پمپ پر لے گئے جہاں امريکی سفارتخانے کی سکيوريٹی کی ٹيم بھی پہنچ گئی اور محسن بخاری سے 30 منٹ پوچھ گچھ کی گئی ۔ محسن بخاری سينٹ ميں ليڈر آف دی ہاؤس نيّر بخاری کا بھتيجا ہے
6 ۔ اگست 2009ء کے ہی اواخر ميں امريکی سفارت خانے کی ايک پراڈو اور ايک ڈبل کيبن پک اپ کو کشمير ہائی وے پر پشاور موڑ کے قريب پوليس نے روکا ۔ دونوں گاڑيوں کی رجسٹريشن پليٹيں جعلی تھيں ۔ امريکيوں نے چيکنگ کروانے سے انکار کيا ۔ بعد ميں کچھ افسران آ گئے اور ان سے درخواست کی کہ پوليس کو قانون کے مطابق اپنا کام کرنے ديں ۔ 4 امريکيوں پکل روبن کينتھ ۔ لسٹر ڈگلس مائيکل ۔ کلن ڈينن جيسن رابرٹ اور سٹيل جونيئر نے اپنے آپ کو يو ايس آرمی آفيشلز بتايا ۔ ان کے ساتھ احمد اللہ نامی ايک افغانی بھی تھا جو امريکی سفارتخانہ ميں رہتا تھا اور اُس کے پاس پاسپورٹ يا کوئی ٹريول ڈاکومنٹ نہ تھا ۔ صرف امريکی سفارتخانے کا ايک خط اُس کے پاس تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 رائفليں اور ايميونيشن تھا مگر کسی کے پاس لائسنس يا کوئی اور اٹھارٹی نہ تھی ۔ اُنہوں نے بتايا کہ وہ خيبر پختونخوا کی فرنٹيئر کور کے ساتھ کام کر رہے ہيں مگر اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا
موجودہ صورتِ حال يہ ہے کہ اسلام آباد ميں حکومت پر امريکی دباؤ جاری ہے اور امريکی ان قاتلوں کو بغير کسی کاروائی کے امريکا ليجانا چاہتے ہيں ۔ وزارتِ خارجہ انکار کر چکی ہے مگر وزارتِ خارجہ ماضی ميں بھی قانون کے مطابق انکار کرتی رہی ہے ۔ وزيرِ داخلہ نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ ملک کے قانون کے مطابق کاروائی عمل ميں لائی جائے گی
پنجاب حکومت نے امريکی قونصليٹ سے کہا ہے کہ موٹر سائيکل سوار کو کچلنے والی گاڑی اور ڈرائيور پنجاب حکومت کے حوالے کيا جائے
پاکستانی حکومت ان امریکیوں کے بدلے عافیہ صدیقی کو رہا کروا سکتی ہے یا کچھ ڈالر مزید لے سکتی ہے یا پھر کوئی اور سفارتی رعایت حاصل کرسکتی ہے۔ زمانے کا دستور تو یہی ہے۔ انہیں پاکستان میں سزا ہونا ناممکن ہے اور پاکستان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتا۔
انکل یہ کہنا تو فضول ہی ہو گا کہ اس امریکی کو سزا ہو گی۔۔۔ اور جو مثالیں آپ نے دی ہیں اس کے بعد تو امید ہی ختم ہو گئی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق ہو گا۔۔۔
خرم صاحب کا آئیڈیا درست ہے کہ ہم اس امریکی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن موجودہ حکومت کی بے حسی سے ہم سب واقف ہی ہیں۔۔۔ وہ ڈاکٹر عافیہ کی عزت کی بجائے ڈالر لینا زیادہ پسند کریں گے۔۔۔
خرم صاحب
ماضی ميں متعدد امريکی ڈپلوميٹس کو غير ممالک ميں تعيناتی کے دوران سزائيں ہوئی ہيں ۔ ايک امريکی سفير کو موت کی سزا بھی دی گئی ۔ درست کہ ہماری حکومت کو صرف اپنی جيبيں بھرنے کی فکر ہے ليکن اگر قوم کے جوانوں کا ضمير ابھی زندہ ہے تو حکومت کو انصاف کرنے پر مجبور کر سکتے ہيں ۔ اجتماعی مگر پُرامن احتجاج کر کے
آپ ديکھ چکے ہيں کہ آصف علی زرداری معزول ججوں کو بحال کرنے پر کسی صورت تيار نہ تھا اور امريکی حکومت نے بھی پورا زور لگايا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کيا جائے ۔ ہلری کلنٹن نے ٹيليفون پر نواز شريف کو جلوس سے باز رکھنے کيلئے 40 منٹ متواتر بات کی ۔ مگر عوام کی طاقت کے سامنے سب ڈھير ہو گئے ۔ ہميں اچھے کيلئے دعا کرنا چاہيئے اور انصاف کی خاطر جد و جہد کرنا چاہيئے
عمران اقبال صاحب
ہميں اچھے کيلئے دعا کرنا چاہيئے اور کوشش بھی ۔ اللہ بڑا کارساز ہے
بڑی محنت سے آپ نے سارا مواد اکٹھا کیا ہے۔ یقین کریںآپ کی تحریر واقعی لاجواب ہے۔ اس تحریر کی روشنی میں ہمارا شک یقین میں بدلنے لگا ہے یعنی موجودہ کیس بھی کہیں دب جائے گا اور جب لوگ بھول جائیں گے تو غیرملکی کو خاموشی سے واپس اس کے ملک بھیج دیا جائے گا۔
سیالکوٹ کے دو بھائیوں کے قتل کے وقت تو سارے روشن خیال ہائے ہائے کر رہے تھے۔
اس وقت سب خاموش کیوں ہیں؟
ياسر صاحب
وہ بڑے وفادار لوگ ہيں ۔ اُنہيں اُن کے آقاؤں نے اس وقت چُپ رہنے کا حُکم ديا ہو گا کيونکہ بڑے آقا صاحب اپنے آدمی [قاتل] کو نکال ليجانا چاہتے ہيں ۔ مجھے تو شک ہے کہ جن دو آدميوں نے اُن کے موبائل فون چھيننے کا بيان ديا وہ روشن خيال ہی ہيں کيونکہ مجرم ايک واردات کرنے کے بعد منظر سے غائب ہو جاتا ہے ۔ وہ اتنی عقل ضرور رکھتا ہے کہ اُس کی تلاش شروع ہو چکی ہو گی
اس امریکی کے پاس جس ساخت کا اسلح تھا غالبا اقوام متحدہ کی طرف سے ممنوعہ ساخت کے شمار میں آتا ہے۔
آپ نے جو واقعات بیان کئیے یہ وہ ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستانیوں کے علم میں آئے۔ اب ذرا تصور کریں وہ واقعات جن کے بارے میں عام آدمی تو کجا ہمارے اداروں اور ایجینسیز کے علم میں نہیں ہونگے۔ یہ لوگ پاکستان میں یوں دندناتے پھرتے ہیں جیسے انہوں نے پاکستان اور پاکستان کا اقتدار اعلٰی خیر رکھا ہے۔ اور شائد اپنی دانست میں وہ اسے درست بھی سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ انہوں نے بہت کم قیمت میں پاکستان کے زر خریدوں کو خرید کر اپنی جیب میں رکھ چھوڑا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے۔ ایک آدھ اشتناء چھوڑ کر باقی سبھی خوا وہ آمر ہوں یا جمہوری آدرشوں کا ڈھول پیٹنے والے سبھی پاکستانی کم اور امریکی وائسرائے کا کردار زیادہ کرتے ہیں ۔ معمولی سے عوضانے میں پورے پاکستان کے اقتدار اعلٰی کا سودا کر رکھا ہے۔یہ سلسہ کبھی فری میسن اور کبھی بلیک واٹر یا زی کے نام پہ پاکستان کے مفادات کے خلاف چلا آرہا ہے مگر اسے روکنے والے تو اقتدار کے سنگھاسن پہ برجمان ہونے سے پہلے سبھی شرائط مان چکے ہوتے ہیں۔ شروع دن سے امریکہ نے پاکستان میں پاکستان کے اقتدار اعلٰی کی پنیری کو پنپنے ہی نہیں دیا۔
پنجابی کی مثال ہے۔”نالے خیر، نالے آکڑ” یعنی بھیک بھی ہماری کھاتے ہو اور پھرتیاں بھی ہمیں دکھاتے ہو” یہاں تک تو بات درست ہے کہ جن سے بھیک لیکر کھائی جائے ان کے سامنے پھرتیاں نہیں دکھائی جاسکتیں۔اس بھیک اور خیرات کے سارے افسانے میں جو ظلم ہوتا آرہا ہے اور جس پہ آج تک کسی سیاسی بزرجمہر یا اپنے تئیں “کالم نگار” و تجزیہ کار ہونے والے کسی دانشور نے آج تک حقائق سے پردہ ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ حقائق یوں ہیں۔ کہ اس خیراتی کاروبار میں خیراتی کا نام پاکستان لکھا جاتا ہے۔ بھیک لینے والے کی مد میں پاکستان بتایا جاتا ہے جبکہ یہ ساری خیرات امداد، قرضے، وغیرہ ملنے کے باوجود خیراتی کے حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت پاکستان اور اسکی انتظامیہ جو بجائے پاکستان کے اپنے وسائل کو ترقی دینے کے پاکستان کو ایک عالمی گداگر کی شکل میں باقاعدہ پروموٹ کرتے ہیں وہ دلال دن بدن امیر ہوتے جاتے ہیں۔ اربوں ڈالر کی امداد اور خیرات جن کی جیبوں میں جارہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر کمال ڈھٹائی سے رونا پاکستان کی غربت کا رویا جاتا ہے۔ اگر واقعتا یہ امداد اغیرہ ریاست پاکستان کے مفادات کے لئیے استعمال ہوتی تو بھی یہ نہائت گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ ساری دنیا کے اقتصادی امور کی سمجھ رکھنے والے ماہرین اس نکتے پہ متفق ہیں کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ہروال دستے کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے پاکستان کا یومیہ نقصان امریکی امداد و خیرات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور اس پہ طرف تماشہ یہ ہے کہ نقصان تو ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کا ہو رہا ہے جن کے پیٹ دن بدن سکڑتے جارہے ہیں۔ جن کا ہر روز جینے کے بحران سے گزرتا ہے۔ مگر ان پہ مسلط اور انکی آزدی اور ایمان کے بدلے مدد مزید مدد کی دہائی دینے والے ہزار ہزار امریکی ڈالرز کے سوٹ زیب تن کرتے ہیں اور لاکھوں روپے کے کرتوں پہ بٹن جڑواتے ہیں۔ اس سب پہ سوا ایک ستم ظریفی اور بھی ہے کہ ضمیر فروش جب کسی قوم کی رہنمائی کا دعواہ کریں اور اس قوم کے حکمران بن بیٹھیں جب کہ وہ درحقیقت کسی غیر ملکی اور بالا طاقت کے مفادات کی نگرانی کریں اس بالا اور غیر ملکی طاقت جو اپنے مقاصد کے لئیے کسی کا بھی تورا بورا کرنے کو تیار ہو، اسی غیر ملکی طاقت ے مفادات کی نمائندگی کریں ۔ تو ایسے میں اس قوم جیسے کہ ہماری پاکستانی قوم اس کا دوہرا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ایسے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا حکمران ہو نہیں سکتا خواہ وہ اس قوم کا کتنا ہی درمند ہو یا اس ملک کا جمہور ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ایک وقت میں دو حکمران تو ہوتے نہیں۔
لاپتیاں ہمارے لئیے
بے بسیاں ہمارے لئیے
خود کشیاں ہمارے لئیے
کوئی نہیں جلاتا
کشتیاں ہمارے لئیے
لٹے ہاتھ پھیلے ہوئے
پھول سے بچے سہمے ہوئے
گھر ، کھیت کھلیان جلے
گویا بھوتوں کے وہمے ہوئے
اہل وطنوں کے نصیب میں
خیرات کے فقط
چند خیمے ہوئے
جوان لاشے گرتے گئے
مٹی کا رزق ہوئے
بہنوں کے سپنے ٹوٹتے گئے
آنسؤں میں غرق ہوئے
اب مائیں لوری سناتیں نہیں
دعا کے لئیے ہاتھ اٹھاتیں نہیں
خوابوں کوخرید گئے
خواہشوں کو سیج گئے
شیطان کے سنگ گئے
چیلے اور مرید گئے
عرفات کا پانی
باندھ گیے
سب خضر راہ
کوئے یزید گئے
جب سارے خضر راہ یزید کے ساتھ مل جائیں تو پاکستان کے اقتدار اعلٰی کی کوئی پیش کیسے چلے؟۔ عوام کے سر پہ دست شفقت رکھنے والا کہاں سے آئے؟، غریب جو پاکستان کی اکثریت ہے ، اسکے انسو پونچھنے والا کون ہو؟۔ ریاست کا کوئی ادارہ ماں کا کردار کیسے کرے؟ ہاں البتہ مجبور اور مظلوم لوگوں کا خون بہتا رہتا ہے۔لاشے گرتے رہتے ہیں۔ تاوقتیکہ ایک دن قدرت سب کی رسی ایک جھٹکے سے کینھیچ لے۔
آپ کیا امید رکھتے ہیں کہ پاکستان کے نام پہ خیرات لیکر اپنے بنک اکاؤنٹس کا پیٹ بھرنے والے۔ پاکستانیوں کا خون بیچ کر لمبی لمبی جائیدادیں بنانے والے۔ پاکستان میں جن لوگوں، جن طاقتوں کے پاکستان سے متصادم مفادات کی نگرانی کرتے ہیں۔اور جو پاکستانی جمہور کی رائے کے برعکس اپنے آقاؤں کے اشاروں پہ اپنی پالیسیز بناتے ہیں۔ جو اقتدار میں آنے کے لئیے وہیں سے آتے ہیں اور اقتدار ختم ہونے پہ وہیں واپس چلے جاتے ہیں۔ جن کی لوٹی ہوئی رقم واپس انہی معاشروں میں پہنچ جاتی ہے جہاں سے انہیں رشوت میں دی جاتی ہے۔ جو اپنے آپ کو پاکستانی کم اور امریکی شہری زیادہ سمجھتے ہیں۔ اور جو پاکستانی بیور کریسی کا مغز ہیں ۔جنہوں نے اور ان کی اولادوں نے حفظ ماتقدم کے طور پہ امریکن گرین کارڈ بنوا رکھے ہیں۔ جن کے ساتھ زبانی کلامی یہ معائدے پہلے سے کر لئیے جاتے ہیں جنہیں یہ یقین دلا دیا جاتا کہ وہ جو جی آئے کرتے پھریں جسطرح مرضی من مانی کریں کہ پاکستان میں حالات ناموافق ہونے پہ ایسے حکمراوں اور انکے حواریوں کو پاکستانی قانون اور عوام سے سے امریکہ ہی بچا سکتا ہے اور امریکہ پورے پروٹوکول کے ساتھ بچا لے گا۔
آپ کیا سمجھتے ہیں ایسے لوگ پاکستانی قانون یا عوام کی خاطر ایک امریکی کو اس کے اسقدر جرائم پہ پاکستان کے قانون کے مطابق سزا ہونے دیں گے۔ اگر اس امریکی کو قانون کے تحت سزا ہوتی ہے تو ایسا ہونے کو کسی بھی مہذب ملک میں اسے عام سا تصور کیا جاتا مگر پاکستان میں اس امریکی کو قانون کے تحت سزا ملی تو یہ ایک معجزہ سمجھا جائے گا۔ جو ہوتا نظر نہیں آتا۔
جاويد گوندل صاحب
يہاں صورتِ حال يہ ہے کہ زرداری نے زبانی حکم جاری کر ديا ہے کہ “خواہ کچھ بھی ہو امريکی قاتل کو امريکی حکام کے حوالے کر ديا جائے مگر لکھ کر نہيں ديا تاکہ سارا ملبہ پنجاب حکومت اور مسلم ليگ ن پر پڑے