ميرے ہموطنوں کی اکثريت کی يہ عادت بن چکی ہے کہ ہر آدمی اپنی کمزوری اور عِلّت کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے ۔ قومی سطح پر بھی يہی صورتِ حال ہے کہ قصوروار کبھی امريکا و اسرائيل اور کبھی حکمران يا طالبان يا مُلا ہوتے ہيں يا اور کچھ نہيں تو اُن کا پاکستانی ہونا ہی بڑا قصور ہوتا ہے ۔ جسے ديکھو ذاتی غرض کے تحت پہاڑ کھودے گا اور غليظ کام کرنے کو بھی تيار ہوگا ليکن کسی ہموطن کی بھلائی کی خاطر ايک تنکا اُٹھانے کا روادار کم ہی ہو گا ۔ خود کچھ کرنے کا نہيں مگر کہتا پھرے گا کہ فلاں يہ کيوں نہيں کرتا اور فلاں وہ کيوں نہيں کرتا ؟ يا پھر کہے گا کہ يہ مُلک ہی خراب ہے
پچھلے دنوں کی بات ہے کہ کسی محفل ميں ايک شخص نے پاکستان کے چيف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے عزم کی تعريف کی۔ ايک صاحب بولے “يہ سب کچھ وہ اپنی ذات کيلئے کر رہا ہے ۔ فلاں آدمی کو قتل کر ديا گيا ۔ اُس کا سوئو موٹو نوٹس کيوں نہيں ليا ؟”۔ جب اُن صاحب سے پوچھا گيا “آپ اتنے بڑے کھڑپينچ ہيں ۔ آپ بتايئے کہ آپ نے کسی کيلئے یا ملک کيلئے کيا کيا ہے ؟” تو وہ صاحب خاموش بيٹھ گئے
جب کبھی کبھار سڑک پر کار چلاتے ہوئے یا پيدل سڑک کو پار کرتے ہوئے کوئی کار والا راستہ دے ديتا ہے تو اُسی وقت دل و جان سے اُس کا اور اللہ کا شکر بے اختيار ادا ہو جاتا ہے کہ ہماری قوم ميں اِکّا دُکّا ہی سہی مگر کچھ انسان موجود ہيں ۔ ورنہ يہ حال ہے کہ ايک دن میں جا رہا تھا ۔ ايک سکول کے قريب بچے سڑک پار کر رہے تھے ۔ ميں نے کار روک لی ۔ ايک کار نے ميری گاڑی کو تيزی سے اوورٹيک کيا ۔ ايک آٹھ دس سالہ بچہ اُس کار کے نيچے آتا بچا ۔ قبل اس کے کہ ميں اپنی گاڑی سے اُتر کر اُس کار تک پہنچتا اُس کار کو چلانے والے نے اپنی کار سے نکل کر اُس بچے کی پٹائی کرتے ہوئے کہا “حرامزادے مرنا ہے تو کسی اور کے آگے آ کر مر”
ايک جگہ سڑک پر بھيڑ لگی تھی جا کر ديکھا تو ايک بچہ کسی گاڑی سے ٹکرا کر گرا پڑا ہے ۔ ٹانگ سے خون نکل رہا ہے ۔ ارد گرد کھڑوں ميں سے کوئی کار والوں کو گالی دے رہا ہے کوئی پوليس کو گالی دے رہا ہے کوئی پاکستان کو گالی دے رہا ہے کوئی مسلمانوں کو گالی دے رہا ہے مگر کسی نے جھُک کر بچے کو نہيں ديکھا اور نہ اسے طبی امداد پہنچانے کی فکر کی ۔ جب ميں بھيڑ ميں داخل ہوا اُسی وقت ايک اور شخص سامنی طرف سے آيا ہم دونوں نے بچے کو اُٹھايا ۔ وہ بچے کو لے ہسپتال روانہ ہوا اور ميں نے بچے کے گھر جا کر اطلاع کی
اپنے ملک ميں سڑک پار کرنے کيلئے کھڑے ہيں مگر مجال ہے کہ کوئی گاڑی والا راستہ دے ۔ اگر گاڑيوں کے درميان فاصلہ ہو تو پچھلی گاڑی والا ہارن بجا کر گاڑی تيز کر ليتا ہے ۔ دو سال قبل دبئی ميں ميں سڑک کے کنارے پٹڑی [foot path] پر کھڑا ہوا کہ گاڑياں گذر جائيں تو ميں سڑک پار کروں ۔ سب گاڑياں رُک گئيں اور اگلی گاڑی ميں بيٹھے شخص نے مجھے سڑک پار کرنے کا اشارہ ديا ۔ ہمارے مُلک ميں اپنی تيزی ميں سڑک کے کنارے کھڑے کو ٹکر مار کر بھاگ جاتے ہيں يا بھاگنے کی کوشش کرتے ہيں جيسا ميرے ساتھ پچھلے برس اٹھائيس ستمبر کو ہو چکا ہے
مُلک ميں چوربازاری عام ہے تو قصور امريکا يا اسرائيل کا ہے ۔ جوانوں کا چال چلن انحطاط پر ہے تو قصور دينی مدرسوں اور مُلا کا ہے ۔ آج کا مسلمان خود کو اسلام پر چلانے کی بجائے اسلام کو اپنے مطابق چلانا چاہتا اور اس خواہش کی تکميل ميں دينی مدرسہ اور مُلا کو راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر کوتاہيوں کا ملبہ اُن پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کچھ باريک بين مدرسہ اور مُلا کا تعلق امريکا سے دريافت کر ليتے ہيں
جسے ديکھو وہ دوسروں کو ٹھيک کرنے کيلئے لمبی تقارير کر رہا ہے اور تحارير لکھ رہا مگر چراغ تلے اندھيرا کی مصداق اپنے قول فعل کے تضاد پر نظر ڈالنے کی اُسے فرصت نہيں ہے ۔ کوئی صوبائی سطح پر بات کرتا ہے تو کوئی ضلعی سطح پر ۔ کوئی قبيلہ کی سطح پر تو کوئی لسانی سطح پر ۔ محدب عدسہ اور چراغ لے کر سورج کی روشنی ميں پاکستانی کو ڈھونڈنا پڑتا ہے
زندہ قوم کے افراد اجتمائی بہتری کا سوچتے اور اس کيلئے کام کرتے ہيں جبکہ شکست خوردہ قوم کے افراد صرف اپنے لئے کام کرتے ہيں اور صرف اپنی بہتری کا سوچتے ہيں خواہ دوسرے کی اس ميں حق تلفی ہو
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » شکست خوردہ قوم -- Topsy.com
جناب ابھی ابھی پاکستان سے واپس آیا تھا۔بالکل یہی کچھ محسوس کیا۔دوسروں کے سر الزام تھوپ کر ہر بندہ اپنی پارسائی دکھا رہا ہوتا ھے۔اور اس پارسائی پر پانچ منٹ قائم نہیں رہ سکتا۔
راولپنڈی میں ٹیکسی ڈرائیور کو ٹریفک کی بد نظمی اور گاڑی چلانے والوں کی بیہودگی پر تبصرہ کرتے سنا اور اور ٹیکسی ڈرائیور کی بیہودہ ڈرائیونگ کو برداشت بھی کیا۔اگر کچھ کہہ دیتا تو پٹائی لازمی ہونا تھی۔
بحرحال ایک بات محسوس کی کہ دن بدن بہتری آتی جارہی ہے۔پہلے جیسی بیہودگی کم ہوتی جارہی ھے۔
صرف عوام کو تحفظ کا احساس ہو کہ پولیس امیر و غریب کی حفاظت بغیر کسی تفریق کے کرے گی۔
میرے خیال میں عوام اب کافی بہتر ہیں۔تھوڑی بہت تربیت اگر حکومتی سطح پر کی جائے تو اگلی نسل کو کچھ بہتر حالات دیئے جاسکتے ہیں۔مہنگائی تو خیر جاپان سے زیادہ محسوس ہوئی۔۔سمجھ نہیں آئی کہ وہاں پر مزدور طبقہ کیسے گذر اوقات کر رہا ہے۔
ياسر صاحب
درست ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی ميں ٹريفک بہتر ہو گئی ہے اور اس کا سہرا اُس وقت کے ايس ايس پی ٹريفک ڈاکٹر سلطان احمد تيموری کے سر ہے جس نے دوسری پوليس سے بالکل عليحدہ ٹريفک پوليس کی منظوری لے کر بھرتی کی پھر ان کی تربيت يورپی پوليس کے اساتذہ سے کروائی اور چھوٹے بڑے سب کے ساتھ يکساں سلوک کيا ۔ مگر کب تک ؟ ايک دن پوليس والوں نے اس وقت کے وزيرِ اعظم شوکت عزيز کے ڈرائيور کا چالان کيا اور ايک فوجی افسر کا تو اُسے وہاں سے ہٹا ديا يا ۔ مگر رسم جو وہ ڈال گيا تھا وہ کچھ نہ کچھ چل رہی ہے ۔ اس کا اثر راولپنڈی پر بھی ہوا
“ خود کچھ کرنے کا نہيں مگر کہتا پھرے گا کہ فلاں يہ کيوں نہيں کرتا اور فلاں وہ کيوں نہيں کرتا ؟ يا پھر کہے گا کہ يہ مُلک ہی خراب ہے ”
” کوئی صوبائی سطح پر بات کرتا ہے تو کوئی ضلعی سطح پر ۔ کوئی قبيلہ کی سطح پر تو کوئی لسانی سطح پر ۔ محدب عدسہ اور چراغ لے کر سورج کی روشنی ميں پاکستانی کو ڈھونڈنا پڑتا ہے ”
پاکستان میں نا تو کوئی مسلمان رہتا ہے نا ہی کوئی پاکستانی، یہ اٹھارہ کروڑ مردوں کا ملک ہے.. لوگوں کو بس پاکستان سے کچھ نہ کچھ چاہیے، پاکستان کو دینے کی سعی کوئی نہیں کرتا..
درست کہا انکل آپ نے۔
انکل۔۔۔ کل جب آپ سے بات ہوئی تو آپ نے کہا تھا کہ پاکستان پہلے ایسا نہیں تھا اور پھر آپ نے مثال دی کہ پہلے اگر کسی پارک میں لوگ گھاس پر چل رہے ہوتے تھے تو دوسرے لوگ کہتے تھے کہ بھائی اگر آپ نے بیٹھنا ہے تو گھاس پر بیٹھ جاو ورنہ گھاس مت خراب کرو۔۔۔ یہ تھیں قدریں۔۔۔ میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ انکل آج کی نسل اور ہم سے پہلی نسل میں کیا بنیادی فرق ہو گیا جو اب پہلے جیسی مروت نہیں رہی۔۔۔ اور آپ نے جواب دیا تھا کہ دین اور قانون سے دوری۔۔۔
انکل میرے خیال میں۔۔۔ ہم اس حد تک پستہ اقدار اپنا چکے ہیں کہ اب اسے بدلنے میں ایک پوری نسل کی کوششیں چاہیے۔۔۔ ہماری نسل کے خون میں بے ایمانی، بے قدری اور بے مروتی بھری جا چکی ہے۔۔۔ اور میں اس کا قصور پچھلی نسل کو دونگا۔۔۔ انہی کی اسلام دوری اور مادی دنیا میں آگے بڑھنے کے شوق نے ہم سے وہ ساری اقدار چھین لیں جو کبھی ہمارا اثاثہ تھے۔۔۔ اور بقول آپ کے کہ پہلی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے تو جب گھر بھر میں دین کا نام نا ہو اور ہر وقت مادی مسائل کا زکر ہو تو ہم بھی وہی سوچیں گے اور کریں گے جو ہمارے بڑوں نے کیا۔۔۔
جب میں “اپنی نسل” کی بات کرتا ہوں تو میں خود سمیت کسی کو الزام نہیں دے رہا لیکن کھلے دماغ اور دل سے سوچیے کہ کیا ہماری نسل واقعی بے راہ روی کا شکار نہیں۔۔۔ ہم میں وہ کونسی خامیاںنہیں رہ گئی جو ہم نے قران میں ان قوموں کے بارے میں پڑھیں ہیں جن پر اللہ نے عذاب نازل فرمایا۔۔۔ لیکن ہم بخشے جا رہے ہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے سبب۔۔۔ ورنہ جو خامیاں ہم میں ہیں ان کے باعث اب تک ہم بندر یا سور بن چکے ہوتے یا ہمیں بھی آسمان تک لے جا کر الٹا پھینک دیا جاتا۔۔۔
آپ نے فرمایا تھا کہ آج کی نسل بہت بہتر ہے تو انکل میں آپ سے اس بات پر اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ دنیاوی علم اور کچھ کر دکھانے کی جہت نے ہمیں بہت فاسٹ فارورڈ کر دیا ہے۔۔۔ شاید میں کنویں کے مینڈک کی طرح ہوں جسے کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن مجھے پڑھے لکھے، سوچنے سمجنھے والے اور لوجیکس کے ساتھ گفتگو کرنے والے عالم دین سے ملنے کا اب بھی بہت انتظار ہے۔۔۔ ڈاکٹر زاکر نائیک یا ڈاکٹر اسرار احمد کے بہت سن چکا ہوں لیکن انہیں بھی صرف ایک خاص طبقہ ہی فالو کر رہا ہے۔۔۔ ہمیں چاہیے ایسے لوگ جو محلوں کی مساجد میں یہ خدمت انجام دیں ۔۔۔
میرا ماننا یہ بھی ہے انکل کہ اگر ہمارا دین راسخ ہو جائے اور عقیدہ میں کوئی کمی نا رہ جائے تو دنیا میں رہنے کے ہمارے اطوار ہی بدل جائیں گے۔۔۔ پھر لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے اور ان میں توکل بھی آ جائے گا۔۔۔ اور میرے خیال میں توکل اللہ دنیا بھی بنا دیتا ہے اور آخرت بھی۔۔۔
اللہ آپ کو صحت عطا فرمائے۔۔۔ آمیں۔۔۔
شکست خوردہ قوم ، اس تحریر کا عنوان متن کا خوب آئنیہ دار ہے۔ آئینہ دکھانے کا بہت شکریہ۔
بہت عبرت آموز تحریر ہے..میرا خیال ہے کہ ہماری قوم ایک ہسٹیریا کا شکار قوم ہے…جب ہم نارمل ہونگے تبھی ہمیں اپنے پاگل پن کا اندازہ ہوگا