ہم ۔ ہماری باتيں اور ہمارا عمل

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کی حفاظت کرنے والے ایلیٹ فورس کے سکواڈ میں شامل جوان ممتاز قادری نے ہلاک کر ديا

نتيجہ ۔
ہميشہ کی طرح عوام کی آپس ميں لے دے ۔ فضول بحث اور ايک دوسرے پر تہمت طرازی
سوال ہے ۔ کيا ہميں اس سے بہتر کوئی کام نہيں آتا ؟

[ميں شروع ہی ميں واضح کر دوں کے ميری سوچ کے مطابق ممتاز قادری ملک کے قانون کا مجرم بنا ہے ۔ اللہ کا مجرم بنا ۔ يا نہيں ۔ وہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ميں دو جماعت پاس کيا کہہ سکتا ہوں ؟]

جسے ديکھو وہ قرآن شريف اور حديث سے بالا بالا اپنی مخصوص رائے رکھتا ہے جسے وہ اصلی اسلام منوانے پر تُلا بيٹھا ہے ۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت صرف يہ سمجھ ليا گياہے کہ ميلادالنبی کا جلوس نکالا جائے محفل ميلاد رچائی جائے ۔ ان ميں نعت کے عنوان سے شرک کی حديں پار کی جائيں مگر اپنی زندگی ميں صرف وہاں نبی کی پيروی کی جائے جہاں آسانی ہو يا اپنی مطلب براری ہوتی ہو ۔ اور جب توہينِ رسالت کی بات آئے تو “قانون امتناع توہينِ رسالت” کو ظالمانہ يا کالا قانون کہا جائے ۔
يا
رحمت للعالمين کی حيات طيّبہ ميں سے چند مثاليں دے کر توہين کرنے والے کی معافی کا جواز نکالا جائے

ميں ايک عام سا انسان ہوں اور ہر بات کو اس نظر سے ديکھتا ہوں جيسا کہ ميرا اپنا عمل ہے ۔ اگر کوئی ميری بے عزتی کرے تو ميں اُسے معاف کر سکتا ہوں اور يہ حقيقت ہے کہ ميں نے اپنی زندگی ميں ہميشہ ايسے لوگوں کو معاف کيا بھی بلکہ ايک بار حالات کی سازگاری کے پيشِ نظر ايک سِنيئر افسر ہوتے ہوئے ايک ورکر سے سب کے سامنے معافی مانگی ليکن ميں اپنے والدين کی توہين برداشت نہيں کر سکتا چاہے ميری جان جائے ۔ ايک بار ايک شخص نے يہ حرکت کی تھی اور وہ پہلی اور آخری بار تھی کہ لوگوں نے مجھے بپھرا ہوا ديکھا تھا ۔ ميں نے اپنے سے زيادہ جسمانی لحاظ سے طاقتور توہين کرنے والے کے دو چار ہاتھ ايسے رسيد کئے کہ وہ پريشان ہو گيا تھا ۔ اس کے بعد آج تک کسی کو جراءت نہيں ہوئی کہ وہ ميرے ماں باپ کے خلاف بولے

کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کوئی شخص مُسلمان ہو ہی نہيں سکتا جب تک اُسے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اپنی عزيز ترين چيز حتٰی کہ اپنے والدين سے بھی زيادہ عزيز نہ ہو جائيں ؟

پھر کہاں رہ جاتی ہے ہماری مسلمانی جب کوئی ملعون توہنِ رسالت کا مرتکب ہوتا ہے ؟

کيا ہمارا حال کچھ اس طرح نہيں جس طرح گارڈن کالج راولپنڈی ميں ہمارے پروفيسر جناب وی کے مل صاحب نے انگلش پوئٹری پڑھاتے ہوئے بتايا تھا “ايک جوان اپنی محبوبہ کو بتا رہا تھا کہ وہ اس سے بہت زيادہ محبت کرتا ہے يہاں تک کہ اس کيلئے اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے ۔ اسی اثناء ميں ايک بھينسا اُن کی طرف بھاگتا ہوا آيا تو جوان نے اپنی محبوبہ جس نے سُرخ رنگ کا سکرٹ پہن رکھا تھا کو اُٹھا کر بھينسے کے سامنے کر ديا”

يہ کہنا درست ہے کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثير کو قتل کر کے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی ۔ اس پر بہت شور شرابا ہے ۔ ملک ميں اس سے زيادہ قانون کی خلاف ورزياں ہو رہی ہيں ۔ ان پر خاموشی ہے ۔ کيوں ؟

سلمان تاثير نے قانون امتناع توہينِ رسالت کو “کالا قانون” کہہ کر نہ صرف ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ توہينِ رسالت کا بھی مرتکب ہوا تھا

اس پر ملک کے وزيرِ اعظم سيّد يوسف رضا گيلانی نے يہ کہہ کر کہ يہ حکومت کی پاليسی نہيں ہے ايک گڑوی پانی سے اشنان کر ليا تھا ۔ توممتاز قادری کے بارے ميں بھی ايک گڑوی پانی سے اشنان کر لينے ميں کيا مانع ہے ؟

اس سے اُن کی اپنی جماعت اور حواری زد ميں آتے ہيں اور اُنہيں اپنی کرسی چھننے کا خدشہ ہے

This entry was posted in تجزیہ, دین, ذمہ دارياں, روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

19 thoughts on “ہم ۔ ہماری باتيں اور ہمارا عمل

  1. روسی شہری

    دیکھیں اس معاملہ کو آپ سیا ست سے ہٹ‌کر دیکھے ۔ویسے بھی یہ گورنر کوئی سیایسی نہیں تھا ویسے اچھا ہی ہو ا یہ نا مراد جہنم واصل ہو گیا ۔

  2. نعیم اکرم ملک

    بڑی ہی شاکنگ نیوز تھی۔ دفتر میں کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا اور اس خبر کی وجہ سے نیوز ویب سائٹس پر اتنا رش تھا کہ سماء جیو ڈان وغٰیرہ سبھی کے سرور ڈائون ہو گئے تھے۔
    خبر ملتے ہی میں نے بھی اپنے بلاگز پر یہ خبر اور اس سے متعلقہ تفصیلات ڈال دی تھیں۔ ملاحظہ فرمائیں

    اردو میں
    http://kehna.blogspot.com/2011/01/blog-post.html
    انگریزی میں
    http://hottechstuff.blogspot.com/2011/01/governor-punjab-pakistan-salman-taseer.html

  3. Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » سلمان تاثير قتل -- Topsy.com

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لطف الاسلام صاحب
    کيا ظلم صرف وہی ہوتا ہے جس سے کسی طرح اسلام کا تعلق ظاہر کيا جائے ؟
    جو کچھ ہمارے حکمران کر رہے ہيں کيا وہ ظلم نہيں ؟
    کيا مرزا غلام احمد قاديانی کو نبی يا مسيح موعود کہنا ظلم نہيں ؟
    آپ ظلم کے معنی تو پہلے اچھی طرح سے پڑھ ليجئے

  5. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم اجمل صاحب!

    سوچنے کی بات ہے ایک ایسا ملک جس میں نوے فیصد سے زائد آبادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی مانتی ہے۔ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ کوئی کمپرومائز کرنے کو قطعی طور پہ تیار نہیں۔ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاتم رسول کو اسلام میں شاتم کی مقرر سزا دینے پہ پر زور اصرار کرتی ہے۔ ان مسلمان عوام سے صبح شام ایک نت نیا مذاق کیا جاتا ہے۔ جنہیں وہ حالات کا جبر سمجھ کر برداشت کیے جارہے ہیں۔ انکی کوئی نمائندگی نہیں ۔ ان مسلمان عوام کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے۔ اکثریت کے حالات یہ کردئے گئے ہیں جنہیں دو وقت باعزت طریقے سے روٹی بمشکل نصیب ہوتی ہے۔ مگر اسکے باوجود وہ اپنی اسلامی شناخت اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

    حکومت اپنی نام نہاد روشن خیالی کی پینگ پہ ہلکورے لیتی ہوئی عوام کی اسلامی غیرت کو بھی پاکستان اسٹیل مل ٹائپ شئے سمجھنے لگی ہے جسے قابل فروخت سمجھتے ہوئے اس کے دام امریکہ وغیرہ کی شہہ پہ امریکہ سے کھرے کر لئیے جائیں۔ قسم قسم کی مشکوک ریکارڈ رکھنے والی این جی اوز ، جن کا وجود محض کاغذی ہے ۔ اور جنکا انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پاکستان کے اندر صرف اس وقت بجنا شروع ہوتا ہے جب انھیں حقوق نسواں کے نام پہ پاکستانی روائتی خاندانی اکائی کی مخالفت کرنی ہو یا توہین رسالت نامی قانون کی مخالفت کے لئیے سائنٹفک پروپگنڈہ کا طوفان بدتمیزی برپا کرنا ہو۔ یا پھر کسی نہ کسی صورت میں حدود اور اسلام کے خلاف کورس جاری کرنا ہو۔ یہ سب منافقانہ کاروبار ایک ایسے ملک میں ہوتا ہے جس کی نوے فیصد سے زائد آبادی یعنی تمام مسلمان آبادی اس تمام بدتمیزی سے سخت نالاں ہو اور اپنی دل آزاری محسوس کرتی ہو۔

    اسلام میں طے شدہ امور پہ کورس کی لے بلند ہوتی ہے ۔اس دل آزار اور اسلام کے خلاف پروپگنڈہ میں رفتہ رفتہ معدودے چند وہ لوگ بھی شام ہونا شروع ہوجاتے ہیں جن اسلام سے خدا واسطے کا بر ہے اور جن اسلام کے خلاف بغض انتائی حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ کچھ غیر مسلم بھی پیش پیش شامل ہوجاتے ہیں۔ راگ کینچھا جاتا ہے ۔ قادیانی المعروف احمدی بھی جھوٹ اور مکر و فریب کی روائیتی تان اٹھاتے ہیں۔ کورس کی لے اور شور وغوغا بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک میڈیا میں ہر طرف اس طبقے نے طقفان بد تمیزی مچا رکھا ہے

    حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اسی مسلمان ملک کے نوے فیصد سے زائد آبادی جو حرمت رسول کی شیدا ہے ان کی نمائندگی کا دعواہ کرنے والے اور اقتدار و اختیار کے مزے اڑانے والے کمال منافقت سے اس کورس میں یکے بعد دیگرے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ طرف تماشہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں سے صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ پاکستان کے اعلٰی اقتدار پہ قابض عہدیدار اپنے عوام کی خواہشات کے بر عکس ہر وہ کام کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں جس سے عوام جھلائے بیٹھے ہوں۔

    سیدھی سادی بات کرنے والے سیدھے سادھے عوام کو انکی اسلامی شناخت ۔ انکی اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت پہ انھیں روک ٹوک کرتے ہوئے آگاہ کیا جاتا ہے کہ انھیں کسی حد تک اپنے دین اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور حرمت کے شاتموں کے ساتھ رویہ رکھنا ہے۔ ڈکٹیٹ کیا جاتا ہے کہ حرمت نبی کے شاتموں کو کھلی چھٹی ہے۔ اور وہ قوانین جن کا توہین رسالت سے تعلق ہے۔ اس بارے ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے۔ جس نے اسلامی جمہوری کے صدر کو رپورٹ کرنی ہے۔ اس کمیٹی کا سربراہ ایک غیر مسلم پاکستانی ہونے کے ناطے قابل احترام تو ہے مگر حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اسکا عقیدہ نہیں اسلئے کیمیٹی کے کسی ایسے سربراہ سے یہ امید رکھنی کہ وہ اس بارے پاکستان کے نوے فیصد سے زائد آبادی کے جذبات کو مد نظر رکھے گا بعید العقل ہے۔ توہین رسالت نامی قانون جو حکومتی اہلکاروں کے یکے بعد دیگرے احمقانہ بیانات اور عمل کی وجہ سے اور رد عمل کے طور پہ پاکستانی مسلمان عوام کے لئیے ایک اسلامی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جزباتی مسئلہ اختیار کر چکا ہے ۔ مسلمان عوام توہین رسالت نامی قانون میں ردوبدل یا ترمیم کو اپنے اسلامی وقار اور شناخت کی علامت سمجھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ اگر اس قانون میں ردوبدل کیا گیا تو معاملہ یہاں پہ ہی نہیں رکے گا بلکہ بات پاکستانی ریاست کی اسلامی شناخت تک جائے گی ۔ عوام اس موضوع پہ انتہائی احساس ہورے ہیں۔ جو ان کا حق بھی ہے۔ اسی دوران حکومتی بنچوں سے روشن خیال کے طور پہ مشہور ایک سابقہ خاتون وزیر پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں توہین رسالت نامی قانون میں ردوبدل یا ترمیم کے لئیے ایک مبہم سی قراداد پیش کرتی ہے۔ پاکستان میں ہر طرف احتجاج ہوتا ہے ۔ پاکستان کی حکومت کو اتنی سی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ کسی ایسی قراداد سے لاتعلقی کریں۔ اور توہین رسالت نامی قانون کے خلاف کسی قراداد کو پاس نہ ہونے دینے کی ضمانت اعلانیہ عوام کو مہاء کریں۔ ملک بھر میں بے چینی برھتی ہے۔ اکتیس دسمبر کو پاکستان کی تاریخ کی کامیاب ترین ہڑتال ناموس رسالت کے لئیے ساری دنیا نے دیکھی مگر پاکستان کے کرتا دھرتاؤں کا رویہ وہی ڈھاک کے تین پات کی طرح ہے۔ جس سے عوام کے دل میں ابھی تک شکوک ہیں۔

    عوام کے دلوں میں یہ بات راسخ ہے کہ پہلے قدم کے طور پہ توہین رسالت میں ترمیم یا ردو بدل کی جائے گی اور آخرکار پاکستان کے عوام اور ریاست کا اسلامی تشخص ختم کر دیا جائے گا۔ اور ایک ایسے ملک میں جہاں توہین رسالت قانون کی موجودگی میں حرمت رسول پہ انگلی اٹھانے والے گنتی کے چند لوگ اپنی گردن پہ پھانسی کا پھندہ محسوس کرتے ہوئے کسی مبینہ و ممکنہ شرارت سے باز رہتے ہیں جب یہ قانون نہیں ہوگا تو ایسے واقعات میں اضافہ ہوجائے گا اور نتیجتا لوگ خود انساف کرنے پہ اٹھ کھڑ ہونگے جو پاکستان کی سالمیت کے لئیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ مگر حکومت میں کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس بارے دوٹوک اعلان کرے ۔ وزیر اعظم اپنا پالیسی بیان جاری کریں ۔ عوام میں اپنی حکومت اور حکمرانوں سے مایوسی بڑھ رہی ہے اور یہ رویہ کسی نہ کسی صورت میں تاحال جاری ہے۔ ایسے میں گورنر پنجاب والا واقعہ رونما ہوا ہے۔

    گورنر پنجاب کی حرمت رسول کی مجرمہ آسیہ بی بی کے ساتھ یکجہتی و ہمدردی اور ایک شاتم رسول جس کا مقدمہ پاکستان کی عدالتوں میں چل رہا اسکی ہمدردی میں مسلمان عوام کے جزبات کی پراہ کئیے بغیر پاکستان کے مسلمہ قانون توہین رسالت کو محض اسلئیے کالا قانون کہہ دینا کہ اس سے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گنہگار اور مجرم خوف کھاتے ہیں۔ ایک گورنر کے لئیے آئین پاکستان کی رُو سے ایسے کلیدی عہدے سے نااہلی ثابت ہوجاتی ہے۔ حکومت نے گورنر کو روکا ٹوکا نہیں ۔ عوام نے سخت احتجاج کیا مگر کسی کان پہ جوں نہیں رینگی۔ ار گورنر کو اسکے عیدے سے معزول کر دیا جاتا تو یہ حادثہ پیش نہ آتا۔مگر بجائے اس وائے سے کچھ سبق سیکھنے کے انھی نام نہاد روشن خیالوں اور این جی اوز کو کھلی چھٹی دے دی جائے گی کہ وہ پاکستان کے مسلمان عوام کے خلاف جی بھر کے اپنے دل کا غبار نکال سکیں۔ جس سے انارکی بڑھے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور عوام کے جائز مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ہر قسم کی مشکوک قراداوں سے برائت طاہر کرے اور کسی ایسی کاروائی کی اجازت نہ دے جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے ۔ تانکہ مستقبل میں کسی ایسے واقعے سے بچا جاسکے اور پاکستان میں لوگ قانون کو ہاتھ لینے پہ مجبور نہ ہوں۔ ورنہ پاکستان کے موجودہ نازک حالات میں تشدد بڑھے گا اور ہر کس و ناکس اپنے طور پہ قانون ، وکیل ، جرح ، سماعت ، قاضی، اور جلاد کے سبھی مرحلے طے کر تیار ہوگا۔

    تاریخ شاہد ہے کہ ایسے انتشار سے ریاستیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور قومیں بکھر جاتی ہیں۔ خاکم بدہن ۔ پاکستان کے ساتھ یوں ہو۔ حکومت کو مناسب اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن توہین رسالت پہ واضح کرنی چاہئیے۔

    اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

  6. لطف الاسلام

    بھوپال صاحب، توہین رسالت کا قانون قرآن کے مخالف ہے۔ صحیح احادیث سے بھی اس کی سند نہیں ملتی۔ چند ضعیف روایتوں کو سیاق و سباق سے الگ کر کے جبر کیا جا رہا ہے۔
    رسول اللہ (ص) کی عظمت اللہ نے خود قائم کی ہے اور اللہ کی ذات غیور ہے اور اپنے محبوب نبی کی عزت کی خود حفاظت کرتا ہے۔ دنیا میں ارب ہا لوگ روز درود و سلام بھیجتے ہیں۔ ان کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اپنی روز مرہ زندگیوں کو سنت کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا اس کے مقابلہ میں کوئی جاہل اپنی نفرت کا اظہار کرے تو اس کو قتل کرنے سے رسول اللہ (ص)‌کی عزت میں کوئی فرق آئے گا؟ کیا کوئی مسلمان خود کو اتنا مستند سمجھتا ہے کہ یہ بیڑہ خود اٹھائے کہ اس نے رسول اللہ (ص)‌کو دنیا میں معزز بنانا ہے۔ کیا یہ فعل اور نیت بذات خود توہین رسالت نہیں؟
    اور اس سے بڑھ کر، کیا یہ قاتل خود کو اللہ تعالی سے زیادہ غیرت والا سمجھتا ہے؟

    مسلمان کو حکم ہے کہ وہ حد پار نہ کرے جو اللہ نے قائم کی ہے۔ کئی تکلیف دہ باتوں پر دعا اور صبر کا حکم ہے۔ بعض توہین آمیز باتوں پر علمی جواب دیا جائے تو مناسب ہے۔ جیسے رشدی کی کتاب تھی یا دیگر اسلام دشمن تصانیف۔

  7. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ظفر اللہ خان نے قادیانی المعروف احمدی ہونے کی بناء پہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ طفر اللہ خان کے اس انکار کی قادیانی کئی ایک تاویلات اور بہانے پیش کرتے ہیں۔ جب کہ طفر اللہ خان کے یہ الفاظ ریکارڈ پہ موجود ہیں جو اسنے قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ کے جنازے کی نماز میں شرکت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہے تھے ۔ وہ ( یعنی طفر اللہ خان( مسلمان ریاست کا کافر وزیر ہے یا کافر ریاست کا مسلمان وزیر۔ اسلئیے وہ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے جنازے کی نماز میں شامل ہونے سے قاصر ہے۔ یعنی اسکے نزدیک اسکی قادیانیت کی وجہ سے وہ خود تو مسلمان تھا اور پاکستان کے باقی مسلمان بشمول قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نعوذ بااللہ کافر تھے۔

    قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے قبل قادیانیوں کے سو کال مرزا ناصر کو باون گھنٹے قومی اسمبلی میں بولنے اور سوال جواب کا موقع ملا مگر اس کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ مرزا ناصر اور قادیانی المعروف احمدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے۔ قومی اسمبلی کے ارکان نے مرزا ناصر سے سوال کیا جو لوگ احمدی نہیں ان کے بارے میں قادیانی مذھب کیا کہتا ہے۔ جس پہ مرزا ناصر نے ھذیان بکا کہ جو لوگ قادیانی یعنی احمدی نہیں وہ سب کافر ہیں۔

    پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا۔ جبکہ امہ کے تمام مکتب فکر قادیانیوں کو اس سے بیشتر کافر قرار دے چکے تھے اور اس پہ سبھی کا اتفاق ہے۔ یہ وہ وجہ ہے جس بناء پہ دنیا بھر کے قادیانیوں کو توہین رسالت نامی قانون سے چڑ ہے اور یہ بہانے بہانے اسکی مخالفت کرنے سے باز نہیں آتے۔

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لطف الاسلام صاہب
    ميں نے کب کہا ہے کہ ممتاز قادی نے درست کيا ۔؟ آپ ميری تحرير پڑھے بغير اپنا راگ الاپ رہے ہيں
    آپ کے مطابق اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ناموسِ رسول کی کچھ خود حفاظت کريں گے تو مسلمہ کذاب اور دوسرے ای طرح کے لوگوں کے خلاف جہاد کيوں کيا گيا تھا ؟ کيا آپ کا علم خُلفائے راشدين سے بھی زيادہ ہے

  9. لطف الاسلام

    بھوپال صاحب، مسیلمہ کذاب سے جنگ اس کی بغاوت کی وجہ سےتھی۔ اس کے دعویٰ نبوت پر یا توہین رسالت پر سزا ہوتی تو وہ رسول اللہ (ص) کے سامنے قتل کیا جاتا جب وہ اپنا حصہ نبوت مانگنے مدینہ آیا تھا۔ کیا آپ رسول اللہ (ص)‌کے اسوہ کو اپنی تاویلوں پر فوقیت نہیں دیں گے؟

    عبد اللہ ابن ابی نے توہین رسالت کی اور قرآن میں ثابت ہے کہ اس نے انتہائی دیدہ دہنی سے گستاخی کے کلمات سب مسلمانوں کے سامنے کہے۔ کیا اسے قتل کیا گیا؟

    امام ابو حنیفہ کا مسلک اس معاملہ میں کیا تھا؟

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لطف الاسلام صاحب
    مسيلمہ کی بغاوت دعوی نبوت تھی جو مرزا غلام احمد قاديانی نے بھی کی تھی ۔ اس لحاظ سے مرزا غلام احمد قاديانی بھی واجب القتل تھا مگر حکومتِ برطانيہ کا پروردہ ہونے کی وجہ سے بچا رہا تھا ۔
    ناصر قاديانی کے متعلق جو جاويد گونل صاحب نے لکھا ہے يہ اُن دنوں کی بات ہے جب ميں ايک سينيئر سرکاری افسر تھا اور اور اسمبلی کی ساری کاروائی ميں نے پڑھی تھی
    مں نے ايک بار پہلے بھی اپ سے کہا تھا کہ ميرا منہ نہ کھلوايئے ۔ مگرآپ اپنا لُچ تلنے سے باز نہيں رہتے
    ميں نہيں چاہتا تھا کہ اپنے اس بلاگ کو مرزائيت کا بھانڈہ پھوڑنے کيلئے استعمال کروں اسلئے آپ سے ايک سوال پوچھا تھا “روشن دين تنوير کون تھے ؟”
    آپ نے ميرے سوال کا جواب نہيں ديا تھا مگر اس سوال کے بعد کافی عرصہ آپ خاموش رہے ۔
    ميں ايک بار پھر آپ کو مشورہ ديتا ہوں کہ گھر کے بھيدی سے چھڑخانی مفيد نہيں ہوتی

  11. لطف الا سلام

    گھر کا بھیدی؟ بھوپال صاحب، روشن دین تنویر صاحب میری معلومات کے مطابق ایک احمدی تھے اور ان کی شاعری سے میں واقف ہوں۔ آپ کیا بتانا چاہتے ہیں۔
    باقی اگر اسمبلی کی کاروائی آپ نے پڑھی ہے تو اچھی بات ہے۔ میں نے نہیں پڑھی کیونکہ شائع نہیں ہوئی۔ لیکن جماعت کے وفد کےاراکین کی روداد سنی ہے اور وہ تو اور ہی باتیں بتاتے ہیں۔ اگر موقع ملے تو دوست محمد شاہد صاحب کا نام یو ٹیوب پر ڈھونڈ لیں۔ مجھے تو گوندل یا کسی بھی ملا سے زیادہ ان پر بھروسہ ہے۔ ملا تو جھوٹ اور تلبیس کا ماہر ہوتا ہے۔
    میں سلمان تاثیر کے قتل پر تبصرہ کر رہا تھا۔ جماعت احمدیہ کی بات تو آپ ہی نے شروع کی تھی۔ اور اگر آپ “مرزائیت” کا بھانڈہ پھوڑنا ہی چاہتے ہیں تو شروع کریں۔ نیک کام میں دیر کس بات کی؟

  12. Pingback: سوچنے اور عمل کی باتیں - پاکستان کی آواز - پاکستان کے فورمز

  13. ندیم

    اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنّم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہوئی اور اس کے لیے الله نے بہت سخت عزاب تیّار کر رکھا ہے -“(النسا ٤ :
    :roll:

  14. ندیم

    گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل کا جواز توہیں رسالت کا الزام بتایا جاریا تھا مگر اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ اس قتل سے سب سے بڑا کس کو فائدہ ہوگا اور کن لوگوں نے اس قتل کیلئے ان پر الزاام لگانے کیلئے اس طرح کے اعلانات کئے اور اس کے پیچھے کون لوگ ہیں ؟

  15. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    قادیانی بہت ڈھیٹ اور کزاب شئے ہیں۔ مرزا ناصر قادیانی کا سسر مولوی محمد اعظم قادیانی حیاتِ ناصر نامی کتاب جسے شعبہ اشاعت نظارتِ دعواۃ و تبلیغ صدر انجمن احمدیہ قادیان پنجاب( انڈیا) نے مرزا ناصر کے مرنے پہ چھاپا۔ اسمیں میں مرزا ناصر قادیانی کا سسر مولوی محمد اعظم قادیانی صحفہ نمبر چودہ پہ ” وصالِ مسیح” کے نام سے لکھتا ہے۔ “کہ حضرت مسیح موعود پچیس مئی انیس سو آٹھ یعنی پیر کی شام کو بلکل اچھے تھے۔ حضرت مرزا صاحب جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جاکر سو چکا تھا۔۔۔۔جب میں حضرت مرزا صاحب کے پاس پہنچا۔۔۔ مجھے مخاطب کر کے فرمایا ُمیر صاحب مجھے وبائی ھیضہ ہوگیا ہے۔۔۔۔دوسرے روز آپکو ایک قے آئی ، قے سے فارغ ہو کر آپ فرمانے لگے ُ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا، اتنے میں آپ کو ایک دست آیا مگر اب اسقدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ میں پہنچتے ہی گر گئے اور ہمیں تب معلوم ہوا جب آپ جہانِ فانی سے کوچ فرماچکے تھے۔

    قادیانی آج کیسے انکار کرسکتے ہیں کہ انکا مرزا کذاب ٹٹی پاخانے میں گر کر نہیں مرا تھا۔ قادیانی فتنہ ارتداد کا بانی تو ٹٹی میں گر کر مر گیا اور قادیانی اسے اپنا نبی مانتے ہیں اور نبی محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی سے ماننے سے انکار کررتے ہیں۔ اُمہ کے اجماع اور پاکستان کے آئین کے مطابق یہ غیر مسلم پھر بھی اپنے آپ کو منافقت کے پردوں میں چھپا کر اپنے آپ کو مسلمان طاہر کرتے ہوئے۔ موضوع سے ہٹ کر مسلمانوں سے انکے عقائد پہ بڑی دحٹائی سے دلیل مانگتے ہیں ۔ جس کا مقصد ھدایت پانا نہیں ہوتا بلکہ مخاطب کو زچ کرنا ہوتا ہے یہ انکے حضرت صاحب کی سنت ہے جس پہ یہ دل کھول کر عمل کرتے ہیں۔

    یہ سیاق سباق سے ہٹ کر قرآنی آیات کو اپنی تشریح کے ساتھ پیش کرتے ہیں چونکہ قادیان ہر بات کو گھمانے کے عادی ہیں ۔ اسلئیے مندرجہ ذیل لنک انھیں قادیانیوں اور ان لوگوں کے لئیے ہے جو شاتم رسول کی سزا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کرنے پہ زور دیتے ہیں جبکہ یہ خوب جانتے ہیں کہ شاتم رسول نبی آخری الزمان محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم کو سزا خود نبی صلٰی اللہ علیہ وسلم نے سنائی اور عمل کروایا ۔ ذیل کا لنک انکا منہ بند کرنے کے لئیے ہے کہ اسکو پڑھ لیں اور نقلی مسلمان بن کر اپنی منافقت سے باز آئیں۔

    http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2011/january/05-01-2011/editorial/mag-01.php

  16. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نديم صاحب
    اللہ کے کلام سے کس کو انکار ہے ؟

    ہاں ديکھنا يہی ہے کہ اس سے کس فرد يا جماعت کو فايدہ پہنچتا ہے ۔ ايک حوالہ آپ نے شايد بريلوی مولويوں کا ديا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتا ہے ۔ ايسی واردات ظاہری دشمن کم ہی کرتے ہيں ۔ سب سے پہلا اور وردات کے فوری بعد وفاقی وزيرِ داخلہ کا بيان کہ قتل سلمان تاثير کے بيان کی وجہ سے کيا گيا ۔ چہ معنی دارد ؟ ذرا اس طرف بھی غور کيجئے ۔ محترمہ بيظير بھٹو کی لاش سے اب مزيد فايدہ حاصل نہں ہو رہا تھا ۔ اسلئے ايک مزيد شہيد کی ضرورت کس کو تھی ؟

  17. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لطف الاسلام صاحب
    روشن دين تنوير مرزائيوں کے اخبار الفضل کے ايڈيتر تھے جس کا دفتر کسی زمانہ ميں مکليگن روڈ لاہور پر ہوا کرتا تھا ۔ ختم نبوت کی تحريک کو کچلنے کيلئے مارشل لاء لگايا گيا اور ايک ہزار تين سو بے گناہ لوگوں کو شہيد کيا گيا ۔ اس زمانہ ميں الفضل کا دفتر لاہور سے ربوہ منتقل ہوا مع وشن دين تنوير صاحب کے ۔ ميں آپ کو بتا چکا وں کہ مرزا غلام احمد قاديانی اپنی زندگی ميں بھی بيانات بدلتا رہا اور اس کے مرنے کے بعد اس کے اسرائيل نواز پيرو کار اسے مزيد تبديل کرتے آ رہے ہيں ۔ اگر صيہونيوں اور فلينجسٹس کی پُشت پناہی نہ ہوتی تو مرزائيت کم کا دم توڑ چکی ہوتی ۔ مگر آپ نے ماننا تو ہے نہيں ۔ آپ کو اپنی مرزائيت مبارک ہو ۔ مگر مرزائيوں کی منافقت ڈھکی چھپی بات نہيں ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.