تمام قومی ادارے ہمیشہ قوم کے مجموعی مزاج کو ملحوظ رکھ کر تعمیر ہوتے ہیں جس طرح 1973ء کا آئین بھٹو نے بنایا تھا۔ تمام قوانین اسلام کے مطابق
عدل ہی معاشروں کو جما جڑا رکھتا ہے۔ آئین کے تحت ، قانون کے تحت۔ علّامہ جاوید غامدی یوں تو ادھورے آدمی ہیں۔ اسلام کی روح سے زیادہ الفاظ کے لیکن ایک بات ان کی سو فیصد درست ہے ” آئین کو اگر مقدس نہ مانا جائے گا تو ملک کو قرار حاصل نہ ہوگا”۔
سلمان تاثیر کیس میں ایک سے بڑھ کر ایک فلسفہ ہے لیکن کسی کو انصاف کی فکر بھی ہے؟
آسیہ بی بی کیس میں عدالت نے فیصلہ کیا تھا۔ گوارا یا ناگوار ، اسے قبول کیا جاتا یا اعلٰی تر عدالت سے رجوع۔ شک کا فائدہ دے کر اعلٰی عدالتیں ملزموں کو ہمیشہ بری کرتی آئی ہیں۔ اسّی کے اسّی مقدمات میں
گورنر سلمان تاثير کو پریس کانفرنس نہ کرنی چاہئیے تھی۔ یہ نہ کہنا چاہئیے تھا کہ “صدر صاحب آسیہ بی بی کو معاف کر دیں گے”۔ عدالت رہا کرتی اور یہ تو ہولناک تھا کہ قانون ناموسِ رسالت کو “کالا قانون” کہا
اب سبھی مانتے ہیں کہ قانون درست ہے اور معاملہ بے حد نازک۔ وزیر داخلہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ان کے سامنے کوئی توہینِ رسالت کرے تو وہ اسے گولی مار دیں [قانون ہاتھ میں لینے کا جواز کیا ہوگا؟]
وزيرِ قانون بابر اعوان کہہ چکے کہ ان کے جیتے جی کوئی اس قانون میں ترمیم نہیں کر سکتا
پیپلز پارٹی اور اس کے ترقی پسند دانشوروں کی طرف سے پیش کئے جانے والے مؤقف کا کھوکھلا پن اور تضاد آشکار ہے
سانحہ کے بعد حکمران جماعت کے دو ہدف ہیں ۔ ایک مذہبی پارٹیاں اور دوسرا شریف خاندان
انصاف نہیں ۔ قاتل کو سزا نہیں ۔ حریفوں سے وہ بدلہ چاہتے ہیں ۔ بابر اعوان ۔ راجہ ریاض اینڈ کمپنی نے کسی دلیل کے بغیر شریف برادران کو مجرم قرار دے دیا ۔ یہ تکرار البتہ جاری رہے گی کہ مفاہمت ان کی سیاسی پالیسی ہے۔سبحان اللہ، سبحان اللہ۔
اسلام آباد انتظامیہ کے اعلٰی افسر گورنر سلمان تاثير کی میت لے کر لاہور پہنچے تو گورنر کے خاندان نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا
عاصمہ جہانگیر کو بلایا گیا تو انہوں نے مذہبی جماعتوں کے خلاف مقدمہ داغنے کا مشورہ دیا ۔ وہی برصغیر کا مقدمہ بازی کا مزاج کہ حادثہ ہو جائے تو ہر اس شخص کو پھنسا دیا جائے جس سے “ذاتی” یا “نظریاتی”عداوت ہے
محترمہ عاصمہ جہانگیر سے پوچھيئے “کیا قتل کے قانون کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بے گناہوں کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں؟ کیا اسے ختم کر دیا جائے؟ کون سا قانون ، کون سا دفتر، کون سا ادارہ اور منصب ہے جو منفی مقاصد کے لیے برتا نہیں جاتا۔ خود ریاست بھی ۔ کیا سب کی بساط لپیٹ دی جائے؟”
مرحوم گورنر کی پریس کانفرنس اور شیریں رحمٰن کے مسوّدہ قانون جمع کراتے ہی آشکار تھا کہ طوفان اٹھے گا۔ بزرجمہر جو نہیں جانتے کہ معاشرے اتفاقِ رائے میں جیتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ قومی اور مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ لگانی چاہئیے۔ ضد ایسی شدید کہ طوفان دیکھ کر بھی نہیں ٹلتے۔ معاشرہ منقسم ہے ، معیشت برباد، سیاست بے حد اُلجھی ہوئی، ملک کا مستقبل داؤ پر لیکن جذبات کا کھیل جاری ہے ۔ ہر شخص اپنے تعصبات کے پھریرے لہراتا ہوا نظر آتا ہے
اسلام کی اساس دو چیزیں ہیں۔ قرآن اور سنت
رحمتہ اللعالمین کی توہین ، اسلام کی عمارت کے دو ستونوں میں سے ایک کو گرا دینے کے مترادف ہے۔ جذبات کا نہیں ، یہ عقیدے کا معاملہ ہے ۔ ایمان کا معاملہ ہے ۔ پانچ کے پانچ [حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اورجعفریہ] مکاتبِ فکر سو فیصد اس پر متفق ہیں۔ اقبال سے بڑھ کر کسی مفکر پر اتفاقِ رائے نہ ہوا، وہ بھی
بات سمجھ میں نہیں آتی تو ناموسِ رسالت کے قانون پر ریفرنڈم کرا لیجئے۔ کسی ایک شہر میں کوئی ادارہ سروے کرلے۔ 90 فیصد لوگ اس قانون کے حامی ہیں۔ جو دانشور معترض ہیں، ان میں لاہور والوں کو میں جانتا ہوں۔ اقبال اور قائداعظم ہی نہیں ، اسلام کا بھی وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ سوال بالکل سادہ ہے “آپ لوگ اپنی رائے ہم پر مسلّط کیسے کر سکتے ہیں؟”
دانا اتنے ہیں کہ زندگی کے اولین سوال پر غور کرنے کی کبھی فرصت نہ پا سکے ۔ اس حیات اور کائنات کو کس نے پیدا کیا ؟ شرعی قوانین سے بحث کرتے ہیں حالانکہ قرآن کریم، حدیث اور اسلام کی علمی روایت کو چھُوا تک نہیں
درختوں کی جڑیں زمین اور اداروں کی جڑيں قومی مزاج ، تمدن ، تاریخ اور روایات میں ہوتی ہیں۔ مغربی تحریکوں کے زیرِ اثر یہ مفکرین ہوا میں جھُولتے ہیں اور قوم سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ بھی خلاء میں معلّق رہے۔ عام لوگوں کا اندازِ فکر عملی ہوتا ہے ۔ وہ احساسِ کمتری سے اُگنے والے فلسفوں کے جنگلوں میں نہیں جِیا کرتے
اب دوسری طرف آئیے
مولانا فضل الرحمٰن کو سرکار سے جو کچھ سمیٹنا تھا ، سمیٹ کر باہر نکلے اور تحریکِ ناموسِ رسالت کا اعلان ہوگیا۔ ٹی وی پر اور اس کالم میں بار بارعرض کیا: جذبات کی آگ مت بھڑکائیے ، جلسہ جلوس کی ضرورت کیا ہے ؟ ناموسِ رسالت کے قانون کو کون چھیڑ سکتا ہے۔ بحث مطلوب ہے تو اٹھارویں ترمیم کی طرح پارلیمنٹ ہاؤس کے کسی بند کمرے میں کر لیجئے۔ مشاورت کا دائرہ بتدریج بڑھا کر اتفاقِ رائے پيدا کيجئے۔ بعض مقدمات عدالتیں بند کمروں میں سنا کرتی ہیں۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے۔ مسئلہ ہے قانون کے غلط استعمال کا۔ روکا جا سکتا ہے۔ بدنیتی سے الزام لگانے والے کے لیے سزا کا تعین ، ایک نئے قانون سے
لیڈروں اور دانشوروں پہ خدا رحم کرے۔ سب کے سب معاشرے کو ادھیڑنے پر تُلے ہیں۔ ترقی پسندوں کو اپنی دانائی اورعلماءِ کرام کو اپنے ایمان اور تقویٰ پر فخر بہت ہے ۔ غور لیکن وہ ہرگز نہ فرمائیں گے۔ اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے : “انسان بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے” ۔ اپنے آپ پر زعم ، اپنے فرض کی اہمیت سے بے خبر
سوچا ۔ علماءِ کرام سے پوچھوں “اللہ کے نام پر بننے والے ملک کی آپ نے کیا خدمت کی؟” یاد آیا کہ ان میں جو زیادہ موثر ہیں، وہ تو پاکستان بنانے کے مخالف تھے۔ ریاست کو وہ مانتے نہیں، دہشت گردوں، حتٰی کہ خود کش حملہ آوروں کی مذمت سے گریز
ترقی پسند فرماتے ہیں “سیکولر ازم اختیار کیا جائے”۔ کوئی انہیں تاریخ پڑھائے کہ مغرب میں ظالم چرچ حکمران تھا، جس کے خلاف بغاوت ہوئی۔ جیسا کہ قائداعظم بار بار کہتے تھے “اسلام میں پاپائیت کا وجود ہی نہیں”۔ مسلم عوام علماء کو کارِ سیاست سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ دو آدمیوں پر اتفاقِ رائے ہوا۔ اقبال اور قائداعظم
بھٹو 35فیصد ووٹ لے کر جیتے، وہ بھی بھارت اور امریکی استعمار کے خلاف نعرہ زن ہو کر۔ غریب آدمی کے جذبات جگا کر۔ اعلان کیا کہ اسلام ہمارا دین ہے ۔ سوشلزم ترک کر کے مساوات محمدی کی اصطلاح وضع کی۔ قادیانیوں کو اقلیت کیا، حج کا کوٹہ ختم کر دیا۔ قوم کو مطمئن رکھنے کے لیے عالمِ اسلام سے قریبی روابط استوار کئے۔ دہلی کی دائم مخالفت کرتے رہے ۔ ان کے وارث دوسرا ہی راگ الاپتے ہیں۔ پہلے ماسکو اور اب واشنگٹن کا گیت
اسلام آباد کے وکیلوں نے کمال کر دیاکہ قاتل پر پھول برسائے۔ وہ کیا چاہتے ہیں؟ انارکی؟ قانون کا خاتمہ؟
وزیر داخلہ کا بھی جواب نہیں کہ صبح سویرے ریمانڈ کی بجائے معاملے کو ملتوی کرتے رہے۔ کئی ایک بزرجمہر پولیس کو گالی دیتے رہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مرحوم گورنر نے اسلام آباد پولیس کو دورے سے مطلع ہی نہ کیا تھا۔ پولیس کا قوم کو شکر گزار ہونا چاہئیے ۔ اوسطاً ہر ہفتے دو خودکش حملہ آور دارالحکومت میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ سو گرفتار ہوئے ۔ تحسین کی بجائے پوليس کی مذمت ؟
پولیس کو حکومت اور بارسوخ لوگوں نے برباد کیا ۔ قوانین کے تحت آزادی سے کام کرنے دیا جائے تو آدھے جرائم فوراً ختم ہو جائیں۔ یہاں مگر بھرتی میں سفارش، مناصب میں سفارش اور ایک ایک کیس میں سفارش۔ اس کے بعد شکوہ کيسا ؟
رہنما اوردانشور پہلے ہی قوم کو تقسیم کر چکے، مزید تقسیم نہ کریں۔ اسے اعتدال پر رہنے دیں جو اس کا مزاج ہے اور جس پر بقا کا انحصار۔ آئین اور قانون کی اہمیت اُجاگر کریں۔ طعنہ زنی کی بجائے دلیل دیں۔ پہلے ہی چوہدری، نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری، جناب الطاف حسین اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن اس کے مقدر میں ہیں۔ معیشت برباد، لوٹ مار بے حد چنانچہ استعمار پہ انحصار ۔۔۔ اب اورکیا ؟
رحم کرو ، خدا کے لئے اس ملک پر رحم کرو
بشکريہ ۔ جنگ
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » رحم کرو ۔ خد اکے لیے اس ملک پہ رحم کرو -- Topsy.com
معروف کالم نگار ہارون رشید نے پر اثر کالم لکھا ہے اور آج جنگ میں بھی یہ ادارتی صفحہ پر سب سے اوپر چھپا ہے ۔
ہارون رشید نے دلائل بھی بہت خوب دئے ہیں۔
اچھا انتخاب ہے ۔ شیئر کرنے کا شکریہ
آج ہی یہ کالم پڑھا ہے
یہ میرے پسندیدہ رائیٹر ہیں لیکن ان میں ایک بہت بڑی خامی ہے وہ یہ کہ یہ ہر معاملہ میں عمران خان کی بے جا تعریف میں لگ جاتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت نامی قانون اور وفاقی شرعی عدالت کے خلاف عداوت اور دشمنی اور اسی نسبت سے مذہبی جماعتوں سے بغض کا پس منظر یوں ہے کہ انیس سو اسی میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عاصمہ جہانگیر نے نازیبا اور گستاخانہ الفاظ استعمال کئیے تھے ۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ ” اس ترقی یافتہ دور میں بھی مسلمان ایک “اُمی” کی امت ہونے پر فخر کرتے ہیں”۔ عاصمہ جہانگیر “اُمی” کا مطلب
(Unlettred)یعنی “انپڑھ” لیا تھا۔ نقل کفر کفر نباشد۔
عاصمہ جہانگیر کی اس گستاخی کے خلاف مولانا معین الدین لکھوی، مولانا وصی ظفر ندوی ،شاہ بلیغ الدین، بیگم نثار فاطمہ اور لیاقت بلوچ صاحب نے پارلیمینٹ میں تحریک استحقاق پیش کی تھی ۔ یہی تحریک بعد میں پارلیمنٹ سے متفقہ طور پہ دوسو پچانوے۔ دفعہ سی۔کے طور پہ منظور ہونے پہ متنج ہوئی ۔اس دفعہ میں توہین رسالت کے مجرم کے لئیے عمر قید یا سزائے موت کا ذکر تھا۔ بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ نے “عمر قید” کے الفاظ حذف کر دئیے اور توہین رسالت کے مجرم کی سزا صرف موت بحال رکھی۔
یہ وہ وجہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر اور پاکستان کے نام نہاد اسیکولرسٹس اور نام نہاد روشن خیالوں کو دفع دوسو پچانوے سی اور وفاقی شرعی عدالت سے عداوت و دشمنی ہے۔محض اس عداوت کی وجہ سے اس قانون اور وفاقی شرعی عدالت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
شازل صاحب
ميں نے بھی ان کے کالم ميں عمران خان کی ضرورت سے زيادہ تعريف پڑھی ہے ۔ ميں کالم نگاروں کی تحارير کو حقائق کی بناء پر پرکھنے کا عادی ہوں ۔
سوال صرف یہ ہے کہ کیا سلمان تاثیر نے توہین رسالت کی تھی؟ میں نے تو اب تک جو بھی پڑھا ہے اس کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہوا تھا بلکہ ایک انٹرویو میں خود سلمان تاثیر نے کہا تھا کہ وہ توہین رسالت کے نہیں اس کے نام پر بننےو الے قانون کے غلط استعمال کے خلاف ہیں۔ اس کے باوجود یہ سب کیا کہ اس بندے کی جان ہی لے لی جائے؟ رہی بات عوام کے جذبات کی تو اس پر تو ایک تحریر لکھنا ہی پڑے گی شائد انشاء اللہ۔
خرم صاحب
سلمان تاثير نے امتناع توہينِ رسالت کو کالا قانون کہا تھا اور مزيد ہرزہ سرائی بھی کی تھی ۔ يہ انٹرويو ڈان نيوز کے نمائندہ نے ليا تھا اور اسے اُنتيس دسمبر اور سلمان تاثير کے قتل کے بعد تين دن تک ڈان نيوز پر دکھايا جاتا رہا ۔
درست کہ ممتاز قادری کا سلمان تاثير کو قتل کرنا ملک کے قانون ک خلاف ہے ۔ مگر سلمان تاثير کا مندرجہ بالا بيان نہ صرف توہينِ رسالت کے زمرہ ميں آتا ہے بلکہ ملکی قانون کے خلاف بھی ہے ۔ اسی طرح آسيہ کی حمائت ميں سلمان تاثير کا کہنا کہ “يہ ظلم ہوا ہے اور ميں صدر زرداری سے کہوں گا وہ معاف کر ديں گے” يہ توہينِ عدالت اور قانون کی خلاف ورزی تھا
آپ لوگ رقم طرازی کرنے سے پہلے صحيح طرح مطالعہ کر ليا کريں تو بہتر ہو گا