جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931ء میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے ۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے ۔ اس دوسری مسلح تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کے ایماء پر شروع کی گئی ۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے
ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988ء میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا
بے غيرتی يہاں تک پہنچی کہ ملاقات يا مذاکرات کے بعد بھارت اور پاکستان کے وقت کے حاکموں راجيو گاندھی اور بينظير بھٹو نے مشتکہ پريس کانفرنو کی جس ميں ايک صحافی نے جموں کشمير کے بارے ميں سوال کيا ۔ راجيو گاندھی نے اُسے غصہ ميں ڈانتتے ہوئے کہا “جموں کشمير بھارت کا اٹُوٹ اَنگ ہے”۔ اور بينظير بھٹو دوسری طرف منہ کر کے ہنستی رہيں
اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے حکمرانوں نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی
بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو نوجوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » جموں کشمیر کے جوانوں نے ہتھیار کیوں اٹھائے -- Topsy.com
عرصہ دس سال تک پاکستان سے کئی ایک تنظیمیں اپنے “مجاہدین” کشمیر میں لانچ کرتی رہی ہیں۔ لشکر طیبہ کا ایک پمفلٹ اپنی آنکھوں سے پڑھا جس میں مجاہد لانچ کرنے کا خرچ آج سے پندرہ سال پہلے 20000 روپے لکھا ہوا تھا۔ یہ صرف کشمیریوںکی اپنی جدوجہد نہیں تھی، پاکستانی مدد بھی تھی۔ اسے مانیں یا نہ مانیں وہ الگ بات ہے۔ اور جب سے یہ پاکستانی امداد ختم ہوئی ہے مقبوضہ کشمیر میں وہ خونریزی بھی تھم سی گئی ہے، ورنہ ہر روز یا دوسرے دن جھڑپوں کی خبریں آتی تھیں۔ اب مہینوں میں ایسی خبریں آتی ہیں۔ اب کشمیریوںکے پاس صرف احتجاج کا ہتھیار ہے۔
محترم دوست
آپ نے ضرور اشتہار ديکھا ہو گا ۔ جس ملک ميں ہر شے جعلی مل جاتی ہے ۔ جو مساجد ملک ميں کہيں موجود ہی نہيں اُن کے نام سے چھپی رسيدوں پر چندے وصول کيا جاتے ہيں ۔ حتٰی کہ آدمی بھی دونمبر مل جاتے ہيں ۔ وہاں ايک اشتہار کی کيا پوچھ ؟ ويسے ميری سمجھ سے يہ اشتہار اسلئے باہر ہے کہ اس ميں انسان کی مع تمام لوازمات صرف بيس ہزار روپے قيمت لگائی گئی ہے ۔ اس طرح حاصل کئے ہوئے مجاہد کيا کارکردگی دکھائيں گے وہ ايک الگ بات ہے ۔
عملی صورتِ حال جس سے آپ واقف نہيں لگتے يہ ہے کہ پندرہ سال قبل پاکستان يا آزاد جموں کشمير سے مقبوضہ جموں کشمير ميں داخل ہونا بغير کچھ کئے مرنے سے کم نہ تھا ۔ آپ شايد نہيں جانتے کہ آج سے ساڑھے گيارہ سال قبل پرويز مشرف نے باقاعدہ تربيت يافتہ کمانڈو مع جديد اسلحہ کے مقبوضہ جموں کشمير کے علاقے کرگِل ميں داخل کئے تھے جو سب کے سب داخل ہوتے ہی ہلاک ہو گئے تھے اور پرويز مشرف کا ترجمان ذرائع ابلاغ کو جھوٹی کہانياں بھيجتا رہا تھا ۔ اس پر بھارت نے کيپٹن کرنل شير اور اس کے دو ساتھيوں کی لاشيں ٹی وی پر دکھا ديں ۔ جس کے نتيجہ ميں نواز شريف اور پرويز مشرف ميں چپقلش شروع ہوئی اور جب نواز شريف نے انکوئری کمشن بٹھانا چاہا تو اس کا تختہ اُلٹ ديا گيا