سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کے والد عبدالحمید اور ان کی والدہ آمنہ بیگم کو گھر میں قتل کر دیا گیا ۔ مقتول عبدالحمید پولیس سے ڈی آئی جی کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے اور ان کی زیادہ تر سروس کوئٹہ کی ہی ہے۔ ذرائع کے مطابق مومن لین افسرز کالونی کیولری گراؤنڈ [لاہور] کے مکان نمبر 164 اور گلی نمبر 7 کے رہائشی تھے اور گزشتہ شام ڈاکو ان کے گھر داخل ہوئے اور ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کر دیا ۔ اہل محلہ کے مطابق تین گولیاں چلنے کی آوازیں سنی گئیں۔ پولیس نے گھر کے دو ملازمین کو حراست میں لے لیا
واقعہ کی اطلاع پا کر گورنر پنجاب لطیف کھوسہ، وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور اعلیٰ پولیس حکام جسٹس جاوید اقبال کے [والد کے]گھر 164 کیولری گراؤنڈ پہنچ گئے جنہیں جاوید اقبال کو افسوسناک واقعہ کی اطلاع رجسٹرار سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے دی ۔ ایس پی کینٹ جواد قمر کے مطابق دونوں گھر میں اکیلے تھے۔ گزشتہ روز رشتہ دار ملنے آئے تو انہوں نے لاشیں دیکھ کر شور مچایا
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آج ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے
قبل ازیں جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل کی اطلاع ملتے ہی چیف جسٹس افتخار چوہدری وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان ، چیئرمین نیب سید دیدار حسین شاہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس حامد علی مرزا اور سپریم کورٹ کے تمام ججز فوری طور پر ججز کالونی میں جسٹس جاوید اقبال کی رہائشگاہ پر پہنچ گئے۔ اس دوران جسٹس جاوید اقبال چیف جسٹس اور وزیر قانون اور دیگر ججوں کے گلے لگ کر روتے رہے۔ جسٹس جاوید اقبال کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ان کے والدین کے قتل کا اس وقت پتہ چلا جب ایک مہمان لاہور میں واقع ان کی رہائشگاہ پر ملنے آئے ، جسٹس جاوید اقبال قتل کے واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد رات کو ہی اسلام آباد سے لاہور کیلئے روانہ ہو گئے ، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس خلیل الرحمن بھی جسٹس جاوید اقبال کے ہمراہ لاہور کیلئے روانہ ہوئے جسٹس جاوید اقبال کو بذریعہ طیارے کے لاہور کیلئے روانہ ہونا تھا تاہم دھند کی وجہ سے طیارہ نہ اڑ سکا جس کے بعد جسٹس جاوید اقبال سڑک کے ذریعہ ہی لاہور کیلئے روانہ ہو گئے
اِنا ِللہِ وَ اِنا اِليہِ رَاجِعُون
اللہ تبارک تعالی ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔
انکل آپ کو کیا لگتا ہے۔۔۔ یہ قتل سیاسی ہے یا مجرمانہ کوشش؟
اِنا ِللہِ وَ اِنا اِليہِ رَاجِعُون
عمران اقبال صاحب
اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے ۔ ويسے جسٹس جاويد اقبال عدالتِ عظمٰی کے اس بنچ کے سربراہ ہيں جو گم شُدہ افراد کا مقدمہ سن رہے ہيں
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » اِنا ِللہِ وَ اِنا اِليہِ رَاجِعُون -- Topsy.com
جسٹس صاحب نے فرمایا تھا کہ 2011 لا پتہ افراد کی بازیابی کا سال ہوگا۔
اس سے قبل چیف جسٹس کی معزولی کے دوران بھی ان کے ایک قریبی افسر کو قتل کر دیا گیا تھا اور واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دیا گیا افسوس چیف جسٹس نے بعد میں بھی اس پر کاروائی نہیں کی۔ کیسز کے دوران بھی چیف صاحب ایجنسیوں کے کیسز میں ھلکے لگتے ہیں لیکن جسٹس اقبال اس سے پہلے بھی مذارعین بمقابلہ فوج کیس میں کافی سخت رویہ اکتیار کر چکے ہیں۔
ان سب باتوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کن کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔
جسٹس جاوید اقبال اگر فوج کے بندے نہ ہوتے تو افتخار چوہدری کو اُتار کر انہیں چیف جسٹس نہ بنایا جاتا۔ لیکن بظاہر یہ بھی “سلمان تاثیر” سے ملتا جُلتا کیس لگتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس واقعہ کو ڈکیتی کا رنگ دیا گیا ہے جبکہ سلمان تاثیر کو مذہب کے دھوکے میں ٹھکانے لگایا گیا۔
خرم صاحب
ميرے خيال مں ايسا نہيں ہے ۔ پاکستان ميں کم از کم پانچ ہزار زی يا بليک واٹر کے آدمی اور کم از کم تين ہزار ميرين پھر راء ۔ سی آئی اے اور موساد کے ايجنٹ سب آخر کچھ نہ کچھ تو کر رہے ہوں گے ۔ يہاں تو کہا جاتا ہے کہ ان سب کو اجازت پرويز مشرف نے دی تھی اور يہ بھی کہ گم شدہ آدمی اس نے ايف بی آئی کے حوالے کئے