وہ قومیں جو سب راہیں طے کرچکی ہیں ۔ ۔ ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں
ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر چکی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مرچکی ہیں
اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور ابھی ان کو جانا ہے گویا
کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ
بضاعت کو اپنی ڈبوتے نہیں وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ
نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ ۔ ۔ ۔ بہت بڑھ گئے اور بڑھے جاتے ہیں وہ
مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں ۔ ۔ جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں
جہاں میں ہیں ایسے کہ گویا نہیں ہیں ۔ ۔ زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں
کہ گویا ضرویری تھا جو کام کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب کر چکے ایک باقی ہے مرنا
عمل جن کا تھا اس کلامِ متیں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر
تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ مدار آدميّت کا ہے اب انہیں پر
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لے جاکے سب اہلِ مغرب نے جوڑے
سمجھتے ہیں گُمراہ جن کو مسلماں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جن کو عقبٰیٰ میں اُمیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں۔ ۔ نہ تقدیر میں حُور جن کے نہ غلماں
پس از مَرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمیم آب و زقُّوم کھانا ہے جن کا
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں
یہ تمغا تھا گویا کہ حصہ انہیں کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ حُب الوطن ہے نشان مومنیں کا
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی