Yearly Archives: 2010

کزن ميرج

ايک صاحب جو اپنے آپ کو بد تميز کہتے ہيں [ميں نہيں کہتا] نے لکھا تھا کہ marriage between cousins يعنی چچا ۔ ماموں ۔ پھوپھی اور خالہ کی بيٹی کے ساتھ شادی کرنے سے جو بچے پيدا ہوں گے وہ اپاہج يا کُند ذہن ہوں گے يا ہونے کا احتمال ہے ۔ ميں نے اس پر لکھنے کا وعدہ کيا تھا ۔ جلد نہ لکھ سکنے پر معذرت خواہ ہوں کيونکہ ميں اُن سے پہلے کے کچھ حضرات سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش ميں تھا

متذکرہ بالا نظريہ يا قياس سے پہلی بار ميرا واسطہ 1965ء ميں پڑا جب ميرے والدين نے ميری شادی کا سوچا تو کسی نے شوشہ کزن ميرج کا چھوڑ ديا مگر بات آئی گئی ہو گئی اور 14 اگست 1965ء کو ميری منگنی خالہ کی بيٹی سے ہو گئی ۔ نومبر 1967ء ميں اللہ کے فضل سے ميری شادی ہو گئی

ميں نے اس سلسلہ ميں مطالعہ شروع کيا ۔ جو بات ميری سمجھ ميں آئی اُس کا خُلاصہ يہ ہے

عيسائیوں نے کسی وجہ سے چچا ۔ ماموں ۔ پھوپھی اور خالہ کی بيٹی کو بہن قرار ديا ۔ اسلئے اُس کے ساتھ شادی حرام قرار دی گئی
مسلمانوں ميں قريبی رشتہ داروں ميں شادی کا رُجحان تھا
انسان کی نفسيات تو عام طور پر ايک جيسی ہے ۔ جس طرح آج کا مسلمان اسلام کی ہر بات کو سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح عيسائی اطِباء نے اپنے اُس رواج کو جس ميں کزن ميرج حرام قرار دی گئی تھی سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کی

اللہ کے فضل سے ہمارا پہلا بچہ دسمبر 1970ء ميں پيدا ہوا جس کا نام زکريا ہے ۔ 1972ء ميں ہم اپنے دوسرے بچے کی پيدائش کی اُميد رکھتے تھے کہ پورے پاکستان ميں ايک لہر اُٹھی يا اُٹھائی گئی کہ کزن ميرج سے بچے کُند ذہن يا اپاہج پيدا ہوتے ہيں ۔ ہم بہن بھائيوں ميں سب سے بڑی بہن ہيں جنہوں نے 1955ء ميں ايم بی بی ايس پاس کيا تھا ۔ جب اُنہوں نے اس فتوے پر ہاں کہہ دی تو ميرے والدين کا پريشان ہونا فطری تھا ۔ اُنہيں پريشان ديکھ کر ميں نے کہا “ہمارے آباؤ اجداد ميں ہميشہ سے کزن ميرج ہوتی آئيں ہيں ۔ آج تک نہيں سُنا کہ اُن کے بچوں ميں کوئی کُند ذہن يا اپاہج ہوا”۔ پھر ماضی کے دو واقعات اُنہيں ياد کرائے اور کہا “جب سالوں کی تحقيق کے بعد آزمودہ ترياک عملی طور پر چند سال بعد زہر ثابت ہوتے ہيں تو يہ فہوالمطلوب والا کُليہ بھی غلط ہو سکتا ہے”۔ اس سے ميرے والدين کی تشويش کافی حد تک دُور ہو گئی۔ [ان دو واقعات اور فہوالمطلوب کی تفصيل بعد ميں]۔ اللہ کے کرم سے بچی بخير و عافيت پيدا ہو گئی

ميرا چھوٹا بيٹا فروری 1975ء ميں پيدا ہوا ۔ اُس کی پيدائش سے پہلے مزيد تحقيق آ گئی تھی کہ اگر خاوند اور بيوی کا خون ايک سا نہ ہو تو بچہ پيدا ہوتے ہی اس کا سارا خون تبديل کرنا ہوگا ورنہ [اللہ نہ کرے] بچہ مر جائے گا ۔ ميرا اور بيوی کا خون ٹيسٹ ہوا ۔ ميرا او پازيٹِو [O +] بيوی کا بی نيگيٹِو [B -]۔ ايک طوفان کھڑا ہو گيا ۔ حُکم ہوا کہ پھر خون ديا جائے راولپنڈی آرمڈ فورسز انسٹيٹيوٹ آف پيتھالوجی ميں مزيد ٹيسٹوں کيلئے بھيجا جائے گا ۔ ٹيسٹ ہو کر نتيجہ آيا تو حُکم ہوا کہ خون دينے کيلئے رضاکار تيار رکھے جائيں ۔ بچہ پيدا ہوتے ہی اُس کا خون تبديل کيا جائے گا

اللہ کی کرم نوازی ہوئی کہ ايک لمبے تجربہ والے ڈاکٹر صاحب راولپنڈی سے کسی سلسلہ ميں واہ چھاؤنی آئے ۔ کسی نے اس معرکہ کا ذکر اُن سے کيا ۔ وہ ڈاکٹر صاحب ميری بيوی کے کمرہ ميں جا کر ساری رپورٹيں ديکھ کر آئے اور کہا ” آپ لوگوں کو يقين ہے کہ بچے کا خون تبديل کر کے آپ بچے کو بچا ليں گے ؟” جواب ملا “کوشش ہمار فرض ہے”۔ بزرگ ڈاکٹر صاحب نے کہا “آپ جانتے ہيں کہ کتنا بڑا رِسک لے رہے ہيں ؟ ميں ايسے درجنوں کيس کر چکا ہوں اور اللہ کے فضل سے سب بچے بصحت ہيں ۔ اللہ پر بھروسہ رکھ کے نيک نيّتی سے کام کريں ۔ اللہ بہتر کرے گا”۔ چنانچہ ميرا دوسرا بيٹا يعنی تيسرا بچہ بھی اللہ کے فضل سے بخير و عافيت پيدا ہوا

ميرے بڑے بيٹے زکريا نے ماشاء اللہ انجنئرنگ يونيورسٹی لاہور سے بی ايس سی انجيئرنگ پاس کی ۔ پھر جارجيہ انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی اٹلانٹا جارجيہ امريکا سے ايم ايس انجيئرنگ پاس کی
ميری بيٹی نے ماشاء اللہ کلينيکل سائيکالوجی ميں ايم ايس سی پاس کرنے کے بعد پوسٹ ماسٹرز ڈپلومہ کيا
چھوٹے بيٹے نے ماشاء اللہ آئی بی اے کراچی سے صبح کے وقت کا کُل وقتی ايم بی اے پاس کيا ۔ پھر سٹريتھکلائيڈ يونيورسٹی يو کے سے ايم ايس سی فنانس پاس کيا
يہ تينوں بچے ماشاء اللہ کسی امتحان ميں فيل نہيں ہوئے اور اللہ کے فضل سے صحتمند اور چاک و چوبند ہيں

يہ وہ بچے ہيں جن کے ماں باپ فرسٹ کزن ۔ دادا دادی بھی فرسٹ کزن اور نانا نانی سيکنڈ کزن

ميری پھوپھی زاد بہن جو ميری بيوی کی تايا زاد ہيں اُن کی شادی اپنی پھوپھی کے بيٹے سے ہوئی ۔ اُن کے سب بچے ماشاء اللہ ٹھيک ٹھاک ہيں ۔ اُنہوں نے اپنے بيٹے کی شادی اپنی سگی بھتيجی سے کی جن کے اب ماشاء اللہ دو بچے ہيں ٹھيک ٹھاک اور ذہين

ہمارے قريبی عزيزوں ميں چار بچے نقص والے پيرا ہوئے ۔ ميرے والد صاحب کے تايا صاحب کے دو بيٹوں اور ايک بيٹی ميں سے ايک بيٹے گونگے تھے ۔ والد صاحب کے تايا صاحب کی بيوی غير خاندان سے تھيں
ميرے والد صاحب کی تايا زاد بہن کے بيٹے کی شادی غيروں ميں ہوئی ۔ اُن کا بيٹا جب پيدا ہوا تو اُس کا تالُو يعنی منہ کے اندر زبان کے اُوپر جو چھت ہوتی ہے وہ نامکمل تھی جس کی وجہ سے اُس بچے کو کئی ماہ ہستال ميں رکھنا پڑا اور اُس کی مکمل پلاسٹک سرجری ميں کئی سال لگے
ميرے خالہ زاد بھائی جو ميری بيوی کے سگے بھائی ہيں اُن کے دو بيٹوں اور تين بيٹيوں ميں سے ايک بيٹا ناقص العقل [retarded] ہے ۔ ميرے خالہ زاد بھائی کی بيوی غير خاندان سے ہے
متذکرہ بالا ميری پھوپھی زاد بہن کی ايک بيٹی کے دو بيٹوں اور تين بيٹيوں ميں سے ايک بيٹا ناقص العقل ہے ۔ اس بچے کا باپ غير خاندان سے تھا
ميں يہ نہيں کہنا چاہ رہا کہ غيروں ميں شادی کا يہ نتيجہ ہوتا ہے ۔ نہيں بالکل ايسا نہيں ہے ۔ ميری چاروں بہنوں اور ايک بھائی کی شادیاں غيروں ميں ہوئیں اور ماشاء اللہ سب کے بچے تندرست اور ذہين ہيں

دو واقعات جن کا ميں نے شروع میں حوالہ ديا تھا
مجھے 1948ء ميں گلا خراب ہونے کی وجہ سے تيز بخار ہو گيا ۔ والد صاحب ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے مجھے پنسلين کا ٹيکہ لگايا ۔ ٹيکہ لگوا کر ہم گھر کو روانہ ہوئے ۔ کوئی دس منٹ بعد ميری آنکھوں کے آگے اندھيرا آنا شروع ہوا اور ميں بيہوش ہو گيا ۔ جب ہوش میں آيا تو میں ڈاکٹر کے کلنک پر تھا اور ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے “کوئی ايسی بات نہيں ہے ۔ بچے کا دل کمزور ہے ٹيکے سے ڈر گيا ہے”۔ گھر پہنچ کر جب والد صاحب نے قصہ والدہ صاحبہ کو سُنايا تو وہ بوليں “اجمل تو اُس وقت بھی مستعد ہوتا ہے جب بڑے بڑے گرنے کو ہوتے ہيں ۔ ضرور دوائی کا اثر ہوا ہو گا”۔ بارہ پندرہ سال بعد معلوم ہوا کہ نئی تحقيق کے مطابق پنسلين سے خطر ناک ردِعمل ہوتا ہے اسلئے پنسلين پہلے ٹيسٹ کرنے کے بعد دی جائے ۔ مزيد کچھ عرصہ بعد پنسلين بنانا بند کر ديا گيا

دسمبر 1964ء ميں مجھے بخار ہوا ۔ ڈاکٹر نے مليريا تشخيص کر کے دوائی دی ۔ دو دن بعد بہتر ہونے کی بجائے حالت ابتر ہو گئی ۔ ميں نے جا کر ڈاکٹر سے کہا کہ دوائی کا کچھ غلط اثر ہوتا محسوس ہوتا ہے تو ڈاکٹر صاحب بولے “يہ دوائی امريکا کے بہترين ماہرين نے اتنے سالوں کی تحقيق اور تجربہ کے بعد بنائی ہے ۔ اس دوائی کا ردِ عمل ہو ہی نہيں سکتا”۔ دوائی جاری رکھی ۔ چار دن بعد ميں ہسپتال ميں بيہوش پڑا تھا ۔ ميرے گردوں ميں سے خون بہہ رہا تھا اور ہيموگلوبن جو عام طور پر ميری 14.2 ہوتی تھی 6.9 رہ گئی تھی ۔ کسی کو کچھ سمجھ ميں نہ آ رہا تھا سوائے اسکے کہ مجھے خون کی بوتل لگا دی گئی مگر بلڈ پريشر بہت کم ہو جانے کے باعث خون کی ايک بوتل چار دن ميں چڑھی جن ميں سے تين دن ميں متواتر بيہوش پڑا رہا تھا ۔ مزيد دس دن يہ حال رہا کہ بستر سے سر اُٹھاؤں تو بيہوش ہو جاتا تھا بغير تکئے کے ليٹا رہا اور نيند نہ آتی تھی ۔ ميرے بعد کئی اور اسی طرح کے کيس ہوئے اور ايک سال بعد نئی تحقيق آئی کہ اُس دوائی کے خطرناک ثابت ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار دے دی گئی ہے ۔ اور دوائی تمام دوائی کی دکانوں سے اُٹھا لی گئی

فہوالمطلوب
جنہوں نے دسويں جماعت تک جيوميٹری اُردو ميں پڑی ہے اُنہيں شاید ياد ہو کہ زيادہ تر مسئلے [theorum] تو براہِ راست حل کئے جاتے تھے مگر کچھ ايسے تھے کہ جن ميں جواب فرض کر ليا جاتا تھا اور پھر اُسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔ آخر ميں لکھا جاتا تھا چونکہ مفروضہ غلط ثابت نہيں ہو سکا اسلئے يہ درست ہے ۔ فہوالمطلوب ۔ فہوالمطلوب عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اور وہی چاہيئے

تشويش کا ازالہ

محمد رضوان صاحب نے قراردادِ پاکستان کے حوالہ سے لکھا ہے “يہ قرار داد تو 24 مارچ 1940 کو منظور ہوئی تھی ۔ پھر ہم اسے 23 مارچ کو کیوں مناتے ہیں۔ اصل میں 23 مارچ کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا تھا جس کے مطابق پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ملک قرار دیا گیا”

ايک تو ہماری قوم کی تاريخ [کا مضمون] ہی کمزور ہے اس پر طُرّہ يہ کہ پۓ درپۓ ہمارے حکمرانوں نے قوم کو عِلم سے محروم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ۔ شاید يہ ميری غلطی ہے کہ ميں نے اپنی 23 مارچ 2010ء کی تحرير ميں اس کی وضاحت ضروری نہ سمجھی کہ قوانين اور قراردادوں مین ايسا ہی ہوتا آيا ہے

نئے قانون يا نئی قرارداد کا جب مسؤدہ پيش کيا جاتا ہے تو اُس پر تاریخ پہلے سے فيصلہ کر کے درج کردی جاتی ہے ۔ ترجيح اُس تاريخ کو دی جاتی ہے جس دن متعلقہ مجلس کے تمام ارکان کا اس مسؤدہ سے کم از کم زبانی متفق ہونا متوقع ہو يا جس دن يہ مسؤدہ متعلقہ مجلس کے ارکان کی اکثريت اسے پیش کرنے کی منظوری دے دے ۔ ايسا بھی ہوتا ہے کہ قراداد يا قانون پر وہی تاريخ درج ہو جس دن اسے حتمی طور پر منظور کيا جائے

مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت ميں منظور ہونے والا آئين جسے 1973 کا آئين کہا جاتا ہے وہ منظور 1974ء ميں ہوا تھا ليکن اسمبلی ميں پيش 1973ء ميں کيا گيا تھا ۔ بہت سے ايسے قوانين موجود ہيں جو اُن پر لکھے گئے سال سے ايک يا زيادہ سال بعد ميں منظور ہوئے

جب 22 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان منظور کرنے کيلئے منٹو پارک لاہور ميں جہاں اب مينارِ پاکستان کھڑا ہے آل انڈيا مسلم ليگ سہ روزہ اجلاس طلب کيا گيا تو تمام نمائندوں کے ساتھ ساتھ وہاں برِصغير کے مسلمانوں کا بے مثال جمِ غفير اکٹھا ہوا ۔ آل انڈيا مسلم ليگ کے تمام منتخب نمائندوں نے قراردادِ پاکستان سے اتفاق کا اظہار کر ديا ہوا تھا اور منظوری کی تاریخ 23 مارچ 1940ء رکھی گئی تھی ۔ جلسہ کے دوران مسلمان حاضرين کی تعداد اور دلچسپی کو ديکھتے ہوئے فيصلہ کيا گيا کہ قرارداد کی رسمی منظوری 24 مارچ 1940ء کو جلسہ عام سے لی جائے

قرادادِ پاکستان کو 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کہنا بالکل درست ہے ۔ اور حقيقت يہ ہے کہ 1956ء کا آئين بھی اسی تاريخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رسمی طور پر 23 مارچ 1956ء کو منظور کيا گيا تھا

یومِ پاکستان

Flag-1 آج يومِ پاکستان ہے ۔ بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ لاہور” تھا لیکن وہ minar-i-pakistan قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 55 سال سے زائد ہمارے ملک سے غائب رہنے کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے مارچ 2009ء میں کافی حد تک بحال ہوئی ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ یہ ملی یکجہتی نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید بڑھے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین
میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے بشدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہوں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس [اب اُتر پردیش] سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ muslim-majority-mapاس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے

۔

۔

۔

۔

۔
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی
m-l-working-committee

شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں
welcome-addr-22-march-1940

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
seconding-reson-march-1940

۔قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ
quaid-liaquat-mamdot

بچ کے رہنا

یہ ہے کمپیوٹر کا کمال ۔ پینٹ شاپ کے ذریعہ کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ہوشیار رہیئے اور کسی پر شک نہ کیجئے ۔ کل کو آپ کے ساتھ بھی اسی طرح کا کچھ ہو سکتا ہے

یہ زیبرہ ہے یا مگر مچھ
Zebra

اتنا تناور درخت ہاتھوں میں ؟
Tree in Hand

گھر آکٹوپس کے سکنجے میں
The Octopus

سڑک کھسک گئی
Road Slide

ناک ہی ناک
Big Nose

یہ کیسے انڈے ہیں
Head Eggs

بطخ کے انڈے میں سے نکلا کتا ؟
Dog Duck

روتے انگور
Crying Grapes

آگ میں گھوڑا
Burning Horse

مٹر کی پھلی میں فٹ بال
Football Peas

بوتل میں آدمی
Man in Bottle

آنکھ میں انگلیاں
Hand in Eye

پنجابی طالبان کيسے ؟

کیی قارئین نی بتایا تھا کہ پنجابی طالبان کیسے نہیں پڑھی جاتی . اب اسی دوبارہ اسی لئے شایع کیا ہے

اگر جنوبی وزيرستان کو بھارتی بيرونی فوجی چوکی جس ميں مذہبی رنگ ميں مُکتی باہنی موجود ہے کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ يہ قياس ہوائی يا مجذوب کی بڑ نہيں ہے بلکہ اطلاعات کی چھوٹی چھوٹی سينکڑوں کڑيوں سے ترتيب پاتی ہوئی حقيقت ہے جو پچھلے سالوں ميں مختلف انٹيليجنس ايجنسوں کو حاصل ہوئی ہيں

پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھيئے

برطانوی صحافی اور عافیہ صدیقی

برطانوی صحافی مریم ایوان ریڈلی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت نے تاحال ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے لیے امریکی حکومت سے کوئی درخواست نہیں کی۔ افغانستان کی بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا انکشاف کرنے والی نو مسلم برطانوی صحافی مریم ریڈلی آج کراچی پہنچیں توائرپورٹ پر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور پاسبان کے کارکنوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ میڈیا سے گفتگو میں مریم ریڈلی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ غیر قانونی تھا اور یہ کہ نیو یارک میں ان کے مقدمہ کوچلایا جاناہی نہیں چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان آئی ہیں۔ اس موقع پرڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ عافیہ صدیقی کے مقدمے میں اپیل کے لیے خود وکیل کا انتخاب کریں گی

ميری انگريزياں

اخبار والا کبھی کبھی اخبار کے ساتھ اشتہار بھی پھينک جاتا ہے ۔ ميں نے کبھی توجہ نہيں دی
پچھلے دنوں ايک اشتہار آيا جس پر لکھا تھا
Saddle Ranch
مطلب گھوڑے کی کاٹھی والا مويشی باڑہ ۔ سوچا جائيں گے اور گھوڑے کی سواری کريں گے
تفصيل پڑھنے کيلئے آگے بڑھا تو لکھا تھا
Happy Lunches
دھماکے روزانہ کا معمول بن چکے ہيں منہ ميں نوالا ڈاليں تو حلق ميں پھنس کے رہ جاتا ہے ۔ اسے پڑھ کر دل گارڈن گارڈن ہو گيا کہ خوشی کا ظہرانہ بھی ملے گا ۔ جلدی سے اس خوشی کے ظہرانے کی تفصيل پڑھنے لگا
لکھا تھا
Jalapano Bullets
پڑھتے ہی دل دھک سے رہ گيا ۔ پہلے ہی ہمارے ملک ميں گولياں چلتی رہتی ہيں ۔ يہ “جلی بھُنی گولياں” نمعلوم کتنی خطرناک ہوں گی
جلدی سے آگے بڑھا
لکھا تھا
Mini Chimichangas
” Mini” تو اُس سکرٹ کو کہتے ہيں جو پہنا جائے تو پوری ٹانگيں ننگی رہتی ہيں اور “چمی” اُسے کہتے ہيں جو چِپکُو ہو ۔ ساتھ چَنگاز بھی لکھا تھا يعنی چَنگا کی جمع ۔ مطلب بنا “ننگی ٹانگوں والے چِپکُو چَنگے
آگے بڑھا تو لکھا تھا
Hush Puppies
يعنی “ہُش کتُورے”
ميرے منہ سے نکلا “ہائے ميں مر گئی” اور آگے پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی