Yearly Archives: 2010

السلام عليکم کے کئی معنی

مسلمان کے مسلمان کو ملنے پر السلام عليکم کہنے کا حُکم اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ديا ہے ۔ السلام عليکم کا مطلب جيسا کہ سب جانتے ہيں “آپ پر سلامتی ہو”۔ ليکن ہمارے معاشرے ميں جو شکُوک کا شکار ہو چکا ہے اتنے اچھے الفاظ کے پسِ پردہ معنی تلاش کئے جاتے ہيں

ديکھا گيا ہے کہ ايک شخص ايک گروہ يا محفل ميں آتا ہے اور پُرتپاک طريقہ سے السلام عليکم کہتا ہے ۔ سلام بھيجنے والے کے دل ميں کيا ہے سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا مگر مختلف مخاطب افراد اس سلام کو مختلف طريقہ ميں وصول کرتے ہيں جس کی کچھ صورتيں يہ ديکھنے ميں آئی ہيں

“اچھا خوش اخلاق شخص ہے”
“آج بہت خوش نظر آ رہا ہے ؟”
“اتنے تپاک سے سلام ۔ ضرور کوئی ذاتی غرض ہو گی”
“دال ميں ضرور کچھ کالا ہے”

کچھ ايسے بھی ہوتے ہيں جن پر سلام کا کوئی اثر نہيں ہوتا

دراصل کسی بھی اطلاع يا خبر رسائی کا ادراک يا شعور سامع کی نہ صرف تعليم و تربيت اور ماحول بلکہ اس خاص لمحہ پر اُس کی ذہنی حالت پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔ سلام بھی ايک اطلاع يا خبر ہوتی ہے ۔ چنانچہ سلام خواہ کتنے ہی پُرخلوص جذبات کا حامل ہو مخاطب افراد کی عِلمی سطح ۔ تربيّت اور ماحول سلام کرنے والے سے مختلف ہو تو سلام کا ردِ عمل کم ہی درست ہو گا

کوئی بھی کہا گيا جُملہ دو زمرات ميں رکھا جا سکتا ہے ۔ ايک ۔دعوٰی ۔ اور دوسرا ۔ توضيع ۔ اور ايک ہی دعوٰی کی کئی توضيعات ہو سکتی ہيں جن کا انحصار مخاطبين کی اقسام يا جذباتی کيفيات پر ہوتا ہے ۔ انسانی تعلقات ميں خبر رسائی ايک اہم مقام رکھتی ہے ۔ اگر مخاطبين کی اکثريت دعوٰی کی درست توضيع کرنے سے قاصر رہے تو اچھے تعلقات استوار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اور اسی بناء پر کج فہمی اور انتشار جنم ليتے ہيں اور معاشرہ بگاڑ کی راہ پر چل نکلتا ہے

وجہ خواہ غير مساوی تعليم ہو يا ناقص تربيت مختلف افکار رکھنے والے افراد ايک ہجوم تو بن سکتے ہيں مگر قوم نہيں ۔ ہجوم کو جوش يا طيش دِلا کر اس سے بربادی کا کام تو ليا جا سکتا ہے مگر تعميری کام نہيں ليا جا سکتا ۔ ہم ايک مضبوط قوم تھے ليکن پۓ در پۓ حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور قوم کی لاپرواہی کے نتيجہ ميں ہم افراد کا ہجوم بن چکے ہيں ۔ اللہ کرے وہ وقت پھر آئے جب ہمارے اربابِ اختيار انگوٹھے اور کلائی کے زور کی بجائے دماغی سوچ سے کام لينے لگيں

يہ خلاصہ ہے ميرے ايک تحقيقاتی مقالے کے تين ابواب ميں سے ايک کا جو ميرے دس سالہ تجربہ اور وسيع مطالعہ اور کئی سرويز [surveys] پر مبنی تھا اور مارچ 1975ء ميں غور اور اطلاق کيلئے حکومتِ پاکستان کے متعلقہ محکمہ کے حوالے کيا گيا تھا ۔ شايد ايسے کئی تحقيقاتی مکالے اُن کی الماريوں ميں پڑے ديمک کی خوراک بن چکے ہوں گے

سياسی کلچر

میں صدر مملکت کا کوئٹہ میں خطاب سن رہا تھا۔ صدر صاحب نے تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ جسٹس نسیم حسن شاہ کو بھٹو کا قاتل سمجھتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ وہ چار فٹ تین انچ کا شخص لاہور میں آزاد پھر رہا ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد تو اپنی فراخدلی ظاہر کرنا تھا اور بتانا تھا کہ پی پی پی انتقام پر یقین نہیں رکھتی لیکن ان کی تقریر کے یہ فقرے سن کر مجھے لگا جیسے وہ سوئے ہوئے زخموں کو کرید کر تازہ کر رہے ہیں اور لاہور کے پی پی پی کے جیالوں کو یاد دلا رہے ہیں کہ تمہارے بھٹو کا قاتل کون ہے اور کہاں ہے؟

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں صدر صاحب کو زیب نہیں دیتیں اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ شاید صدر صاحب سپریم کورٹ کے این آر او پر فیصلے سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسی باتیں کر رہے ہیں جبکہ چودھری اعتزاز احسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو جسٹس مولوی مشتاق حسین اور جسٹس انوار الحق نے پھانسی چڑھایا تھا

جسٹس نسیم حسن شاہ کے الفاظ قابل غور تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار غصہ نہ دلاتے تو شاید سپریم کورٹ انہیں موت کی سزا نہ دیتی۔ جنرل کے ایم عارف کی کتابیں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے بہرحال بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا اور عدالت عالیہ نے وہی کرنا تھا جو آمر مطلق چاہتا تھا۔ رہا غصہ تو عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جب بھٹو صاحب پر ہائیکورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو وہ مختلف طریقوں سے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا تمسخر اڑاتے اور اسے غصہ دلاتے تھے

جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی اور چوہدری ظہور الٰہی نے صدر ضیاء الحق سے وہ قلم مانگ لیا جس سے صدر صاحب نے پھانسی کی تصدیق کی تھی چنانچہ چوہدری ظہور الٰہی کو کار میں سفر کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن موڑ لاہور پر قتل کر دیا گیا، کیا یہ انتقام نہیں تھا؟ نہ جانے کیوں میں صدر زرداری صاحب کی تقریر سنتے ہوئے محسوس کر رہا تھا کہ ان کے ان الفاظ سے پی پی پی کے جیالے پھر طیش میں آئیں گے اور پھر خدا جانے کیا ہو

دراصل ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کا ایک مزاج ہوتا ہے جسے میں اس جماعت کا کلچر کہتا ہوں۔ عام طور پر سیاسی جماعت میں یہ مزاج یا کلچر اس کی قیادت پیدا کرتی ہے

ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے کے بعد ایک عرصے تک ضیاء الحق بھٹو صاحب کو ”سر“ کہہ کر مخاطب کرتا رہا، وہ ان کا بے حد احترام کرتا تھا اور اس کا ہرگز ا رادہ بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھانے کا نہیں تھا جس روز بھٹو صاحب نے مختصر سی حراست سے رہائی کے بعد یہ بیان دیا کہ وہ اقتدار میں آکر جرنیلوں کو پھانسی چڑھا دیں گے، اسی لمحے ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کا موڈ بدلنے لگا اور احترام کی جگہ تصادم نے لینی شروع کر دی

آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ پی پی پی کا کلچر جارحیت کا کلچر ہے اور اس کی قیادت جارحیت پر یقین رکھتی ہے۔ پی پی پی کے دانشور اسے مزاحمت کہتے ہیں جبکہ دراصل پی پی پی کے مزاج اور خمیر میں جارحیت پوشیدہ ہے اور وہ مزاحمت نہیں بلکہ تصادم کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل خود زرداری صاحب کے بیانات اور خاص طور پر نوڈیرو والی تقریر اور یہ کہ اسٹبلشمنٹ نہ ہی صرف ان کے اقتدار بلکہ ان کی جان کے در پے ہے یہ ساری حکمت عملی اور انداز ان کے جارحانہ سیاسی کلچر کی غمازی کرتا تھا۔ اسی طرح راجہ ریاض کی تقریروں میں لاشیں گرانے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سندھ کی علیحدگی کی دھمکیاں اور پھر پی پی پی کے کارکنوں کا نہ صرف میاں نواز شریف کا پتلا جلانا بلکہ سڑکوں پر ماتم کرنا، پی پی پی کے جارحانہ انداز کو بے نقاب کرتا ہے۔

بظاہر وزیراعظم صاحب چیف جسٹس کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہیں لیکن مجھے یہ تصادم سے نکلنے کی وقتی مصلحت اور حکمت عملی لگتی ہے کیونکہ پی پی پی کی حکومت این آر او پر فیصلے کے صدر صاحب سے متعلقہ حصے اور خاص طور پر سوئس اکاؤنٹس پر مقدمات ری اوپن کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگی۔ گزشتہ دنوں آپ نے دیکھا کہ کس طرح ججوں کو ملغوف دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور کس طریقے سے ان کی دیانت پر شکوک کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کی مانند اب بھی پیپلز پارٹی کو جارحیت مہنگی پڑے گی لیکن کیا کیجئے کہ جارحیت جیالوں کے مزاج کا حصہ ہے۔ کس قدر فکر انگیز اور حکمت سے لبریز ہے حضرت علی کا یہ فرمان کہ ”ہر شخص کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے“

تحرير ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اعلٰی معیار

جو محنت کرتا ہے ۔ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے
جو دیانتداری کرتا ہے ۔ وہ قابلِ اعتماد بنتا ہے
جو اچھائی کرتا ہے ۔ وہ مقبول ہوتا ہے
جو درگذر کرتا ہے ۔ وہ موافقت حاصل کرتا ہے
جو عاجزی اختیار کرتا ہے ۔ وہ بڑھائی پاتا ہے
جو استقامت یا استقلال اختیار کرتا ہے ۔ وہ قناعت و اطمینان پاتا ہے
جو اللہ پر ایمان یا یقین رکھتا ہے ۔ وہ سب کچھ پا لیتا ہے

چنے بوئیں گے تو گندم نہیں کاٹ سکتے
نہ ہی تھور بیجیں تو گلاب اُگتا ہے
جو زندگی کو دیں گے وہی زندگی لوٹائے گی
اسلئے وہی کریں جس کے نتیجہ میں بعد میں پریشانی یا پشیمانی نہ ہو

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” جو ساڑھے پانچ سال سے زائد عرصہ سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر

دکھائيں گے قوم کو رنگ کيسے کيسے

صدر آصف علی زرداری نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے وزیر داخلہ رحمن ملک کی برطرفی کو ریٹائرمنٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اصول و ضوابط کی یہ کھلی خلاف ورزی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب محترمہ قتل کیس میں ان کے کردار پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ رحمن ملک نے اس حوالے سے خود اپیل دائر کی جبکہ درخواست گزار اپنے باس کے ذریعے یا اس نے اگر سروس چھوڑ دی ہے تو وہ اپنے سابقہ باس کے ذریعے ہی اپیل دائر کر سکتا ہے ۔ سیکرٹری داخلہ نے 17 اپریل 2010ء کو 15 نومبر 2002ء سے اپنے باس کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیاجبکہ رحمن ملک کی پہلی اپیل کو صدر رفیق تارڑ نے 1999ء میں مسترد کر دیا تھا۔ سول سروس رولز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اپیل کا وقت [30 دن] گزر جانے کی وجہ سے ایوان صدر انہیں معافی نہیں دے سکتااور نہ ہی دوبارہ صدر کو اپيل کی جا سکتی ہے ۔ رحمن ملک کو 4 نومبر 1998ء کو حکومت پاکستان کی ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا ۔ ان کے خلاف سات نکاتی چارج شیٹ میں غیر قانونی طور پر دو ہنڈا کاروں کا حصول، سرکاری حیثیت کا غلط استعمال، بجلی چوری جیسے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس وقت ان کی معطلی کا معاملہ احتساب عدالت نے ختم کر دیا جبکہ ہنڈا کاروں کے حوالے سے ریفرنس ابھی بھی احتساب عدالت میں زیرسماعت ہے۔

متروکہ جائيداد ٹرسٹ بورڈ نے 2007ء ميں سکھوں کے گوردواروں سے ملحق زمين ڈی ايچ اے کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنايا اور کيس تيار کر کے وزارتِ اقليتی امور کی رائے لينے کيلئے بھيجا ۔ وزارتِ اقليتی امور نے اس منصوبے پر اعتراضات لگا کر فائل اپنے پاس رکھ لی ۔ پھر مئی 2009ء ميں جب حکومت بھی بدل چکی تھی اور وزارتوں کے سربراہان بھی تو تمام قوانين کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متعلقہ سينکڑوں ايکڑ زمين ڈی ايچ اے کو بيچ دی گئی ۔ اس کی خبر اُس وقت ہوئی جب بھارتی پارليمنٹ ميں اس پر اعتراضات اُٹھائے گئے اور بھارت کی حکومت نے پاکستان کی حکومت کو لکھا کہ تحقيقت کی جائے

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 ڈاکٹر رضوا ن نصیر نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت کے پولیس افسر سعود عزیز نے ہمیں سختی سے حکم دیا تھا کہ جلد از جلد جائے حادثہ کو پانی سے دھویا جائے لیکن ریسکیو 1122 نے اس بناء پر کہ جائے شہادت کو دھونے سے تمام شہادتیں اور ثبوت ضائع ہو جائیں گے، یہ کام کرنے سے انکار کردیا جس پر ایس ایس پی سعود عزیز کے حکم پر کارپوریشن کی فائر بریگیڈ گاڑیوں سے جائے شہادت کو دھلوایا گیا تاہم بعدازاں جب ثبوت ضائع ہو گئے تو ریسکیو 1122 نے بھی دھلائی اور صفائی کے کام میں حصہ لیا

ابھی بھی ہماری قوم ميں ايسے افراد موجود ہيں جو کہتے ہيں کہ پرويز مشرف اور زرداری کو بلا وجہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ مسلک

وسط فروری 2010ء ميں ہم يعنی مياں بيوی علامہ اقبال ايئرپورٹ پر بيٹی کو لينے گئے جو ايک عشرہ کيلئے دبئی اپنے بھائی کے پاس گئی تھی ۔ ہم بين الاقوامی آمد والے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ کچھ دير بعد درجن بھر سبز پگڑيوں والے باريش لوگ آئے جن کے ہاتھوں میں سبز ریشمی کپڑے کے گوٹہ لگے جھنڈے بھی تھے ۔ وہ گانے لگے جو مجھے سمجھ آیا وہ يہ تھا ۔ نبی کا جھنڈا پيارا جھنڈا ہمارا جھنڈا ۔ نبی کی آمد مرحبا ۔ رسول کی آمد مرحبا ۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی کہہ رہے تھے جو کچھ مجھے سمجھ نہيں آيا اور کچھ بھول گيا ہوں ۔ وہ اس طرح سے گا رہے تھے کہ شور محسوس ہوتا تھا ۔ ایک گھنٹہ بعد ہمارے وہاں سے واپس آنے تک وہ متواتر گا رہے تھے صرف عشاء کی اذان کيلئے خاموش ہوئے

میری بیٹی کا بارہويں جماعت کا سالانہ امتحان ہو رہا تھا [1990ء]۔ دفتر سے چھٹی ہوئی میں گھر پہنچا تو شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ ديتی تھی ۔ گھر میں داخل ہوا تو کھڑکيوں کے شيشے کھڑکھڑا رہے تھے ۔ بيٹی نے آنسوؤں کے ساتھ ميرا استقبال کرتے ہوئے کہا “ابو ۔ کل ميرا پرچہ ہے اور صبح سے اس شور کی وجہ سے ایک لفظ نہیں پڑھ سکی”۔ اندازہ لگانے کيلئے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے گھر کے پائیں باغ میں نکلا ۔ دیکھا کہ پيچھے آفيسرز میس کے ملازمین کے کوراٹروں کے ساتھ جو چھوٹی سی مسجد بنی ہے اس کے چھوٹے سے مينار پر چار لاؤڈ سپیکر لگے ہیں اور اُس پر فلمی گانوں کی نقل نعتیں پڑھی جا رہی ہيں ۔ آواز اتنی اوُنچی کہ میں دونوں کانوں کو اپنی ہتھيليوں سے بند کرنے کے بعد سجھ سکا کہ گايا کيا جا رہا ہے

اس 8 فٹ چوڑی 7 فٹ لمبی اور 8 فٹ اُونچی مسجد کی تاریخ يہ ہے کہ آفيسرز ميس جی ايم ہاؤس کے پيچھے آٹھ دس سرونٹ کوارٹر بنے ہوئے تھے جن ميں آفيسرز ميس کے ملازمين رہتے تھے ۔ 1972ء ميں پيپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اُن دنوں جی ايم ہاؤس ميں پروجيکٹس کے دفاتر بنے ہوئے تھے جو عارضی تھے مگر اس کی وجہ سے سرونٹ کوارٹرز خالی تھے ۔ اُوپر سے حُکم آيا کہ يہ کوارٹر لوگوں کو الاٹ کر ديئے جائيں ۔ جن کی سفارش کی گئی تھی وہ ہر جماعت ميں اپنا نام لکھانے والے کھڑپينچ تھے ۔ ايک دو سال بعد اُنہوں نے اپنے کوارٹروں کے ساتھ سرکاری زمين پر يہ مسجد بنا لی حالانکہ اس علاقے کی بڑی مسجد وہاں سے صرف تين منٹ کی پيدل مسافت پر تھی

ميں آفيسرز ميس پہنچا ۔ مسجد کے اندر کوئی لاؤڈ سپیکر نہيں لگايا گيا تھا کيونکہ بغير سپيکر کے مسجد کے اندر بولنے والے کی آواز مسجد کے باہر پہنچ سکتی تھی آفيسرز ميس کے دوسری طرف جا کر تاکہ شور کم ہو اور ايک دوسرے کی بات سُنی جا سکے منتظم کو بلایا ۔ مُنتظم آئے ۔ وہ اسسٹنٹ منيجر ايڈمن تھے جو ماسٹر اِن ايڈمن سائنس [Master in Admin Science] تھے منتظم سے میں نے کہا ” مسجد میں امام ظہر اور عصر کی نماز آواز کے ساتھ نہیں پڑھاتے ۔ اب عصر کی نماز ہونے والی ہے ۔ اس مسجد میں ايک لاؤڈ سپيکر کی بھی ضرورت نہیں اور آپ نے اُوپر چار لگا رکھے ہیں اور وہ بھی فُل واليوم پر صبح سے اب تک متواتر محلہ والوں کو بيزار کئے ہوئے ہیں ۔ کوئی مريض آرام کرنا چاہتا ہے ۔ کوئی طالب علم امتحان کی تياری کرنا چاہتا ہے”
جملہ آيا “آپ کا مسلک دوسرا ہے”
میں نے کہا “آپ کو کيسے معلوم ہوا کہ ميرا مسلک کیا ہے ؟ آپ تو مجھے زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں”
جواب میں خاموشی
میں نے سوال کیا ” يہ مسلک کيا ہوتا ہے اور آپ کا مسلک کيا ہے ؟”
جواب ملا ” میں بریلوی ہوں ”
میں نے کہا “احمد رضا بریلوی صاحب کی وہ کتاب دکھايئے جس میں لکھا ہے کہ اس طرح محلہ والوں کو بيزار کرو”
جواب میں خاموشی
میں نے پوچھا “آپ نے احمد رضا صاحب کی کونسی کتاب پڑھی ہے ؟”
جواب ملا “کوئی نہيں”
میں نے التجا کی “پھر يہ لاؤڈ سپیکر بند کر ديجئے”
جواب ملا “يہ نہيں ہو سکتا”

اسی دوران ايک اسسٹنٹ منيجر فنانس جو مجھے جانتے تھے آ کر کھڑے ہو چکے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا ” جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ اگر يہاں آنے کی بجائے يہ ایک ٹیلیفون کر ديتے تو سب کچھ اب تک بند ہو چکا ہوتا”
مگر اُن صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا

ميرے پاس سوائے اپنی سرکاری حيثيت استعمال کرنے کے کوئی چارہ نہ رہ گيا تھا ۔ میں نے گھر پہنچ کر چيف ايڈمن آفيسر اور اسٹیشن کمانڈر دونوں کو ٹیليفون کیا جس کے بعد آدھے گھنٹہ کے اندر لاؤڈ سپيکر خاموش ہو گئے

سوتيلا بيٹا يا سوکن

بجلی کی ڈیمانڈ اورشارٹ فال کم ہونے کے باوجود لوڈ شيڈنگ کے دورانیہ میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں 11 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے ۔ پیپکو کے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار 10 ہزار 3 سومیگا واٹ جبکہ موسم میں بہتری سے ڈیمانڈ کم ہوکر 14 ہزار 6 سو میگا واٹ پر آ گئی ہے اور شارٹ فال 4 ہزار 6 سومیگا واٹ ہوگیا ہے ۔ لاہور میں ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے جبکہ آج 7 سے زائد گرڈ اسٹیشنز کو مرمت کے نام پر 10 گھنٹے سے زائد بند رکھا جا رہا ہے

Jang Online Updated at 1500 PST on April 19, 2010

پنجاب پنجاب پنجاب

ہر طرف سے آواز اُٹھتی رہتی ہے ۔ پنجاب کھا گيا ۔ پنجاب پی گيا ۔ پنجاب يہ ۔ پنجاب وہ

جب تک ميں اسلام آباد ميں تھا ميں بھی سمجھتا رہا کہ پنجاب والے زيادتی کرتے ہوں گے ۔ اللہ کا کرنا ايسا ہوا کہ ميں 18 جولائی 2009ء کو پنجاب کے صدر مقام اور بقول شخصے پاکستان کے دِل لاہور ميں آ بسا ۔ کچھ ماہ تو اپنے جھنجھٹ نبيڑنے ميں لگے پھر آہستہ آہستہ گِرد و پيش کا جائزہ شروع ہوا

ميں بجلی کی ترسيل کے بارے ميں ہميشہ کراچی والوں پر ترس کھاتا رہا تھا ۔ جب اپنے پر بنی تو سمجھ آئی کہ لاہور ميں بجلی بڑھ چڑھ کر اپنا ہاتھ دکھاتی ہے ۔ لاہور ميں قيام کے دوران 24 ميں سے 10 سے 16 گھنٹے بجلی کے بغير گذارنے پڑے جبکہ ہم لاہور کے بہترين علاقہ ميں رہ رہے ہيں ۔ بہت سے لوگوں کے يو پی ايس جواب دے گئے ۔ اس دوران مجھے بھی ايک نئی بيٹری مبلغ 7500 روپے ميں خريدنا پڑی کيونکہ جو بيٹری 2008ء ميں خريد کی تھی وہ مر گئی تھی ۔ جب درجہ حرارت 40 سے 45 درجے سيلسيئس [Celcius] ہو اور بجلی غائب تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہيں ۔ اور اس حال ميں جب ملتان ہو جہاں درجہ حرارت 50 درجے سيلسيئس تک پہنچ جاتا ہے تو اس بارے ميں قدير احمد جنجوعہ صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہيں ۔ کراچی کا درجہ حرارت کبھی 33 درجے سيلسيئس سے اُوپر نہيں گيا ۔ لاہور ميں پچھلے کچھ دنوں سے ميرے سونے کے کمرہ ميں جس کی کسی ديوار يا چھت پر دھوپ نہيں پڑتی درجہ حرارت دن رات کا اکثر حصہ 32 سے 33.5 درجے ہوتا ہے

بجلی کے بارے ميں 17 اپريل 2010ء کو اسلام آباد ميں ايک اجلاس بُلايا گيا ۔ شائد ” پنجاب کھا گيا ” کے شور شرابے کے زيرِ اثر صرف پنجاب کے وزيرِ اعلٰی کو بلايا گيا تھا ۔ وزير اعظم يوسف رضا گيلانی صاحب ۔ وزير پانی و بجلی اُس وقت حقا بقا رہ گئے جب وزير اعلٰی پنجاب محمد شہباز شريف نے کہا “جو صوبہ بجلی کے سلسلہ ميں واپڈا کے واجبات باقاعدگی سے ادا کرتا ہے وہاں پر لوڈ شيڈنگ زيادہ کی جا رہی ہے اور جن صوبوں کے ذمہ واپڈا کے اربوں روپے واجب الادا ہيں وہاں بجلی کی لوڈ شيڈنگ کم کی جا رہی ہے ۔ آخر ايسا کيوں ہے ؟ ہونا تو اس کا اُلٹ چاہيئے”۔ [آجکل بجلی کی ترسيل لاہور ميں قائم واپڈا يا پيپکو کی بجائے اسلام آباد ميں قائم سينٹرل کنٹرول اتھارٹی کنٹرول کر رہی ہے]

وزير اعظم صاحب نے واپڈا کے اعلٰی عہديدار سے دريافت کيا تو معلوم ہوا کہ نہ پنجاب کے کسی سرکاری محکمہ کے ذمہ واپڈا کا ايک پيسہ واجب الادا ہے اور نہ پنجاب کے نجی اداروں کے ذمہ کوئی بِل واجب الادا ہے جبکہ باقی تينوں صوبوں کے سرکاری محکموں کے ذمہ اربوں روپے کے بِل واجب الادا ہيں ۔ اس پر وزير اعظم صاحب نے پير 19 اپريل کو اجلاس جاری رکھنے اور باقی تين صوبوں کے وزراء اعلٰی کو اجلاس ميں حاضر ہونے کا حُکم ديا ۔ اب ديکھتے ہيں نتيجہ کيا نکلتا ہے