Yearly Archives: 2010

ہم کيا ہيں ؟

ملک و قوم کبھی تباہ کُن زلزلے کا شکار ہيں تو کبھی سيلاب کا ۔ دہشتگردی کہيں خود کُش حملہ کے نام سے ۔ کہيں ٹارگٹ کِلنگ کی صورت ميں اور کہيں برسرِ عام ڈکيتی بن کر مُلک اور عوام کا گوشت نوچ رہی ہے

جن کو ووٹ دے کر قوم نے اپنا نمائندہ بنايا وہ حُکمران بن کر عوام سے وصول کئے گئے ٹيکسوں کے بل بوتے پر عياشيوں ميں مشغول ہيں

خيبر پختونخواہ ميں سيلاب بڑے علاقے کو بہا کر لے گيا اور وہاں کے وزير اعلٰی کو پانچ دن تباہ شدہ علاقے کی خبر لينے ک فرصت نہ ملی

آزاد جموں کشمير کے دارالحکومت مظفرآباد ميں زلزلے کے 5 سال بعد بھی بہت سے لوگ چھپر نما عارضی مکانوں ميں رہ رہے تھے سيلاب کا ريلا وہ بھی بہا کر لے گيا اور ساتھ 53 انسان بھی ۔ وفاقی حکومت ابھی تک اس خوشی ميں مدہوش پڑی ہے کہ اس نے اپنی مرضی کا حاکم وہاں بٹھا ديا ہے

خیبر پختونخواہ ۔ بلوچستان اور آزاد جموں کشمير کے بعد پنجاب بھی تباہی سے دو چار ہو گيا اور وزيِر اعظم کے شہر ملتان مں بھی پانی داخل ہو گيا مگر وزير اعظم صاحب کو اليکشن مہم سے فرصت نہ ملی ۔ چاروں طرف سے آوازے اُٹھنے لگے تو امدادی فنڈ کے سلسلہ ميں نيشنل بنک ميں اکاؤنٹ کھولنے کا اعلان ہوا مگر يہ نہ بتايا کہ اس ميں فنڈ آئے گا کہاں سے ؟

کراچی ميں ايک رُکن صوبائی اسمبلی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوا ۔ اس کے بعد جو طوفان اُٹھا اس نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 37 اور اور زخميوں کی تعداد 100 پر پہنچا دی ۔ يہی نہيں اس طوفان کی گھن گرج سے حيدرآباد اور سکھر بھی محفوظ نہ رہے ۔ جنگل اور جنگل کے قانون کی مثاليں دی جاتی ہيں مگر کراچی تو ترقی يافتہ شہر ہے جہاں خواندگی کا معيار بہت اونچا ہے

کراچی کی ہمدردی ميں وزير اعلٰی نے تحقيقات کا حکم دے کر اپنا فرض پورا کر ليا اور وفاقی وزير داخلہ نے سارا ملبہ سپاہِ صحابہ کے سر ڈال کر غُسلِ صحت کر ليا

صدرِ پاکستان ملک اور عوام کو ڈوبتا اور مرتا چھوڑ کر اپنے بيٹے بلاول کی ليڈری کا اعلان کرنے براستہ فرانس لندن کے سفر پر روانہ ہو گئے

ہمارے معاشرے کا يہ حال ہے کہ کسی کو مُلا ايک آنکھ نہيں بھاتا تو کوئی دين اسلام کو موجودہ دور ميں ناقابلِ استمال قرار دينے ميں زمين آسمان کے قلابے ملا رہا ہے اور کوئی صوبائی تعصب پھيلانا فرضِ اوليں سمجھتا ہے

جو کام قوموں کے کرنے کے ہيں اُس کيلئے شايد کسی خلائی مخلوق کو لانا پڑے گا

ميں سوچتا ہوں “ہم کيا ہيں ؟”۔

آہ جاتی ہے فلک پر کا مصنف

ميں نے دعا لکھی
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

محمد اسد صاحب نے دريافت کيا کہ ” اس خوبصورت نظم کا لکھنے والا کون ہے؟” بات يہ تھی کہ نظم ميں نے زبانی لکھی تھی کيونکہ بچپن سے مجھے ياد ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے بزرگ کچھ شہيد ہوئے کچھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ۔ ميں ۔ مجھ سے بڑی دو بہنيں اور تين ہمارے رشتہ دار بچے اپنے بزرگوں سے عليحدہ ہو گئے تھے اور پيچھے رہ گئے تھے ۔ ہم دسمبر 1947ء کے آخر ميں پاکستان پہنچے ۔ سيالکوٹ ميں کچھ ماہ قيام کے بعد راولپنڈی ميں قيام کيا ۔ جہاں مجھے اسلاميہ مڈل سکول ۔ سرکولر روڈ ميں داخل کرا ديا گيا ۔ يہ اب اسلاميہ ہائی سکول ہے ۔ اس سکول ميں ہم سب طُلباء صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل يہ دعا پڑھا کرتے تھے ۔ ميں نے يہ دعا سال بھر پڑھی پھر مسلم ہائی سکول چلا گيا

محمد اسد صاحب کی فرمائش نے مجھے شرمندہ کيا کہ جو دعا مجھے 60 سال بعد بھی ياد ہے اس کے مصنف کا نام معلوم نہيں ۔ ميں جب کسی قسم کی علمی پريشانی ميں مبتلا ہوتا ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری مدد فرماتا ہے اور ميرے ذہن کو تيز کر ديتا ہے ۔ گھنٹہ بھر ميرا ذہن چلتا رہا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی خلل واقع نہ ہوا اور ميں مُسلم قوم کے اس خادم تک پہنچ گيا

يہ دعا آغا محمد شاہ حشر المعروف آغا حشر کاشميری صاحب نے لکھی تھی ۔ آغا حشر کاشميری صاحب يکم اپريل 1879ء کو بنارس ۔ ہندوستان ميں پيدا ہوئے ليکن رہنے والے جموں کشمير کے تھے ۔ مشرقی تہذيب کے دلدادہ اور قومی آزادی کا جذبہ رکھتے تھے ۔ يہ دعائيہ نظم اُنہوں نے پہلی بار لاہور ميں انجمن حمائتِ اسلام کے جلسہ ميں پڑھی تھی

کوئی صاحب يا صاحبہ زيادہ جانتے ہوں تو مطلع فرمائيں ۔ مشکور ہوں گا

بَوجھل دِل بَرَستی آنکھوں کے ساتھ

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

اے دعا وہاں عرض کر عرشِ الٰہی تھام کے
اے خدا اب پھير دے رُخ گردشِ ايام کے

ڈھونڈتے ہيں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہں زخمِ دِل فرياد مرہم کے لئے

اے مددگارِ غريباں ۔ اے پناہِ بے کساں
اے نصيرِ عاجزاں ۔ اے مايہءِ بے مائيگاں

رحم کر تو نہ اپنے آئينِ کرم کو بھُول جا
ہم تُجھے بھُولے ہيں ليکن تُو نہ ہم کو بھُول جا

خلق کے راندے ہوئے دنيا کے ٹھُکرائے ہوئے
آئے ہيں آج دَر پہ تيرے ہاتھ پھيلائے ہوئے

خوار ہيں بدکار ہيں ڈُوبے ہوئے ذلّت ميں ہيں
کچھ بھی ہے ليکن تيرے محبوب کی اُمت ميں ہيں

حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہيں
طعنہ ديں گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہيں

ترقی يافتہ زمانہ

ايک جوان جو بارہ چودہ سال بعد ايک ماہ کی چھٹی پر پاکستان آيا تھا اپنے ايک بزرگ سے يوں ہمکلام ہوا

“ميرا دل چاہتا ہے کہ ميں آپ کے پاس بيٹھوں اور آپ کی اچھی اچھی باتيں سنوں مگر ميرے پاس ٹائم نہيں ہے”

اتنا کہہ کر وہ چلا گيا

کاش ٹائم شاپنگ مالز پر ارزاں قيمت پر دستياب ہوتا

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ

جو کھیل پرويز مشرف کی حکومت نا جانے کس مقصد کے لئے کھیل گئی پاکستان کے صرف ارباب اختیار کو اس کا ذاتی فائدہ اور بھارت کو سیاسی فائدہ ہوا ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرويز مشرف حکومت نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی جس جگہ کانٹے دار تاریں بچھائی جاسکتی تھیں وہاں کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔ سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور روزانہ دس بارہ افراد شہید کئے جاتے رہے ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جاتی رہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا گيا ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ۔ بگلیہار ڈیم جس پر کام رُکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بڑی تیزی سے مکمل کيا گيا اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی جو شايد اب تک مکمل ہو گئے ہوں

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان اور انسانیت کا علمبردار کہنے والے جموں کشمیر کے ان ستم رسیدہ لوگوں کو دہشت گرد کہتے ہیں ۔ ان نام نہاد روشن خیال اور امن پسند لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر ان کے بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے يا کچھ سالوں بعد قبر ملے جس پر کتبہ لگا ہو کہ يہ پاکستانی دہشت گرد تھا ۔ اگر ان کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی ۔ بیٹی یا بہو کی آبروریزی کی جائے اگر ان کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو وہ کتنے زیادہ روشن خیال اور کتنے زیادہ امن پسند ہو جائیں گے ؟

بھارتی ردِ عمل اور حقیقت

کمال یہ ہے کہ پاکستان کی دوستی کی دعوت کے جواب میں بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گلگت اور بلتستان پر بھی اپنی ملکیت کا دعوی کر دیا تھا جبکہ گلگت اور بلتستان کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے اور نہ یہاں سے کوئی راستہ بھارت کو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج کے زبردستی جموں میں داخل ہونے سے بہت پہلے گلگت اور بلتستان میں اپنی آزادی اور پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کی تفصیل بعد میں آئے گی

پاکستان کو بنجر کرنے کا منصوبہ

مقبوضہ جموں کشمیر میں متذکّرہ بالا ڈیمز مکمل ہو جانے کے بعد کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر سکتا ہےاور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک سکتا ہے جس کا کچھ نمونہ ميری تحرير کے 5 سال بعد سامنے آ چکا ہے ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ اللہ نہ کرے کہ ايسا ہو ۔

قحط اور سیلاب

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا مقبوضہ جموں کشمیر میں 7 ڈیم بنانے کا منصوبہ ہے جن میں سے بھارت دریائے جہلم اور چناب پر 3 ڈیم 2005ء تک مکمل کر چکا تھا ۔ 2 دریاؤں پر 7 ڈیم بنانے کے 2 مقاصد ہیں ۔ اول یہ کہ دریاؤں کا سارا پانی نہروں کے ذریعہ بھارتی پنجاب اور دوسرے علاقوں تک لیجایا جائے اور پاکستان کو بوقت ضرورت پانی نہ دے کر قحط کا شکار بنا دیا جائے ۔ دوم جب برف پگلے اور بارشیں زیادہ ہوں تو اس وقت سارا پانی جہلم اور چناب میں چھوڑ دیا جائے تاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے ۔ ماضی ميں بھارت یہ حرکت دو بار کر چکا ہے ۔ بھارت کا اعلان کہ ڈیم بجلی کی پیداوار کے لئے بنائے جا رہے ہیں سفید جھوٹ اور دھوکا ہے ۔ کیونکہ جموں کشمیر پہاڑی علاقہ ہے ہر جگہ دریاؤں کے راستہ میں بجلی گھر بنائے جا سکتے ہیں اور بڑے ڈیم بنانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں

قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرويز مشرف کی حکومت نے منگلا ڈیم کو 10 میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا جس پر موجودہ حکومت بھی عمل پيرا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی توقع نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اُونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ ضائع کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی اور نہ اس کا جواز کسی کے پاس ہے

ایک ضمنی بات يہ ہے کہ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اونچائی سے 10 میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962ء میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی محافظت اور پانی کی مماثل مقدار کی کم توقع کے مدنظر اونچائی 10 میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں 2004ء سے 2006ء تک اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو عقل کی بات سمجھ ميں نہيں آتی

پرويز مشرف حکومت کا فارمولا

پہلے یہ جاننا ضرور ی ہے کہ ہمارے مُلک کا آئین کیا کہتا ہے ۔ آئین کی شق 257 کہتی ہے

Article 257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir
When the people of State Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.

ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ امریکی دفتر خارجہ ڈاکٹر سٹیفن ڈی کراسز اور آفیسر ڈاکٹر ڈینیل مارکسی 2005ء کی دوسری سہ ماہی ميں اسلام آباد کے دورہ پر آئےتھے ۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرّف ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز ۔ حریت کانفرنس کے سربراہ عباس انصاری اور آزاد کشمیر اور پاکستان شاخ کے کنوینر سیّد یوسف نسیم وغیرہ سے ملاقاتیں کيں ۔ با خبر ذرائع کے مطابق امریکی حکام یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر اور سرحدیں نرم کرنے وغیرہ کے منصوبہ می‍‍ں دلچسپی رکھتے تھے ۔ میر واعظ عمر فاروق کو پاکستان کے دورہ کے درمیان حریت کانفرنس کا سربراہ بنا دیا گیا اور انہوں نے سری نگر پہنچتے ہی یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر فارمولا کی بات کی تھی ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ جموں کشمیر کو 7 ریاستوں میں تقسیم کر کے ان کی یونین بنانے کا جو فارمولا امریکہ کے دورہ سے واپس آ کر جنرل پرویز مشرف نے پیش کیا تھا وہ دراصل امریکی حکومت کی خواہش و تجویز تھی جبکہ تقسیم ہند کے فارمولا کے مطابق ریاست کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ ریاست کی مجموعی آبادی کی بنیاد پر ہونا تھا ۔ اس لئے امریکہ کی ایماء پر پرویز مشرف کا پیش کردہ 7 ریاستوں والا فارمولا ديگر وجوہات کے علاوہ بنیادی طور پر بھی غلط تھا ۔ مزید یہ کہ اس فارمولا کے نتیجہ میں جموں پورے کا پورا بھارت کو چلا جاتا اور دریاؤں کا کنٹرول بھارت کو حاصل ہوتا۔

آج اور کل

جو دن گذر گيا سو گذر گيا ۔ وہ تو واپس نہیں آ سکتا ۔
آنے والا دن آئے گا يا نہيں ؟ کسے کيا معلوم ۔
اور آئے گا تو کيا ميں اُسے ديکھنے کيلئے موجود ہوں گا ؟
اور اگر موجود ہوا تو اس قابل ہوں گا کہ کچھ کر سکوں ؟
کوئی نہيں بتا سکتا ۔

پھر يہ بھی تو ہے کہ ہر غُنچہ پھُول نہيں بنتا
اور نہ ہر کلی غُنچہ بنتی ہے

اگر کچھ کرنا ہے تو آج ہی کرنا ہے ۔
کل کی انتظار ميں بيٹھنا عقلمندی نہيں ہے

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہيں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہيں

کسی نے کيا خوب کہا ہے

جوانی ہی ميں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اُٹھتے ہيں جو جانا دور ہوتا ہے

آہ

اِنا للہِ و اِنا اِليہ راجعون

کل صبح ساڑھے نو [پاکستان کے ساڑھے دس] بجے يونہی ٹی وی ڈان نيوز لگايا تو سُرخ پٹی پر لکھا تھا اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتالوں ميں ايمرجنسی نافذ کر دی گئی ۔ دل دھک سے رہ گيا اور اس ميں سے التجائی آواز نکلی يا اللہ خیر ۔ اس کے بعد جو کچھ ديکھنے ميں آيا وہ آہوں اور آنسوؤں کا ايک سيلاب تھا ۔ سارا دن ٹی وی کے سامنے مبہوت بنا بيٹھا رہا ۔ بار بار کليجہ منہ کو آتا رہا اور آنکھيں آنسو برساتی رہيں ۔ چشم زدن ميں 152 افراد جن ميں 22 عورتيں 8 بچے جن ميں 2 شيرخوار تھے اس فانی دنيا کو چھوڑ گئے ۔ کسی کا بيٹا بيٹی کسی کا بھائی بہن کسی کا ماں باپ بچھڑ گيا ۔ ان ميں سے ہم کسی کو نہيں جانتے مگر يوں محسوس ہو رہا تھا کہ سب ہی اپنے ہيں ۔ ہاں 23 جولائی کو ايئر بليو کی پرواز سے دبئی آتے ہوئے جہاز ميں اعلان کرنے والی ايئر ہوسٹس ام حبيبہ تھيں جو کل کے حادثہ ميں چل بسيں

جس علاقہ ميں کل حادثہ پيش آيا اسی علاقہ ميں 48 سال قبل پاکستان ہوائی فوج کا ايک مال بردار طيارہ حادثہ کا شکار ہوا تھا جس ميں ميرا ايک دوست پرويز جہانگير اور اس کا ساتھی ہلاک ہوئے تھے ۔ ہوا يوں تھا کہ اُن کا طيارہ چکلالہ سے فضا ميں بلند ہوا تو اچانک طوفان آيا ۔ جب طيارہ اسی علاقہ ميں مارگلہ کی پہاڑيوں کے قريب پہنچا تو طوفانی ہوا نے بائيں جانب سے اُسے دھکيل کر داہنی جانب دُور اور نيچے کی طرف پھينکا ۔ طيارے کا داہنا پر پہاڑی کی چوٹی سے ٹکرا کر الگ ہو گيا پھر طيارہ ہوا ميں لٹو کی طرح گھومتا ہوا پہاڑی پر گرا اور اس کے ٹکڑے ميلوں ميں پھيل گئے ۔ حقيقت يہ ہے کہ طيارہ سامنے اور پيچھے کی طرف سے آنے والی تُند و تيز ہواؤں کو برداشت کر ليتا ہے ليکن اگر داہنے يا بائيں سے اچانک طوفانی ہوا طيارے سے ٹکرائے تو طيارے کو ساتھ اُڑا کر لے جاتی ہے اور ساتھ ہی طيارہ بہت نيچے چلا جاتا ہے ۔ ايک دفعہ ميں کراچی سے اسلام آباد جا رہا تھا تو اچانک طيارہ نيچے کی طرف گيا ۔ پائلٹ نے بعد ميں اعلان کيا کہ اللہ نے ہميں بچا ليا ۔ طيارہ بھنور ميں پھنس کر 2000 فٹ نيچے چلا گيا تھا

ميرا ذہن کہتا ہے کہ کل کا حادثہ ٥٨ سال قبل والے حادثہ سے مماثلت رکھتا ہے کيونکہ کل جب طيارہ چکلالہ اترنے لگا تو اسے نمبر 12 پر اترنے کا کہا گيا ۔ پائلٹ نے قبول کرنے کی اطلاع دے کر طيارہ اتارنا شروع کيا تو اسے کہا گيا کہ نمبر 30 پر اُترو ۔ نمبر 30 پر اترنے کيلئے اسے طيارہ کو دُور لے جا کر موڑ کر لانا تھا ۔ عين ممکن ہے طوفانی بارش کی وجہ سے پائلٹ طيارے کو جلد زيادہ اُوپر نہ اُٹھا سکا ہو اور مقررہ 6 ميل کی حد سے آگے نکل گيا ہو اور طيارے کو مڑتے ہوئے طوفانی ہوا نے پہاڑی کی طرف پھينک ديا ہو اور اس طرح طيارہ پہاڑی سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گيا ہو

واللہ اعلم