عام ديکھا گيا ہے کہ جو کام کسی آدمی کے بس ميں نہ ہو تو اُسے کر کے کہتا ہے ” اللہ توّکل کر ديا ہے”
حقيقت يہ ہے کہ اللہ پر توّکل کرنا مسلمان پر واجب ہے
يہاں ميں يہ واضح کر دوں کہ ہند و پاکستان ميں الفاظ “فرض” اور “واجب” کا استعمال غلط العام ہے ۔ آجکل لوگ انگريزی کا زيادہ استعمال کرتے ہيں اسلئے انگريزی کے ذريعہ ہی بتانے کی کوشش کرتا ہوں
“فرض” ہوتا ہے “ڈِيوٹی [Duty]”
واجب ہوتا ہے “کمپلسری [Compulsory]”
ہند و پاکستان کے جو لوگ عرب دنيا ميں يا ايران ميں کچھ عرصہ رہے ہيں اور انہوں نے عربی يا فارسی زبان سيکھنے کی کوشش کی ہے وہ ميری بات کو بآسانی سمجھ جائيں گے
عام کہا جاتا ہے کہ فجر ميں 2 ۔ ظہر ميں 4 ۔ عصر ميں 4 ۔ مغرب ميں 3 اور عشاء ميں 4 فرض ہيں اور عشاء ميں 3 واجب يعنی وتر ہيں
ہميں ڈيوٹی سے چھُوٹ [چھُٹی] ايک دن سے چند ماہ تک کی بلکہ بعض اوقات سال بھر کی چھُٹی مل سکتی ہے مگر جو کام کسی کيلئے کمپلسری قرار ديا گيا ہو اس کی چھُوٹ نہيں مل سکتی
چنانچہ جنہيں فرض کہا جاتا ہے وہ بھی در اصل سب واجب ہيں کيونکہ ان کی چھُوٹ کسی حال ميں بھی نہيں ہے
کتنی بدقسمتی ہے کہ آج کا مسلمان باپ ۔ بھائی ۔ بيٹے يا دولت پر تو توّکل کر ليتا ہے مگر اللہ پر صرف بحالتِ سخت مجبوری
ميں نے 5 ستمبر 2010ء کو ذاتی مشاہدہ کی بناء پر لکھا تھا
“توكل پرندوں سے سيكھيئے كہ جب وہ شام كو اپنے گھونسلوں يا بسيروں کو واپس جاتے ہيں توان كی چونچ ميں اگلے دن كے لئے كوئی دانہ نہيں ہوتا”
چند دن قبل ميری بيٹی پوچھنے لگی ” ابو ۔ يہ ذرا سمجھا ديجئے کيا لکھا ہے ؟”
وہ بابا بُلھے شاہ کے پنجابی کلام کا يہ قطع تھا
ويکھ بَنديا اسماناں تے اُڈدے پنچھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ديکھ اے انسان آسمانوں پر اُڑتے پرندے]
ويکھ تے سہی کی کردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ديکھو تو سہی کيا کرتے ہيں]
نہ اور کردے رِزق ذخيرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[نہ وہ کريں رزق کا ذخيرہ]
نہ او بھُکھے مردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [نہ وہ بھُوکے مرتے ہيں]
کدی کسے نے پنکھ پکھيرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[کبھی کسی نے پرندوں کو]
بھُکھے مردے ويکھے نے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[بھُوکے مرتے ديکھا ہے ؟]
بندہ ای کردا رزق ذخيرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [انسان ہی کرتے ہيں رزق ذخيرہ]
بندے ای بھُکھے مردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[انسان ہی بھُکے مرتے ہيں]