23 جمعرات 23 دسمبر 2010ء کے اخبار ميں وفاقی شرعی عدالت کا فيصلہ اور اس کے خلاف روشن خيال عورتوں کی ہاہاکار شائع ہوئی ہے ۔ حقوقِ نسواں آرديننس 2006ء شائع ہونے کے بعد ميں نے 23 جنوری کو ايک تقابلی جائزہ شائع کيا تھا جو وقت کی ضرورت کے مطابق دوبارہ شائع کر رہا ہوں
خواتين کے حقوق محفوظ ہو گئے ؟ ؟ ؟ بتاريخ 23 جنوری 2007ء
ميں شعيب صفدر صاحب کا مشکور ہوں کہ نئے قانون تحفظِ حقوق خواتين کے ويب پر شائع ہوتے ہی اس کا لِنک مجھے بھيج ديا ۔ اس کا مطالعہ سکون سے کرنا ضروری تھا ۔ ميں کچھ ذاتی کاموں ميں مصروف تھا ۔
زنا زبردستی سے کيا جائے يا باہمی رضامندی سے قرآن شريف اور سنّتِ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہُ عَلَيہِ وَ سَلَّم کے مطابق زانی اور زانيہ کی سزا ميں کوئی فرق نہيں ہے اور سزاسو کوڑے يا رجم ہے البتہ زنا بالجبر کی صورت ميں عورت کو باعزت بری کر ديا جاتا ہے اور زانی مرد کو سزا دی جاتی ہے
تحفظِ حقوق خواتين کا قانون منظور کرانے کا مقصد خواتين کے حقوق محفوظ کرنا ہے يا بے راہ روی کو محفوظ کرنا ۔ يہ نئے قانون کی مندرجہ ذيل صرف تين دفعات پڑھنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے ۔
376 ۔ زنا بالجبر کے لئے سزا
[1] جو کوئی زنا بالجبر کا ارتکاب کرتا ہے اسے سزائے موت یا کسی ایک قسم کی سزائے قید جو کم سے کم پانچ سال یا زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک ہو سکتی ہے دی جائے گی اور جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہو گا
496 ۔ ب ۔ باہمی رضا مندی سے زنا کی سزا
[2] اگر عورت اور مرد باہمی رضامندی سے زنا کے مرتکب ہوں تو انہيں قيد کی سزا دی جا سکتی ہے جس کی معياد پانچ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی کيا جا سکتا ہے جو دس ہزار روپے سے زيادہ نہ ہو
203 ۔ الف ۔ زنا کی صورت ميں نالش
[1] کوئی عدالت زناء کے جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس کے تحت کسی جرم کی سماعت نہیں کرے گی ماسوائے اس نالش کے جو کسی اختیار سماعت رکھنے والی مجاز عدالت میں دائر کی جائے
[2] کسی نالش جرم کا اختیار سماعت رکھنے والی عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر مستغیث اور زنا کے فعل کے کم از کم چار چشم دید بالغ گواہوں کی حلف پر جرم کے لئے ضروری جانچ پڑتال کرے گا۔
[3] مستغیث اور عینی گواہوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے مواد کو تحریر تک محدود کر دیا جائے گا اور اس پر مستغیث اور عینی گواہوں کے علاوہ عدالت کے افسر صدارت کنندہ کے بھی دستخط ہوں گے۔
[4] اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی یہ رائے ہو کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت ملزم کی اصالتاَ حاضری کے لئے سمن جاری کرے گا۔
[5] کسی عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روبرو نالش دائر کی گئی ہو یا جس کو یہ منتقل کی گئی ہو اگر وہ مستغیث اور چار یا زائد عینی گواہوں کے حلفیہ بیانات کے بعد یہ فیصلہ دے کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے، نالش کو خارج کر سکے گا اور ایسی صورت میں وہ اس کی وجوہات قلمبند کرے گا۔
ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کو مجاز جج قرار ديا گيا ہے
تبصرہ
زنا بالجبر ثابت ہو جانے پر بھی موت کی سزا دينا ضروری نہيں رہا بلکہ پانچ سال قيد کی سزا دے کر بھی فارغ کيا جا سکتا ہے ۔ سو کوڑے يا رجم
کی سزا ختم کر دی گئی ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم کی صريح خلاف ورزی ہے
اگر باہمی رضامندی سے زنا کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو زيادہ سے زيادہ پانچ سال قيد کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ اس ميں بھی سو کوڑے يا رجم کی سزا ختم کر دی گئی ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم کی صريح خلاف ورزی ہے
چار تزکيۂِ نفس رکھنے والے چشم ديد گواہ کہاں سے آئيں گے جن پر مجاز جج کو بھی اعتبار ہو ؟
کيا متذکّرہ تخفيف شدہ سزا بھی صرف کھُلے عام زنا کرنے والوں کيلئے ہے ؟ قانون کی شِقوں سے تو ايسا ہی ظاہر ہوتا ہے
ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کو مجاز جج قرار ديا گيا ہے ۔ نہ پوليس اور نہ کسی اور جج کو زنا کے سلسلہ ميں کسی قسم کی کاروائی کا کوئی اختيار ہو گا اور نہ کوئی جج از خود نوٹس لے کر کاروائی کر نے کا مجاز ہو گا ۔ چنانچہ کسی دُور دراز علاقہ ميں بھی کوئی زنا کا مرتکب ہو گا تو مستغيث اور چار چشم ديد گواہوں کو ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر جا کر ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کے سامنے پيش ہو کر اپنے بيانات قلمبند کرانا ہوں گے جبکہ ہمارے ملک ميں تو اپنے ہی شہر ميں مقدمہ درج کروانا مشکل ہوتا ہے
اس قانون سے تو يہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ زنا کے مرتکب مرد اور عورت کو صرف اسی وقت سزا ملے گی جب کوئی بااثر شخص اُنہيں سزا دينا چاہے گا اور وہ سچے يا جھوٹے گواہ مہيّا کر دے گا ۔ جہاں تک بااثر لوگوں کا تعلق ہے وہ اب بغير خطرے کے پہلے سے زيادہ رنگ رلياں منائيں گے
کہاں گئے مغرب زدہ اين جی اوز اور دوسرے روشن خيالوں کے جديد طريقوں کے وہ بلند بانگ دعوے جن کو قرآن شريف پر ترجيح دی جا رہی تھی ؟ حقيقت يہ ہے کہ اُن کی عياشی پر قدغن تھی سو اب وہ مکمل طور پر آزاد ہو گئے ہيں ۔ جس دن يہ قانون منظور ہوا لاہور کے بازارِ حُسن ميں جشن منايا گيا تھا اور مٹھائی بانٹی گئی تھی ۔ چند مادر پدر آزاد اين جی اوز نے بھی مٹھائی بانٹی اور ايک دوسرے کو مبارکباد دی ۔ يہ ہے وہ تاريک اور گھناؤنا غار جس ميں ہمارے روشن خيال حکمران ہماری قوم کو دھکيل رہے ہيں
اور اب پیشِ خدمت ہے تعلیم یافتہ معروف اساتذہ کا تیار کردہ تقابلی جائزہ مابين احکامِ الٰہی و حقوقِ نسواں آرڈيننس 2006ء جو ميں 25 مارچ 2007ء کو شائع کر چکا ہوں
Pingback: Tweets that mention پھر شور اُٹھا ہے چرخِ کُہن سے: 23 جمعرات 23 دسمبر 2010ء کے اخبار ميں وفاقی شرعی عدالت کا فيصلہ اور اس کے خلاف رو... -- Topsy.com
پچھلے پندرہ دنوں میں پنڈی میں ایک ڈھائ سالہ یعنی دو سال دس ماہ کی بچی کو زنا بالجبر کا نشانہ بنانے کے بعد کوڑے کے ڈھیر پہ قتل کر کے پھینک دیا گیا۔ قاتل نامعلوم اور لا پتہ۔ افتخار اجمل اور شعیب صفدر کو شاید اسکی خبر نہیں۔
کراچی میں دو خواتین کو سر راہ اغواء کر لیا گیا۔ ان میں سے ایک لڑکی کو ساری رات اجتماعی جنسی کی زیادتی کا شکار بنا کر علی الصبح سڑک پہ پھینک دیا گیا۔ شعیب صفدر اس سلسلے میں افتخار اجمل کو کوئ لنک نہیں بھیجتے۔ افتخار اجمل اخبار بھی نہیں پڑھتے ۔ قاتل نا معلوم، لا پتہ۔
کراچی سے ہی بارہ سالہ فائزہ اغواء، ایک مہینے سے لا پتہ۔ ممکن ہے کہ اسکی لاش بھی زنا بالجبر کے بعد کسی نالے میں سڑ رہی ہو۔ لیکن شعیب صفدر اسے تلاش کرنے میں کوئ دلچسپی نہیں۔ اس لئے وہ اسکا کوئ لنک جناب افتخار اجمل کو نہیں بھیجتے۔
گوجرانوالہ میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی، مگر نہ شعیب صفدر اور نہ افتخار اجمل ٹی وی دیکھتے ہیں ٹی وی دیکھنا گناہ ہے۔ یہ چند وہ رپورٹس ہیں جو میڈیا کے ذریعے ملیں اور نہ معلوم کتنی خبریں اپنی جگہ ختم ہو گئیں دفن ہو گئیں۔ سن دو ہزار آٹھ میں ایک رپورٹ کے مطابق تقریبآ ایک ہزار کواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرائم ہوئے۔ یہ صرف رجسٹر کئے جانے والے کیسز ہیں۔ ایسے جرائم کی بڑی تعداد تو رجسٹر ہی نہیں ہو پاتی۔
پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں آج تک کبھی افتخآر اجمل یا شعیب صفدر کو اس سلسلے میں اپنے ہم جنس انسانوں کو نصیحت کرتے نہیں دیکھا گیا کہ خواتین بھی انسان ہیں اور معاشرے میں مرد اور عورتوں کو باہمی معاشرت کیسے اختیار کرنی چاہئیے کہ ماشرہ مستحکم ہو اور ہر دو فریقین تحفظ اور عزت نفس کے ساتھ رہ سکیں۔
ہمم، مگر آپ لوگوں کی معاشرت تو یہ ہوگی کہ ایک طرف خواتین کے فارم بن جائیں اور دوسری طرف مردوں کے جنگل۔
روشن خیال لکھنے سے جو ذہنی اور ابدی سکون ملتا ہے اسکا جواب نہیں۔ مگر انصاف اور عدل سے جو سکون ملتا ہے وہ نفس کو نفس مطمئنہ کی حالت میں لے جاتا ہے پھر لوگوں سے لنک حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ خدا ایسے لنک دل میں بنا دیتا ہے کہ مخلوق کی مصیبت خود بہ خود پتہ چلتی ہے۔ آزمائیش شرط ہے۔
عنيقہ ناذ صاحبہ
کاش آپ اپنی منطق اور دل کا غبار پيش کرنے کی بجائے جو ميں نے موازنہ لکھا ہے اسے دماغ استعمال کر کے پڑھ ليتيں
جو قانون پرويز مشرف نے 2006ء ميں بنايا اور اب تک نافذ العمل ہے اس کے ہوتے ہوئے کتنی بے بس عورتوں کی مدد کی گئی اور کتنی عورتوں يا لڑکيوں کو اس ظُلم سے بچايا گيا ؟ آپ دوسرے کو بغير وجہ کے الزام لگانا چھوڑ کر حق اور سچ کا ساتھ دينا شروع کريں تو شايد معاشرے ميں کچھ بہتری آ جائے
آپ کو جو بات آج تک سمجھ نہيں آئی بلکہ آپ نے نہ سمجھنے کی کوشس کی ہے اور نہ اُميد ہے کہ آپ اپنے بغز کو چھوڑ کر اسے سمجھنے کی کوشش کريں گی وہ يہ ہے کہ ميں نے نہ صرف يہ کہ کبھی عورت يا لڑکی پر ظلم کی حمائت نہيں کی بلکہ لڑکی اور عورتوں کے حق مين قانونی جنگ بھی لڑتا رہا ہوں ۔
آپ کی طرح گھر بيٹھے شور مچانے اور سچ بات کرنے والوں پر کيچيڑ اُچھالنے سے عورتوں کی کونسی بہتری ہو رہی ہے ؟
جتنے بھی لوگ اس فیصلے کی مخالفت میں شور مچا رہے ہیں، ان میں سے ایک بھی اس کے تکنیکی پہلووں پر بات نہیں کر رہا/رہی کہ اس سے عورتوں کے کون سے حقوق ضبط ہو گئے۔ بس شور مچانے کا شوق ہی پورا کیا جا رہا ہے۔
اور میں ان لوگوں کے لیے روشن خیال کا لفظ استعمال کرنے پر سخت احتجاج کرتا ہوں۔ X-(
ہمارے یہاں عجب رواج ہے۔ حکومت سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کردے تو کہا جاتا ہے کہ دو ستونوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہورہا ہے۔ لیکن جب یہی معاملہ ‘شرعی’ نوعیت کا ہو تو کیسا ستون اور کیسا احترام عدلیہ جناب؟
ہمارے یہاں مغربی آزادی اظہار کا جو نظریہ امپورٹ کیا گیا، اس نے غالباً شرعی عدالتوں اور ان کے فیصلوں پر تنقید کی کھلی اجازت فراہم کردی ہے۔ ورنہ تو عدالتوں اور جج صاحبان کے بارے میں کچھ کہنا یا ان کے فیصلوں کو ماننے سے انکار توہین کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔آمین
خدائی احکامات پہ عمل درآمد نہ کرنا بجائے خود بہت بڑا گناہ ہے۔ مگر خدائی احکامات کو رد کرنا، خدا کے احکامات کا ٹھٹھا اڑانا، انکے جائز عمل درامد میں رکاوٹ ڈالنا، لوگوں کو خدائی احکامات کے خلاف ورغلانا۔ وغیرہ۔خدائی احکامات پہ عمل درآمد نہ کرنے سے بڑھ کر بڑا گناہ ہے۔ اسلئیے خدا س ڈر کر رہنا چاہئیے کہ مبادا خدا کسی ایسی بات پہ نہ پکڑ لے جو ہم جزبات، جوش، یا انا کی منہ زوری میں کر جاتے ہیں۔
حد وہی ہے اور صرف وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نافذ فرمائی۔ ہم نہ اللہ سے بڑھ کر مخلوق کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس سے بڑھ کر رحم کرنے والے یا منصف ہوسکتے ہیں۔ یہ بات مان لینا ہی ایمان ہے۔ حد میں ردوبدل صرف سزاؤں میں ترمیم ہی نہیںبلکہ سزاؤں میں اضافہ بھی میرے تئیں اسی زمرے میںآتا ہے۔ جیسے نامحرم کے ساتھ خلوت کی شرع میں کوئی سزا نہیں مگر انکل کے بیان کئے گئے موازنہ میں اس کی سزا دکھائی گئی ہے۔ یہ بھی میرے تئیں حد سے تجاوز کرنے کی مثال ہے۔ باقی جو اعتراضات ہیں کہ جی چار باکردار گواہ کہاںسے آئیں وہ معذرت کے ساتھ عذر لنگ ہی ہے۔ اگر ایسے گواہ میسر نہیں تو حد کا نفاذ نہیں ہوسکتا کہ شرط اول ہی میسر نہیں اور جس معاشرہ میں چار خوف خدا رکھنے والے بھی موجود نہ ہوں گواہی دینے کے لئے وہاں اللہ کسی پر ظلم کیوں کرے کہ بے کرداروں کی گواہی پر ہی سزا دے ڈالے؟
محمد اسد ۔ جاويد گوندل ور خرم صاحبان
آپ سب نے بالکل درست تشريح کی ہے ۔ ميرے تئيں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مقرر کردہ حدود و قيود ک نظر انداز کرنا گناہِ عظيم ہے
اسلام و علیکم
حقوقِ نسواں آرديننس 2006ء شائع ہونے کے بعد سے آپ کے لکھے ایک کالم http://iftikharajmal.wordpress.com/2007/02/03/%D8%B3%D9%85%D8%AC%DA%BE%D8%A7-%D8%AA%D9%88-%D8%B1%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D8%B3%D9%85%D8%AC%DA%BE%D8%A7/ میں رکشہ والے کی طرح پوری قوم کے شہوت پرست افراد کچھ مزید ترامیم کا انتظار کر رہے تھے مگر مشرف کے اتنے ہی دن باقی تھے حکومت کے لحاظ مزید ترامیم اور ایسی ترامیم کے حامی افراد یا یون کہیں شیطانی تولہ اب سرگرم ہو گیا
اور تنیجہ سب کے سامنے موجود ہے
محترمہ عنیقہ جی میں کم از کم یہ نہیں سمجھ سکا ہوں کہ آپ کا مقصد کیا تھا اس جواب کا جو آپ نے تحریر کیا یہاں نا ہی عدالت ہے نا ہی کوئی منصف ہے یہاں تو اللہ کے قوانین توڑنے والوں کی بات ہو رہی ہو اور یہ عدالت کی ہی جانب سے ہے ہم اس کے حمایتی ہیں نا ہی کوئی سچا مسلمان ہو سکتا ہے سوائے ایسے مولانا کے جو جو کچھ مفادات کی خاطر بس اپوزیشن سے پوزیشن مین آنا چاہتے ہین
آپ اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کر کے ایسے ناسوروں کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہین اس بل اور قانون کے جو منطور ہو ہی چکا ہے تقریبا
کاش حکمران “حکمرانی” کی اہمیت سمجھ سکیں اور عدالت “عدل” کا مفہوم جان سکیں
اللہ ہم سب کو ایمان کی سچی دولت نصیب فرمائے
السلام علیکم::
یہ صرف ایک تضاد تھا۔۔۔۔۔۔۔جس کو بیچاری اسلامی شرعی اعدالت نے اپنے تئیں درست کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے بے شمار تضادات دستور پاکستان اور تعزیرات ہند نامی قانون کی کالی کتاب میں موجود ہیں جن کی طرف کوئی بات کرنا تو کجا انگلی اٹھانے کی بھی جرات نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثلا
سود کا معاملہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب شرعی عدالت کے فیصلہ پر عمل درآمد بھی ان شاءاللہ اگلی صدی سے پہلے نہیں کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے!!!
والسلام