يہ تحرير ميں نے فروری 2010ء کے شروع ميں لکھی تھی مگر ميری غلطی کی وجہ سے کہيں اِدھر اُدھر ہو گئی اور شائع ہونے سے رہ گئی ۔ اس کی اہميت آج بھی اتنی ہے جتنی دس ماہ قبل تھی اسلئے شائع کر رہا ہوں
عدالتِ عظمٰی میں کچھ اعلٰی سرکاری ملازمین کی درخواست زیرِ سماعت تھی کہ اُنہیں نظرانداز کرتے ہوئے کچھ دوسرے حضرات کو فیڈرل سیکریٹری بنا دیا گیا ہے جو اُن سے جُونیئر تھے ۔ 2 جنوری 2010ء کو حکومت کی طرف سے جواب داخل کیا گیا جس میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ اعلٰی عہدوں پر تقرری کا کُلی اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے اور وزیرِ اعظم ہی نے ان لوگوں کا تقرر کیا ہے اسلئے اس کے خلاف چارہ جوئی نہیں ہو سکتی ۔ اس پر کچھ پڑھے لکھے حضرات [بلاگر نہیں] نے تعجب کا اظہار کیا تو صورتِ حال کو واضح کرنے کا خیال آیا
ہمارے مُلک میں زیادہ تر قوانین تو جیسا سب جانتے ہیں وہی چل رہے ہیں جو ہندوستان پر قابض انگریزوں نے بنائے تھے ۔ 1955ء میں سرکاری ملازمت کے قوانین بنائے گئے تھے جن کی چار اہم خصوصیات تھیں
1 ۔ پرِیویلج لِیو [privilege] کا مطلب اختیاری چھٹی نہیں بلکہ استحقاقی رُخصت ہے جس کا ملازم کو حق ہے اور سوائے غیرمعمولی حالات کے ملازم کو یہ چھٹی دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا
2 ۔ کسی عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُس کا اعلٰی عہدیدار لکھے گا تاکہ ذاتی چپقلش اور عناد کے اثر کو روکا جائے
3 ۔ سالانہ رپورٹ لکھتے ہوئے درجن بھر خصوصیات کی تشخیص لکھنا ہوتی تھی ۔ اگر کوئی کمی لکھی جائے تو اس کی وجوہات لکھنا ہوتی تھیں جن کی پڑتال کی جا سکتی تھی ۔ مرتبات صرف تین ہوتے تھے اوسط سے کم ۔ اوسط اور اوسط سے زیادہ ۔ اوسط عہدیدار کو بھی قابل اور ترقی کا اہل سمجھا جاتا تھا ۔ اِن قوانین کے دیباچہ میں لکھا تھا کہ عام آدمی اوسط ہوتے ہیں ۔ اوسط سے اُوپر اور نیچے صرف چند ہوتے ہیں ۔ اگر صلاحیت کے خانے میں ناقابل لکھ دیا جائے تو اُس کی مضبوط وجوہات لکھنا ہوتی تھیں
4 ۔ تمام عہدیداروں کی ترقی اس کی سینیاریٹی اور قابلیت [Seniority cum fitness] کی بنا پر ہوتی
ایک عوامی دور آیا جس میں سارا نظام بدلا گیا اور 1973ء میں انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نام پر نئے قوانین بنائے گئے جن کے تحت مندرجہ بالا قوانین کی شکل کچھ یوں ہو گئی
1 ۔ چُھٹی صرف بڑے افسر کی مہربانی یا زور دار کا حق بن گیا ۔ استحقاق والی بات ختم ہو گئی
2 ۔ عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُسی کو لکھنے کا اختیار دے دیا گیا
3 ۔ سالانہ رپورٹ میں خصوصیات تو درجن سے زیادہ کر دی گئیں لیکن ترقی کیلئے صرف آخری خانہ جس میں ترقی کی اہلیت لکھنا ہوتی ہے حتمی قرار دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری رپورٹ میں عہدیدار کا کام بہت عمدہ لکھ کر قابلیت کے خانہ میں ناقابل لکھ دیا جائے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مرتبات تین سے بڑھا کر چھ کر دیئے گئے ۔ اوسط سے کم ۔ اوسط ۔ اوسط سے زیادہ ۔ اچھا ۔ بہت اچھا اور بے مثال ۔ چنانچہ جن کی سفارش جتنی بڑی ہوتی یا جو اپنے صاحب کی ذاتی خدمت سب سے زیادہ کرتا ہے اُسے اتنا اچھا لکھ دیا جاتا ہے ۔ باقیوں کو اوسط جس کا عِلم متعلقہ عہدیدار کو اُس وقت ہوتا ہے جب اس کی ترقی رُک جاتی ہے ۔ جس عہدیدار کو تین بار اوسط لکھ دیا جائے پھر چاہے وہ بہتر رپورٹیں لیتا رہے اُس کی ترقی اگلے دس سال میں ممکن نہیں ہوتی
4 ۔ فیڈرل سیکریٹری اور فیڈرل ایڈیشنل سیکریٹری اور ان کے متوازی عہدوں کو مکمل طور پر سربراہِ حکومت کے اختیار میں دے دیا گیا کہ جسے چاہے ان عہدوں پر بٹھا دے ۔ باقی عہدیداروں کی ترقی کیلئے بھی سینیاریٹی کو ثانوی حیثیت دے دی گئی
5 ۔ ایک بغلی داخلہ [lateral entry] کا قانون بھی بنایا جس کے تحت جسے حکمران چاہیں سڑک سے اُٹھا کر کسی بھی سرکاری عہدے پر بٹھا دیں
انتظامی اصلاحات 1973ء کی بدولت نااہليت اور اقرباء پروری نے روز افزوں ترقی کی اور اب يہ حال ہے کہ اکثر ذہین محنتی لوگ سرکاری ملازمت کرنا نہیں چاہتے
شائد ابھی بھی اچھے خاصے لوگ سرکاری ملازمت میں جانا چاہتے ہیں۔۔۔اس کا ثبوت سی ایس ایس و دیگر سرکاری ٹیسٹ میں شرکاء ہے۔۔۔۔۔ویسے آپ بہتربتانے کی پوزیشن میں ہیں!
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » نظامِ حکومت -- Topsy.com