تعلیم یافتہ لوگوں نے تو انشقاق یا انفجار [Fission] کا نام سنا ہو گا اور کچھ ایٹمی ہتھیار بنانے میں اس عمل کی اہمیت سے واقف ہوں گے لیکن عوام اس کی تاریخ یا اہمیت سے زیادہ واقف نہیں
1932ء میں انگریز سائنسدان جیمز چیڈوِک [James Chadwick] نے ایٹم کے قلب [Nucleus] میں ایک نیوٹرل یعنی غیر برقی چارج والا ذرّہ [Neutron] دریافت کیا تھا یہ پہلے سے وہاں مثبت چارج والے ذرّہ پروٹون [Proton] کے علاوہ تھا۔اس ذرّہ کی موجودگی کی پیشگوئی دوسرے انگریز سائنسدان رَدرَفورڈ [Rutherford] نے 1920ء میں کر دی تھی لیکن اسی رَدرَفورڈ نے ایٹمی قوت کے سول مقاصد کے استعمال کے نظریہ کو احمقانہ خیال قرار دیا تھا
اس دریافت کے بعد یورپ و امریکہ میں سائنسدانوں نے مختلف اقسام کے ایٹموں پر نیوٹران مارنے اور اس کے اثرات کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا
اٹلی کے مشہور نوبل انعام یافتہ فرمی[Fermi]نے یورینیم کے ایٹم پر جب نیوٹران مارے تو معلوم ہوا کہ کئی دوسرے اقسام کے ایٹم [دھات] بن جاتے ہیں اس نے غلطی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یورینیم خود سے زیادہ بھاری دھات میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن اسی وقت برلن میں اْوٹوہان [Otto Hahn]جس کو 1944ء میں نوبل انعام ملا تھا اور اس کے ساتھی شٹراسمن [Strassmann]نے نہایت جامع اور صحیح کیمیائی طریقے سے معلوم کیا کہ بیریم [Barium] دھات بن گئی تھی اور فرانس میں ایرینے جولیو کیوری [Irene Joliot-Curie] نے ایسے ہی تجربہ میں لنتھالم [Lanthalum] دھات دریافت کی
اسی دوران اْوٹوہان کی پرانی طویل رفیقہءِ کار لیزے مائٹنر [Lize Meitner] اور اس کا بھانجا اْوٹو فِرِش [Otto Frisch] ہٹلر کی یہود نسل کشی پالیسی سے ڈر کرسوئیڈن اور ڈنمارک بھاگ گئے تھے
اْوٹوہان نے اپنے تجربوں کے نتائج سے لیزے مائٹنر کو آگاہ کیا ۔ چند دن بعد ہی کرسمس کی تعطیل میں اْوٹوفِرِش اپنی خالہ کے پاس گیا تو دونوں نے ان نتائج پر غور شروع کر دیا اور فوراً اس اہم نتیجے پر پہنچے کہ نیوٹران کے ٹکراؤ سے یورینیم کا قلب تقریباً دو برابر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا [جو مختلف دھاتیں تھیں] اور ان کا مجموعی وزن یورینیم کے قلب کے اصل وزن سے 20 فیصد کم تھا دونوں نے نہایت اہم نتیجہ اخذ کیا کہ یہ غائب شدہ وزن قوت یعنی انرجی میں تبدیل ہو گیا تھا جو بہت زیادہ تھی ۔ لیزے مائٹنر نے یہ بھی فوراً حساب لگا کر معلوم کر لیا کہ یہ تقریباً دو سو ملین الیکٹران وولٹ [Mev 200]کے برابر ہوتی ہے
بس یوں سمجھ لیں کہ یہیں سے ایٹمی دور شروع ہوا تھا۔ اْوٹوہان اور شٹراسمن کے تجربے اور نتائج سے واقف ہو کر ایک اور مشہور جرمن خاتون سائنسدان ایڈانوڈک[Ida Noddak] نے فوراً یہ تشریح پیش کی کہ ہان اور شٹراسمن نے غالباً یورینیم کے قلب کو نیوٹران سے دولخت کر دیا ہے یہ 1934ء کی بات ہے
جرمنوں کی بدقسمتی اور مغربی ممالک کی خوش قسمتی تھی کہ ہان اور شٹراسمن اور دوسرے جرمنوں نے اس صحیح تشخیص پر دھیان نہیں دیا اگر وہ اس کو سمجھ کر کام شروع کرتے تو دوسری جنگ عظیم سے پہلے یا اس کے شروع ہونے تک جرمن سائنسدان ہائزین برگ [Heisinberg] اور اس کے ساتھی ایٹم بم بنا لیتے
یہاں یہ بات زيرِنظر رہے کہ اْوٹو فِرِش نے ایٹم کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کو انشقاق [Fission] کا نام دیا تھا انہوں نے یہ تشبیہ بیالوجی میں ایک سیل [Cell] کے دو حصوں میں بٹ جانے سے مستعار لی تھی۔ اوٹو فِرِش نے امریکہ میں ایٹم بم کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کیا اور بعد میں انگلینڈ میں پروفیسر کے فرائض انجام دیئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی اوٹو فِرِش اور ایک اور جرمن مہاجر سائنسدان پروفیسر روڈولف پائیرلس[Rudolf Peierls] نے حساب لگا کر سب سے پہلے ایٹم بم کی تیاری کے امکان پر ایک رپورٹ حکومت برطانیہ کو کوڈ نام [Maud Report] سے پیش کی تھی جس کے بعد ہی حکومت نے سنجیدگی سے اس اہم کام پر کام شروع کر دیا تھا۔
اوٹوفِرِش 1933ء میں بذریعہ ٹرین برلن سے ماسکو جا رہے تھے جہاں انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی ۔ اسی ڈبہ میں ہومی بھا بھا جو بعد میں انڈین اٹامک کمیشن کے چیئرمین بنے، بھی بیٹھے تھے ۔ راستے میں جان پہچان ہو گئی اور انہوں نے ماسکو میں ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا۔ ایک روز بھا بھا نے اوٹو فِرِش کو بتلایا کہ وہ واپس لندن جا کر ہندوستان روانہ ہو جائے گا جہاں وہ ٹاٹا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا سربراہ بنے گا، ساتھ ہی اس نے پوچھا کہ کیا فِرِش
اس کو گائگر کاؤنٹر [Geiger Counter] استعمال کرنا سکھا سکتا ہے ؟ فِرِش کے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ کیمبرج یونیورسٹی سے فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری والا
ایک چھوٹا سا آلہ استعمال کرنا نہیں جانتا ۔ یہ آلہ تابکار شعاعوں [Radioactivity] یا ذرات کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے اور کوٹ کی جیب میں رکھا جا سکتا ہے۔
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » ایٹم بم بنانے کا بنیادی کام کس نے کیا ؟ -- Topsy.com
معلوماتی اور دلچسپ تحریر ہے۔
ان ماہرین کے فارمولوں سے اب انسانیت کو تباہ کیا جاتا ہے۔
فرحان دانش صاحب
ان ماہرين نہيں ۔ ان ميں سے صرف ايک يہودی نے امريکا کيلئے کام کر کے پہلا ايٹم بم بنايا تھا مگر جيسا کہ ميرے پيش کردہ خلاصہ سے واضح ہے ابتدائی کام اس نے نہيں کيا تھا ۔ آپ نے غور سے نہيں پڑھا ۔ جرمنی ميں پيش رفت نہ کرنے کی وجہ اس کے سول استعمال کا يقين نہ ہونا تھا
اور ہاں ۔ اگر جرمنی ايٹم بم بنا ليتا تو ہو سکتا ہے کہ امريکا ايٹم بم گرانے کی ہمت نہ کرتا