اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دینا
مگر ہاں وہ سرمایہءِ دین و دنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ایک ایک لمحہ ہے اَنمول جس کا
نہیں کرتے خسّت اُڑانے میں اس کے۔ ۔ ۔ بہت ہم سخی ہیں لُٹانے میں اس کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم۔ ۔ ۔ تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم۔ ۔ یونہی گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیں کوئی گویا خبردار ہم میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں
گڈریئے کا وہ حُکم بردار کُتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بھیڑوں کی ہر دَم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتّے کا کھڑکا۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھِپرا
گر انصاف کیجئے تو ہے ہم سے بہتر۔ ۔ کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر
بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ نوبت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب ۔ ۔ ۔ لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر ۔ ۔ کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے ۔ مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی