سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
جہاں مختلف ہوں روایات باہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں
کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں ۔ ۔ ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
تعصب کہ ہے دشمنِ نوعِ انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھرے گھر کئے سینکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا ۔ ۔ ۔ ۔ ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے ۔ ۔ چھپا جس کے پردے میں اک ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی
یہ کس کی لکھی ہوئی ہے جناب؟
احمد عرفان شفقت صاحب
اتنی مشہور ہستی کا آپ مجھ سے پوچھ رہے ہيں ؟ ميں نے جب يہ سلسلہ شروع کيا تھا تو تفصيل لکھی تھی ۔ چلئے ميں اشعار کے نيچے لکھ ديتا ہوں
مصنف نے نہت ہی خوبصورت باتیں کی ہیں۔