پچھلے ماہ معلوم ہوا کہ کس طرح ايک معروف صحافيہ اور سابق وزيرِ اعظم برطانيہ ٹونی بليئر کی خواہرِ نسبتی لورين بوتھ [Lauren Booth] نے اسلام قبول کيا ۔ کچھ عرصہ سے بالخصوص 11 ستمبر 2001ء کے بعد امريکا اور يورپ ميں بالخصوص گوروں ميں اسلام قبول کرنے والوں کں تعداد ميں روز افزوں اضافہ ہونے لگا تھا البتہ يہ عمل انگلستان ميں خاص طور پر ديکھا گيا ۔ سنڈے ٹائمز نے اپنی 22 فروری 2004ء کی اشاعت ميں ايک مضمون ” Islamic Britain lures top people ” کے عنوان سے شائع کيا تھا جس ميں تحرير تھا کہ:
“پہلے مصدقہ مطالعہ سے يہ حقيقت سامنے آئی ہے کہ برطانيہ کے 14000 سے زائد گوروں نے مغربی دنيا کی قدروں سے بيزار ہو کر اسلام قبول کر ليا ہے ان ميں برطانيہ کے چوٹی کے زمينداروں ۔ مشہور ہستيوں اور اعلٰی عہديداروں کی اولاد نے اسلام کے اصولوں پر سختی سے عمل شروع کر ديا ہے”
انگلستان ميں صرف ايک يوسف اسلام [سابق موسيقار ] ايک مشہور شخص تھا جس نے اسلام قبول کيا تھا ۔ 11 ستمبر کے بعد افغانستان سے اطلاعات بھيجتے ہوئے صحافيہ Yvonne Ridley [اب مريم] نے اُسے گرفتار کرنے والے طالبان کی مہمان نوازی اور عزت افزائی سے متاءثر ہو کر اسلام قبول کيا ۔ حيران کُن بات يہ ہے کہYvonne Ridley نے کہا کہ:
“مسلمان عورتوں کی يکجہتی کے سامنے مغربی دنيا کا نَظَرِيَہ حَقُوقِ نِسواں ھيچ [غيراہم] ہو کر رہ جاتا ہے”
اُس نے مزيد لکھا کہ “مجھے پوچھا گيا کہ اسلام کس طرح مردوں کو اپنی بيويوں کی پٹائی کی اجازت ديتا ہے ؟ مجھے افسوس ہے کہ وہ حقيقت سے وقف نہيں ہيں ۔ ہاں ميں جانتی ہوں کہ اسلام کے نقاد قرآنی آيات يا حديث کے بے ترتيب حوالے ديں گے جو کہ عام طور پر سياق و سباق سے ہٹے ہوئے ہوتے ہيں ۔ اگر ايک آدمی اپنی بيوی کی طرف اُنگلی بھی اُتھا تو اُسے اُس کے جسم پر نشان چھوڑنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ۔ ۔ قرآن کے بيان کا ايک اور رُخ بھی ہے ‘اپنی بيوی کو بيوقوفوں کی طرح مت پِيٹو’ ”
“آيئے کچھ دلچسپ اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہيں ۔ نيشنل ڈوميسٹک وائلينس ہاٹ لائن [National Domestic Violence Hotline] کے مطابق اوسط 12 ماہ ميں 40 لاکھ امريکی عورتيں اپنے خاوندوں کے بڑے حملے [serious assault] کا نشانہ بنتی ہيں”
‘اوسطاً روزانہ 3 سے زائد امريکی عورتيں اپنے خاوندوں يا دوست لڑکوں [boyfriends] کے ہاتھوں قتل ہوتی ہيں ۔ جس کا مطلب ہے کہ 11 ستمبر 2001ء سے اب [پہلا ہفتہ ستمبر 2006ء] تک 5500 اس طرح قتل کی جا چکی ہيں
“Now you tell me what is more liberating. Being judged on the length of your skirt and the size of your cosmetically enhanced breasts, or being judged on your character, mind and intelligence? Glossy magazines tell us as women that unless we are tall, slim and beautiful we will be unloved and unwanted. The pressure on teenage magazine readers to have a boyfriend is almost obscene”
“آپ مجھے بتايئے کہ آزادی کيا ہے ؟ آپ کے سکرٹ کی لمبائی اور مصنوعی طريقہ سے بڑھائی ہوئی چھاتيوں سے ناپا جانا يا کہ آپ کے کردار ۔ عقل اور ذہانت سے اندازہ لگانا ؟ چمکدار رسالے ہميں بتاتے ہيں کہ بطور عورت اگر ہمارا قد اُونچا ۔ جسم پھريرا اور خوبصورت نہيں تو نہ کوئی ہم سے پيار کرے گا نہ ہماری چاہت ۔ نوجوانوں کے رسالوں ميں کسی نہ کسی لڑکے کو دوست بنانے کا دباؤ فحش ہونے کی حد تک ہوتا ہے”
[مجھے يقين ہے کہ وہ پاکستانی روشن خيالوں سے نہيں ملی ہو گی :lol:]
لَورين بُوتھ [Lauren Booth] کاميلا لی لينڈ [Camilla Leyland] کرسٹيانے بيکر [Kritiane Backer] لِنّے علی [Linne Ali] اور ديگر کے حاليہ حيران کُن تبديلی مذہب نے لوگوں کو يہ پوچھنے پر مجبور کر ديا کہ “برطانوی جديد کام کرنے والی عورتوں نے کيوں اسلام قبول کرنا شروع کر ديا ہے ؟”
دی ڈيلی ميل [The Daily Mail] نے اس سوال کا جواب دينے کی کوشش کی
کاميلا لی لينڈ کہتی ہيں
“مغربی دنيا ميں ہميں سطحی وجوہات کی بناء پر مجبور کيا جاتا ہے جيسا کہ ہميں کون سا لباس پہننا چاہيئے ۔ اسلام ميں ہر کوئی اعلٰی منزلِ مقصود رکھتا ہے ۔ ہر عمل اللہ کی خوشنودی کيلئے ہوتا ہے ۔ يہ ايک بالکل مختلف معيارِ زندگی ہے”
کرسٹيانے بيکر اپنی کتاب [From MTV to Mecca] کے مختصر بيان ميں لکھا ” ميں نے اپنے آپ کو گُم کر ديا تھا مگر اب ميں نے اپنے آپ کو پا ليا ہے ۔ شو بز کی چمک نے مجھے کچھ نہ ديا ۔ ميں اپنی اس پيشہ ورانہ زندگی کو کسی قيمت پر جاری نہيں رکھنا چاہتی تھی ۔ ميری واضح سمت تبديل ہو چکی تھی ۔ ميں اپنی زندگی کی ہر ہيئت کو ايک کام مختلف معياری نظام ميں مدغم کر دينا چاہتی تھی
لِنّے علی کہتی ہيں “ميں اتنی شکر گذار ہوں کہ مجھے بچ نکلنے کا راستہ مل گيا ۔ اب يہ ميری اصليت ہے ۔ ميں دن ميں پانچ بار عبادت کر کے خوش ہوں اور ميں مسجد ميں جا کے تعليم بھی حاصل کر رہی ہوں ميں اب ايک شکستہ گروہ اور اس کی توقعات کا حصہ نہيں ہوں”۔
يہ انکشافات ميرے جيسے عام پاکستانی مسلمانوں کيلئے شايد حيرت انگيز ہوں کيونکہ ساری دنيا بالخصوص پاکستان کے بيشتر مسلمانوں نے شرمندگی کا رويّہ اپنا رکھا ہے ۔ الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ ذرائع ابلاغ کا قائم کيا ہوا تُند و تيز اسلام دُشمن ميدانِ کار زار اور دہشتگردی ميں ضائع ہونے والی معصوم جانوں نے ہميں دفاعی صورت ميں کھڑا کر ديا ہے ۔ بنيادی اسلام کے خلاف يلغار اتنی تيز ہے کہ جہاد کا نام لينا بھی آدمی کو مصائب ميں مبتلا کر سکتا ہے جو ملامت اور تنقيد سے لے کر غائب ہونے تک ہو سکتے ہيں
ترجمہ اقتباس از تحرير ڈاکٹر جواد احمد خان
مکمل تحرير يہاں پڑھی جا سکتی ہے
آ پ نے بلکل ٹھیک لکھا ہے 9/11 کے بعد مغر بی د نیا میں ا سلام لا نے و ا لے لو گو ں کی تعدا د میں بے ا نتہا ا ذا فہ ہوا ہے۔ میں نے ا پنے بلا گ میں بھی ذ کر کیا ہے۔ آ نشا ئ اللہ اسلا م پھیلتا ہی جا یئگا۔ مغر بی د ںیا چا ہے کُچھ بھی کر لے۔ پھو ل ا ور کنکر ڈ ا ٹ بلا گ سپاٹ ڈا ت کا م پڑ ھئے۔
ڈا کٹرخضر حیا ت طا ہر
مغربی معاشرے کی عورت جسمانی ذہنی اعصابی طور پر تھکائی جا چکی ھے۔
مشرقی عورت جاہلین کے ہاتھوں ضرور تنگ ھے۔
لیکن جو ہمارے روشن خیال اور حقوق نسواں کے مخصوص لوگو ہیں وہ مشرقی عورت کی بہتری کیلئے کچھ نہیں سوچتے اس مشرقی عورت کی بہتری اس وقت کی مغرب کی عورت کے لائف سٹائل میں ہی سمجھتے ہیں۔
ساتھ میں ہی اپنی تحریروں میں کہتے ہیں کہ صبح پانچ سے رات نو بجے تک عورت کو کام کرنا پڑتا ھے
جی مغرب کی عورت بچے جنتی بھی ھے پالتی بھی ھے اور کماتی بھی ھے۔
یہ مغرب میں حقوق نسواں ہیں۔
پانچ سے نو بجے تک کام کرنے کا رونا کیوں؟
خصماں نوں کھاو تے سانوں کی
السلام و علیکم جناب اجمل افتخار صاحب!
اردو بلاگنگ کا یہ بڑا فائدہ ہے کہ آپکی بات زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتی ہے. توہین رسالت کا نیا معاملہ ضرور آپکے علم میں ہوگا .میری درخواست ہے کہ آپ توہین رسالت کے اشو پر بھی ضرور لکھیں. یہ ایک بڑا سنگین مسئله ہے. اگر ملعونہ آسیہ کو معاف کر دیا گیا تو خاکم بدہن توہین رسالت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک عام مشق بن جائے گی. ہر عیسائی ،ہندو، قادیانی اور روشن خیال بہتر زندگی کے لئے اس کو حربے کی صورت میں استعمال کرنا شروع کر دے گا. یہ قوم اجتماعی طور پر الله سبحانه تعاله کی پکڑ میں ہے کہیں ایسا نو ہو کہ آخرت میں ہم بھی خاموشی کی وجہ سے مجرم قرار دے دیے جائیں. ضروری ہے کہ ہم اس واقعہ پر کم از کم اپنے غم و غصّے کا اور موجودہ حکمرانوں سے اپنی برات کا اظہار کر لیں . الله سبحانه تعاله ہم پر اپنا رحم فرمائے.
اچھی بات ہے کہ ویسٹ کے لوگ اسلام قبول کریں اور پھر ہم لوگوں کو اپنے جیسے مسلمان بنانے کیلئے کروسیڈ کی بجائے جہاد کیا کریں ۔
آپ نے ایک اچھے موضوع پر قلم اٹھایا۔
اسلام کا روشن چہرہ کچھ تو لوگوں سے اوجھل ہے اور کچھ متعصب لوگوں نے اسے جان بوجھ کر سامنے نہیںآنے دیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے اسلام کانام لے کر “چہرہ” بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔
اچھا لکھا ہے آپ نے۔ اس میں شک نہیں کہ گورے مسلمان ہو رہے ہیں مگر یورپ اور خاص طور پر امریکہ میں مسلمان ہونے کی رفتار بہت سست ہے۔ ہماری آس پاس والی مساجد میں ایک آدھ امریکی ہی نماز پڑھتے نظر آتا ہے۔ نمازیوں کی اکثریت اسلامی ممالک کے تارکین وطن کی ہی ہوتی ہے۔
ڈ ا کٹر خضر حیا ت طا ہر صاحب
تشريف آوری کا شکريہ
ياسر صاحب
مگر ہماری روشن خيال عورتوں کو کون سمجھائے ؟
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب
اِن شاء اللہ ميں کوشش کروں گا ۔ ميرے لئے دعا کيجئے ۔ سر پر اتنی خطرناک چوٹ لگی تھی کہ 59 دن گذرنے کے باوجود ذہن پر دباؤ نہيں دے سکتا تکليف بڑھ جاتی ہے
ج ج س صاحب
شازل صاحب
اس کا سبب ہمارے ملک ميں درست طريقہ تعليم کا فقدان ہے
افضل صاحب
اعداد و شمار بتاتے ہيں کہ اسلام اس وقت دنيا ميں سب سے زيادہ تيزی سے پھيلنے والا مذہب ہے ۔ آپ کے علاقہ کا ميں کچھ کہہ نہيں سکتا ليکن زيادہ تر گورے ہی مسلمان ہو رہے ہيں