امن کی آشا ۔ يا ۔ قوم کا استحصال ؟

آجکل ايک ٹی وی چينل ايک اشتہار بار بار دکھا رہا ہے جس کا منظر کچھ اس طرح ہے

پاکستان اور بھارت کے نزديک کسی قصبہ يا گاؤں ميں اپنے لوگ خيموں کے باہر کھڑے ايک بوڑھا پاکستانی فصا ميں اپنے ہاتھ بلند کئے کچھ عجيب سے اشارے کر رہا ہے اور باقی لوگ اُس کی ہلہ شيری کر رہے ہيں ۔ اُن سب کا رُخ بھارت کی طرف ہے جہاں کچھ خُوش پوش بھارتی اپنے پکے مکانوں سے باہر دُوربينوں کے ذريعہ ان نادار پاکستانيوں کو ديکھ رہے ہيں ۔ بھارتی اپنے گھروں ميں جا کر آل انڈيا ريڈيو کو ٹيليفوں پر بارتی فلمی گانا لگانے کی فرمائش کرتے ہيں ۔ جونہی گانا بجايا جاتا ہے ۔ پاکستانی اپنے 1950ء کے ماڈل ريڈيو کے گرد ناچنے لگتے ہيں

حقيقت يہ ہے کہ اس اشتہار کا ہر سيکنڈ اصل حالات کے بر عکس ہے ۔ آيئے ذرا حقائق کا اندازہ اُن اعداد و شمار سے لگاتے ہيں جو بين الاقوامی ادارے مہيا کرتے ہيں ۔ خيال رہے کہ يہ ادارے پاکستان دوست نہيں ہيں

1 ۔ پاکستان ميں 22 فی صد لوگوں کی آمدنی 1.20 ڈالر يوميہ سے کم ہے جبکہ بھارت مين 42 فيصد لوگوں کی آمدنی 1.2 ڈالر يوميہ سے کم ہے
2 ۔ پاکستان ميں بے گھر لوگوں کی تعداد ايک فيصد بھی نہيں جبکہ بھارت ميں 17 فيصد لوگ بے گھر ہيں ۔ خيال رہے کہ يہ اشتہار سيلابوں سے بہت پہلے کا چل رہا ہے

3 ۔ پاکستانيوں کو بھارت کے ريڈيو سے گانے سننے کی کيا ضرورت ہے جبکہ پاکستان ميں پچھلی صدی کے وسط سے ساری دنيا کی نشريات سُنی جا سکتی ہيں جن پر بھارتی فلمی گانے بھی سنائے جاتے ہيں ۔ پھر 2001ء سے ايف ايم چينل چل رہے ہيں جن پر بھاتی گانے عام سنائے جاتے ہيں ۔ اس کے بر عکس بھارت ميں ايف ايم کے لائيسنس 2007ء ميں جاری کئے گئے ہيں باقی 21 چينل سخت حکومتی نگرانی ميں چل رہے ہيں

4 ۔ 1950ء کا ماڈل ريڈيو سيٹ پاکستان ميں ايک عجوبہ ہی ہو سکتا ہے ۔ يہاں تو 80 فيصد آبادی ٹی ديکھ رہی ہے جبکہ بھارت کے 60 فيصد لوگوں کو يہ سہولت ميسّر ہے

5 ۔ کمال تو يہ ہے کہ بھارتی گاؤں ميں تو ٹيليفون کی سہولت اور پاکستانيوں کو ناچ کر اپنا پيغام دينا پڑے ؟ جبکہ پاکستان ميں 65 فيصد لوگوں کے پاس ٹيليفون کی سہولت موجود ہے اور بھارت ميں يہ سہولت صرف 50 فی صد لوگوں کو حاصل ہے

پاکستان نمبری کہاں سے بنتا ہے ؟ عوامی ادراک يا احساس سے ۔ خود گناہی کا يہ ادراک يا احساس کون اُجا گر کرتا ہے ہماے ٹی وی چينل اور اخبارات جو ايک واقعہ برائی کا پکڑتے ہيں اور اُسے دہرانے کا معمول بنا ليتے ہيں ۔ اس دوران بيسيوں اچھے واقعات نظروں سے اوجھل رہتے ہيں ۔ اور پاکستان دنيا کے بدترين مُلکوں ميں پاکستانيوں ہی کے غلط ادراک يا احساس کی وجہ سے پہنچ جاتا ہے

ميں يہ ٹائپ کر رہا ہوں اور جيو ٹی وی ” امن کی آشا” دکھا رہا ہے پاکستان اور بھارت کے عوام کو قريب لانے کيلئے ؟ کيا پرويز مشرف نے کرکٹ ۔ بسنت اور ناچ کے ذريعہ يہی کوشش نہيں کی تھی ؟ جس پر بھارتی رسالے نے لاہور کو “Bich in heat” کہا تھا ۔ اور وہ رسالہ جس کا مقام ممبئی ہے جہاں کم از کم 100000 جنسی ورکر [Sex workers] ہيں

کبھی اپ نے پڑھا ہے ؟ ايک دن ايسا نہيں ہوتا کہ اس کے پہلے صفحہ پر پاکستان کے خلاف کوئی انتہائی بودی خبر يا مضمون نہ ہو ۔ ان حالات ميں بھارت سے دوستی ؟

جو نيا نمبر جيو ٹی وی بتاتا ہے ميں نے اس پر ٹيليفون کيا مگر ميرا پيغام نشر نہيں کيا جبکہ وہ سب کا پيغام نشر کرنے کا دعوٰی کرتے ہيں

يہ چند اقتباسات عشر يعقوب صاحب کے مضمون ميں سے ہيں ۔ پورا مضمون پڑھے بغير مکمل صورتِ حال واضح نہيں ہو گی
پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھيئے

This entry was posted in ذمہ دارياں, روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

20 thoughts on “امن کی آشا ۔ يا ۔ قوم کا استحصال ؟

  1. خرم

    انکل جی بھارت کی آبادی بھی تو ہم سے کئی گُنا ہے۔ آخر یہ تو کھوجنا پڑے گا کہ تمام دُنیا ان کے گُن کیوں‌گاتی ہے اور ہمارا اس بھری دُنیا میں کوئی بھی ہمنوا نہیں۔ آخر کیوں؟ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا جو حشر کیا ہے اس کے بعد بھارت سے برابری یا مقابلہ کی آرزو بھی اب خواب ہوتی جائے گی شائد۔ اُن کا نام آتا ہے تو موسیقی، آئی ٹی، ثقافت وغیرہ وغیرہ کی باتیں کی جاتی ہیں اور ہمار نام آتا ہے تو دھماکے، سیلاب، زلزلے، بغاوت، کرپشن وغیرہ شہ سُرخی میں‌ہوتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کبھی تو یہ بھی کھوجنا ہوگا۔ یہ قوم ابھی تک اقبال کے “شکوہ” کی تعبیر ہی بنی ہوئی ہے، “جواب شکوہ” پر غور کی فرصت ہی نہیں۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خُرم صاحب
    اس تحرير ميں برابری نہيں کی گئی بلکہ ايک وضاحت کی گئی ہے کہ ہميں اللہ نے اُن کی نسبت زيادہ نعمتيں عطا کی ہيں ۔ ايک تو ہم غور نہيں کرتے دوسرے ناشکرے ہيں ۔ صرف اپنی برائيوں بيان کر کے سمجھتے ہيں کہ ہم بری الذمہ ہو گئے ۔ شايد آپ نے انگريزی کی تحرير پوری نہيں پڑی ۔
    يہ تحرير لکھنے والے ايک جہاں ديدہ شخص ہيں جو پاکستان اور بھارت ميں رہ چکے ہيں اور ڈيڑھ سال سے بنگلہ ديش ميں ہيں ۔ موبيلنک کی منيجمنٹ ميں اعلٰی عہديدار ہيں ۔ آجکل بنگلہ لنک ميں ہيں

  3. ابن سعید

    چاچو میں نہ تو ہندوستان کی وکالت کرنے آیا ہوں اور نہ ہی پاکستان کی کسی طور بھی طور سے تحقیر کرنے۔ پاکستان یقیناً انتہائی زرخیز قطعہ ارض کا نام ہے اور درست نظم ہو تو وہاں وسائل کی بہتات ہے۔ جب کہ ہندوستان رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے خاصہ بڑا اور بیشمار تہذیبوں کا مجموعہ ہے۔ اتنے بڑے ملک کا نظم یقیناً مشکل امر ہے اس پر طرہ یہ کہ دنوں ہی ملکوں میں افسوسناک حد تک رشوت خوری عام ہے۔

    جب ہم کوئی بات اسٹیٹکس کے ذریعہ اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تھوڑے سے غیر جانبدار ہو جاتے ہیں۔جو اعداد و شمار آپ نے یا صاحب مضمون نے فیصد میں دیئے ہیں اگر وہی اعداد و شمار کسی ہندوستانی جانبدار قلم سے تحریر کیئے گئے ہوتے تو مجھے گمان ہے کہ بجائے فیصد کے ثابت اعداد میں ہوتے۔ اس کے برعکس خدا نخواستہ کسی دہشتگردانہ حملے میں کسی کم آبادی والے ملک کی نصف آبادی ماری جائے اور ٹھیک اتنی ہی تعداد کسی بڑی آبادی کے ملک میں ویسے ہی حملوں کا شکار ہو تو غالب گمان ہے کہ چھوٹا ملک بجائے فیصد کے بجائے ثابت نمبروں میں جبکہ بڑا ملک فیصد میں وہی نتائج بتانے کو فوقیت دیگا۔ خیر یہ ایک تمثیل تھی اللہ نہ کرے کہ کبھی بھی کسی ملک کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ نیز یہ کہ مجھے ان اعداد شمار کی صحت پر سے اعتبار تب اٹھ گیا جب اس میں ایک ایسی بات دیکھی جو کسی طور درست نہیں۔ اس میں ہندوستان میں ایف ایم چینلز کی لائسینسنگ کی شروعات سن 2007 میں بتائی گئی ہے جبکہ 2002 میں ہم باقاعدہ لکھنؤ میں ایف ایم سنا کرتے تھے اور وہاں اس وقت چار ایف ایم چینلز تھے جن میں سے ایک حکومتی تھا باقی پرائیویٹ۔ نیز اس سے کئی سال قبل جب ہم گاؤں میں ہوتے تھے تب ایف ایم والی ریڈیو کے اینٹینا میں لمبے تار باندھ کر دور دراز کے ایف ایم سگنل گرفت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور موسم درست ہو تو کامیاب رہتے تھے۔ اب باقی اعداد و شمار کی جانچ ہم نہیں کرنے والے کیوں کہ اس سے ہمیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہونچنے والا۔ کسی ملک کو نیچا دکھا کر اپنی برتری جتانا نہ تو مجھے پسند ہے اور نہ ہی میرا مقصد۔

    خیر یہ جانبداری کا قصہ الگ رکھیں اور امن کی آشا کی بات کریں تو اس کو خواہ دونوں چینلز کی نیک نیتی کہیں یا مارکیٹنگ ایجنڈا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور جس کو آپ اشارے بازی کہہ رہے ہیں وہ ایک مشہور پارٹی گیم ہے جسے ڈمبشراڈز کہا جاتا ہے۔ اس میں ایک شخص کسی گونگے کی مانند محض اشاروں کی بنیاد پر کوئی نام، چیز، جگہ یا واقعہ بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ باقی کئی لوگوں کا گروپ اس کے اشاروں پر بول بول کر اپنے اندازے کی صحت پر اس کی رائے لیتے رہتے ہیں جب تک کہ درست نتیجہ نہ حاصل ہو جائے۔ ہم یہ کھیل کالج میں فلموں کے نام، الیکٹرانک سرکٹس اور ڈیوائسیز کے نام وغیرہ کی بنیاد پر اکثر کھلتے رہے ہیں۔ سوچنے بات محض یہ ہے کہ جس جدت سے آپ اس پیش کش کا موازنہ کر رہے ہیں کیا آپ آج سے پچاس سال قبل بنی مووی کو اس لئے مسترد کر دیں گے کہ اس میں بلیک اینڈ وہائٹ مناظر ہیں اور کرداروں نے پورے کپڑے پہن رکھے ہیں جبکہ آج کے ماحول میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میں کہنہ پن لانے کی کوشش اس لئے کی گئی ہے تاکہ دلچسپی بڑھے اور ہم ان پرانے دنوں کو یاد کریں جب دنوں ملکوں کے ما بین کوئی لکیر نہیں تھی۔ خیر یہ تو ناظرین کی مرضی ہے کہ کسی واقعے سے مثبت بات اخذ کریں یا منفی۔ بہتری کے مواقع تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور ہمیں یقیناً اس ایڈورٹیزمینٹ کے ڈائریکٹر کا حقیقی منشاء معلوم نہیں۔

    پاکستان کے متعلق بودی خبروں کا قصہ بھی آپ نے درج کیا یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں جس کو یک طرفہ گردانا جائے۔ اردو اور ہندی فورمز میں جا کر دیکھیں تنگ نظری کے مارے لوگ ایک دوسرے کے ملک پر کیسے کیسے زہر اگلتے نظر آتے ہیں۔ کچھ ٹی وی چینلز اور نیوز پیپرز اپنی دوکان چمکانے کے لئے اپنے شو کیس میں ہر وہ چیز رکھنے کو تیار ہوتے ہیں جو زیادہ بکنے والی ہو۔ ان باتوں سے دونوں میں سے کوئی بھی ملک استثناء نہیں اور یہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔

    جو اسی فیصد پاکستانی آبادی ٹی وی دیکھ رہی ہے اس میں یہ بھی سوچنے کے وابل بات ہے کہ کتنے فیصد ہندوستانی چینلز پر تکیہ کرتے ہیں اور بعد میں انھیں چینلز کی برائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ہندوستانی اور پاکستانی فلموں کے دیکھنے کا رجحان کیا تناسب رکھتا ہے؟ مجھے ان کا اعداد و شمار میسر نہیں اور میں جاننا بھی نہیں چاہتا پر آپ چاہیں تو ضرور ایک نظر ڈال لیں۔ تحقیر یا تکبیر کی نیت سے نہیں محض جذباتی اور جانبدارانہ پریزینٹیشن کے سحر سے نکلنے کی غرض سے۔

    چند اعداد و شمار ہم بھی پیش کیئے دیتے ہیں ضرورت محسوس ہو تو ذرائع کے روابط طلب کر لیجئے گا۔

    رئیل جی پی ڈی:
    پاکستان: 165 بلین ڈالر فی سال
    ہندوستان: 1380 بلین ڈالر فی سال

    جی پی ڈی فی کس:
    پاکستان: 930 ڈالر فی کس فی سال
    ہندوستان: 1080 فی کس فی سال

    جی پی ڈی رئیل گروتھ:
    پاکستان: مثبت 2 فیصد فی سال
    ہندوستان: مثبت 7.44 فیصد فی سال

    انفلیشن کی شرح:
    پاکستان: مثبت 13.37 فیصد فی سال
    ہندوستان: مثبت 7.642 فیصد فی سال

    درمیانی عمر:
    پاکستان: 20.8 سال
    ہندوستان: 25.3 سال

    اوسط عمر:
    پاکستان: 64.5 سال
    ہندوستان: 69.9 سال

    پاکستان میں آبادی کی کثافت ہندوستان کے مقابلے نصف سے کچھ زیادہ ہے جبکہ آبادی بڑھنے کی شرح ہندوستان کے مقابلے ڈیڑھ گنا ہے۔

    ان میں سے زیادہ تر اعداد و شمار 2009 اور یا اطراف کے ہیں۔

    اللہ دونوں ملکوں کا حامی و ناصر ہو اور سارے عالم میں امن و امان، دوستی اور خوشحالی قائم ہو۔ آمین۔

  4. ابن سعید

    چاچو عنوان میں ٹائپو سرزد ہو گئی ہے۔ آپ اس کو “استحصال” کر دیں اور میرا یہ تبصرہ حذف کر دیں۔ عموماً سرچ انجن ٹائٹل کو بہت اہمیت دیتے ہیں لہٰذا املا درست ہونا تلاش کو بہتر بناتا ہے۔

  5. محمّد نعمان

    اسسلام و علیکم اجمل صاحب ،

    پاکستان اور بھارت کے بیچ امن ہو یہ تو بہت ضروری ہے ….

    اب امن کی آشا میں کیا غلط کیا صحیح ہو رہا ہے یہ الگ بات ہے …..

    لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ایک حقیقیت ہیں … نہ پاکستان انڈیا کو ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی انڈیا پاکستان کو ….

    وہ کہتے ہیں نہ دنیا میں کئی قسم کے جھوٹ ہوتے ہیں جن میں سے ایک اعدادو شمار ہے ….تو اعداد و شمار کو تو رہنے ہی دیا جاۓ

    امن ہماری بلکہ دونوں کی ضرورت ہے … ورنہ یہ فوجی بجٹ ہماری روٹی بھی کھا جاۓ گا ……

    اب انڈیا سے بات کیسے ہو …کشمیر کا معاملہ کیسے حل ہو اسس پہ بات ہو گی تو حل سامنے آ ہی جاۓ گا … لڑائی کر کے تو ہم کشمیر نہیں لے سکتے …کم از کم آج کل کے عالمی حالات میں تو نہیں …..

  6. الف نظامی

    جب تک ہندوستان کشمیر آزاد نہیں کرتا دوستی نہیں‌ ہوسکتی۔
    ایک طرف ہمارے بھائی خاک و خون میں غلطاں‌ ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم امن کی بھاشا گاتے پھریں؟

    ہم کیا چاہتے؟
    آزادی!!!

  7. الف نظامی

    کشمیری بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں، سید علی گیلانی
    http://www.arynews.tv/urdusite/newsdetail1.asp?nid=48153
    سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں بزرگ کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ حقائق کا ادراک کر تے ہوئے کشمیریوں کو ا ن کا بنیادی حق، حق خود ارادیت دے۔

    کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سید علی گیلانی نے سرینگر میں جاری ہونے والے بیان میں کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چار ماہ سے جاری احتجاجی تحریک سے ثابت ہوگیا کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ کسی صورت نہیں رہنا چاہتے اور وہ بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔انہوں نے حریت رہنماؤں کے خلاف قابض انتظامیہ کی طرف سے پکڑدھکڑ کی کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کے ان حربوں سے تحریک آزادی کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔

    مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے بے پناہ مظالم کے با وجود جدوجہد آزادی کے ساتھ کشمیریوں کے گہرے لگاؤ اور خلوص کو سراہتے ہوئے اس عز م کا اعادہ کیا کہ منزل کے حصول تک کشمیری چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

    میرواعظ عمر فاروق نے سرینگر میں ایک میڈیا انٹرویومیں قابض انتظامیہ کی طرف سے کشمیریوں کے دینی معاملات میں مداخلت اور گھناؤنے ہتھکنڈوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نماز جمعہ اور دیگر دینی اجتماعات پر پابندی دینی معاملات میں مداخت ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر نظربند حریت رہنماؤں اور کارکنوں کی عید الاضحی سے پہلے رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ فوجی طاقت کے بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ اقدام کرے۔

    علی گیلانی کی کال پرمقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال
    http://www.arynews.tv/urdusite/newsdetail.asp?nid=48078
    سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں بزرگ کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کی کال پر جمعرات کوسرینگر اور دیگر شہروں میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق ” کشمیر چھوڑ دو مہم “ کے سلسلے میں کی جانے والی ہڑتال کے موقع پر مقبوضہ علاقے میں دکانیں ، کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے،بنک، عدالتیں بند جبکہ سڑکوں پر ٹریفک معطل رہی۔

    بارہمولہ قصبے میں بھارتی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس سے کم از کم 6افراد زخمی ہوگئے ۔ مظاہرین ” گو انڈیا گو اور ہم کیا چاہتے آزادی “ کے نعرے بلند کرتے رہے ۔دریں اثناء قابض انتظامیہ نے جموں و کشمیر مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری عبدالاحد پرہ سمیت چار افراد کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کر دیا ہے۔ عبدالاحد پرہ کو جموں کی کوٹ بھلوال جبکہ دیگر تین نوجوانوں محمد اسماعیل میر، معراج الدین تیلی اور گلزار احمد خان کو ادھم پور کی سب جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ کوٹ بھلوال جیل میں مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم ،جنرل سیکرٹری غلام نبی شاہین، دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی، اور دیگر کئی حریت رہنما اور کارکن پہلے سے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند ہیں۔پبلک سیفٹی ایکٹ ایسا قانون ہے جس کے تحت قابض انتظامیہ کسی بھی شخص کو کم از کم دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے نظر بند رکھ سکتی ہے۔

  8. ابن سعید

    برادر عزیز الف نظامی، دوستی دشمنی کا قصہ اپنی جگہ لیکن “امن کی آشا” کا مطلب ہوتا ہے “امن کی امید۔” اور نا امیدی کم از کم ہمارا شیوہ نہیں۔ کشمیر کی آزادی پر مجھے کچھ نہیں کہنا اور میں نہیں سمجھتا کہ میں اس کے لئے کسی طور بھی جواب دہ ہوں۔ یہ مسائل حکومتوں کے ہیں اور میں کسی کی پیشوائی نہیں کر رہا۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اس مضمون کے تحت مسئلہ کشمیر کا ذکر تو ٹھیک تھا پر اس کی طویل رپورٹ شامل کر کے موضوع کا رخ بدلنا کسی طور مناسب نہیں لگتا۔

  9. الف نظامی

    برادر ابن سعید: کشمیر کی آزادی سے آپ نے کچھ کہنے سے گریز کیا تو ہماری طرف سے امن کی بھاشا / آشا کو بھی صاف جواب ہے!

    آزادی کشمیر کا تذکرہ تو ہوگا ، ہندوستانیوں کو ناگوار گزرتا ہے تو کیا ہم اس وجہ سے آزادی کا نام لینا چھوڑ دیں !

  10. الف نظامی

    فی الحال ہم صرف کشمیر کی آزادی کی “امید” لگائے بیٹھے ہیں۔ آزادی ملے گی تو دوستی کی آشا بھی کرلی جائے گی۔

  11. ابن سعید

    برادرم میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا اس لئے میرے ہندوستانی ہونے کا حوالہ دے کر کوئی بات مجھ پر نہ تھوپیں۔ مجھے آپ کی دوستی کی “لازمی” شرط سے کوئی تکلیف، ناگواری، اعتراض یا جذباتی لگاؤ نہیں ہے۔ میں پھر زور دوں گا کہ یہاں دوستی کی امن کی امید کی بات کی جا رہی ہے اور دو دشمن کم از کم پر امن تو رہ سکتے ہیں یا پر امن رہنے کی امید تو کر ہی سکتے ہیں۔ وضح رہے کہ “امن کی آشا” صرف ہندوستان کی بھاشا نہیں ہے بلکہ اس میں دونوں ملکوں کی میڈیا شامل ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بے شمار فورم موضوعات، بلاگ مضامین طرفین کی جانب سے موجود ہیں وہاں یہ باتیں رکھیں اور بار بار رکھیں وہاں آپ کے حامی اور مخالف دونوں کی بکثرت مل جائیں گے۔ ووضح رہے کہ میں ان میں سے کسی بھی جانب نہیں ہوں گا۔ میری جانب سے دعائے خیر اور عالمی امن و دوستی کی “آشا۔”

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ابنِ سعيد صاحب
    ميں نہ صاحبِ تحرير کی تصديق يا ترديد کر سکتا ہوں نہ آپ کی ۔ 28 ستمبر کے حادثہ کے ايک ماہ بعد مجھے کچھ دھر کيلئے پڑھنے لکھنے کی اجازت ملی تھی اس شرط پر کہ نہ کسی قسم کی جسمانی تھکن ہو اور نہ دماغ يا آنکھوں پر زور محسوس ہو ۔ ابھی تک ميں ايسی ہی صورتِ حال سے دو چار ہوں ۔ دوسری طرف صاحبِ مضمون جہاں ديدہ ہيں اور آپ بھی کم نہيں ۔ اس لئے ميری معضرت قبول فرما ليں تو ” گر قبول اُفتد زہے عز و شرف”۔

  13. ابن سعید

    چاچو آپ ہمارے بزرگ ہیں اور ایسی باتیں کہہ کر ہمیں نادم نہ کریں۔ ہماری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہماری کسی بات سے چھوٹے بڑے کسی کا دل نہ دکھے نتیجتاً کسی اختلافی موضوع پر شاذ و نادر ہی کچھ لکھتے ہیں۔ مندرجہ بالا تبصروں میں بھی ہم نے صدق دل سے اس بات کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کی ہے اس کے باوجود کسی عزیز کو کوئی تکلیف ہوئی ہو تو ہم سراپا معذرت خواہ ہیں۔ ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ پروردگار شافع کل ہے اس کی بارگاہ میں آپ کے لئے کامل و عاجل صحت یابی کی دعاء ہے۔

  14. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد نعمان صاحب
    يہ ختم کرنے والا کُليہ کہاں سے آ گيا ؟
    رہی امن کی آشا ۔ وہ تو ہم پچھلے 62 سال سے لگائے بيٹھے ہيں
    اس سلسلہ کو جناب لياقت علی خان صاحب نے شروع کيا تھا بڑی اُميد کے ساتھ ۔۔ پھر جواہر لال نہرو صاحب کے تھپڑ دکھانے پر گھونسہ دکھا ديا ۔ امريکا بہادر نے سرزنش کی تو مِلّی جذبے ميں کہہ ديا “ہم ايک خود مختار قوم ہيں”۔ سو “فرنگی کے تنخوا دار اپنوں” کے ہاتھوں قتل ہوئے
    ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے سياچين بھارت کے حوالے کر کے اور ضياء الحق صاحب کے نام لگا کر امن کی آشا قائم کی
    بينظير بھٹو صاحبہ نے 500 سے زائد بے قصور کشميری مروا کر اور سکھوں کے راز بھارت کو دے کر امن کی آشا قائم کی
    پرويز مشرف صاحب نے جموں کشمير ميں 5 بڑے ڈيم بنوا کر اور رياست ميں جنگِ آزادی لڑنے والے جموں کشمير کے مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دے کر امن کی آشا قائم کی
    ان سب سے بڑھ کر جنگ گروپ کيا امن کی آشا قائم کر لے گا ؟
    ميں بھی جنگ کا حامی نہيں ہوں مگر بات برابری کی سطح پر ہوتی ہے صرف دے دے کر نہيں ۔ اگر آپ نے بھارت سے دوستی کرنا ہے تو پہلے چُپڑی ہوئی دو دو اور مخمل کے بستر چھوڑيئے ۔ روکھی سوکھی کھا کر محنت کرنا سيکھيئے پھر جب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائيں گے تو بھارتی حکمران “جی مہاراج ” کہتے ہوئے خود ہی امن کی آشا لے کر آ جائيں گے

  15. محممد نعمان

    افتخار اجمل بھوپال کا کہنا ہے کہ:
    Nov 13 2010 بوقت 9:48 AM
    محمد نعمان صاحب

    رہی امن کی آشا ۔ وہ تو ہم پچھلے 62 سال سے لگائے بيٹھے ہيں
    اس سلسلہ کو جناب لياقت علی خان صاحب نے شروع کيا تھا بڑی اُميد کے ساتھ ۔۔ پھر جواہر لال نہرو صاحب کے تھپڑ دکھانے پر گھونسہ دکھا ديا ۔ امريکا بہادر نے سرزنش کی تو مِلّی جذبے ميں کہہ ديا “ہم ايک خود مختار قوم ہيں “۔ سو فرنگی کے تنخوا دار اپنوں کے ہاتھوں قتل ہوئے

    فرنگی کے تنخواہ دار سے مراد اگر قائدملت لیاقت علی خان ہیں تو میں احتجاج کرتا ہوں ….باقی جو آپ کی راۓ ہو آپ کو مبارک

  16. محمد سعد

    محمد نعمان: یہ [“فرنگی کے تنخواہ دار” اپنوں کے ہاتھوں] نہیں بلکہ [“فرنگی کے تنخواہ دار اپنوں” کے ہاتھوں] لکھا ہے غالباً۔

  17. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد نعمان صاحب
    آپ کو غلط سمجھ آ گئی ہے ۔ ذرا فقرہ ملا کر پڑھيئے ۔ چلئے ميں وضاحت کر ديتا ہوں ۔ يعنی اُن اپنوں [پاکستانيوں] کے ہاتھوں قتل ہوئے جو فرنگی کے تنخوادار تھے ۔ اب واضح ہو گيا ؟

  18. عبداللہ

    لیاقت علی خان جاگیر داروں کے تنخواہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے :evil:

  19. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبداللہ صاحب
    کيا آپ کہنا چاہتے ہيں کہ فرنگی کے پٹھوؤں نے نوابزادہ لياقت علی خان کو قتل نہيں کرايا ؟ اگر ايسا ہے تو آپ بتائيں کہ جاگير داروں سے آپ کی کيا مراد ہے ؟ کسی کا نام تو لکھيئے ۔ گول مول باتيں کرنا چھوڑ ديں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.