Monthly Archives: September 2010

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کامیاب زندگی

ایک دن صبح سویرے ہی ذہن میں آیا کہ کامیاب زندگی کا راز کیا ہے ؟ سارا دن اس سوال نے پریشان کئے رکھا ۔ رات ہوئی بستر پر دراز ہوا مگر سوال نے نیند کو بھگا دیا ۔ آنکھیں پھاڑے اپنے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ کچھ دیر بعد کمرے کی ہر چیز بولتی محسوس ہوئی
چھت بولی ” ذاتیات کو چھوڑ اور میری طرح بلند ہو جا ”
پنکھا بولا “مزاج ہمیشہ ٹھنڈا رکھ”
گھڑی بولی “وقت کی قدر کو جان”
بلب بولا “اپنی روشنی سے اندھیروں کو دور کر”
کتاب بولی “مجھ سے دوستی پکی رکھ”
کیلنڈر نے کہا “ہر گذرتے دن سے سبق لے”
بٹوے نے کہا ” بُرے وقت کیلئے آج ہی بچا”
بستر نے کہا ” ہر نیا دن شروع کرنے سے پہلے مناسب آرام کر”
آئینے نے کہا ” کارگذاری کا مظہر بن”
دیوار نے کہا ” دوسروں کا بوجھ بانٹو”
کھڑکی نے کہا ” زاویہ نظر کشادہ رکھو”
دروازے نے کہا “راستہ پانے کیلئے زور لگاؤ”
فرش نے کہا ” انکساری اختیار کرو”

آمريت کا اُچھلنا يا جمہوريت کا بِدکنا ۔ عوام کا کچُومر

پبلک اکاؤنٹس کميٹی کا اجلاس قائم مقام چیئرپرسن یاسمین رحمن کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ
2 سال کے دوران 30 کھرب [3000000000000] روپے کے قرضوں کا اضافہ ہوا
اور اب ملک پر قرضوں کا مجموعی حجم 90 کھرب [9000000000000] روپے ہو گیا ہے
90 کھرب کے قرضوں میں سے 45 کھرب روپے غیر ملکی جبکہ 45 کھرب روپے قومی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں
3 کھرب کے اندرونی قرضے اتارنے کیلئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں
حکومت فاٹا کے بجلی کے بلوں کا 10 ارب [10000000000] روپے قومی بجٹ سے ادا کررہی ہے
اسٹیل ملز میں 2 کھرب 25 کروڑ روپے کا خسارہ ہے

سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق نے مزيد بتايا کہ
بینظیر ٹریکٹر اسکیم پر 4 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی
توانائی شعبے کو 183 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے
سیلاب کی وجہ سے 2 کھرب 80 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے 2 کھرب روپے کر دیا گیا ہے

جانچ پڑتال کے دوران وزارت خزانہ کے کھاتوں میں 14 کروڑ [140000000] روپے کے سِیکرٹ فنڈ کا انکشاف ہوا جو 10 نومبر 2007ء سے 17 دسمبر 2007ء کے 43 دنوں میں ایک خفیہ ایجنسی کو فراہم کئے گئے تھے

خواجہ آصف نے کہا کہ پی آئی اے اور دیگر ناکارہ اداروں کو 250 ارب روپے کی سبسڈی دے کر عوام کو اس بھاری رقم کے ثمرات سے محروم رکھا جا رہا ہے
حامد یار ہراج نے کہا کہ حکومت کے تمام شعبے سبسڈی پر چل رہے ہیں جو اچھی گورننس نہیں ہے

پی اے سی کیلئے یہ بات بھی تشویش انگیز تھی کہ پوری حکومت سبسڈی پر چل رہی ہے اور سرکاری اداروں کو دی جانے والی سبسڈی کی مالیت دفاعی بجٹ کے برابر پہنچ چکی ہے

مکافاتِ عمل

آج پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے این آر او فیصلے پر عمل درآمدسے متعلق عدنان خواجہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی۔ عدالت نے ڈپٹی چیئرمین نیب جاوید ضیاءکی جانب سے بطور قائم مقام چیئرمین کئے گئے اقدامات کا ریکارڈ اور عدنان خواجہ کے خلاف ریفرنس سے متعلق ریکارڈ طلب کیا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جاوید ضیاء نے نیب چیئرمین کے آفس پر غیرقانونی قبضہ کیا ہوا ہے اور عدالت ان کے اقدامات کو غیرقانونی قرار دے گی

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوئس مقدمات کھولنے کیلئے ابھی تک خط کیوں نہیں لکھا گیا، وہ بدمزگی نہیں چاہتے اور روزانہ اصرارکرنا اچھانہیں لگتا، اس لئے اٹارنی جنرل اس معاملے پر اپنا کرداراداکریں ۔ عدالت نے سوئس کیسز بحالی کی سمری نہ بھیجنے پر وفاقی سیکرٹری قانون مسعود چشتی کو طلب کیاجنہوں نے پیش ہوکر مہلت کی درخواست کی ۔ عدالتِ عظمٰی نے 24 ستمبر تک مہلت دیدی ہے

سپریم کورٹ نے کمرہ عدالت میں موجود احتساب ریفرنس میں سزا یافتہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز اور عدنان خواجہ کو بھی فوری حراست میں لینے کا حکم دیا جس پر پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا ۔ عدالت نے حکم دیا کہ یہ دونوں تین دن میں ضمانتی مچلکے عدالت میں جمع کراسکتے ہیں

احوالِ قوم ۔ 2 ۔ نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی تعليم

تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
ميری حد سے رُتبہ نہ میرا بڑھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تُربت کو میری صنم تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ کرنا مری قبر پر سر کو خَم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم۔ ۔ کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی

سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہا ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت۔ ۔ ۔ شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت
وہ جوحق سے اپنے لئے چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہر بشر کے لئے چاہتے ہیں
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور
نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ۔ ۔ کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ

بيچارہ بيٹا يا بيچارے داماد اور بہو

ميری بيوی کی والدہ اللہ جنت نصيب کرے ميری بڑی خالہ تھيں مگر ميری والدہ سے چھوٹی تھيں ۔ ميری اور ميری بيوی کے بھائی کی شادی دو دن کے وقفے سے ہوئی تھی ۔ شادی کے بعد ميں خالہ کے ہاں گيا ہوا تھا ۔ وہاں ايک خاتون مہمان آئيں اور شادی شدہ بيٹے بيٹی کا پوچھنے لگيں ۔ ميری خالہ نے ايک دلچسپ کہانی سنائی

دو لڑکياں اکٹھے تعليم حاصل کر رہی تھيں ۔ اُن ميں دوستی ہو گئی ۔ تعليم سے فارغ ہو کر اُن کی شادی ہو گئی ۔ اتفاق سے ايک کا خاوند کسی دوسرے شہر ميں کام کرتا تھا تو وہ وہاں چلی گئی ۔ جب اُس کا خاوند ريٹائر ہو گيا تو وہ اپنے شہر واپس آ گئے ۔ وہ اپنی پرانی سہيلی کو ملنے آئی

سہيلی نے پوچھا “تم نے اپنے بيٹے اور بيٹی دونوں کی شادی کر دی تھی ۔ بال بچے دار بھی ہو گئے ہيں سناؤ اپنے گھروں ميں خوش ہيں ؟”

وہ بولی ” ميرا داماد اچھا ہے ۔ دفتر سے آکر بچوں کو ساتھ لے جاتا ہے اور گھر کا سودا سلف لے آتا ہے ۔ گھر آ کر بچوں کو سنبھالتا ہے ۔ چھٹی والے دن گھر کی صفائی بھی کر ديتا ہے ۔ باورچی خانہ ميں بھی مدد کر ديتا ہے ۔ البتہ ميرا بيٹا بيچارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ديکھو نا ۔ بيچارہ دفتر کا کام بھی تو کرتا ہے نا ۔ بہو اُسے کہتی ہے کہ ميرے لئے بچوں کو چھوڑ کے جانا مشکل ہوتا ہے اور پيدل ساتھ لے کر جانا بھی مشکل۔ دفتر سے واپسی پر سودا سلف لے آيا کرو ”

سہيلی نے پوچھا ” تو کيا گھر کا باقی کام بھی آپ کا بيٹا کرتا ہے ؟”
وہ بولی ” نہيں ۔ کام تو سارا بہو ہی کرتی ہے ۔ پر ديکھو نا”

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ اطاعت

عجب زمانہ ہے کہ انسان کسی انسان کی اطاعت ميں مُستعد ہے ۔ دفتر ميں صاحبِ دفتر کی اطاعت ۔ مال کی توقع جس سے ہو اُس کی اطاعت کيلئے ہر وقت کمر بستہ رہتا ہے ليکن اللہ کی اطاعت کے سلسلہ ميں وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے

وسوسے شيطان کا کمال ہے
مگر اللہ کے بندے شيطان کے قابو ميں نہيں آتے ۔ اسی سلسلہ ميں ايک کہانی

ايک سيدھا سادا سا شخص اپنے کمرے ميں سو رہا تھا کيا ديکھتا ہے کہ يکدم روشنی ہو گئی اور اس ميں سے ايک فرشتہ نمودار ہوا اور کہا “اللہ نے تمہارے لئے ايک کام مقرر کيا ہے” ۔ فرشتے نے اُسے ايک بڑی چٹان دکھائی اور کہا “اسے پوری قوت سے دھکا ديتے رہو”

اگلے دن اُس شخص نے ايسا ہی کيا ۔ بہت دير تک چٹان کو دھکا لگاتا رہا مگر چٹان بڑی تھی وہ اُسے سرکا نہ سکا اور تھک کر کمرے ميں چلا گيا ۔ وہ روزانہ پوری قوت سے چٹان کو دھکا لگاتا اور پھر تھک کر چلا جاتا ۔ اسی طرح کئی ماہ گذر گئے ۔ ايک دن اُسے محسوس ہوا کہ کوئی اُسے کہہ رہا ہے “کيوں اپنی طاقت اور وقت ضائع کر رہے ہو ۔ تم اس چٹان کو نہيں ہلا سکتے ۔ يہی وقت اور محنت کسی منافع بخش کام ميں لگاؤ”

وہ شخص سوچنے لگا کہ “بات تو ٹھيک ہے مجھے اتنا عرصہ اس چٹان کو دھکا دينے سے کيا فائدہ ہوا ۔ ليکن اُسے يقين تھا کہ جس نے اُسے چٹان کو دھکا لگانے کا کہا تھا وہ فرشتہ تھا تو اُس نے سوچا کيوں نہ وہ اللہ سے دعا کرے کہ اللہ اس کی رہنمائی کرے ۔ وہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کی

“يا اللہ ۔ مجھے آپ کا حکم ملا کہ چٹان کو دھکا لگاؤ ۔ ميں روزانہ اپنی پوری قوت سے اسے دھکا لگاتا رہا کئی ماہ اسی طرح گذر گئے ہيں مگر ذرہ برابر بھی اسے سرکا نہ سکا تو اس کا کيا فائدہ؟ ميں کيوں ناکام ہوں؟”

آواز آئی ” اے ميرے بندے ۔ تو ناکام نہيں ہوا ۔ ميں نے چٹان کو سرکانے کا حکم نہيں ديا تھا صرف دھکا لگانے کا کہا تھا ۔ تيرے لئے ميرا حکم ماننا فرض تھا” ۔ آواز جاری رہی ” تُو نحیف اور کمزور تھا اور دل ميں مجھ سے التجاء کيا کرتا تھا کہ ميں تمہيں طاقتور بناؤں تاکہ تو اپنا حق لينے کيلئے کھڑا ہو سکے ۔ ميں نے تيری دعا قبول کی اور تمہيں جو حکم ديا تو نے اس پر پورے خلوص سے عمل کيا ۔ اب ديکھ تمہارے بازوؤں کے پٹھے کتنے موٹے اور مضبوط ہو گئے ہيں ۔ تمہارے ہاتھوں کے پٹھے بھی مضبوط ہو چکے ہيں ۔ تمہاری ٹانگيں اتنی موٹی اور فولادی بن چکی ہيں ۔ تمہاری سانس پہلے سے زيادہ بہتر اور حوصلہ پہاڑ کی طرح مضبوط ہو گيا ہے ۔ اب تو مضبوط سے مضبوط آدمی کا مقابلہ کر سکتا ہے”

سبق ۔ کئی باتيں ايسی ہوتی ہيں جو انسان کی سمجھ ميں نہيں آتيں ليکن اللہ نے اس ميں ہماری بہتری پنہاں رکھی ہوتی ہے ۔ يہ اللہ ميں ہمارا پُختہ يقين ہی ہے جو ہميں پريشانيوں سے بچاتا ہے اور ترقی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگر سامنے چٹان ہو تو بھی ہمت نہيں ہارنا چاہيئے اور اللہ پر بھروسہ کر کے محنت کرتے رہنا چاہيئے اور اللہ سے مدد کی دعا کرتے رہنا چاہيئے

اللہ ہميں اپنے بندوں والے کام کرنے کی توفيق عطا فرمائے

اوباما کيلئے بڑا چيلنج

کيا امريکا کا صدر اوباما شرق الوسط کو جوھری اسلحہ خانہ سے پاک علاقہ بنا سکتا ہے ؟ يہ ايک بڑا سوال ہی نہيں بلکہ ايک بڑا چيلنچ بھی ہے

وِکی لِيکس [Wiki Leaks] کی طرف سے افغانستان ميں امريکا کی 9 سال سے جاری يلغار کے متعلق امريکی دستاويزات کے انکشاف نے تمام امريکيوں کو مبہوت کر رکھا ہے ۔ ان ميں ايسی بھی دستاويز ہے جس کے مطابق پاکستان کے خُفيہ والے افغانستان کے طالبان کو مالی امداد ۔ اسلحہ اور تربيت ديتے رہے ہيں

متذکرہ دستاويزات سے عياں ہونے والے کوائف کی درستگی ايک الگ مسئلہ ہے اور ان انکشافات کے اثرات نمودار ہونا ابھی باقی ہے مگر اس ابلاغی دھماکے نے ايک بڑی حيران کُن حقيقت کو امريکيوں اور باقی دنيا کے عوام کی نظروں سے اوجھل کر ديا ہے ۔ امريکی حکومت کے احتسابی ادارے [US Government Accountability Office (GAO)] نے مئی 2010ء ميں ايک سربستہ راز جس کی 32 سال سے حفاظت کی جارہی تھی جزوی طور پر غير مخفی [Partialy declassified] کيا جس کا عنوان ہے

‘Nuclear Diversion in the US? 13 Years of Contradiction and Confusion’,
تفصيل ميرے بلاگ “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔۔۔ Reality is Often Bitter ” پر يا يہاں کلِک کر کے پڑھيئے