جموں کشمير کے مسلمان اپنا انسانی اور پيدائشی حق خود ارادی مانگ رہے ہيں جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کی چارٹر ميں شامل ہے بلکہ جنوری 1948ء ميں بھارتی حکومت کی درخواست پر منظور ہونے والی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہے ۔ مگر بھارتی حکومت گذشتہ 63 سالوں سے ايک طرف لچھے دار بيانات دے کر اس انسانی مسئلے کو ملتوی کرتی چلی آ رہی ہے اور دوسری طرف جموں کشمير ميں ظُلم تشدد جاری رکھا ہوا ہے
متذکرہ بالا قراردادوں کے تحت تمام ارکان بالخصوص سلامتی کونسل کے ارکان جموں کشمير ميں آزادانہ رائے شماری کرانے کے پابند ہيں کہ جموں کشمير کے لوگ پاکستان ميں شامل ہونا چانتے ہيں يا بھارت ميں ليکن انسانيت کے يہ نام نہاد علَمبردار ذاتی مطلب برآری کيلئے بھارتی حکومت کی پشت پناہی کرتے آ رہے ہيں
تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھيئے
افتخار جی ہم اپنی سیاست بند کریں گے تو کشمیری بہن بھائوں کا سوچیں گے۔۔۔۔۔ وہاں کب سے ظلم ہو رہا ہے ۔۔۔ کتنی عورتوں کی چادریں چھینی گئی ، کتنے بچے یتیم ہوئے ۔۔۔ جتنے معصوم بچے بےگناہ ہوتے ہوئے گناہگار بنے ۔۔۔ لیکن ہم ایک عدد ریلی نکال کر یا پھر ایک عدد کالم بیان دے کر خاموش ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔
کشمیریوں سے ہم سوائے شرمندہ ہونے کہ اور کیا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ تو خود ابھی جاگیر داروں، سرداروں، اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ داروں کے غلام ہیں۔
ثانيہ صاحبہ
آپ نے درست کہا ہے ۔ يہاں اکثريت کو آپا دھاپی سے ہی فرصت نہيں مگر ميرا نہ صرف دل روتا ہے بلکہ آنکھيں بھی گاہے بگاہے پرستی ہيں ۔ ميرا وہ وطن ہے اور ميں نے دس سال کی عمر ميں وہاں يہی کچھ ہوتا ديکھا تھا اور چار ماہ خوف و ہراس ميں گذار کر پاکستان پہنچا تھا
کشمیریوں کہ مقدر میں لگتا ہے داہمی غلامی لکھی ہے ہم لوگ ہیں بھی اس قابل کہ کیوںکہ کچہہ تو پاکستانی پالتو ہیں کچہ ہندوستانی وفادار ہیں جو پیسہ دیتا ہے اسکے وفادار اور ہمنوا بن جاتے ہیں کوئی اصول نہیں ہم کبھی آزادی نہیں حاصل کر سکتے کیونکہ ہم بک جاتے ہیں
سردار قمر صاحب
تشريف آوری کا شکريہ
بات تو آپ نے درست کہی ہے ۔ مگر يہ بھی حقيقت ہے کہ اچھا کام کرنے والے ہميشہ تھوڑے ہوتے ہيں مگر کامياب وہی ہوتے ہيں