مندرجہ ذيل ای ميل محمد سلیم صاحب نے شانتو- چين سے متعدد لوگوں کو بھيجی تھی ۔ اُن کے مطابق اُنہی نے اس واقعہ کا اُردو ميں ترجمہ کيا تھا ۔ يہ ميرے سميت کئی لوگوں کو پہنچی ۔ اس ای ميل ميں درج واقعہ کے متن کو کچھ بلاگز پر شائع کيا جا چکا ہے ۔ جہاں سے ميرے علم ميں آيا کہ ان بلاگرز کو جن لوگوں نے يہ ای ميل نقل کر کے بھيجی اصل بھيجنے والے کا نام حذف کر ديا ۔ ميرا اپنے بلاگ پر اس ای ميل کو دہرانے کا بنيادی مقصد محمد سلیم صاحب کی دعا کی درخواست قارئين تک پہنچانا ہے
ميں نے ای ميل کی تھوڑی سی تدوين کر دی ہے کہ قاری کو سمجھنے ميں آسانی رہے
محمد سليم صاحب کی ای ميل
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نوٹ: اس ایمیل کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں
اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہان اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔ محمد سلیم
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے
دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے ” ا ے امیر المؤمنین ۔ اس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا ؟”
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے
محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے ۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا
خود عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔ اس صورتحال پر سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ” معاف کر دو اس شخص کو ”
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ” نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ” اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے ؟”
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ” میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور اس کے قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے
اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ ميرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔ ۔ ۔
” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے محمد سلیم کو، جس نے ترجمہ کر کے اس ایمیل کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ ایمیل اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ۔ آمین یا رب العالمین۔
آپکی دعاؤں کا طالب ہوں ۔ محمد سلیم/ شانتو – چائنا
معاف کیجیئے گا آپ سے تبصرہ نہ کرنے کا عہد ہے مگر اس خوبصورت واقعہ نے صاحبہ کرام کی عظمت اور اس وقت کے مسلمانوں کا دین سے لگاؤ نے آنکھ واقعی نم کردی اور آفرین کہنے پر مجبور ہوگیا
انبیاء کرام اور صحابہ کرام انسانیت کی معراج ہیں۔ اللہ پاک انکی محبت نصیب فرمائیں اور انکی پیروی کرنے کی توفیق دیں آمین
یہ واقعہ اس سے پہلے بھی پڑھ چکا ہوں اور ہر دفعہ آنسو نکل آتے ہیں جذبات کی وجہ سے۔
اللہ ان سب پر رحم کرے اور ہم پر بھی
افتخار راجہ صاحب
تشريف آوری کا شکريہ ۔ بہت عرصہ بعد نظر آئے ۔ لگتا ہے بہت مصروف رہتے ہيں
احمد عثمانی صاحب
جزاک اللہ خيراٌ
واقعه كا حواله درج كرديا جاتا تو بهتر هوتا
پچھلے ہفتے مجھے بھی ملی یہ ایمیل
ترجمہ کیا ہے یا جو بھی ہے بہت اچھا لکھا ھے میرے آںسو نہیں رک رہے تھے
محمد سعيد پالنپوری صاحب
آپ نے درست کہا ہے ليکن ميں سليم صاحب کو نہيں جانتا ورنہ اُن سے حوالہ مانگتا ۔ ويسے يہ کافی مشہور واقعہ ہے ۔ لازی عصرِ حاضر کی کسی کتاب ميں موجود ہو گا ۔ آپ تو عربی دان ہيں
مجھے بھی یہ ای میل ملی تھی، بغیر سلیم صاحب کے نام کے۔ اس لیے نام نہ لکھنے کی معذرت قبول کریں۔ اگر یہ سلیم صاحب کا کام ہے تو ان کا نام لکھنا حق بنتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ ترجمہ کافی عرصہ پہلے کسی کتاب یا کسی اور جگہ پڑھا تھا، اب تفصیل یاد نہیں۔ جس نے بھی اس سلسلے میں کام کیا ہے وہ دعا کا حقدار ہے۔
مہربانی کر کے چھوٹی سی درستگی کر لیجیے۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے
مغرب سے چند لمحات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے
عامر شہزاد صاحب
تراجم تو بہت ہو چکے ہيں ۔ يوں لگتا ہے کہ سليم صاحب کے پاس عربی کا متن ہو کيونکہ وہ چين ميں رہائش رکھتے ہيں ۔ لحظات کا جہاں تک تعلق ہے ميں نے تدوين کر کے عبارت کو آسان مکالمہ کی شکل دی ہے الفاظ سليم صاحب کے ہی ہيں ۔ ديگر
لحظہ اور لمحہ ميں فرق ہے ۔ لمحہ وقت کی بہت ہی چھوٹی اکائی ہے جبکہ لحظہ ناپی جانے والی چھوٹی اکائی ہے جو فی زمانہ عام لوگ استعمال نہيں کر رہے
یہ واقعہ مستند ہے . اور سندھ بورڈ کے نصاب میں بھی شامل ہے … کس جماعت کے نصاب میں ہے … یہ تو نہیں یاد ….
لیکن کافی دفعہ پڑھا ہوا ہے ……
خدا رحمت کندا ایں عاشقان پاک طینت را
حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :عنقریب میرے بعد ایک گروہ پید ا ہوگا جن کو ”رافضی” کہا جائے گا پس اگر تم ان کوپاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ وہ مشرک ہوںگے حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !ان کی پہچان کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ لوگ تمہیں ان چیزوں کے ذریعہ نہایت اونچا دکھائیں گے جو تم میں نہیں ہوں گی اورصحابہ پر لعن طعن کریں گے
KHUMANI KUTTA KHUMANI KUTA JO NA MAANEY WO BHE KUTTA
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ہے ،
مسجد نبوی میں دربار خلافت لگا ہوا ہے جس میں خلیفۃ المسلیمین سیدنا عمر فاروقی اورداماد رسول سید نا علی المرتضی دیگر صحابہ کرام کے ساتھ وہاں موجودہیں،
اتنے میں مصر کے محاذ سے لشکر اسلام کے سپہ سالار کا قاصد مال غنیمت کے ساتھ ایک رقعہ امیر المومنین کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے.
اور مال غنیمت کے ساتھ رقعہ امیر المومنین کی خدمت میں پیش کرتا ہے ،
سیدنا عمر فاروق قاصد سے خط لے کر پڑھنا شروع کرتے ہیں،
جس میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے اپنے سپاہیوں کو ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’امیر المومنین ۔۔۔۔الحمد للہ میرے سپاہی اتنے دیانتدار، ذمہ دار ،فرض شناس اور خداترس ہیں.
کہ دوران جنگ اگر کسی مجاہد کو معمولی سی سوئی بھی ہاتھ لگی تو وہ بھی اس نے میرے پاس جمع کرائی ہے.
اور اگر کسی مجاہد کو اشرفیوں کی تھیلی یا سونے کی ڈلی بھی ملی تو وہ بھی اس نے اپنے پاس رکھنے کے بجائے مجھ تک پہنچائی ہے ۔‘‘
سیدنا عمر فاروق جیسے جیسے خط پڑھتے جاتے آپ کی آنکھوں سے آنسو چھلکتے جاتے ،
یہاں تک کہ چہرہ مبارک آنسووں سے تر ہو جاتا ہے ،
سیدنا علی المرتضی یہ صورتحال دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں.
اور سمجھتے ہیں کہ محاذ جنگ سے شاید کوئی بری خبر آئی ہے جس نے امیرالمومنین کو پریشان اور دکھی کردیا ہے،
آپ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں امیر المومنین سیدنا عمر فاروق سے دریافت فرماتے ہیں ،
یا امیر المومنین ۔۔۔۔خیریت تو ہے آپ کیوں رو رہے ہیں،
سیدنا عمر فاروق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فکر مندی دیکھ کر فرماتے ہیں،
اے میرے بھائی یہ خوشی کے آنسو ہیں یہ کہہ کر آپ وہ خط حضرت علی کو دے دیتے ہیں،
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ساری صورتحال جاننے کے بعد علم و حکمت پر مبنی وہ ایمان افروز تبصرہ ارشاد فرماتے ہیں.
جو رہتی دنیا تک ایک ایماندار اور صاحب کردار حکمران اور اس کی ٹیم کی پہچان اور شناخت قرار پاتا ہے ،
سید نا علی فرماتے ہیں ،
امیر المومنین ۔۔۔۔’’یہ اسلامی فوج کے سپاہیوں کی دیانت اور امانت نہیں بلکہ آپ کے عدل و کردار کا کمال ہے ،
اگر آپ فرض شناس ،امین،عادل اور خدا ترس نہ ہوتے توآپ کے سپاہی کبھی بھی ان اوصاف کا مظاہرہ نہ کرتے اور سپاہیوں میں یہ وصف کبھی پیدا نہ ہوتا۔
ابوحضرت عمر بلوچ
محترم جناب افتخار اجمل صاحب۔ السلام علیکم
مندرجہ بالا مضمون کو عربی سے اردو میںترجمہ کرنا میری کاوش ضرور تھی مگر جس طرح تدوین کے بعد ترتیب اور تنظیم سے آپ نے یہاںپیش کیا وہ صرف آپکا ہی خاصہ ہو سکتا تھا۔ میںنے اپنا ایک ذاتی بلاگ بنایا ہے (دوسرے لوگ میرے مضامین میرا نام کاٹکر شائع کرتے ہیں، اس بات سے ڈر کر نہیں(، میرا مقصد اپنی ساری تحاریر کو ایک جگہ جمع کرنا تھا۔ یقین کیجیئے اس مقصد کیلئے بھی مجھے دوستوںسے اپنے ایمیل واپس منگوانے کی مدد لینا پڑی۔
آپ کا نام اردو بلاگرز کے درمیان کیا مرتبہ رکھتا ہے یہ بات میںخوب جانتا ہوں۔ میںنے اپنے بلاگ پر آپ کا ذکر “میںنے کیسے لکھنا شروع کیا” میں خاص طور پر کیا ہے، آپ میرے بلاگ پر تشریف لا کر دو لفظلکھ جائیں۔ یہ میرے لیئے نہ صرف اعزاز اور آپ کی طرف سے حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ میںاسے آئندہ لکھتے رہنے کیلئے ایک سند سمجھوںگا
http://hajisahb.wordpress.com/about_me/howistartwritting/
آپکی آمد کا منتظر ہوں
محمد سلیم – شانتو/چین
محمد سليم صاحب
آپ کی ايک ای ميل مجھے کسی نے بھيجی تھی ۔ اسلئے ميرے پاس آپ کی ايک کے سوا کوئی تحرير نہيں ہے
اللہ اکبر
سچی بات ہے اس واقعہ کو پڑھ کہ آنکھیں نم ہوگئیں۔
سلیم صاحب کا بہت شکریہ کہ انہوں نے اس کا ترجمہ کیا اور انکل جی آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے اس کو اپنے بلاگ پہ شائع کیا
اللہ پاک آپ دونوں صاحبان کو مزید جزائے خیر دے۔ آمین
عدنان شاہد صاحب
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ میری نقل کردہ یہ ای میل اس وقت تک 1554 بار پڑھی جا چکی ہے ۔ لگتا ہے کہ ابھی اس دنیا سے نیک آدمی اُٹھائے نہیں گئے ۔ اللہ مجھے نیکی پر قائم کرے
بھائی اس کا حوالہ معلوم ہے کسی صاحب کو؟
برادر سعد سہیل صاحب: آرٹیکل پر تشریف لانے کا شکریہ۔ جیسا کہ اوپر لکھا ہوا ہے کہ عزت مآب سر افتخار اجمل صاحب صاحب مضمون نہیں ہیں۔ آپ نے محض میری عزت افزائی کیلئے اسے یہاں شیئر کیا ہے۔ یہ قصہ نا تو کسی شرع سے متصادم ہے یا نا ہی کوئی قران کا حدیث کا حوالہ لیے ہوئے ہے۔ اس لیئے کسی حوالے کی شدو مد اتنی اہم تو نہیں تاہم بالکل ہی لغو یا افتراء نا ہو اس لیئے آپ کا پوچھنا بنتا بھی ہے۔
ورنہ تو تاریخ ایسے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جسے اہل عرب بیان کرتے ہیں مگر عجم جانتے تک نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں بہت جانا گیا ہے مگر اتنا بھی نہیں، جیسے: آپ قامت میں اتنے چھوٹے کہ کسی بیٹھے آدمی کے پیچھے کھڑے ہوجاتے تو دکھائی نا دیتے مگر تکریم میں وہ قامت کہ مدینے کے سارے بڑے نام (سرکار علیہ السلام کی وفات کے بعد)، صبح کی نماز کیلیئے مسجد جانے کیلئے گھر سے چلتے تو حضرت عبداللہ بن مسعود کے گھر کے سامنے تھڑے پر آ کر بیٹھ جاتے، انتظار کرتے کہ آپ باہر نکلیں تو ان کے پیچھے چل کر مسجد میں جائیں۔ ایسی جزئیات جس کا دین سے ٹکراؤ نہیں ہے عموماً ایسے ہی چل جاتی ہیں۔ جیسے یہ واقعہ عرب میں کئیوں سے سنا عجم میں کسی کو پتہ ہی نا تھا۔
تاہم جہاں تک آپ کا سوال اس بلاگ کے بارے میں ہے تو عرض ہے کہ یہ واقعہ عرب کی ہر مجلس و محفل میں سنا کہا جاتا ہے۔ گوگل کیجیئے ، جہاں لاکھوں بار عرب ویبسائٹ پر شیئر ہوگا وہیں اس کی صحت اور سند پر بھی بات ہو رہی ہوگی۔ زیادہ تو نہیں مگر : مشہور عربی کتاب “إعلام الناس بما وقع للبرامكة للاتليدي” میں (عمر والشاب القاتل وأبو ذَرّ) کے عنوان کے ساتھ مشہور تاریخ دان، محقق اور مؤلف “شرف الدين حسين بن ريان” کے حوالے سے یہ واقعہ درج ہے۔
تشریف آوری کا شکریہ – جزاک اللہ