پہلی قسط يہاں پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے
تعریف تشبہ
اتنی معروضات کے بعد تشبہ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں
1 ۔ اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر دوسری قوم کی شانِ امتیازی اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔
2 ۔ اپنی اور اپنوں کی صورت اور سیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنا لینے کا نام تشبہ ہے۔
3 ۔ اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کردینے کا نام تشبہ ہے۔
اس لئے شریعت حکم دیتی ہے کہ مسلمان قوم ظاہری طور پر دوسری قوم سے ممتاز ہو‘ لباس میں بھی ممتاز اور وضع قطع میں بھی ممتاز ہونی چاہئے۔ مسلمان مرد کے چہرہ اور جسم پر کسی علامت کا ہونا ضروری ہے‘ جس سے پتہ چلے کہ یہ مسلمان ہے‘ سو وہ داڑھی اور لباس ہے۔ بغیر داڑھی کے ایک مسلمان شخص کی شناخت نہیں ہوسکتی۔ معلوم ہوا کہ اسلامی امتیاز کے لئے مسلمان مرد کے لئے داڑھی ضروری ہے۔ کافروں کی مشابہت سے ممانعت اور اسلامی خصوصیات وامتیازات کی حفاظت کا منشاء معاذ اللہ! تعصب اور تنگ نظری نہیں‘ بلکہ اسلامی غیرت وحمیت اور ملت اسلامیہ کو کفر والحاد اور زندقہ سے بچانا مطلوب ہے‘ ورنہ ملت اسلامیہ آزاد اور مستقل قوم کبھی نہیں کہلاسکتی
تشبہ کی اقسام اور ان کے احکام
1 ۔ اعتقادات اور عبادات میں کفارومشرکین کی مشابہت کفر اور ارتداد کا سبب ہے ‘ جیسے ہندو دو خدا اور عیسائی تین خدا کے قائل ہیں‘ اسی طرح خالق‘ مالک‘ مدبر اور عبادت کے لائق‘ انبیاء‘ اولیاء‘ ملائکہ اور جنوں وغیرہ کو سمجھنا
2 ۔ مذہبی رسومات میں کفار کی مشابہت حرام ہے۔ جیسے نصاریٰ کی طرح سینہ پر صلیب لٹکانا یا ہندوؤں کی طرح زنار باندھنا یا پیشانی پر سندور لگانا۔ان چیزوں کے استعمال کی حرمت کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال میں کفر کا اندیشہ بھی ہیں‘ کیونکہ علانیہ کفریہ شعائر کا اختیار کرنا قلبی تعلق اور رضا کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ تشبہ کی یہ قسم اگرچہ قسم اول سے درجہ میں کم ہے‘ مگر پیشاب اور پاخانہ میں فرق ہونے سے کیا کوئی پیشاب کا پینا گوارا کرلے گا؟ ہرگز نہیں
3 ۔ معاشرتی عادات اور قومی شعائر میں کفار کا تشبہ مکروہ تحریمی ہے‘ مثلاً :کسی قوم کا مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص اس قوم کی طرف منسوب ہو‘ جس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے‘ جیسے نصرانی ٹوپی یعنی ہیٹ ٹائی وغیرہ اور ہندوانہ دھوتی اور جوگیانہ جوتی یہ سب ناجائز ‘ ممنوع اور تشبہ میں داخل ہیں‘ جبکہ بطور تفاخر یا عیسائیوں‘ ہندوؤں اور دوسرے کافروں کی وضع بنانے کی نیت سے ہو تو اور بھی زیادہ گناہ ہے باقی کافروں کی زبان اور ان کے لب ولہجہ اور طرزِتکلم کو اس لئے اختیار کرنا کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں اور ان کے زمرہ میں داخل ہوجائیں تو بلاشبہ یہ ممنوع ہوگا۔ ہاں اگر انگریزی زبان سیکھنے سے انگریزوں کی مشابہت مقصود نہ ہو‘ بلکہ محض زبان سیکھنا مقصود ہو‘ تاکہ کافروں کی غرض سے آگاہ ہوسکیں اور ان سے تجارتی اور دنیاوی امور میں خط وکتابت کرسکیں توپھر انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں
4 ۔ ایجادات ‘ اسلحہ اور سامانِ جنگ میں غیروں کے طریقے اپنانا جائز ہے‘ جیسے توپ‘ بندوق اور ہوائی جہاز‘ موٹر اور مشین گن وغیرہ‘ کیونکہ شریعتِ اسلامیہ نے ایجادات کے طریقے نہیں بتلائے ‘ ایجادات اور صنعت وحرفت کو لوگوں کی عقل‘ تجربہ اور ان کی ضرورت پرچھوڑ دیا‘ البتہ اس کے احکام بتلادیئے کہ کونسی صنعت وحرفت جائز ہے اور کس حد تک جائز ہے۔ اسلام میں مقاصد کی تعلیم دی گئی ہے‘ اسلام یہ بتاتا ہے کہ ایجادات ایسی نہ ہوں کہ جس سے تمہارے دین میں خلل آئے یا بلا سبب جان کا خطرہ ہو‘ اور وہ ایجادات ایسی ہوں کہ جن کابدل مسلمانوں کے پاس نہیں۔ اور اگر وہ ایجادات ایسی ہوں کہ جس کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے تو اس میں تشبہ مکروہ ہے‘ جیسے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ا نے فارسی کمان کے استعمال سے منع فرمایا‘ اس لئے کہ اس کا بدل مسلمانوں کے پاس عربی کمان موجود تھی اور دونوں کی منفعت برابر تھی‘ صرف ساخت کا فرق تھا۔(سیرة المصطفی ۔ ج 3 ۔ ص 1۔4)۔
اسلام تعصب کا درس نہیں دیتا‘ بلکہ حمیت وغیرت سکھاتا ہے۔ پس جو چیز مسلمانوں کے پاس موجود ہے اور وہی چیز کفار کے پاس بھی ہے‘ محض وضع قطع کا فرق ہے تو ایسی صورت میں اسلام نے تشبہ بالکفار سے منع فرمایاہے‘ کیونکہ اس صورت میں بلاوجہ مسلمانوں کا دوسری قوموں کا محتاج ہونا نظر آتا ہے۔ ایک کام جائز اور مباح ہے‘لیکن کافروں کی مشابہت کی نیت اور دشمنانِ دین سے تشبہ کے قصد سے ہو تو شریعت ا س کو بھی منع کرتی ہے‘ کیونکہ دشمنان دین کے ساتھ تشبہ کی نیت سے کوئی کام کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے دل میں کا فروں کی طرف میلان اور رغبت ہے‘ پس جس طرح کسی کو اپنے دشمنوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت گوارا نہیں‘ اسی طرح خداوند قدوس کو یہ گوارا نہیں کہ اس کے دوست اور اس کے نام لیوا یعنی مسلمان اس کے دشمنوں یعنی کافروں کی مشابہت اختیار کریں۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
”ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار“۔ ( ہود ۔ 113)۔ ترجمہ: ”اور نہ جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لگے گی آگ“۔
اور کفار کی مشابہت سے یہ اندیشہ بھی ہے کہ تمہارے دل بھی ان کی دلوں کی طرح سخت نہ ہوجائیں اور کہیں قبولِ حق کی صلاحیت ہی نہ ختم ہوجائے۔ علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب الزواجر عن افتراق الکبائر میں حضرت مالک بن دینار سے ایک نبی کی وحی نقل کی ہے:
”قال مالک ابن دینار: اوحی اللہ الی النبی من الانبیاء ان قل لقومک: لاتدخلوا مداخل اعدائی‘ ولایلبسوا ملابس اعدائی‘ ولایرکبوا مراکب اعدائی‘ ولایطعموا مطاعم اعدائی فیکونوا اعدائی کماہم اعدائی“۔ ( الزواجر عن افتراق الکبائر ج:۱‘ ص ۔ 11)
ترجمہ: ”مالک بن دینار کہتے ہیں کہ انبیاء سابقین میں سے ایک نبی کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میرے دشمنوں کی جگہوں میں نہ داخل ہوں اور نہ میرے دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ میرے دشمنوں جیسے کھانے کھائیں اور نہ میرے دشمنوں جیسی سواریوں پر سوار ہوں (ہر چیز میں ان سے ممتاز اور جدا رہیں) ایسا نہ ہو کہ ان کا شمار بھی میرے دشمنوں میں ہونے لگے“۔
یہی مضمون قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کیا گیاہے
ومن یتولہم منکم فانہ منہم“۔ (مائدہ ۔ 51)۔ یعنی جو کفار سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا
اور حدیث نبوی میں بھی ہے ۔ ۔من تشبہ بقوم فہو منہم“ ۔(ابوداؤد‘ج ۔ 2‘ص 559)۔ یعنی”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“۔
دعویٰ اسلام کا ہے‘ مگر لباس‘ طعام‘ معاشرت‘ تمدن‘ زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام دشمنوں جیسا۔ جولوگ اسلام کے دشمنوں کی مشابہت کو موجب عزت اور باعث فخر سمجھتے ہوں‘ اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ ضرورت ہے اور نہ کوئی پرواہ۔ بلاضرورت کافر قوم کا لباس اختیار کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ معاذ اللہ! ہم زبانِ حال سے یہ کہتے ہیں کہ لاؤ ہم بھی کافر بنیں‘ اگرچہ صورت ہی کے اعتبار سے کیوں نہ بن جائیں۔ میرے خیال میں لوگ انگریزی وضع قطع کو اس لئے اپناتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ وضع قطع اہلِ حکومت اور اہل شوکت کی ہے اور جب ہم انگریزوں کے ہم شکل بنیں گے چاہے وہ لباس کے اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو تو عزت ملے گی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ یہ عزت اور ذلت اللہ کے پاس ہے‘ جیساکہ ارشاد ہے
”ایبتغون عندہم العزة فان العزة للہ جمیعاً“۔(النساء ۔ 139)۔ ترجمہ: ”کیا ڈھونڈتے ہیں ان کے پاس عزت سو عزت تو اللہ ہی کے واسطے ہے ساری“۔
دوسری جگہ ارشاد ہے
وللہ العزة ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لایعلمون“۔(المافقون ۔ 8)۔ ترجمہ: ”اور زور تو اللہ کا ہے اور اس کے رسول کا اور ایمان والوں کا لیکن منافق نہیں جانتے“۔
الغرض جو کسی کا عاشق بنے گا اس کو معشوق کی چال ڈھال‘ وضع قطع‘سیرت وصورت اور لباس اپنانا پڑے گا‘ اب اختیار ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ا اور مؤمنین کے عاشق بن جاؤ یا یورپ کے عیاشوں اور اوباشوں کی معاشرت‘ تہذیب وتمدن اور رہن سہن کے طریقے اپنا کر اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کردو
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا
ماخذ ۔ ماہنامہ بينات
جزاک اللہ
اسلام کوٹ پینٹ یا شلوار قمیض کا نام نہیں۔ عقائد کا ایسا مجموعہ ہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ یہ عرب کی معاشرت نہیں بلکہ احکام الہی ہی تھے جو آج بھی کارآمد ہیں۔ ٹائی، کوٹ، جینز، شرٹ اسلام کے راہ کی رکاوٹ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خطے کے مسلمانوں کا اپنا رہن سہن، ثقافت اور رسم و رواج ہیں لیکن ان میں قدر مشترک توحید اور رسالت ہے۔ اور اسلام کی وہ تعلیمات جو کسی بھی قوم، ثقافت یا رہن سہن کی اچھی چیزوںکو اپنا لینے کی تلقین کرتی ہیں۔ اسلام مریخ پر بھی چلا گیا تو زندہ رہے گا۔ معاشرت اور ثقافت ادھر ہی رہ جائے گی۔
اجمل صاحب – مسلمان کو اپنے بچے اور بچوں کے بچوں کے نام کیسے رکھنے چاہیں- صرف عربی نام رکھنے چاہئے یا کسی اور زبان میں بھی رکھ سکتےہیں –
محترم جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب، آپ کی پوسٹ پر میں دعا گو ہوں کہ اللہ آپکو اسکی جزا دے۔ اگر آپ قرآن و حدیث کے حوالاجات نہ بھی دیتے تو عقلی طور پر بھی موضوع کی وضاحت نہایت ماہرانہ انداز میں پیش کی گئ ہے۔ جزاک اللہ خیر
دوست صاحب کا کہنا بھی کسی حد تک بجا ہے۔
ان کا اشارہ جس “باطنی” طرف ترجیح دینے کا ہے ، اسی کے متعلق خاکسار کے بلاگ پر یہ تازہ ترین تحریر مطالعہ فرمائیے گا :
زکوٰۃ دی جا رہی ہے ۔۔۔
دوست صاحب
درست فرمايا آپ نے ۔ ليکن کيا اسلام اس کی ترغيب ديتا ہے کہ مسلمان اپنے شرعی لباس کو چھوڑ کر غيرمسلم کے غير شرعی لباس کو اپنائيں ؟ بات پتلون کوٹ کی نہيں بلکہ شرعی اور منفرد لباس کی ہے ۔ کيا آپ کوئی آيت يا حديث نقل کر سکتے ہيں جس سے يہ تاءثر ملے کہ غيرمسلم کی تقليد جائز ہے ؟ کيا آپ ميرے علم ميں اضافہ کی خاطر بتايئے گا کہ ثوب يا شلوار ٹخنے سے اوپر رکھنے کی بنياد کيا ہے ؟
شيپر صاحب
يہ سوال آپ کسی مفتی يا عالم دين سے پوچھيئے ۔ ميں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ ايسا نام رکھنا چاہيئے جس کے معنی اچھے ہوں ۔ اچھے معنی کا يہ مطلب نہيں کہ نام زور دار يا زر گر رکھ ديا جائے ۔ دوسرے وہ نام کسی بدنامِ زمانہ شخص کا نہ ہو ۔ جيسے نمرود ۔ پرويز ۔ ہلاکو خان وغيرہ ۔
ايم اے امين صاحب
جزاک اللہ خيراٌ