ميں نے ايک فلاحی سلسلہ “چھوٹی چھوٹی باتيں” شروع کيا تھا جو اللہ کے کرم سے جاری ہے
اب اللہ کے فضل سے ميں اس کے ساتھ ہی ايک اور سلسلہ “احوالِ قوم” کے عنوان سے شروع کر رہا ہوں جو قوم کا درد رکھنے والے اللہ کے ايک معروف بندے محترم خواجہ الطاف حسین حالی [1837ء تا 1914ء] کے کلام سے ہے
ايک مثال
کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دُکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں۔ ۔ ۔ ۔ کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سُجھائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تشخیص میں سو نکا لیں خطائیں
دوا اور پر ہیز سے جی چرائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یو نہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
ہماری قوم [ہند و پاکستان کے مسلمان]
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دُور اور طوفان بَپا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس وپیش منڈلارہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چَپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں ۔ رعونت وہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ۔ ۔ نہ رَشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں۔ ۔ ۔ ۔ کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلّت سے نفرت ۔ نہ عزت کا ارماں۔ ۔ ۔ ۔ نہ دوزخ سے ترساں ۔ نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے۔ ۔کیا دینِ برحق کو بدنام انہوں نے
آپ کی بلاگ مصروف ترین بلاگز میں شمار ہوتا ہے ۔ میں نے ابھی تفصیلی سروے نہیں کیا لیکن پہلی ہی نظر میں معلوم ہوگیا کہ آپ واقعی بلاگ لکھنے میں بہت محنت کر رہے ہیں ۔ میں حیران ہوں کہ آپ کو اتنی فرصت اور وقت کہاں سے مل جاتا ہے
شائد لوگوں کو راہ راست دکھانے کا جذبہ ہے جو سامان سفر بنا ہوگا
ابھی بلاگستان میںن ئی ہوں
کبھی وقت نکال کر آپ کے بلاگ کی طرف آئوں گی ان شاء اللہ
ماريہ ناز صاحبہ
تشريف آوری کيلئے مشکور ہوں ۔ ميں نے بلاگ لکھنے کی عِلّت پالی ہی اسی لئے تھی کہ اپنے تجربات نئی نسل تک پہنچاؤں تاکہ انہيں اپنی زندگی کی راہيں استوار کرنے ميں آسانی ہو سکے اور ميری طرح ايک مسلسل جنگ کی کيفيت والی جد و جہد سے بچ سکيں
اجمل بھائ یہ کیا یاد دلادیا آپ نے –1944 کی بات ھے
میں نیا نیا وسط ہندوستان سے پنجاب آیا تھا ساتوین جماعت مین داخل ہئوا میری صاف ستھری اردو بھلا پنجابی استادوں یا لڑکوں نے پہلےکہاں سنی تھی اس لیئے سب مجھ سے اردو سننا چاہتے تھے
اب ایسا ہئوا کہ انسپیکٹر صاحب کی آمد کی اطلاع ملی تو ماسٹر صاحب نے مئجھے یہ حالی کی نظم یاد کرائ انسپیکٹر صاحب کو سنانے کے لیئے
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا۔۔۔
ابھی تک مجھے اس کے ایک دو شعر ذہن میں تھے اب مزید آپ نے تازہ کر دیئے
شکریہ