ميں نے کل يہ تحرير صبح سويرے ہی شائع کر دی ۔ بعد ميں ديکھا تو تحرير ميرے بلاگ سے غائب ہو گئی تھی مگر اُردو سيّارہ پر موجود تھی ۔ بڑی تگ و دو کے بعد دوبارہ شائع کی تو درست نہ کيا ہوا مسؤدہ شائع ہو گيا ۔ وہ نامعلوم کہاں سے آ گيا تھا ۔ اب ميں نے درست تحرير شائع کر دی ہے اور عنوان بھی درست کر ديا ہے
آج ہمارے ملک کی عمر 63 شمسی سال ہو گئی ہے اور قمری مہينوں کےحساب سے 64 سال سے تين ہفتے کم
تمام پاکستانی بزرگوں بہنوں بھائيوں بچوں اور بچيوں کو يومِ آزادی مبارک ۔ اس وقت پورے ملک کی 10 فيصد آبادی صدی کے بدترين سيلاب سے متاءثر ہو چکی ہے جن ميں ايک کروڑ صرف پنجاب ميں متاءثر ہوئے ہيں اور 40 لاکھ بچے متاءثر ہوئے ہيں ۔ بقايا 90 فيصد ہموطنوں کا فرض ہے کہ اپنے ان بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائيوں اور بچوں کی ہر طرح سے مدد کريں ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو بھی ديانتداری سے اپنے فرائض جلد از جلد پورے کرنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ آمين ثم آمين
1946ء کے بلوچستان ۔ سندھ ۔ خيبر پختونخواہ ۔ پنجاب اور بنگال کے علاوہ باقی ہندوستان سے پاکستان آئے ہوئےچند مسلمان يا اُن کی اولاد جن ميں الطاف حسين صاحب جيسے روشن خيال اور محمود مدنی صاحب جيسے مُلا بھی شامل ہيں تحريکِ پاکستان اور پاکستان کے قيام کے بارے ميں اُؤٹ پٹانگ بيانات ديتے رہتے ہيں ۔ اسلئے قارئين کی معلومات کيلئے تاريخی کُتب سے ايک مختصر ترين خاکہ رقم کر رہا ہوں
پاکستان اور بھارت میں شائع ہونے والی تاریخی کُتب کے مطابق دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ کو 90 فیصد مسلمان ووٹ ملے تھے اور اس نے 30 مسلم نشستوں میں سے 30 ہی حاصل کر لی تھیں ۔ ان میں غیر مسلم علاقے [صوبے] بھی شامل تھے ۔ کانگریس نے 62 عمومی [ہندو] نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں
مسلم لیگ کی سو فیصد کامیابی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا ۔ 1946ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو یو پی کی 66 مسلم نشستوں میں سے 54 ۔ سی پی کی 14 میں سے 13 ۔ اڑیسہ کی 4 میں سے 4 ۔ بمبئی کی 30 میں سے 30 ۔ آسام کی 34 میں سے 33 اور بہار کی 40 میں سے 34 مسلم لیگ نے حاصل کر لیں ۔ 1946ء کے انتخابات میں یو پی کے شہری علاقوں میں کانگریس کو ملنے والے مسلمان ووٹ ایک فیصد سے بھی کم تھے ۔ مسلم لیگ نے یہ انتخابات ایک ہی انتخابی نعرے پر لڑے اور وہ تھا ”پاکستان”
15 اگست 1947ء کو مولانا ظفر علی خان کا لکھا ہوا مندرجہ ذيل قومی ترانہ نشر ہوا تھا . ميری عمر اس وقت دس سال تھی ۔ مجھے پہلا مصرع اور چند اور مصرعے ياد تھے ۔ مکمل مہياء کرنے کيلئے ميں شکر گذار ہوں فرحت کيانی صاحبہ کا
توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش ۔ ۔ ۔ لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو یہ چند شعر مرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامِ محمدِ عربی پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا
معنی بشکريہ محمد وارث صاحب
ملا ۔ ظاہر ۔ واضح
خلا ۔ غائب
گٹکری ۔ وہ سریلی اور پیچ دار آواز جو کلاسیکی یا پکے راگ گانے والے اپنے حلق سے نکالتے ہیں
آپ کو بھی یومِ آزادی مبارک ہو۔ اللہ آپ کو مزید کئی یومِ آزادی دکھائے آمین
یوم آزادی مبارک۔