لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تاکہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟
بلاشُبہ قرآن شريف کا احترام کرنا چاہيئے اور اس کو پاک صاف ہو کر ہاتھ لگانا چاہيئے ليکن قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو اس پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ ۔ پڑھے لکھوں ميں بھی ايسے مسلمان ہيں جنہوں نے قرآن شريف پڑھا ہی نہيں
لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن کو اسلامی قرار دے کر اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں
کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اللہ رحمٰن و رحیم ہے انہیں بخش دے گا یا تھوڑی سی سزا کے بعد وہ جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے
کچھ مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو 14 صدیاں پرانے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں
فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو [جو قابلِ تغیّر ہیں] رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ سمجھنے کی کوشش تو کُجا قرآن کو صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں اور رَد کر دیتے ہیں
میرا سامنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جو خود تو عربی نہ جانتے ہیں اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کا استدلال ہے کہ قرآن شریف کے سب تراجم غلط ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ جب میں نے اُنہیں ایسے تراجم دکھانے کا کہا جو آپس میں مختلف ہیں تو جواب ندارد ۔ معلوم ہوا کہ کبھی قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا ہی نہیں یا قرآن شریف ہی نہیں پڑھا
کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن شریف میں تبدیلی کا عندیہ دینے والوں کو عملی یا مفید راستہ [pragmatic approach] قرار دیتے ہیں لیکن قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنا گوارہ نہیں کرتے
میں یقین رکھتا ہوں کہ قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب بھی کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا
ميں دو مواقع پر حيران و پريشان ہوا
جب ہم طربلس لبيا ميں تھے تو ايک ہموطن نے قرآن خوانی کيلئے بلايا ۔ ہمارے ايک دوست سے ان کی جان پہچان تھی وہ مجھے ساتھ لے گئے ۔ ہم کل 6 لوگ تھے جنہوں نے ايک قرآن شريف پڑھا ۔ جب ہم پڑھ چکے تر ايک ہموطن آئے اور گويا ہوئے “ميری طرف سے بھی ايک سپارہ کر ليجئے” ۔ کسی نے پوچھا ” کونسا ؟” جواب ديا “کوئی سا بھی کر ليں “۔ ہم ہکا بکا رہ گئے
ميں ملک سے باہر گيا ہوا تھا تو ايک رشتہ دار فوت ہو گئے ۔ واپس پہنچا تو معلوم ہوا ۔ ميں فاتحہ کہنے دوسرے شہر ان کے گھر گيا ۔ وہاں پہنچا توقرآن خوانی ہو رہی تھی معلوم ہوا کہ چاليسواں ہے ۔ قرآن خوانی کے بعد دعا شروع ہونے سے قبل صاحبِ خانہ نے کہا کہ اتنے قرآن شريف ختم ہوئے ہيں ۔ تعداد اتنی زيادہ بتائی کہ ميں بھونچکا رہ گيا ۔ قرآن شريف پڑھنے والے بيس بھی نہ تھے ۔ ميں نے بعد ميں پوچھا کہ” اتنی زيادہ بار قرآن شريف کس نے پڑھے ہيں ؟” جواب ملا ” وہ مسجد ميں لڑکے پڑھتے ہيں نا ۔ ان سے لے لئے ہيں”۔
اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام خرافات سے بچائے ۔ آمین
قرآن کو پڑھنا اور اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنا تو ہمارے ہاں بہت ہی خال خال دیکھنے کو ملتا ہے البتہ قرآن کا ایک اور استعمال جو مروج ہے وہ یہ ہے کہ رخصتی کے وقت اس کے نیچے سے دلہن کو گزارا جائے۔ نہ جانے اس کا کیا مقصد ہوتا ہے؟
اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین۔
قرآن کریم ہاتھ لگانے یا قرآن کریم کو دیکھ کر یعنی تلاوت ناظرہ کرنے کے لئیے پاک صاف ہونے کے ساتھ باوضو ہونا ضروری ہے۔
آپ کی بات بجا ہے۔ کو کم نصیب اپنے نادان علم اور نام نہاد دانش کے زعم میں قرآن کریم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہی لوگ زیادہ تر اسلام اور قرآن کریم کے بارے میں شکوک پھیلانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
قرآن کریم پڑھنا ، اسے سمجھنا اور اسے لاگُو کرنا یعنی اس پہ عمل کرنا اور کروانا ہی قرآن کریم کا اصل مقصد ہے
آمین
“اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام خرافات سے بچائے ۔ آمین ”
آمین ثمہ آمین
بھوپال صاحب، کیا قرآن خوانی کی رسم کی کوئی سند سنت رسول (ص) یا سنت صحابہ سے ثابت ہے؟
جاويد گوندل صاحب
ميرے علم کے مطابق قرآن شريف کے اوراق کو ہاتھ لگانے کيلئے وضو ضروری ہے البتہ ہاتھ نہ لگايا جائے يا زبانی تلاوت کی جائے تو وضو ضروری نہيں ہے ۔ ايام ماہواری کے دوران عورتوں کو رعائت ہے کہ اگر وہ قرآن شريف کی تعليم حاصل کر رہی ہوں يا تعليم دے رہی ہوں تو پاک دستانے پہن کر يا پاک کپڑا ہاتھ پر لپيٹ کر سطر پر انگلی رکھی جا سکتی ہے
محمود الحق صاحب
ميں آپ کی دعا پر صدق دل سے آمين کہتا ہون
لطف الاسلام صاحب
آپ کا سوال غير ضروری ہے ۔ جو بات ميں نے لکھی ہی نہيں وہ سوال آپ کيوں پوچھتے ہيں ؟
محترم اجمل صاحب۔
آپکی بات سو فیصد درست ہے۔
پچھلی رائے میں، میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ جن ایام میں خواتین کو مسئلہ نہیں ہوتا۔ اُن دنوں میں تلاوتِ ناظرہ یعنی سامنے رحل وغیرہ پہ پڑھے قران کریم سے دیکھ تلاوت کرنے ۔ یا ۔ اور۔ اُسے چھونے کے لئیے، خواتیں کا باوضو ہونا ضروری ہے۔ورنہ ایامِ مخصوصہ میں اللہ تعالٰی نے اُن کے لئیے سہولت رکھی ہے جو آپ نے اوپر بہتر بیان کر دی ہے۔
مردوں کے کے لئیے قرآن کریم چھونے اور اسے دیکھ پڑھنے کے لئیے وضو کی پابندی ہے۔ اور جیسا کہ آپ نے بجا فرمایا زبانی تلاوت کے لئیے یعنی حفظ کیا ہوا قرآن کریم پڑھنے کے لئیے، مردوزن کے لئیے با وضو ہونے کی شرط کی پابندی لازمی نہیں۔
حالی نے امت مرحومہ کا رقعت آمیز نوحہ پڑھ کر سب کو رنجیدہ کردیا ، شیخ الہند مفتی محمود الحسن رحمہ اللہ نے مرض کی مگر تشخیص فرمائی۔ کہا قرآن کے معنوی خزانوں سے دوری اور باہمی اختلاف زوال کا سبب ہیں۔ مفتی اعظم مفتی شفیع اور ڈاکٹر اسرار علیہ رحمہ نے مزید وضاحت کی کہ باہمی اختلاف بھی قرآن سے دوری کا ہی کا نتیجہ ہے گویا اس امت کی تباہی کا واحد سبب قرآن سے دوری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم نے کہا کہ میں قرآن اور سنت کو تمہارے بیچ چھوڑ کر جارہا ہوں اور وللہ ہم نے قرآن اور سنت کو چھوڑ دیا۔مولانا لاہوری نے شیخ الہند کے نظریہ پر درس قرآن کے عوامی جلسوں کی شمع جلائی اور ایک ڈاکڑ نے آج تک اس شمع کو بوجھنے نہ دیا۔ لیکن اکثر ہیں جو نہیں مانتے اور قرآن فہمی کے بجائے قرآن خانی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا
کتاب سے ممکن نہیں تجھ کو فراق
تو کتاب خواں ہے صاحب کتاب نہیں
کاشف نصير صاحب
آپ نے درست کہا ۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ۔ ہماری قوم جہالت کی طرف گامزن ہے مگر غلط فہمی ميں ہے کہ ترقی کر رہی ہے
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس موضوع پر ایک مختصر رسالہ “قرآن کے مسلمانوں پر حقوق” کے نام سے شائع کیا تھا اور مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اس کی تقریض لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے قرآن کریم کے حقوق کو انتہائی عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔
Quran ki ye aayt ham par kitni fit bethti hay:
يا رب ان قومي اتخذوا هذا القرآن مهجورا
roman urdu par mazirat
محمد سعيد بالن بوري صاحب
درست کہا آپ نے ۔ آپ نے تو اردو لکھنا شروع کر دی تھی پھر کيا ہوا ؟
بھوپال صاحب، آپ نے ایک واقعہ لکھا تھا، میں نے سوال پوچھ لیا۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے تو میں متفق ہوں۔ قرآن خوانی کی رسم کے متعلق سوال تھا۔ آپ برا ہی منا گئے۔
آللہ آپ سب کا بھلا کرے اچھی باتین لکھی گئ ہیں
چوںکہ حال ہی میں اس مسئلہ پر بات ہو رہی تھی اس لئے میں عرض کرنا چاہوں گا
معارف القرآن اور تفھیم القرآن دونوں میں اس پر اچھی بحث کی گئ ہے سورہ واقعہ کی آئت نمبر79 کی تفسیر میں شائقین حضرات کو دونوں سے رجوع کا مشورہ دوںگا مندرجہ ذیل مختصر عبارت میں اخذ کر کے لکھ رہا ہوں
1۔ مذاھب ادبعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید مع اس کے غلاف یعنی کور کو بغیر وضو چھونا ناجائز ہے
2۔ حائضہ کی طرح بچوں کو بغیر وضو جب وہ تلاوت سیکھ رہے ہیں جائز ہے لیکن انھین سکھانا چاہئے
3۔ اس آئت مبارکہ کو جس طرح بھی دیکھا جائے قرآن چھونے کے حکم میں لیا جائےگا چاہے آئت کو ‘خبریہ’ ہی سمجھا جائے
باقی رہا سوال قرآن خوانی کا تو آپ سب لکھ ہی چکے ہیں علامہ کا شعر درست کر کے -کاشف بھائ سے معذرت کرتے ہوئے–اور ایک اور درج کر رہا ہوں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں اور مزید
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب — گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
افتخاربھائی، آپ نےبہت ہی اچھےاندازمیں رہنمائی فرمائی ہے۔ جزاک اللہ خیر۔
دراصل ہم نےقرآن کی اصل کوسمجھاہی نہیں ہےجب تک ہم اس کوترجمہ کےساتھ نہیں پڑھیں گےتوہم کیاسمجھیں کہ قرآن ہم سےکیاچاہتاہےاسی لئےتوہرکوئي اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدبناکربیٹھاہے۔دراصل بات یہ ہےلوگوں کےلئےروزی روٹی کےلئےتوچوبیس میں سےبھی اٹھارہ بیس گھنٹےمل جاتےہیں لیکن دین کوسمجھنےکےلئےٹائم نہیں۔ اللہ تعالی ہم کودین کی صحیح سمجھ بوجھ عطاء فرمائےاورہماری حالت پراپنی نظرکرم کردے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
پندہ بيس سال پہلے تک ميرا يہی عقيدہ تھا کہ بند قرآن شريف خواہ کپڑے ميں لپٹا ہو کو ہاتھ لگانے کيلئے با وضو ہونا لازم ہے ۔ گو عملی طور پر ميں اب بھی ايسا ہی کرتا ہوں ليکن ميرے مطالعہ سے يہ بات سامنے آئی کہ اس طرح بہت سی سختياں پيدا ہوتی ہيں اور گناہ کا تاءثر پيدا ہوتا ہے ۔ ذرا غور کيجئے ۔ ايک آدمی لے کر ايک شہر سے دوسرے شہر جاتا ہے يا ايک شہر سے دوسرے شہر بھيجتا ہے ۔ اس طرح تو ہر آدمی کا ہر وقت با وضو رہنا فرض ہو جاتا ہے جو ممکن نہيں ۔ يہ الگ بات ہے کہ پرہيز گار لوگ ہر وقت با وضو رہنے کی کوشش کرتے ہين اور يہ عمل اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو پسند ہے
اجمال بھای ضرورت کے وقت میں بھی اس میں سختی نہیں برتتا اور خصوصا’ غیر اسلامی ملک میں ایسے مواقے بہت آتے ہیں
اللہ نے رمضان کا مقدس مہینہ نازل کیا جس مین قرآن مجید نازل ہوا
اللہ اس رمضان میں اس مقدس شب (شب قدر( میں ہمیں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما
اور ہماری عبادات کو شرف قبولیت عطا فرما
قرآن کے مجوزہ قوانین لاگو اور ایسے امور جن سے رک جانے کو کہا گیا ہے ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ان سے دوری عطا فرما
آمین