ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو [زیادہ تر برہمن] آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے ظاہر ہے
برہمنوں کا برتاؤ
ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا
ایک دن ایک برہمن فٹ پاتھ پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے یعنی گناہ جھڑ گئے گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا کپڑے بڑھشٹ کری گیا مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا
جموں ميں تعلیم اور سیاست
مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ميں جس سکول ميں پڑھتا تھا وہ ايک ہندو گُپتا خاندان کی ملکيت تھا اور وہی اسے چلا رہے تھے ۔ اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ 5 مسلمان اور 8 ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور 3 ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو مجھ سے 3 سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک 2 مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا
دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مُکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا ۔ خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا ۔ تفتیش کے دوران سوائے رمبیر اور کیرتی کمار کے ایک مشترکہ دوست اور ایک ہندو لڑکی کے میری جماعت کے سب لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے بے قصور بتایا
صوبہ کشمیر بشمول گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے 3 اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی ایک وجہ وہ پنڈت بھی تھے جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تک تھے جبکہ اوسطاً 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب 80 فیصد سے زائد تھا
جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا ۔ 1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں 8 سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے ۔” لے کے رہیں گے پاکستان” ۔ “بَن کے رہے گا پاکستان” ۔ “پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلا اللہ” ۔ “تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان”
مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گاکیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے دومنزلہ مکان کی چھت پر 26 فٹ اُونچے پائپ پر لگایا
یہ ہندو تو جی هیں هی بڑے برے . انپر تو جی ایٹم بم پھینکنا چاهیے ، ان کو تو ختم هی کردینا چاہیے ، انکی تو نسل هی مکا دینی چاهیے
تو پھر پاک قوم کی نفرت پر مبنی تربیت کس کے خلاف تعلیم دے کرکی جائے گی؟؟
اگر کشیمر کا مسئله حل هو گيا تو پاک فوج کی عیاشیوں کا جواز کیا هو گا؟
اور اگر کشیمر کا مسئلہ حل هوگيا تو پاکستان میں آ بیٹھے کشمیریوں کا کیا کریں گے؟
یه افغان هوں که کشمیری خود تو پاکستان میں پناھ گیر هو جاتے هیں اور دوسروں کو کہتے هیں لڑو لڑو،
خود کیوں نہیں جی لڑتے کشیمر جا کر؟
یه جتنے کشمیری پاکستان میں آ بیٹھے هیں اگر یه سارے کشیمر واپس جا کر مزاحمتی تحریک والوں کا ہاتھ بٹائیں تو کشمیر کا مسئلہ حل بھی هو جائے
لیکن جی یه پنجاب کا پانی هی ایسا هے که جو یہان آ جاتا ہے وھ خود کو عظیم سمجھتا ہے اور پرانے پنجابیوں کو کمین سمجھتا ہے
همارے بڑۓ بزرگ جن کو آرین کہتے هیں جب وھ بھی یهاں آئے تھے تو انہوں نے بھی دراوڑ لوگوں کو کمین سمجھا تھا
اور جب مسلمان آئے تو انہوں نے بھی ہندوں کو حقیر سمجھا
بٹ لوگ پہاڑوں سے اتر کرآئے تو انہوں نے هم کو حقیر جانا
اور افغان آئے تو انہوں نے همیں حقیر جاننے ميں بٹوں کو بھی شامل کرلیا کیوں که بٹ ان سے پرانے تھے
پاکستان کی تعلیم کی اساس ، نفرت کرو کا کیا کرو گے اکز ہندو ختم هو گئے تو؟؟
سر جی!!!!!-
جناب یہ بے وقت کی بانسری کی سر کچھ پسند نہیں آئی۔
میڈ ان کشمیر کی بانسری میڈ ان فلسطین کی بانسری۔
فی الحال تو اپنوں ہی کی گردنیں مارنے سے فرصت نہیں مل رہی۔
زیادہ تر اس وقت کے مسائل میڈ ان کشمیر کی بانسری کے سر کے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں۔
خاور صاحب
آپ نے بہت سے عوامل مخلط کر ديئے ہيں ۔ ميں صرف ايک کا جواب دوں گا ۔جو کشميريوں کے بارے ميں ہے ۔ جو لوگ اپنے آپ کو بٹ لکھتے ہيں وہ پاکستان بننے سے بہت پہلے کشمير سے تجارت اور دوسری وجوہات کی وجہ سے ہجرت کر گئے تھے ۔ پاکستان ميں پاکستان بننے کے بعد آنے والے کشميريوں ميں سے جوان جموں کشمير کو آزاد کرانے کيلئے جاتے تھے ۔ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے راستے ميں روڑے اٹکائے ۔ پھر بينظير بھٹو نے 500 محبِ وطن جوان مروا ديئے بھارت کو جانے آنے والے راستہ کی اطلاع کر کے ۔ اس کے بعد پرويز مشرف نے تمام راستے بند کروا ديئے اور بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کيا ۔
پاکستان ميں نفرت کرو کا بيج بونے والوں ميں غلام محمد ۔ سکندر مرزا ۔ ذوالفقار علی بھٹو پرويز مشرف وغيرہ سب شامل ہيں
ياسر صاحب
يہ بانسری بے سُری نہيں ہے ۔ کشمير ميں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا اور پاکستان ميں پانی کا تنازعہ ۔ پانی کے تنازعہ کا اصل سبب ہمارے ماضی کے تمام حکمانوں کی نااہلی ہے جنہوں نے قائد اعظم کے الفاظ ميں شہ رگ کو بھارت کے قبضے سے چھڑانے کی کوشش کی بجائے اُلٹا اس کے خلاف کام کيا ۔ ميں نے اس پر دو تحارير لکھی تھيں کہ قارئين نے پوری تاريخ لکھنے کی فرمائش کی ۔ چنانچہ اُن جوانوں کيلئے جو پچھلے چاليس سال ميں پيدا ہوئے ميں نے مختصر تاریخ دہرانا شروع کی کيونکہ ہمارے ملک ميں سچ لکھنے کا رواج نہيں اسلئے ميرا سچ لکھنا کچھ کو اچھا لگے گا اور باقيوں کو برا ۔
اپنے ملک کی حالت کے متعلق ابھی بھی لکھا ہے اور پہلے بھی بہت لکھ چکا ہوں مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا
سائیں پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ کا نعرہ واقعی اس وقت لگتا تھا؟ یا یہ مرد ناحق کی پالیسیوں کا شناخسانہ ہے؟
دوست صاحب
مجھے نہيں معلوم تھا کہ پاکستان کی موجودہ تعليم يافتہ نسل اپنے ہی ملک کی تاريخ سے واقف نہيں
حضور ۔ يہ نعرہ ميں نے بھی مارچ 1947ء ميں ساڑھے نو سال کی عمر ميں لگايا تھا جب ايک دن کالج کے لڑکے سکولوں کے نو سال تک کے بچوں کو بھی جلوس ميں لے کر گئے تھے کہ ہمارا بچہ بچہ پاکستان مانگتا ہے
ميں گاہے بگاہے ايسی ايسی باتيں ضياء الحق کے سر تھوپی ہوئی ديکھتا ہوں جس کا شايد ضياء الحق کو خود بھی نہ پتہ ہو ۔ مثال کے طور پر افغانستان ميں طالبان ضيا الحق کے مرنے کے بعد بينظير بھٹو کے وزير داخلہ جنرل نصير اللہ بابر نے بنائے تھے اور سب ضياء الحق کو کوستے ہيں
ان سے معذرت کے ساتھ جنھیں میری بات اچھی نہ لگے
سب سے پہلے اجمل صاحب آپ کے تاءثرات کے متعلق عرض ہے کہ برہمنوں کا مسلمانوں کو ملیچھ سمجھنا اور ان سے لگنے کی وجہ سے “بھرشٹ’ ہو جانا ضروری نہیں کہ ‘نفرت’ ہو ان کے مذھب کی تعلیم ہے اسی لیئے وہ مسلمانوں کو ‘اوک’ سے پانی دیتے ہیں گلاس ‘بھرشٹ نہ ہو جائے- ممکن ہے اس فعل میں ان حالات کی وجہ سےکچھ نفرت شامل ہو- بچپن میں مجھے اپنے ھندو دوست کے گھر مین کھیلتے ہوئے ان کے ‘چوکے’ یعنی باورچی خانے سے گزرنے کا اتفاق ہو جاتا تھا تو اس کی ماں مجھے تو کچھ نہیں کہتی تھی مگر بعد میں ‘چوکے’ کی صفائی اور لیپا پوتی کرتی تھی
مجھے حیرانی ہوئی سن کر کہ نئی نسل “پاکستان کا مطلب کیا” والا نعرہ بعد کی اختراع سمجھتی ہے مگر یہ نعرہ سن چھیالیس سے سنتا آ رہا ہوں اور اجمل صاحب کی طرح خود بھی لگایا ہے
“کشمیر” کے لئے کشمیریوں کو خود جا کر لڑنا چاہئے اچھا نہین لگا۔ میرے آباو اجداد کشمیر سے پنجاب آئے تھے ( اتفاق ہے کچھ میرےبڑے ‘بٹ’ لکھتے ہیں( میرے’خاندان’ میں سے ابھی تک “لڑتے’ رہے ہیں میری بہن کا پوتا ابھی تین سال پہلے 24 سال کی عمر میں شہید ہواہے – مگر پنجابی اور پٹھان بھی کشمیریوں کے لئے شہید ہوتے رہے ہیں اوت یہ ہم سب کا فرض برابر ہے گو میں بھی ‘کشمیریوں پر تنقید کرتا ہوں کہ انھوں نےشروع میں اتنا زور نہیں لگایا اور ان کی لیڈرشپ نے سیاسی غلطیاں کی ہیں مگر مسلم لیگی لیڈروں نے بھی اچھی سیاست نہیں کھیلی افسوس ہے کہ ان دنوں مسلمانوں میں دور رس نگاہیں رکھنے والے لیڈر بہت کم تھے اور ہندوستان کی غیر مسلم لیڈرشپ زیا دہ سمجھ بوجھ بھی رکھتی تھی اور اسے انگریز کی سر پرستی بھی حاصل تھی اس کے باوجود بیمار اور نحیف محمد علی جناح نےتقریبا” اکیلے ہی پاکستان بنوایا ممکن ہے میں نے اگزیجریشن سے کام لیا ہو- وہ واحد شخص تھا جو ان سب کی چالیں سمجھتا تھا
میں اسی وجھ سے اجمل بھائی کی تاریخ نویسی کی کاوشوں کو بہت سراہتا ہوں
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » جموں ميں ہندو ۔ برہمن ۔ تعليم اور سياست -- Topsy.com