بَوجھل دِل بَرَستی آنکھوں کے ساتھ

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

اے دعا وہاں عرض کر عرشِ الٰہی تھام کے
اے خدا اب پھير دے رُخ گردشِ ايام کے

ڈھونڈتے ہيں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہں زخمِ دِل فرياد مرہم کے لئے

اے مددگارِ غريباں ۔ اے پناہِ بے کساں
اے نصيرِ عاجزاں ۔ اے مايہءِ بے مائيگاں

رحم کر تو نہ اپنے آئينِ کرم کو بھُول جا
ہم تُجھے بھُولے ہيں ليکن تُو نہ ہم کو بھُول جا

خلق کے راندے ہوئے دنيا کے ٹھُکرائے ہوئے
آئے ہيں آج دَر پہ تيرے ہاتھ پھيلائے ہوئے

خوار ہيں بدکار ہيں ڈُوبے ہوئے ذلّت ميں ہيں
کچھ بھی ہے ليکن تيرے محبوب کی اُمت ميں ہيں

حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہيں
طعنہ ديں گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہيں

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “بَوجھل دِل بَرَستی آنکھوں کے ساتھ

  1. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد اسد صاحب
    شاعر کا نام مجھے ياد نہيں ۔ پاکستان بننے کے بعد جب ہم ہجرت کر کے آئے تو اسلاميہ مڈل سکول سرکولر روڈ راولپنڈی جو اب ہائی سکول ہے ميں صبح يہ نظم دعا کے طور پر پڑھائی جاتی تھی ۔ اللہ کے فضل سے اب تک ياد ہے ۔ ميں 1950ء ميں اس سکول سے مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال چلا گيا تھا

  2. شاہدہ اکرم

    مُحترم اجمل انکل جی
    السلامُ علیکُم
    اُمید ہے آپ بخیر ہوں گے،،،یہ نظم جیسے ہی پڑھی ہر ایک مِصرعے کے بعد اگلا مِصرعہ یاد آتا گیا ابُو چھوٹی چھوٹی نظمیں یاد کروانے کے لِئے پڑھا کرتے تھے اور ہم مطلب اور معنی سمجھے بغیر لہک لہک کر ساتھ ہوتے تھے آج اِتنے عرصے بعد دوبارہ اِن حالات میں پڑھی تو ایسا لگا کہ کیسے اِتنا وقت پہلے بھی حالات کی بہتری کے لِئے اِتنی پیاری دُعائیں لِکھی گئیں اللہ تعالیٰ ہماری دُعاؤں کو قبُولیت کا درجہ عطا کرے،،،آمین
    میرے خیال میں یہ نظم آغا حشر کاشمیری کی ہے یا حفیظ جالندھری کی،،،لیکِن زیادہ اِمکان یہ لگتا ہے کہ آغا حشر کاشمیری ہیں،،،

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ و عليکم السلام و رحمت اللہ
    يہ نظم آغا حشر کشميری صاحب کی ہی ہے ۔ ميں نے بعد ميں ايک اور تحرير ميں لکھ ديا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.