آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دعا وہاں عرض کر عرشِ الٰہی تھام کے
اے خدا اب پھير دے رُخ گردشِ ايام کے
ڈھونڈتے ہيں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہں زخمِ دِل فرياد مرہم کے لئے
اے مددگارِ غريباں ۔ اے پناہِ بے کساں
اے نصيرِ عاجزاں ۔ اے مايہءِ بے مائيگاں
رحم کر تو نہ اپنے آئينِ کرم کو بھُول جا
ہم تُجھے بھُولے ہيں ليکن تُو نہ ہم کو بھُول جا
خلق کے راندے ہوئے دنيا کے ٹھُکرائے ہوئے
آئے ہيں آج دَر پہ تيرے ہاتھ پھيلائے ہوئے
خوار ہيں بدکار ہيں ڈُوبے ہوئے ذلّت ميں ہيں
کچھ بھی ہے ليکن تيرے محبوب کی اُمت ميں ہيں
حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہيں
طعنہ ديں گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہيں
اس خوبصورت نظم کے شاعر کون ہیں؟
محمد اسد صاحب
شاعر کا نام مجھے ياد نہيں ۔ پاکستان بننے کے بعد جب ہم ہجرت کر کے آئے تو اسلاميہ مڈل سکول سرکولر روڈ راولپنڈی جو اب ہائی سکول ہے ميں صبح يہ نظم دعا کے طور پر پڑھائی جاتی تھی ۔ اللہ کے فضل سے اب تک ياد ہے ۔ ميں 1950ء ميں اس سکول سے مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال چلا گيا تھا
بہت خوبصورت نظم ہے
مُحترم اجمل انکل جی
السلامُ علیکُم
اُمید ہے آپ بخیر ہوں گے،،،یہ نظم جیسے ہی پڑھی ہر ایک مِصرعے کے بعد اگلا مِصرعہ یاد آتا گیا ابُو چھوٹی چھوٹی نظمیں یاد کروانے کے لِئے پڑھا کرتے تھے اور ہم مطلب اور معنی سمجھے بغیر لہک لہک کر ساتھ ہوتے تھے آج اِتنے عرصے بعد دوبارہ اِن حالات میں پڑھی تو ایسا لگا کہ کیسے اِتنا وقت پہلے بھی حالات کی بہتری کے لِئے اِتنی پیاری دُعائیں لِکھی گئیں اللہ تعالیٰ ہماری دُعاؤں کو قبُولیت کا درجہ عطا کرے،،،آمین
میرے خیال میں یہ نظم آغا حشر کاشمیری کی ہے یا حفیظ جالندھری کی،،،لیکِن زیادہ اِمکان یہ لگتا ہے کہ آغا حشر کاشمیری ہیں،،،
شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ و عليکم السلام و رحمت اللہ
يہ نظم آغا حشر کشميری صاحب کی ہی ہے ۔ ميں نے بعد ميں ايک اور تحرير ميں لکھ ديا ہے