ميں نے دعا لکھی
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
محمد اسد صاحب نے دريافت کيا کہ ” اس خوبصورت نظم کا لکھنے والا کون ہے؟” بات يہ تھی کہ نظم ميں نے زبانی لکھی تھی کيونکہ بچپن سے مجھے ياد ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے بزرگ کچھ شہيد ہوئے کچھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ۔ ميں ۔ مجھ سے بڑی دو بہنيں اور تين ہمارے رشتہ دار بچے اپنے بزرگوں سے عليحدہ ہو گئے تھے اور پيچھے رہ گئے تھے ۔ ہم دسمبر 1947ء کے آخر ميں پاکستان پہنچے ۔ سيالکوٹ ميں کچھ ماہ قيام کے بعد راولپنڈی ميں قيام کيا ۔ جہاں مجھے اسلاميہ مڈل سکول ۔ سرکولر روڈ ميں داخل کرا ديا گيا ۔ يہ اب اسلاميہ ہائی سکول ہے ۔ اس سکول ميں ہم سب طُلباء صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل يہ دعا پڑھا کرتے تھے ۔ ميں نے يہ دعا سال بھر پڑھی پھر مسلم ہائی سکول چلا گيا
محمد اسد صاحب کی فرمائش نے مجھے شرمندہ کيا کہ جو دعا مجھے 60 سال بعد بھی ياد ہے اس کے مصنف کا نام معلوم نہيں ۔ ميں جب کسی قسم کی علمی پريشانی ميں مبتلا ہوتا ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری مدد فرماتا ہے اور ميرے ذہن کو تيز کر ديتا ہے ۔ گھنٹہ بھر ميرا ذہن چلتا رہا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی خلل واقع نہ ہوا اور ميں مُسلم قوم کے اس خادم تک پہنچ گيا
يہ دعا آغا محمد شاہ حشر المعروف آغا حشر کاشميری صاحب نے لکھی تھی ۔ آغا حشر کاشميری صاحب يکم اپريل 1879ء کو بنارس ۔ ہندوستان ميں پيدا ہوئے ليکن رہنے والے جموں کشمير کے تھے ۔ مشرقی تہذيب کے دلدادہ اور قومی آزادی کا جذبہ رکھتے تھے ۔ يہ دعائيہ نظم اُنہوں نے پہلی بار لاہور ميں انجمن حمائتِ اسلام کے جلسہ ميں پڑھی تھی
کوئی صاحب يا صاحبہ زيادہ جانتے ہوں تو مطلع فرمائيں ۔ مشکور ہوں گا
بہت مشہور ہے خصوصا’ کچھ اشعار- بہت اچھا کیا شاعر کا نام نکال لیا واقعی یہ زبان زد عام تھی اس زمانے میں
ان میں سے ایک شعر ہمارے امام مسجد اپنی نماز کے بعد والی دعا میں پڑھا کرتے تھے
خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہین لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں
امام وہاب دین ہمارے گائوں کی مسجد کے امام تھے پارٹیشن سے پہلے- ایک اور شعر بھی ان کی دعا کا لکھوں
خدایا بحق محمد رسول— دعا مجھ گنہگار کی کر’ توں’ قبول ” یہ پینجابی ایڈیشن ان کی خصوصیت تھی”
اور یہ بھی
خدایا بحق بنی فاطمہ- کہ بر قول ایماں کنی خاتمہ
اللہ انہیں غریق رحمت کرے
اجمل صاحب یہ امر تو خود میرے لیے باعث شرمندگی ٹہرا کہ اتنی پرانی اور عمدہ نظم پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
محمد اسد صاحب
اس ميں آپ کا کوئی قصور نہيں ۔ ايک شخص قائدِ عوام کے نام سے مطلق العنان حکمران بنا تھا اُس نے تمام تعليمی نصابوں سے علامہ اقبال ۔ الطاف حسين حالی آغا حشر کاشميری اور ان جيسے قوم سدھار شعراء اور مصنفين کی نظميں اور مضامين نکلوا کر بے دين لوگوں کی لغويات ڈلوا دی تھيں ۔ دہريئے فيض احمد فيض ن جو نظميں جيل ميں اپنی يورپی بيوی کے فراق ميں لکھی تھيں اُنہيں قومی قرار ديا گيا ۔