Monthly Archives: July 2010

تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور آغاز

تاريخی پس منظر
پرانی کہانیوں کے مطابق جموں کشمیر اشوک موریہ کے زیر انتظام بھی رہا ۔ اشوک موریہ کا دور حکومت 273 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک تھا ۔ اس کے بعد 2 قبل مسیح تک 234 سال کا کچھ پتا نہیں پھر کشان 2 قبل مسیح سے 7 عیسوی تک حکمران رہا ۔ اس کے بعد کرکوٹا کا عہد آیا ۔ انہیں 855 عیسوی میں اوتپلاس نے نکال دیا ۔ ان کے بعد تنترین ۔ یسکارا اور گپتا 1003ء تک ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے ۔ پھر لوہارا 1346ء تک جموں کشمیر میں رہے ۔ یہ صحیح طرح معلوم نہیں کہ ان سب کے زیر اثر کتنا علاقہ تھا

سال 1346ء میں شمس الدین التمش (یا تتمش) نے جموں کشمیر کو فتح کیا اور یہاں مسلم ریاست کی بنیاد رکھی ۔ اس سلطنت میں گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ بھی شامل تھے ۔ 1586ء میں شہنشاہ مغلیہ جلال الدین اکبر نے جموں کشمیر کو سلطنت مغلیہ میں شامل کر لیا ۔ اس وقت جموں کشمیر کے 80 فیصد کے لگ بھگ لوگ مسلمان تھے ۔ سال 1757ء میں احمد شاہ درّانی نے جموں کشمیر کو فتح کر کے افغانستان میں شامل کر لیا ۔ مگر مرکز سے دور ہونے کی وجہ سےجموں کشمیر میں آہستہ آہستہ انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا چنانچہ پونے پانچ سو سال مسلمانوں کی حکومت رہنے کے بعد 1819ء میں رنجیت سنگھ نے جموں کشمیر کو فتح کر کے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا

جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی

حکوت بنانے کے بعد سکھ حکمرانوں نے مسلمانوں پر ناجائز ٹیکس لگائے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر میں آزادی کی پہلی تحریک نے جنم لیا ۔ یہ تحریک 1832ء میں شروع ہوئی اور سکھ حکومت کے جبر و استبداد کے باوجود 1846ء تک جاری رہی جب انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر ان کی سلطنت پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں نے باقی علاقہ تو اپنے پاس رکھا مگر جموں کشمیر کو 75 لاکھ یعنی ساڑھے سات ملین نانک شاہی سکوں کے عوض اپنے خاص خیرخواہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا اور اسے جموں کشمیر کا خودمختار مہاراجہ بھی تسلیم کر لیا ۔ اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے آزادی کی دوسری تحریک شروع کی جس کو کُچلنے کے لئے گلاب سنگھ نے انگریزوں سے مدد مانگی اور اس تحریک کو سختی سے دبا دیا گیا

لدّاخ نہ تو سکھوں کی حکومت میں شامل تھا اور نہ انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا ۔ گلاب سنگھ نے لشکر کشی کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ 1857ء میں گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد رنبیرسنگھ نے 1885ء تک حکومت کی ۔ اس کے بعد پرتاب سنگھ 1925ء تک حکمران رہا اور ہری سنگھ 1949 تک ۔

ڈوگرہ مہاراجوں کا دور جابرانہ اور ظالمانہ تھا ۔ مسلمانوں کو نہ تحریر و تقریر کی آزادی تھی نہ دِینی اور سماجی سرگرمیوں کی ۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے تو اِنتہا کر دی ۔ لاؤڈ سپیکر پر اذان اور جمعہ اور عیدین کے خطبہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ اس پر پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ بزرگوں نے جوان قیادت کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ۔ اتفاق رائے کے ساتھ جموں سے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان (ہمارے خاندان سے) ۔ شیخ حمید اللہ وغیرہ اور کشمیر سے شیخ محمد عبداللہ ۔ یوسف شاہ (موجودہ میر واعظ عمر فارو‍ق کے دادا) ۔ غلام نبی گُلکار وغیرہ کو چنا گیا ۔ 26 جون 1931ء کو سرینگر کی مسجد شاہ ہمدان میں جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں پچاس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی ۔ جب لیڈر حضرات آپس میں مشورہ کر رہے تھے تو ایک شخص جسے کوئی نہیں پہچانتا تھا نے اچانک سٹیج پر چڑھ کر بڑی ولولہ انگیز تقریر شروع‏ کر دی ۔اور آخر میں کہا “مسلمانوں اِشتہاروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اُٹھو اور مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو” ۔ اس شخص کا نام عبدالقدیر تھا وہ امروہہ کا رہنے والا تھا جو یوپی ہندوستان میں واقع ہے اور ایک انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا ہوا تھا ۔ اُسے گرفتار کر لیا گیا

عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ کی سماعت 13 جولائی 1931 کو سرینگر سینٹرل جیل میں ہو رہی تھی ۔ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ باہر سے آیا ہوا ہمارا مسلمان بھائی ہماری وجہ سے گرفتار ہوا ہے ۔ 7000 کے قریب مسلمان جیل کے باہر جمع ہوگئے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں مقدمہ کی کاروائی دیکھنے دی جائے ۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر تکرار ہو گئی اور ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ کے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا ۔ 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ شہید ہونے والے ایک شخص نے یہ آخری الفاظ شیخ عبداللہ سے کہے “ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں”۔ اسی شام جموں کے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان ۔ مولوی عبدالرحیم اور شیخ یعقوب علی اور کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گُلکار کو گرفتار کر لیا گیا

اس پر غلامی کا طوق جھٹک دینے کے لئے جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء 1938ء 1939ء اور شروع 1947ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر جیتی

گوگل ضربوں کے اعداد و شمار ناقابلِ اعتبار

“فوکس نيوز کا گوگل کے حوالے سے الزام کہ ننگی سائٹس [porn sites] ديکھنے کے لحاظ سے پاکستان اوّل نمبر پر ہے غلط اعداد و شمار پر مرتب اور بے بنياد ہے” پاکستان انٹرنيٹ پرو وائڈرز ايسوسی ايشن کے ترجمان وہاج السراج صاحب کا بيان ۔ وھاج السراج صاحب مائکرونيٹ اور نيا ٹَیل کے چيف ايگزيٹِو ہيں [C E O, Micronet Broadband and Nayatel]

وھاج السراج صاحب نے مثالوں اور اعداد و شمار کے ساتھ متذکرہ الزام کو غلط ثابت کيا ہے ۔ تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھيئے

لاہور ميں ايک سال

ہم 18 جولائی 2009ء کو لاہور منتقل ہوئے تھے سو ہميں لاہور ميں رہائش اختيار کئے ايک سال ہو گياہے ۔ اس ميں کيا تجربات ہوئے ۔ لاہور کو اور لاہوريوں کو کيسا پايا ؟ لکھنے کا حق بنتا ہے ۔ لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہونے کے علاوہ بہت پرانا ثقافتی مرکز ہے اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ کہتے ہيں کہ جو تحريک لاہور سے اُٹھے يا جس تحريک ميں لاہور شامل ہو جائے وہ کامياب ہوتی ہے ۔ ميرا اپنا آدھی صدی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ يہ دعوٰی قرينِ قياس ہے

مجھے پچھلے ايک سال کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ يہاں صرف پنجابی نہيں رہتے بلکہ دوسرے صوبوں کے بھی بہت سے لوگ رہتے ہيں اور خاص کر کراچی والوں نے يہاں کئی کاروبار سنبھال رکھے ہيں ۔ اُن سب کا پکا ڈيرہ اپنے صوبوں اور شہروں ميں ہی ہے جہاں کا چکر وہ گاہے بگاہے لگاتے رہتے ہيں ۔ لاہور کے مضافات ميں ايک لياقت آباد بھی ہے اور بہاری کالونی بھی جہاں کے باسی زيادہ تر بہار اور يو پی يا سی پی يا کراچی سے آئے ہوئے لوگ ہيں

لاہور ميں جون کی گرمی ميں نے آدھی صدی بعد ديکھی يعنی کالج کے زمانہ کے بعد ۔ لاہور ميں زيادہ رونق مغرب کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ اتنی گرمی ميں جبکہ درجہ حرارت 45 سے 47 درجے سيلسيئس تک پہنچ گيا تھا لاہور کی رونقوں ميں کوئی خاص کمی نہيں ہوئی

لاہور ميں عام طور پر لوگ مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ مثال کے طور پر ميں شروع شروع ميں گھر کا کچھ سامان خريدنے نکلا ۔ کسی نے کہا “فلاں مارکيٹ چلے جاؤ” وہاں گيا گاڑی پارک کی ۔ اِدھر اُدھر ديکھا مگر ميرے مطلب کی دکان نظر نہ آئی ۔ ايک دکاندار سے پوچھا ۔ وہ اپنی دکان سے نکلا کچھ قدم ميرے ساتھ چلا اور پھر کہا “وہ بنک کا بورڈ نظر آ رہا ہے نا ۔ اس کے ساتھ دوسری طرف ايسی تين چار دکانيں ہيں وہاں سے سب کچھ مل جائے گا”۔ ايسا بعد ميں متعدد بار ہوا ۔ جسے معلوم نہ ہو وہ کسی اور سے معلوم کر ديتا ۔ اسلام آباد ۔ راولپنڈی اور کراچی ميں اول تو کوئی بات سننے کو تيار نہيں ہوتا اور اگر سن لے تو عام طور پر اُلٹا راستہ بتا ديتے ہيں

لاہور ميں کھانے جيسا چاہيں کھا سکتے ہيں اور اپنی جيب کے مطابق ۔ کھانا اچھا پکا ہوتا ہے ۔ يہ کوئی نئی بات نہيں آدھی صدی قبل جب ميں لاہور ميں پڑھتا تھا تب بھی يہی صورتِ حال تھی

لاہور کے عام لوگ اچھی طرح پيش آتے ہيں ۔ جب کوئی چيز نہ ملے تو اول دکاندار خود ہی کہہ ديتا ہے کہ فلاں جگہ سے مل جائے گی يا آپ پوچھيں تو بتا دے گا کہ فلاں جگہ سے مل جائے گی ۔ راولپنڈی ۔ اسلام آباد اور کراچی کا ميرا تجربہ ہے کہ دکاندار کے اپنے پاس جو چيز نہ ہو کہہ دے گا کہ کہيں بھی نہيں ملے گی

چوراہے پر بتی سبز ہو جانے کے بعد گاڑياں چلنے ميں ضرورت سے زيادہ وقت لگتا تھا ۔ شروع ميں مجھے سمجھ نہ آئی کہ معاملہ کيا ہے ۔ کئی ماہ بعد پتہ چلا کہ لوگ پٹرول يا گيس بچانے کيلئے انجن بند کر ديتے ہيں اور جب بتی سبز ہوتی ہے تو گاڑی سٹارٹ کرتے ہيں اور کبھی کبھی گاڑی سٹارٹ نہيں ہوتی اور بتی پھر سُرخ ہو جاتی ہے

جب سڑک پر گاڑيوں کی بھيڑ ہو تو ہر گاڑی والا آگے نکالنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ليکن جونہی کھُلی سڑک ملے مزے سے 40 کلو ميٹر کی رفتار سے گاڑی چلاتےجا رہے ہوتے ہيں پيچھے چاہے کوئی دفتر يا ہسپتال پہنچنے کيلئے پريشان ہو

پيدل سڑک پار کرنا ہو تو مجال ہے کوئی گاڑی والا سڑک پار کرنے دے

بڑی گاڑيوں والے يا بڑے لوگوں کے نوجوان بيٹے بيٹياں سڑکوں پر گاڑياں چلاتے ہوئے باقی لوگوں کو کيڑے مکوڑے سمجھتے ہيں ۔ ايسا شايد سارے مُلک ميں ہے

وزيرِ اعلی کی سواری ہمارے قريب والی سڑک ڈی ايچ اے مين بليوارڈ سے گذرا کرتی ہے جس کيلئے 5 سے 15 منٹ تک مين بليوارڈ ميں داخل ہونے سے رکنا پڑتا ہے ۔ اسلام آباد ميں گھنٹوں کے حساب سے رُکنا پڑتا تھا

سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ميں موٹر سائيکلوں اور ويگنوں کے علاوہ دو قسم کی گاڑيوں سے بہت ڈرتا ہوں کيونکہ کچھ معلوم نہيں ہوتا کہ کب وہ کس طرف مڑ جائے ۔ اچانک بريک لگائے يا گھسڑم گھساڑ کرتے ہوئے ميری گاڑی کو مار دے
ايک ۔ جسے عورت چلا رہی ہو
دو ۔ جس کا رجسٹريشن نمبر سندھ کا ہو

حلالہ کی اصليت

عرفان احمد شفقت صاحب نے ايک واقعہ حلالہ کی کوشش کا لکھا جو پہلی قسط يہاں اور دوسری قسط يہاں ديکھی جا سکتی ہے ۔ ميں نے پہلی قسط پر مختصر تبصرہ کيا تھا جو بقول عرفان احمد شفقت صاحب تحرير کے ساتھ ہی غائب ہو گيا تھا ۔ ميں سوچا کہ اس کی کچھ تفصيل کتاب و سُنت کے مطابق نقل کر دی جائے

حلالہ نام ديا گيا ہے کسی چیز کو شرع ميں جائز بنا لینے يا حلال بنا لینے کو

قرآن شريف کے نزول سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے عقد کرکے طلاق نہ پاتی پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی پھر اسے اپنی خواہش کا آلہ کار اس طرح بنا ليا گيا کہ جب کوئی خاوند اپنی بيوی کو طلاق دے بيٹھتا تو کسی مرد کو معاوضہ دے کر اپنی مطلقہ سے نکاح کر کے ايک رات گذرنے کے بعد طلاق کا سودا کر ليتا

اللہ سبحانہ و تعالٰی كا سورت 2 البقرہ آيت 230 ميں فرمان ہے
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اسکو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاويں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے

اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو چنانچہ وقتی يعنی كچھ مدت كے لئے نكاح يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے لئے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا دونوں حرام اور باطل ہيں ۔ عام اہل علم كا يہی قول ہے، اور ان دونوں طريقوں سے عورت اپنے پہلے خاوند كے لئے حلال نہيں ہو گی

حلالہ كی ممانعت نبی كريم صلی اللہ عليہ وآلہ سلم كی صحيح احاديث سے ثابت ہے
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابو داود حديث نمبر 2076

اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروى ہے كہ نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتاً لئے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالٰی كے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم آپ ضرور بتائيں
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم نے فرمايا:
” وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1936

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے كہ انہوں نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:
” اللہ كی قسم ميرے پاس جو حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والا لايا گيا ميں اسے رجم كر دونگا ”
مصنف عبدالرزاق ( 6 / 265 )

امام حاكم رحمہ اللہ نے نافع سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا:
ايك عورت سے نكاح اس ليے كيا كہ اسے پہلے خاوند كے ليے حلال كروں نہ تو اس نے مجھے حكم ديا اور نہ وہ جانتا ہے، تو ابن عمر كہنے لگے:
“نہيں ۔ نكاح تو رغبت كے ساتھ ہے ۔ اگر وہ تو تجھے اچھی لگے اور پسند ہو تو اسے ركھو اور اگر اسے ناپسند كرو تو اس كو چھوڑ دو
وہ بيان كرتے ہيں: “ہم تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم كے دور ميں اسے زنا شمار كرتے تھے.

اور امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
“ايك شخص نے كسی عورت سے شادى كی اور اس كے دل ميں تھا كہ وہ اس عورت كو اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كريگا، اور اس كا عورت كو علم نہ تھا ؟”
تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب ديا:
“يہ حلالہ كرنے والا ہے، جب وہ اس سے حلالہ كا ارادہ ركھے تو وہ ملعون ہے”

واللہ اعلم.

بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل و غارت جاری

دوشيزہ سميت مزيد 4 کشميری جاں بحق
وادی میں فورسز کے ہاتھوں ایک خاتون اور طالب علم سمیت چار نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔ شہر سرینگر سمیت وادی بھر میں منگل کو اس وقت پھر تشدد کی لہر بھڑک اٹھی جب سرینگر کی نواحی بستی ٹینگہ پورہ میں فورسز کے ہاتھوں مبینہ طور گیارہویں جماعت کے ایک طالب علم کو فورسز نے زیر حراست جاں بحق کردیا۔ زبردست احتجاج کے دوران اندھا دھند فائرنگ سے
ایک جواں سال دوشیزہ سمیت 4 نوجوان جاں بحق ہو گئے ۔ انتظامیہ نے حالات پر قابو پانے کیلئے ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا ہے اور دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ محض 18گھنٹوں کے وقفے میں 4افراد کی ہلاکت کے خلاف وادی کے طول و ارض میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور وادی کے تقریباً سبھی علاقوں میں لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے جبکہ سرینگر میں جاں بحق افراد کی لاشوں کو لیکر جلوس نکالے گئے جنہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس اور فورسز نے ایک مرتبہ پھر طاقت کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہوئے زور دار ٹیر گیس شیلنگ کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں سو سے زائدافراد زخمی ہوگئے جن میں سے متعدد افراد کو گولیا ں لگی ہیں جبکہ کئی ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

کيا ہم بہتری چاہتے ہيں ؟

اگر اپنے ہموطنوں سے پوچھاجائے ” کيا آپ بہتری چاہتے ہيں ؟”
تو 100 فيصد جواب ” ہاں” ميں ملے گا
پھر کہا جائے ” اس کيلئے کوشش کريں گے ؟”
تو جواب ماٹھا سا ہو گا ۔ بہت کم ہوں گے جو اس کيلئے کوشش کريں گے ۔ ميں اس سلسلہ ميں درجنوں واقعات سے گذر چکا ہوں جن ميں سے صرف 3 تازہ اور ايک پرانا يہاں لکھ رہا ہوں

ہم جولائی 2009ء ميں لاہور آئے تو ہماری رہائشگاہ کی بجلی جلتی بجھتی تھی ۔ محلے والوں سے پوچھا کہ ” بجلی کی شکائت کا دفتر کہاں ہے ؟” تو جواب ملا ” کوئی فائدہ نہيں جی ۔ يہاں کوئی نہيں پوچھتا ۔ اليکٹريشن کو بلا کر خود ہی درست کروا ليں”۔ اليکٹريشن کو بلايا ۔ سارے گھر کی چيکنگ اس نے کی اور پيسے لے کر کہنے لگا “خرابی گھر سے باہر ہے ۔ بجلی کمپنی والا آ کے ٹھيک کرے گا”۔ محلے ميں کسی کو معلوم نہ تھا کہ شکائت کا دفتر کہاں ہے ۔ ميں نکلا اور بڑی سڑک پر جا کر پوچھنا شروع کيا آخر ايک نوجوان نے مجھے ان کے دفتر کا پتہ بتايا ۔ ميں نے وہاں پہنچ کر شکائت درج کرائی ۔ اُسی دن آدمی آيا اور درست کر کے چلا گيا

سرديوں کا موسم آيا تو گيس کا پريشر بہت کم ہو گيا ۔ اس بار ميں نے محلہ والوں سے بات کرنے کی بجائے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھ کر شکائت درج کرائی ۔ اُنہوں نے کہا ” آدمی 48 گھنٹے کے اندر آئے گا”۔ ليکن آدمی 24 گھنٹے سے بھی پہلے اتوار کے دن آ گيا اور ٹھيک کر گيا ۔ دوسرے دن ايک محلے دار کا ٹيليفون آيا کہ “ہماری گيس بھی ٹھيک کروا ديں”۔ ميں نے اُن سے کہا ” اپنے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھيئے اور شکائت درج کروا ديجئے”۔ مگر انہوں نے کچھ نہ کيا

مئی جون 2010ء ميں سيور لائين بھری رہتی تھی اور گھر کے اندر تک يہی صورتِ حال ہوتی تھی جس کی وجہ سے غسلخانہ ميں بدبُو آتی تھی ۔ ميں مقامی متعلقہ اہلکار کو بار بار کہتا رہا مگر کوئی فائدہ نہيں ہو رہا تھا پھر ميں نے اپنی گلی کے رہائشيوں سے رابطہ کيا ۔ انہوں نے بھی اس وجہ سے پريشانی ظاہر کی ۔ ميں نے اُن سے درخواست کی کہ ” آپ بھی متعلقہ اہلکار پر زور ڈالئے”۔ سب نے ہاں کہا مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ 10 دن انتظار کے بعد ميں نے کالونی کے ہيڈ آفس کا ٹيليفون نمبر معلوم کيا اور وہاں رابطہ شروع کيا ۔ ہوتے ہوتے پتہ چل گيا کہ ہماری کالونی کے انچارج کون ہيں ۔ وہ زيادہ تر دفتر سے باہر ہی رہتے تھے ۔ آخر دفتر والوں نے ان کا موبائل فون نمبر ديا ۔ اُن سے رابطہ ہوا تو ساری بات بتائی ۔ اُسی دن یعنی 25 جون 2010ء کو صفائی ہو گئی اور اب تک سيور لائين ميں پانی کھڑا نہيں ہوا

ايک واقعہ پرانا ہے ۔ ہم 7 انجنيئرز کو 1976ء ميں ملک سے باہر بھيجا گيا ۔ تنخواہ ميزبان ملک نے دينا تھی ۔ تنخواہ ملنے پر معلوم ہوا کہ 20 فيصد ہماری حکومت نے کاٹ ليا ہے ۔ يہ پاکستان کے قانون کے خلاف تھا ۔ ميں نے باقی 6 ساتھيوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور منت کی کہ سب پاکستان ميں اپنے ادارے کو لکھيں کہ يہ پيسے نہ کاٹے جائيں مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ صرف ميں نے لکھ کر بھيج ديا ۔ ميں 1979ء کے آخر ميں پاکستان آيا تو اپنے ادارے سے معلوم ہوا کہ ميری درخواست پر کوئی کاروائی اسلئے نہيں کی گئی کہ ميرے 2 ساتھيوں نے لکھ کر بھيج ديا تھا کہ “ہميں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے”۔ خاصی تگ و دو کے بعد 1980ء ميں کاروائی شروع ہوئی ۔ 1983ء ميں جب ہم ملک ميں واپس آئے تو کيس چل رہا تھا مگر فيصلہ نہيں ہوا تھا ۔ منسٹری نے کچھ معلومات چاہئيں تھیں اور ايک اعتراض بھی تھا کہ 7 آدميوں ميں سے صرف ايک کی درخواست آئی باقی کيا کہتے ہيں ۔ ميں نے پھر سب کی منت کی کہ “اب ہی درخواست لکھ ديں ۔ کاروائی شروع ہو چکی ہے ۔ اِن شاء اللہ يہ کٹی ہوئی رقم واپس مل جائے گی”۔ صرف دو ساتھيوں نے لکھ کر ديا ۔ ہمارے ادارے نے لکھ بھيجا کہ 3 درخواستيں تحريری طور پر آئی ہيں باقی 4 زبانی بار بار درخواست کر چکے ہيں ۔ خير کيس چلتا رہا ۔ آخر 1990ء ميں نوٹيفيکيشن جاری کر ديا گيا ۔ اس وقت تک 4 ساتھی ريٹائر ہو چکے تھے ۔ جو موجود تھے اُنہوں نے خود رقم وصول کر لی ۔ باقيوں کو بنک ڈرافٹ کے ذريعہ رقميں بھجوا دی گئيں جو 70000سے 90000 روپے تک فی شخص تھيں

جن 2 ساتھيوں نے لکھ کر ديا تھا کہ اُنہيں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے اُن ميں سے ايک لاہور ميں تھے ۔ رقم ملنے کے بعد اُنہيں جو بھی ميرے ملنے والا ملا اُس سے کہا “اجمل ميرے پيسے کھا گيا ہے پورے نہيں بھيجے” ۔ ميرے ہاتھ ميں تو پيسے آئے ہی نہ تھے ۔ اکاؤنٹ آفيسر کہتا تھا کہ خود آ کر ليں ۔ ميرے منت کرنے پر بنک ڈرافٹ کی فيس اور رجسٹری کا خرچ کاٹ کر اُنہوں نے بھيج ديئے ۔ ان صاحب کی دريا دِلی کا يہ حال کہ 1989ء ميں ايک شخص آيا اور مجھے ايک سينٹی ميٹر يعنی آدھے انچ سے کم چوڑا اور 4 سينٹی ميٹر يعنی ڈيڑھ انچ سے کم لمبا کاغذ کا پرزہ ديا کہ يہ فلاں صاحب نے بھيجا ہے اور کہا ہے کہ in writing جواب لے کر آنا ۔ اس ننھے سے پرزے پر باريک سا لکھا تھا What about money ۔ ان 2 صاحبان کی وجہ سے کاروائی ساڑھے 3 سال کی تاخير سے شروع ہوئی چنانچہ کيس ٹائم بار ہو گيا اور جو منظوری 1985ء تک ہو جانا چاہيئے تھی وہ 1990ء ميں ہوئی

جس قوم کے اکثر افراد کی يہ حالت ہو کہ وہ اپنے لئے بھی ذرا سی تکليف نہ کريں مگر حصہ دو گُنا چاہيں تو اس مُلک ميں بہتری کيسے آ سکتی ہے ؟

کشمير ۔ کرفيو سے زندگی مفلوج

وادی کشمیر میں علٰحیدگی پسندوں کی ‘عید گاہ چلو’ کال کو انتظامیہ نے سخت ترین کرفیو نافذ کرکے ناکام بنادیا۔اس دوران وادی کے طول و ارض میں جمعہ کو کرفیو نافذ رہا اور پولیس ونیم فوجی دستوں کے اضافی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت متعدد مساجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم نماز جمعہ کے بعد کئی جگہ لوگوںنے فورسز کا محاصرہ توڑ کر مظاہرے کئے۔پولیس نے طاقت کا استعمال کر کے مظاہرین کومنتشر کر دیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپوں میں ٹیر گیس شیلنگ اور ہوائی فائرنگ سے 100 سے زائد افرادافراد زخمی ہوگئے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے