جو کھیل پرويز مشرف کی حکومت نا جانے کس مقصد کے لئے کھیل گئی پاکستان کے صرف ارباب اختیار کو اس کا ذاتی فائدہ اور بھارت کو سیاسی فائدہ ہوا ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرويز مشرف حکومت نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی جس جگہ کانٹے دار تاریں بچھائی جاسکتی تھیں وہاں کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔ سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور روزانہ دس بارہ افراد شہید کئے جاتے رہے ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جاتی رہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا گيا ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ۔ بگلیہار ڈیم جس پر کام رُکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بڑی تیزی سے مکمل کيا گيا اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی جو شايد اب تک مکمل ہو گئے ہوں
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان اور انسانیت کا علمبردار کہنے والے جموں کشمیر کے ان ستم رسیدہ لوگوں کو دہشت گرد کہتے ہیں ۔ ان نام نہاد روشن خیال اور امن پسند لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر ان کے بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے يا کچھ سالوں بعد قبر ملے جس پر کتبہ لگا ہو کہ يہ پاکستانی دہشت گرد تھا ۔ اگر ان کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی ۔ بیٹی یا بہو کی آبروریزی کی جائے اگر ان کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو وہ کتنے زیادہ روشن خیال اور کتنے زیادہ امن پسند ہو جائیں گے ؟
بھارتی ردِ عمل اور حقیقت
کمال یہ ہے کہ پاکستان کی دوستی کی دعوت کے جواب میں بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گلگت اور بلتستان پر بھی اپنی ملکیت کا دعوی کر دیا تھا جبکہ گلگت اور بلتستان کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے اور نہ یہاں سے کوئی راستہ بھارت کو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج کے زبردستی جموں میں داخل ہونے سے بہت پہلے گلگت اور بلتستان میں اپنی آزادی اور پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کی تفصیل بعد میں آئے گی
پاکستان کو بنجر کرنے کا منصوبہ
مقبوضہ جموں کشمیر میں متذکّرہ بالا ڈیمز مکمل ہو جانے کے بعد کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر سکتا ہےاور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک سکتا ہے جس کا کچھ نمونہ ميری تحرير کے 5 سال بعد سامنے آ چکا ہے ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ اللہ نہ کرے کہ ايسا ہو ۔
قحط اور سیلاب
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا مقبوضہ جموں کشمیر میں 7 ڈیم بنانے کا منصوبہ ہے جن میں سے بھارت دریائے جہلم اور چناب پر 3 ڈیم 2005ء تک مکمل کر چکا تھا ۔ 2 دریاؤں پر 7 ڈیم بنانے کے 2 مقاصد ہیں ۔ اول یہ کہ دریاؤں کا سارا پانی نہروں کے ذریعہ بھارتی پنجاب اور دوسرے علاقوں تک لیجایا جائے اور پاکستان کو بوقت ضرورت پانی نہ دے کر قحط کا شکار بنا دیا جائے ۔ دوم جب برف پگلے اور بارشیں زیادہ ہوں تو اس وقت سارا پانی جہلم اور چناب میں چھوڑ دیا جائے تاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے ۔ ماضی ميں بھارت یہ حرکت دو بار کر چکا ہے ۔ بھارت کا اعلان کہ ڈیم بجلی کی پیداوار کے لئے بنائے جا رہے ہیں سفید جھوٹ اور دھوکا ہے ۔ کیونکہ جموں کشمیر پہاڑی علاقہ ہے ہر جگہ دریاؤں کے راستہ میں بجلی گھر بنائے جا سکتے ہیں اور بڑے ڈیم بنانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں
قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرويز مشرف کی حکومت نے منگلا ڈیم کو 10 میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا جس پر موجودہ حکومت بھی عمل پيرا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی توقع نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اُونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ ضائع کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی اور نہ اس کا جواز کسی کے پاس ہے
ایک ضمنی بات يہ ہے کہ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اونچائی سے 10 میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962ء میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی محافظت اور پانی کی مماثل مقدار کی کم توقع کے مدنظر اونچائی 10 میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں 2004ء سے 2006ء تک اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو عقل کی بات سمجھ ميں نہيں آتی
پرويز مشرف حکومت کا فارمولا
پہلے یہ جاننا ضرور ی ہے کہ ہمارے مُلک کا آئین کیا کہتا ہے ۔ آئین کی شق 257 کہتی ہے
Article 257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir
When the people of State Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.
ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ امریکی دفتر خارجہ ڈاکٹر سٹیفن ڈی کراسز اور آفیسر ڈاکٹر ڈینیل مارکسی 2005ء کی دوسری سہ ماہی ميں اسلام آباد کے دورہ پر آئےتھے ۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرّف ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز ۔ حریت کانفرنس کے سربراہ عباس انصاری اور آزاد کشمیر اور پاکستان شاخ کے کنوینر سیّد یوسف نسیم وغیرہ سے ملاقاتیں کيں ۔ با خبر ذرائع کے مطابق امریکی حکام یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر اور سرحدیں نرم کرنے وغیرہ کے منصوبہ میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ میر واعظ عمر فاروق کو پاکستان کے دورہ کے درمیان حریت کانفرنس کا سربراہ بنا دیا گیا اور انہوں نے سری نگر پہنچتے ہی یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر فارمولا کی بات کی تھی ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ جموں کشمیر کو 7 ریاستوں میں تقسیم کر کے ان کی یونین بنانے کا جو فارمولا امریکہ کے دورہ سے واپس آ کر جنرل پرویز مشرف نے پیش کیا تھا وہ دراصل امریکی حکومت کی خواہش و تجویز تھی جبکہ تقسیم ہند کے فارمولا کے مطابق ریاست کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ ریاست کی مجموعی آبادی کی بنیاد پر ہونا تھا ۔ اس لئے امریکہ کی ایماء پر پرویز مشرف کا پیش کردہ 7 ریاستوں والا فارمولا ديگر وجوہات کے علاوہ بنیادی طور پر بھی غلط تھا ۔ مزید یہ کہ اس فارمولا کے نتیجہ میں جموں پورے کا پورا بھارت کو چلا جاتا اور دریاؤں کا کنٹرول بھارت کو حاصل ہوتا۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب معاملہ اس قدر سنگین ہے اور اپنے وطن سے سنجیدہ اور مخلص لوگوں کی سمجھ میں آ سکتا ہے تو پھر حکومت کیا کرتی رہتی ہے؟
حکومت کا کام صرف یہ تو نہیں ہونا چاہئے کہ نیوکلیر بم بنائے اور “پہلا اسلامی نیوکلیر بم” کے نعرے لگا کر خوش ہوتی رہے۔ اپنے ملک کی ایک ایک انچ کی حفاظت بھی تو اسی حکومت کا فرض بنتا ہے۔
مجھے تو فل حال کشمیر تقسیم ہوتا ہوا بھی نطر نہیں آتا، لگتا ہے کہ پوزیشن ہے وہ کافی عرصے تک قائم رہی گی، ہندوستان کی کوشش تو یہ بھی ہے کہ اگر آئندہ جنگ کو شعلے اٹھے تو دہشت گردوں کو ٹھکانوں کو ختم کرنے کے بہانے وہ آزاد کشمیر اور مظفر آباد پر بھی قبضہ کرلیا جائے، لیکن فل حال پاک بھارت جنگ کا بھی کوئی امکان نہیں. ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا افواج پاکستان کشمیری مجاہدین کے بغیر روایتی جنگ میں کچھ کرنے دھرنے کی کی پوزیشن بھی رکھتی ہے یا نہیں. کیونکہ اس سے پہلے کی تمام رویتی جنگوں میں بھارت کا پرلا بھاری رہا ہے سوائے 1948 کی جنگ کہ جب مجاہدین افواج پاکستان سے آگے آگے تھے.
خطہ کی پوری صورت حال کا گھیرا تعلق افغانستان کی بدلتی صورت حال سے ہے. وہاں امریکہ جنگ ہار چکا ہے اور اللہ کی کرنی سے طالبان پھر ابھر رہے ہیں. اگر طالبان نے امریکہ کو دبوچ لیا تو پھر صورت حال پاکستانیوں اور افغانیوں کے حق میں ہوگی، امن قائم ہوگا اور جہاد کشمیر میں ایک بار پھر جلا آجائے گا. لیکن خدانخواستہ ایسا نہ ہوا اور وہ ہوا جو امریکہ چاہتا ہے تو پاکستان توٹ بھی سکتا ہے.
دوسری طرف افغانستان کی صورت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، طالبان نے آمریکہ کو ہر جگہ چنے چبوا دئے ہیں اور اب آمریکہ سنجیدگی سے واپسی کے بارے میں سوچ رہا ہے. لیکن آمریکہ طالبان اور محب وطن پاکستانیوں کے لئے میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتا. اس لئے چاہ رہا ہے کوئی نہ کوئی ایسی ترتیب بن جائے کہ چھری بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے. ویکی لیک بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، میرا تجزیہ یہ ہے کہ آمریکہ افغانستان کے شمال مغرب میں مستقل فوجی اڈے بنا کر باقی ماندہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا. نتیجے کہ طور پورا جنوبی اور مشرقی افغانستان طالبان کے زیر اثر ہوگا، اور امریکہ جب سمجھے گا انہیں فضائیہ سے نشانہ بنائے گا اور پاکستان کو مستقل دباو میں رکھ کر ہندوستان کو خوش کیا جائے گا.
ہندوستان کو خوش رکھنا سرماداروں کی مجبوری ہے کہ وہ دنیا کی سب سے منڈی ہے
آپ اپنے بلاگ پر کونسا رسم الخط استعمال کرتے ہیں، مجھے پڑھنے میں بہت دقت ہوتی ہے؟
حيدرآبادی صاحب
ہمارے ملک کے خلاف اس کے معرضِ وجود ميں آنے سے پہلے ہی سازشيں شروع ہو گئی تھی ۔ ہمارے اعمال کا نتيجہ ہے شايد کہ ہميں شروع دن ہی سے کچھ مجھ نہ آئی
بہت فکر انگیز تحریر ہے
اللہ ہمیں غیروں اور اپنوں کے ستم سے بچائے
کاشف نصير صاحب
ميں نفيس ويب نسخ استعمال کرتا ہوں ۔ يہ بہت اچھا ہے اور اب بہت استعمال ہو رہا ہے ۔ ميں آپ کو بھيج ديتا ہوں اسے انسٹال کر ليجئے
جناب 1948ء کی جنگ ميں پاکستان کی فوج شامل نہيں تھی ۔ اس کی تفصيل ميں اِن شاء اللہ لکھوں گا ۔ ميں نے کچھ مہربانوں کی فرمائش پر لکھنا شروع کيا ہوا ہے ۔ اکٹھا زيادہ لکھ دوں تو قارئين کيلئے مشکل پيدا ہو گی
افغانستان ميں جيتے گا کوئی نہيں ليکن امريکا وہاں سے نکلنے ميں جتنی تاخير کرے گا اتنا ہی نقصان اٹھائے گا ۔ ابھی تک وہاں صرف طالبان مقابل کر رہے ہيں ۔ کوئی عجب نہيں کہ کل کو روس يا چين اپنے مفادات کے تحفط کيلئے طالبان کی مالی يا فوجی امداد شروع کر ديں ۔ ايسی صورت ميں امريکا ہار جائے گا اور طالبان فاتح ہوں گے
جہاں تک ہماری بہتری کا تعلق ہے وہ اسی صورت ميں ہو سکتی ہے کہ موجودہ لٹيرے اور قاتل حکمرانوں سے ہماری جان چھوٹ جائے اور ان کی جگہ محب وطن لوگ آ جائيں جس کی فی الحال کوئی صورت نظر نہيں آتی ۔ اتفاق سے پنجاب کو ايک اچھا وزير اعلٰی مل گيا ہے مگر اسے ہر طرف سے کھينچا جا رہا ہے
پاکستان اور انڈیا آخر کب تک کشمیر پرلڑتے رہیں گے؟؟؟؟
فرحان دانش صاحب
ابھی تک پاکستان نے بھارت سے جموں کشمير حاصل کرنے کيلئے ايک بار بھی جنگ نہيں کی اور آپ کہہ رہے ہيں کب تک لڑتے رہيں گے ۔
تھوڑا سا اتنتظار کيجئے ميں مختصر طور پر ماضی کی تاريخ دہراؤں گا ۔
حقيقت جس کا ميرے ہموطنوں کی اکثريت کو شايد احساس نہيں يہ ہے کہ
ہندوستان کی تقسيم کے فيصلہ کے مطابق رياستوں کے پاکستان يا بھارت سے الحاق کا فيصلہ متعلقہ رياستوں کے عوام نے کرنا تھا جو جموں کشمير کی اکثريت نے جولائی 1947ء ميں پاکستان کے حق ميں کر ديا تھا
بھارت پاکستان کو اس دن سے ختم کرنے کے درپئے ہے جب پاکستان بنانے کا فيصلہ ہوا تھا يعی مارچ 1947ء سے اور اسی لئے تمام اصولوں کے خلاف جموں کشمير ميں 27 اکتوبر 1947ء کو فوجيں داخل کر ديں ۔ ستمبر 1965ء اور پھر دسمبر 1971ء ميں پاکستان پر حملہ آور ہوا
جموں کشمر کا حاصل کرنا پاکستان کيلئے زندگی کا سوال ہے کيونک پاکستان کے سارے دريا وہيں سے آتے ہيں جن کا پانی بھارت روکتا ہے اور مکمل طور پر روکنے کی تياری کر رہا ہے
کچھ لوگ اس تحریر کو “سازشی نظریہ” قرار دیں گے اور پھر مزے سے غفلت کی نیند سو جائیں گے۔ آپ اپنا فرض ادا کرتے رہیے۔ جزاک اللہ
آنجہانی مشرف کو تو شاید دہلی کی یاد نے یہ سب کرنے پر مجبور کیا یا پھر ان کے خیال میں وہ یہ پرانا مسئلہ اس “خوبی” کے ساتھ حل کر کے اپنا نام رہتی دنیا تک روشن کرنا چاہتے تھے ۔ کوا سیانا تو ہوتا ہے مگر چونچ غلاظت میں مارتا ہے اور اتفاق سے پاکستان میں حکمران ہمیشہ کوے ہی رہے ہیں ۔ جو قوم اپنے ٹیکسوں کا ستر فیصد افواج کے حوالے کرتی ہو اور پھر بھی اپنی بقاء کے لئے رضاکار سرفروشوں سے امید لگائے بیٹھی ہو وہاں کس بات پر امید قائم رکھی جائے ۔ یہ ننگ دین ، ننگ ملت ، ننگ وطن ٹولہ بغیر کسی زبان علاقے قوم نسل کے ہماری رگوں میں زہر بھرتا آ رہا ہے دکھ تو یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہو تا۔ ابھی گیت گائے جائیں جائیں گے مشرف کے ، کوئی نواز شریف اور آٹھ مئی کی شرکنیاں چلائے گا ، کسی کو بھٹو کی خارجہ پالیسی یاد آئے گی ۔ میں تو کبھی کبھار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کے ہماری نالائقیوں کی سزا محضکشمیری کو کیوں مل رہی ہے مگر اب اطمینان ہے کہ یہ سزا جلد ہمیں بھی ملے گی ۔
وسلام
مقبوضہ کشمیر کے بارے میں لکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ان لوگوںنے ہزاروں نوجوانوں کی قربانیاں دیں ۔مگر جب وہ آج آزادی کے قریب پہنچنے والے ہیںتو حکومت پاکستان نے ان کو دھتکارنا شروع کردیا ہے ۔
کبھی ہمارے حکمران بیان دیتے ہیں ۔کہ بھارت سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے ۔تجارت کی بات پہلے اور کشمیر دوسرے نمبر پر چلا جاتا ہے ۔
آج سری نگر میں آئے روز نوجوانوں کے جلوس نکلتے ہیں جو صبح پتھر وں کی بارش غاصب بھارتی فوج پر کررہے ہوتے ہیں تو شام میں انہوںنے اپنے ساتھی کا جنازہ اٹھایا ہوتا ہے ۔
مگر آزاد کشمیر کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ و ہ خطہ جسے تعلیم ،صحت سمیت دیگر سہولیات کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کےلئے ماڈل بنانا چاہئے تھا۔وہاںلوٹوں کی حکومت ہے ۔آئے روز لوٹے ایک پارٹی کو حکومت بنانے میںمدد فراہم کرتے ہیں ۔چند ماہ بعد دوسری پارٹی کی جھولی میں جاگرتے ہیں۔
کیا مقبوضہ کشمیرآزاد ہونے کے بعداس کشمیر کا حصہ بنے گا؟
سعد صاحب
ابھی اور کيا غفلت کی نيند ہو گی ؟ سو تو رہے ہيں پچھلے چاليس سال سے ۔ البتہ ميں پہلے اخبارات کو خط لکھا کرتا تھا اور پچھلے چھ سال سے بلاگ پر لکھ رہا ہوں
ديکھيئے مندرجہ ذيل ربط پر
http://iabhopal.wordpress.com/2005/06/27
قاضی محمد ياسر صاحب
ہمارے حکمرانوں ميں پيپلز پارٹی اور پرويز مشرف کا کردار نہائت گھناؤنا رہا ہے جس کے نتيجہ ميں ملک کو بھاری نقصانات ہوئے ہيں