ہم 18 جولائی 2009ء کو لاہور منتقل ہوئے تھے سو ہميں لاہور ميں رہائش اختيار کئے ايک سال ہو گياہے ۔ اس ميں کيا تجربات ہوئے ۔ لاہور کو اور لاہوريوں کو کيسا پايا ؟ لکھنے کا حق بنتا ہے ۔ لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہونے کے علاوہ بہت پرانا ثقافتی مرکز ہے اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ کہتے ہيں کہ جو تحريک لاہور سے اُٹھے يا جس تحريک ميں لاہور شامل ہو جائے وہ کامياب ہوتی ہے ۔ ميرا اپنا آدھی صدی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ يہ دعوٰی قرينِ قياس ہے
مجھے پچھلے ايک سال کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ يہاں صرف پنجابی نہيں رہتے بلکہ دوسرے صوبوں کے بھی بہت سے لوگ رہتے ہيں اور خاص کر کراچی والوں نے يہاں کئی کاروبار سنبھال رکھے ہيں ۔ اُن سب کا پکا ڈيرہ اپنے صوبوں اور شہروں ميں ہی ہے جہاں کا چکر وہ گاہے بگاہے لگاتے رہتے ہيں ۔ لاہور کے مضافات ميں ايک لياقت آباد بھی ہے اور بہاری کالونی بھی جہاں کے باسی زيادہ تر بہار اور يو پی يا سی پی يا کراچی سے آئے ہوئے لوگ ہيں
لاہور ميں جون کی گرمی ميں نے آدھی صدی بعد ديکھی يعنی کالج کے زمانہ کے بعد ۔ لاہور ميں زيادہ رونق مغرب کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ اتنی گرمی ميں جبکہ درجہ حرارت 45 سے 47 درجے سيلسيئس تک پہنچ گيا تھا لاہور کی رونقوں ميں کوئی خاص کمی نہيں ہوئی
لاہور ميں عام طور پر لوگ مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ مثال کے طور پر ميں شروع شروع ميں گھر کا کچھ سامان خريدنے نکلا ۔ کسی نے کہا “فلاں مارکيٹ چلے جاؤ” وہاں گيا گاڑی پارک کی ۔ اِدھر اُدھر ديکھا مگر ميرے مطلب کی دکان نظر نہ آئی ۔ ايک دکاندار سے پوچھا ۔ وہ اپنی دکان سے نکلا کچھ قدم ميرے ساتھ چلا اور پھر کہا “وہ بنک کا بورڈ نظر آ رہا ہے نا ۔ اس کے ساتھ دوسری طرف ايسی تين چار دکانيں ہيں وہاں سے سب کچھ مل جائے گا”۔ ايسا بعد ميں متعدد بار ہوا ۔ جسے معلوم نہ ہو وہ کسی اور سے معلوم کر ديتا ۔ اسلام آباد ۔ راولپنڈی اور کراچی ميں اول تو کوئی بات سننے کو تيار نہيں ہوتا اور اگر سن لے تو عام طور پر اُلٹا راستہ بتا ديتے ہيں
لاہور ميں کھانے جيسا چاہيں کھا سکتے ہيں اور اپنی جيب کے مطابق ۔ کھانا اچھا پکا ہوتا ہے ۔ يہ کوئی نئی بات نہيں آدھی صدی قبل جب ميں لاہور ميں پڑھتا تھا تب بھی يہی صورتِ حال تھی
لاہور کے عام لوگ اچھی طرح پيش آتے ہيں ۔ جب کوئی چيز نہ ملے تو اول دکاندار خود ہی کہہ ديتا ہے کہ فلاں جگہ سے مل جائے گی يا آپ پوچھيں تو بتا دے گا کہ فلاں جگہ سے مل جائے گی ۔ راولپنڈی ۔ اسلام آباد اور کراچی کا ميرا تجربہ ہے کہ دکاندار کے اپنے پاس جو چيز نہ ہو کہہ دے گا کہ کہيں بھی نہيں ملے گی
چوراہے پر بتی سبز ہو جانے کے بعد گاڑياں چلنے ميں ضرورت سے زيادہ وقت لگتا تھا ۔ شروع ميں مجھے سمجھ نہ آئی کہ معاملہ کيا ہے ۔ کئی ماہ بعد پتہ چلا کہ لوگ پٹرول يا گيس بچانے کيلئے انجن بند کر ديتے ہيں اور جب بتی سبز ہوتی ہے تو گاڑی سٹارٹ کرتے ہيں اور کبھی کبھی گاڑی سٹارٹ نہيں ہوتی اور بتی پھر سُرخ ہو جاتی ہے
جب سڑک پر گاڑيوں کی بھيڑ ہو تو ہر گاڑی والا آگے نکالنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ليکن جونہی کھُلی سڑک ملے مزے سے 40 کلو ميٹر کی رفتار سے گاڑی چلاتےجا رہے ہوتے ہيں پيچھے چاہے کوئی دفتر يا ہسپتال پہنچنے کيلئے پريشان ہو
پيدل سڑک پار کرنا ہو تو مجال ہے کوئی گاڑی والا سڑک پار کرنے دے
بڑی گاڑيوں والے يا بڑے لوگوں کے نوجوان بيٹے بيٹياں سڑکوں پر گاڑياں چلاتے ہوئے باقی لوگوں کو کيڑے مکوڑے سمجھتے ہيں ۔ ايسا شايد سارے مُلک ميں ہے
وزيرِ اعلی کی سواری ہمارے قريب والی سڑک ڈی ايچ اے مين بليوارڈ سے گذرا کرتی ہے جس کيلئے 5 سے 15 منٹ تک مين بليوارڈ ميں داخل ہونے سے رکنا پڑتا ہے ۔ اسلام آباد ميں گھنٹوں کے حساب سے رُکنا پڑتا تھا
سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ميں موٹر سائيکلوں اور ويگنوں کے علاوہ دو قسم کی گاڑيوں سے بہت ڈرتا ہوں کيونکہ کچھ معلوم نہيں ہوتا کہ کب وہ کس طرف مڑ جائے ۔ اچانک بريک لگائے يا گھسڑم گھساڑ کرتے ہوئے ميری گاڑی کو مار دے
ايک ۔ جسے عورت چلا رہی ہو
دو ۔ جس کا رجسٹريشن نمبر سندھ کا ہو
اچھا خاصا معتبر ماحول بنا کے کچھ ناں کچھ ایسی ٹچکر کرجاتے هیں جو شہد لگا کرہٹ جانے والی کہانی والی بات بنا دیاتا ہے
یه اخر میں اپ نے عورت والی جو بات کی هے اس کی میں مخالفت کرتا هوں که ابھی مجھے عورتیں پیاری لگتی
هیں اس لیے
اور سندھ والی بات کی مخالفت کروں گا که سندھی لوگ پاکستان کے پیارے ترین لوگ هیں که ان کی بولی سے لے کر رہن سہن تک پر مجھے تو پیار آتا ہے بلکه ترس
باقی جی ایلیٹ چاہے پنجاب کی هو یا سندھ کی چاهے بلوچستان کی بلکه سارے پاکستان کی ایک هی جیسی هے
خاور صاحب
ميں نے سندھی عوام کی بات نہيں کی ۔ ان بيچاروں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ اتنے بڑے افسر جاويد لغاری چيئرمين ہائر ايجوکيشن کمشن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے واضح ہے ۔ بہت سے مرد بھی ہمارے ملک ميں دھس مار قسم کی ڈرائيونگ کرتے ہيں مگر عورتوں کی اکثريت ايسا کرتی ہے ۔ اگلی دفعہ پاکستان آئيں تو ميں لاہور ميں ہوا تو تلونڈی سے لاہور دور نہيں ہے يہاں آيئے ۔ ميں آپ کو کار ميں بٹھا کر لاہور ميں پھراؤں گا پھر آپ خود ہی ديکھ ليجئے گا کہ ميں نے سچ لکھا ہے غلط
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » لاہور ميں ايک سال -- Topsy.com
آپ نے اچھا خوبصورت تجزیہ کیا ہے لاہوریوں کا ۔ بہت سی باتوں سے مجھے اتفاق ہے کیونکہ لاہور میرا شہر ہے میری جائے پیدائش اور تعلیم یہیں کی ہے ۔ لیکن ایک بات سے مجھے بھی اختلاف ہے کہ صرف لاہور میں عورتوں کے گاڑی چلانے کا انداز ایسا نہیں ۔ بلکہ پوری دنیا میں گلی محلوں میں زیادہ تر ایکسیڈنٹ خواتین اور بوڑھے لوگوں کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ ہائی ویز پر نوجوانوں کی وجہ سے ۔ جن کا رجسٹريشن نمبر سندھ کا ہو وہ ویسے ہی مشکوک جانی جاتی ہیں ۔ ناکے پہ تلاشی کے بعد جان چھوٹی ہے ۔
آخری لائینوں میں آپ نے جس خدشے کا اظہار کیا، آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کبھی؟
اصل لاہور تو اب کہیں بھی نہیں رہ گیا مگرشاید آپ کو اندرون شہر مل سکے کبھی وقت ملےتو مسجد وزیر خان کا چکر لگایں اور ساتھ وہاں کے مشور پٹھورے بھی کھائیں ساتھ ساتھ شیراں والا گیٹ سے باقر خانی بھی چکہیۓ گامگر شرط یہی ہے کے گاڑی اندر نہیں جا سکتی تو پھر پیدل ہی مارچ ہوگا
محمودالحق صاحب
آپ کا کہنا درست ہے ۔ ميں اسلام آباد ميں بھی خواتين ڈرائيوروں سے ڈرتا تھا جس کی دو وجوہ ہيں ايک تو وہ دھس مار کرتی ہيں اور اگر کسی کی گاڑی کو مار ديں تو شور مچانا شروع کر ديتی ہيں اور اپنی غلطی نہيں مانتيں خواہ سب شاہدين مع ٹريفک پوليس آفيسر اُن کی غلطی کی نشان دہی کريں
لاہور ميں ناکے پر ہر وہ گاڑی چيک ہوتی ہے جس کا نمبر لاہور کا نہ ہو يا اس ميں صرف مرد بيٹھے ہوں ۔ ميں اکيلا بھی ہوں تو ميری گاڑی چيک نہيں ہوتی حالانکہ نمبر اسلام آباد کا ہے ۔ يہ اللہ کی خاص مہربانی ہے
توارش صاحب
ميں نے وہ سارا علاقہ گھوما ہوا ہے ۔ ہمارا آبائی گھر کناری بازار ميں تھا جہاں ہمارے دادا کے دادا کے بعد کوئی رہائش پذير نہيں ہوا ۔۔ وہيں ہمارے کچھ عزيز بھی رہتے تھے جو اب اس دنيا ميں نہيں ہيں ۔ اُن کے بچے ملازمت يا کاروبار کے سلسلہ ميں اِدھر اُدھر ہيں ۔ ہمارے ايک عزيز ڈبی بازار ميں رہتے تھے وہ بھی اللہ کو پيارے ہو گئے ۔ اُن کے بچے بھی اِدھر اُدھر ہيں ۔ اندرون شہر 1990ء تک جاتا رہا ہوں ۔ اب جانا مشکل نظر آتا ہے ۔ باقرخانياں وغيرہ تو ہم اب بھی کبھی کبھی کھاتے ہيں
سعد صاحب
ميں نے خدشے کا اظہار نہيں کيا بلکہ اپنا روزمرّہ کا تجربہ بيان کيا ہے ۔ طوالت کے ڈر سے واقعات بيان نہيں کئے ۔ ميری سمجھ ميں يہ بات نہيں آتی کہ آپ کا تبصرہ عام طور پر سپيم ميں کيوں چلا جاتا ہے ؟ اور مجھے وہاں سے لانا پڑتا ہے
ایک تو آپ کا بلاگ کھلتا ہی نہیں میری طرف، اگر ایسا ہو جائے کسی دن تو میرا تبصرہ سیدھا سپیم میں!
میں آپ کے بلاگ کے خلاف بھرپور احتجاج کرتا ہوں!
سعد صاحب
احتجاج ؟ اور بھرپور ؟؟ اچھا يہ بتايئے کہ آپ پائے کہاں جاتے ہيں ؟ ميرا مطلب ہے کہ کس شہر کے کس محلے ميں رہائش ہے ؟ تاکہ آپ کے مسئلہ کا حل سوچا جا سکے
اچھا تجزیہ کیا ہے لیکن آخر میں آپ شرارت کر گئے
فيصل صاحب
شراتيں تو ميں پرائمری سکول تک ہی کيں ۔ ميرے ساتھ پيش آنے والے جن واقعات کی بنا پر ميں نے لکھا ہے اُن کی تعداد درجنوں مين ہے
ايک بات کا خيال رکھيئے کہ ميں نے ڈرائيونگ 1967ء ميں جرمنی کے شہر ڈوسل ڈورف ميں سيکھی تھی ۔ 1976ء سے 1983ء تک طرابلس لبيا ميں گاڑی چلائی جہاں سڑک پر لگائی گئی مکمل لکير پر ٹائر آ جائے يا شکستہ لکير پر چند منٹ گاڑی چلائی جائے يا مناسب وقت کيلئے اشارہ ديئے بغير لين تبديل کی جائے تو چالان ہو جاتا تھا
یہاںبھی کچھ ایسے ہی حالات ہیںانکل۔ آسٹریلیا کا ٹریفک کا شعبہ صرف اورسپیڈنگ کے جرمانوں کی مد میں ہزاروں میلن ڈالر کی کمائی کرتا ہے ہر سال۔ اتنی کہ اب بنک بھی اس کاروبار میںپیسہ لگا رہے ہیں:
http://www.news.com.au/national/macquarie-banks-bid-for-slice-of-137m-speeding-fines-bonanza/story-e6frfkvr-1225890260859
فيصل صاحب
مادی دنيا صرف پيسہ کمانا جانتی ہے جيسے بھی کما لے
اچھا تجزیہ کیا ہے
بس عورتوں والی بات غلط ہے
میرا وسیع تجربہ کہتا ہے کہ صرف خواتیں نہیں
بلکہ بابے ڈرائیور بھی آپکی بیان کی گئی فطرت کے مالک ہوتے ہیں
ڈ ِ ف ر صاحب
ميں لکھا ہوا ہے کہ سب دھس مار کرتے ہيں ليکن جو ميرے ساتھ پيش آيا وہ لکھا ہے
اسلامُ علیکم
کیا حال ہیں چاچا جی۔۔ میں آپکے بلاگ کا خاموش قاری ہوں۔۔۔ مگر آپ کے لاہور نامہ نے مُجھے چُپ توڑنے پر مجبور کر ڈالا۔۔
آپ کچھ زیادہ ہی لاہور نواز ثابت ہوئے یا یوں کہ لیجئیے کہ لاہور آپکو کچھ زیادہ ہی پسند آگیا ہے۔۔
اور آپ لاہور کس سلسہ میں سور کس جگہ رہائش پزیر تھے یہ آپ نے تحریر کئیا ہی نہیں۔۔
اور لاہور کے بارے آپ کے مثبت خیالات جان کر اچھا لگا میں بھی پیدائشی لاہوری ہوں۔۔۔
جہاں آپنے خواتین ڈرائیوروں کے بارے اپنے بالکل سچے حقائق بیان وہاں سندھ بھائی کے بارے میں کچھ مبالغہ آرائی کر دی شائید آپنے۔۔ ہی ہی ہی
اور ہاں ایندھن بچانے کا اچھا اور نادر آئیڈیا دئیا آپنے وہ بھی فری میں ۔ میں آج ہی اپنی موٹر سائیکل پر اپلائی کرتا ہوں۔۔
شکریہ بہت بہت۔
ننھا بچہ صاحب ۔ و عليکم السلام و رحمة اللہ
شکريہ بھتيجہ جی ۔ آپ آجکل ہيں کہاں ؟ اگر لاہور ہی ميں ہيں تو کس محلہ ميں ؟ ميں ايک سال سے لاہور ميں ڈی ايچ اے کے قريب رہ رہا ہوں مگر ڈی ايچ اے سے باہر ۔ ميں نے نہ کسی کی برائی کی ہے نا اچھائی جو ميرے ساتھ پيش آيا لکھ ديا ۔ لاہور ميرے لئے نيا نہيں ہے ميں نے تعليم يہيں پائی تھی اور ميرے کئی قريبی عزيز لاہور ميں رہتے ہيں اسلئے چکر لگتا ہی رہتا تھا ۔ ويسے اس وقت ميں دبئی ميں چھوٹے بيٹے کے پاس ہوں ۔ اِنشاء اللہ ايک ماہ تک واپس لاہور پہنچ جاؤں گا
شکریہ جناب ۔۔
میں لاہور میں اپنے گھر ہی رہتا ہوں۔۔ جو کی محلہ گُلشن راوی نزد سمن آباد میں ہے۔۔
مطلب آپ یہاں نئے نہیں ہیں۔۔ چلیں جی زبردست۔۔
اور آپکی تعلیمی قابلیت کتنی ہے جو لاہور میں رہ کر حاصل کی۔۔۔
ننھا بچہ صاحب
آپ تو واقعی ننھا بچہ نکلے ۔ آپ کو ميری تعليمی قابليت بھی نہيں معلوم جو ميرے بلاگ کے اندر ہی موجود ہے ۔ ميں دو جماعت پاس ہوں
جنابِ والہ جب بچہ ہوں تو بزرگ نکلنے سے رہا۔۔۔۔
اور یہ دو جماعتیں آپ نے کتنی دفعہ پاس کیں۔۔ اور کُل مَلا کی کتنی ہوئیں
ننھا بچہ صاحب
ميں نے دو جماعتيں صرف ايک ہی بار پاس کی تھيں
ماشاءاللہ آپ تو بہت ذہیں ثابت ہوئے ہیہں ایک ساتھ دو دو جماعتیں واہ
ننھا بچہ صاحب
آپ کو کس نے کہا کہ ميں ذہين ہوں ؟