عرفان احمد شفقت صاحب نے ايک واقعہ حلالہ کی کوشش کا لکھا جو پہلی قسط يہاں اور دوسری قسط يہاں ديکھی جا سکتی ہے ۔ ميں نے پہلی قسط پر مختصر تبصرہ کيا تھا جو بقول عرفان احمد شفقت صاحب تحرير کے ساتھ ہی غائب ہو گيا تھا ۔ ميں سوچا کہ اس کی کچھ تفصيل کتاب و سُنت کے مطابق نقل کر دی جائے
حلالہ نام ديا گيا ہے کسی چیز کو شرع ميں جائز بنا لینے يا حلال بنا لینے کو
قرآن شريف کے نزول سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے عقد کرکے طلاق نہ پاتی پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی پھر اسے اپنی خواہش کا آلہ کار اس طرح بنا ليا گيا کہ جب کوئی خاوند اپنی بيوی کو طلاق دے بيٹھتا تو کسی مرد کو معاوضہ دے کر اپنی مطلقہ سے نکاح کر کے ايک رات گذرنے کے بعد طلاق کا سودا کر ليتا
اللہ سبحانہ و تعالٰی كا سورت 2 البقرہ آيت 230 ميں فرمان ہے
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اسکو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاويں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے
اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو چنانچہ وقتی يعنی كچھ مدت كے لئے نكاح يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے لئے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا دونوں حرام اور باطل ہيں ۔ عام اہل علم كا يہی قول ہے، اور ان دونوں طريقوں سے عورت اپنے پہلے خاوند كے لئے حلال نہيں ہو گی
حلالہ كی ممانعت نبی كريم صلی اللہ عليہ وآلہ سلم كی صحيح احاديث سے ثابت ہے
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابو داود حديث نمبر 2076
اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروى ہے كہ نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتاً لئے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالٰی كے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم آپ ضرور بتائيں
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم نے فرمايا:
” وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1936
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے كہ انہوں نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:
” اللہ كی قسم ميرے پاس جو حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والا لايا گيا ميں اسے رجم كر دونگا ”
مصنف عبدالرزاق ( 6 / 265 )
امام حاكم رحمہ اللہ نے نافع سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا:
ايك عورت سے نكاح اس ليے كيا كہ اسے پہلے خاوند كے ليے حلال كروں نہ تو اس نے مجھے حكم ديا اور نہ وہ جانتا ہے، تو ابن عمر كہنے لگے:
“نہيں ۔ نكاح تو رغبت كے ساتھ ہے ۔ اگر وہ تو تجھے اچھی لگے اور پسند ہو تو اسے ركھو اور اگر اسے ناپسند كرو تو اس كو چھوڑ دو
وہ بيان كرتے ہيں: “ہم تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم كے دور ميں اسے زنا شمار كرتے تھے.
اور امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
“ايك شخص نے كسی عورت سے شادى كی اور اس كے دل ميں تھا كہ وہ اس عورت كو اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كريگا، اور اس كا عورت كو علم نہ تھا ؟”
تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب ديا:
“يہ حلالہ كرنے والا ہے، جب وہ اس سے حلالہ كا ارادہ ركھے تو وہ ملعون ہے”
واللہ اعلم.
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
اس بات کوعام کرنےکی ضرورت ہےدراصل ہماری عوام کوشعورنہیں جیسےملاکہہ دیتےہیں وہ ویسےہی عمل کرتےہیں۔ اوریہ ملا(ایسامولوی جوکہ نام کامولوی اس کےپاس علم حدیث نہ ہو)کاکام بناہوا۔ اللہ تعالی ہم کوصحیح طورپردین کوسمجھنےکاعقل و شعورعطاء فرمائے۔(آمین ثم آمین)
والسلام
جاویداقبال
جزاک اللہ جناب۔
بہت شکریہ حلالہ کی شرعی پوزیشن واضح کرنے کا۔
یہ حدیث اور آیات میرے علم میںنہیں تھیں۔ میں تو یہی سمجھتا تھا کہ اگر عورت کسی اور سے نکاح کر لے اور ازدواجی تعلقات قائم ہو جائیں۔ بعد ازاں طلاق کی صورت میں عورت پہلے مرد سے نکاح کرنے کے لیے حلال ہے۔
تو ان حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر یہ سب پری پلاننڈ طریقے سے کیا جائے اور نیت حلالہ کروانے کی ہو تو درست نہیں ہے۔
شکریہ
ياسر عمران مرزا صاحب
ہماری قوم نے جاہلوں کو اپنا اتاليق بنا ليا ہوا ہے ۔ اتنی ہمت بھی نہيں کرتے کہ خود قرآن شريف ترجمہ کے ساتھ پڑھ ليں
آجکل تو ميں بہت آسودہ ہوں کہ انٹرنيٹ پر ہی سب کچھ مل جاتا ہے ۔ ورنہ کسی زمانہ ميں پہلے کتاب تلاش کرتا پھر پڑھتا پھر لکھتا پھر غلطياں نکالتا اور پھر شائع کرتا تھا
کسی بھی اچھے اصول یا قانون کو غلط مطلب دے کر اپنے لیے استعمال کرنا انسانی کمزوری رہی ہے۔ ویسے بڑی ہمت ہوتی ہے اس مرد کی جو اپنی بیوی کو حلالے کیلیے ایک رات کیلیے دوسرے مرد کے حوالے کرتا ہے۔ دراصل انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے غلط ہے اور اس کو درست ثابت کرنے کیلیے دوسری سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر مشورہ اس کی نیت کے مطابق ہو تو پھر اسے جواز مل جاتا ہے غلط کام سے اپنا الو سیدھا کرنے کا۔
اب چونکہ یہ بات نکل آئ ہے تو اس کی مناسبت سے کہتا چلوں
بولیوڈ نے ایک فلم بنائ تھی ‘نکاح’ جس میں اس مسئلہ کو خوبی سے پیش کیا گیا تھا اور اسی مناسبت سے یہ بھی کہتا چلوں کہ عام مسلمانوں میں یہ مشہور ہے کہ طلاق دیتے وقت تین بار طلاق کہنا چاہئے یہ بھی درست نہیں صرف ایک بار کہنا بھی درست ہے یکبارگی تین طلاقیں دینے سے بھی ہو جاتی ھے لیکن اسے طلاق مغلظہ کہا جاتا ہے اور اسے اچھا نہین سمجھا جاتا اور ایک طلاق اور تین طلاق کا فرق بھی پڑ جاتا ہے
ممکن ہے اس مسئلہ کو نہ چھیڑنا اس لئے ہو کہ مزید اختلاف کی باتیں نکل آتی ہیں لیکن میرا مقصد یہاں یہ ہے کہ لوگوں کو “تین طلاقوں سے باز رکھا جائے چاہے نیت ایک طلاق کی ہو یا تین طلاق کی۔ صحیح طریقہ کسی عالم سے پوچھ کر طلاق دی جائے تو بہتر ہے اور ا سمیں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں
اللہ ہمیں اسلام کی صحیح سمجھ عطا کرے
آپ نے اچھا کیا یہ احادیث بیان کردیں اللہ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے
آںحضور صل اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک بار کوئ مسلمان آیا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی ا عنھما کے پاس اور بتایا کہ اس نے تین طلاقین ایک ھی نشست میں دی ہیں تو آپ نے اسے مارلگائ اور ڈاںٹ پلائ
اصل صورتحال کے برعکس عام مسلمان تو یہی طریقہ ٹھیک سمجھتے ہیں حلالہ کا ۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں حق بات سمجھنے میں آسانی رہتی ہے ۔ جسے عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
آپ نے درست لکھا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی يہ بھی حقيقت ہے کہ ہمارا معاشرہ دين سے بہرہ ور نہيں اور بڑے غلط طريقہ سے طلاقيں دی جاتی ہيں ۔ واقعی اس موضوع کو چھيڑا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی
محمود الحق صاحب
جس چيز کو حلالہ کہا جاتا ہے وہ ہے ہی حرام يا ممنوع